افغانستان کی نگراں حکومت کے وزیر خارجہ امیر خان متقی کہتے ہیں کہ کیا پاکستان نے افغانستان کی تاریخ پڑھی ہے؟ افغانوں نے انگریز حکومت کا مقابلہ کیا اور سوویت یونین کو شکست دی، امریکا اور اتحادی فوجوں کو پسپائی برداشت کرنا پڑی، پاکستان کو افغانستان کی خود مختاری کا احترام کرنا چاہیے۔
پاکستان کی مدد سے 70کی دہائی سے جنگ لڑنے والے طالبان کے رہنماؤں نے تاریخ کو بھلا کر احسان فراموشی کی ایک نئی مثال قائم کی۔
یہ گزشتہ صدی میں 90کی دہائی کی تاریخ ہے کہ افغانستان میں ڈاکٹر نجیب اللہ کی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد افغانستان میں ایک خانہ جنگی کی صورتحال تھی۔ پاکستان کی مدد سے 1992 میں افغان مجاہدین کی مختلف تنظیموں کے درمیان پشاور میں ایک معاہدہ ہوا تھا اور اس معاہدے کے تحت برہان الدین ربانی ملک کے پہلے صدر بنائے گئے۔
ان کا تعلق شوریٰ نظر نامی تنظیم سے تھا۔ اس حکومت میں احمد شاہ مسعود شمالی اتحاد اورگلبدین حکمت یار اور یونس خالد وغیرہ کے گروپ شامل تھے، مگر افغان مجاہدین کی حکومت افغانستان پر مکمل طور پر عملداری قائم نہیں کرسکی تھی اور ملک کے مختلف حصوں میں وار لارڈ نے اپنی چھوٹی چھوٹی ریاستیں بنا لی تھیں۔
کابل کی حکومت پر ترکیہ اور وسطی ایشیائی ممالک کے علاوہ بھارت کے سائے گہرے ہو رہے تھے۔ یہ بات اسلام آباد کے لیے پریشان کن تھی۔ پیپلز پارٹی کی تیسری حکومت میں وزیراعظم بے نظیر بھٹو نے میجر جنرل ریٹائرڈ نصیر اللہ بابر کو وزیر داخلہ مقررکیا۔ نصیر اللہ بابر افغان امورکے ماہر سمجھے جاتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت میں نصیر اللہ بابر فرنٹیئر کانسٹیبلری کے انسپکٹر جنرل تھے۔
ذوالفقارعلی بھٹو کی حکومت نے کابل میں سردار داؤد کی حکومت کے مخالفین مجددی ربانی اور حکمت یار کو پشاور بلوایا تھا۔ ان رہنماؤں کو پشاور بلوانے کا مقصد سردار داؤد کی حکومت پر دباؤ ڈالنا تھا کہ کالعدم نیشنل عوامی پارٹی کے سربراہ ولی خان کی حمایت بند کردیں۔
پاکستان کے مختلف مدارس میں زیرِ تعلیم افغان طالب علموں کو ایک جنگجو فوج میں جمع کرنے کا فریضہ انجام دیا گیا تھا، یوں یہ فورس ’’طالبان‘‘ کہلائی اور طالبان مسلح ہوئے اور طالبان نے کابل کی طرف پیش قدمی کی۔ افغان امورکے ماہر صحافیوں کا کہنا ہے کہ شروع میں طالبان اتنے زیادہ تربیت یافتہ نہیں تھے کہ وہ افغانستان کو فتح کرسکیں۔ طالبان کو ہر قسم کی امداد سرحد کے اس پار سے ملی۔ پاکستان پہلا ملک تھا جس نے طالبان حکومت کو تسلیم کیا تھا۔
نائن الیون کی دہشت گردی کے بعد امریکا اور اتحادی فوجوں نے کابل پر قبضہ کرلیا اور طالبان رہنما روپوش ہوگئے۔ افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی نے بار بار الزام لگایا کہ ملا عمرکی قیادت میں قندھار شوریٰ اور القاعدہ کے رہنما اسامہ بن لادن پاکستان میں روپوش ہیں۔ پاکستان نے اس الزام کی تردید کی۔
امریکی میرین دستوں نے گیریژن سٹی ایبٹ آباد میں چھاپہ مار کارروائی میں اسامہ بن لادن کو ہلاک کردیا۔ غیر ملکی ذرایع ابلاغ میں مسلسل یہ رپورٹیں شایع ہوتی رہیں کہ طالبان غیر ملکی مدد سے کابل پر حملہ آور ہیں۔ صرف طالبان ہی نہیں لاکھوں افغان شہری 80ء کی دہائی میں کمیونسٹ حکومت کی تبدیلی پروجیکٹ شروع ہونے کے بعد پاکستان آئے۔
جنرل ضیاء الحق کی حکومت نے افغان مہاجرین کو جائیداد کی خریداری کرنے، کاروبارکرنے اور تعلیمی اداروں میں داخلے لینے کی اجازت دیدی تھی۔ بعض صحافیوں نے لکھا ہے کہ مقامی پولیس کو افغان مجاہدین کی ان غیر قانونی سرگرمیوں کو چیک کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ پھر بعد میں برسر اقتدار آنے والی حکومتوں نے افغان مہاجرین کے لیے یہ مراعات برقرار رکھیں۔ برسر اقتدار حکومتوں کی نرم پالیسی کی بناء پر ہزاروں افغان باشندوں نے پاکستان کے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ حاصل کیے۔
ان دستاویزات کی مدد سے یہ مہاجرین امریکا،کینیڈا اور یورپی ممالک میں آباد ہوئے۔ حامد کرزئی اور ڈاکٹر اشرف غنی کی حکومتوں نے اقوام متحدہ کے اداروں، سلامتی کونسل اور جنرل اسمبلی میں بار بار پاکستان پر طالبان مزاحمت کاروں کی مدد کے الزامات لگائے، سابق صدر پرویز مشرف نے اپنی سوانح عمری "In the line of fire" میں اس بات کا اقرارکیا ہے کہ پاکستان نے ایک مرحلے میں افغانستان میں موجود طالبان کی مدد کی تھی تاکہ بھارت کے عزائم ناکام بنائے جاسکیں۔ مگر آج طالبان حکومت پاکستان کو تاریخ سے سبق حاصل کرنے کی ہدایت کررہی ہے۔ افغانستان میں طالبان کے موجودہ رویے کو تاریخی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔
قیام پاکستان کے بعد سے پاکستان اور افغانستان کے تعلقات خوشگوار نہیں رہے۔ جنرل ایوب خان کے دور میں شدید کشیدگی پیدا ہوئی تھی۔ پاکستان نے 1960 میں باجوڑکیمپس پر آپریشن کیا تھا مگر پھر دونوں ممالک کے تعلقات معمول پرآگئے تھے۔ 1973 میں افغانستان میں ایک بڑی تبدیلی رونما ہوئی۔ افغانستان کے شاہ ظاہر شاہ معزول ہوئے اور سردار داؤد صدر بن گئے۔ اس وقت پیپلز پارٹی کی حکومت نے نیشنل پارٹی کے خلاف کارروائی کی تھی۔ نیشنل عوامی پارٹی کے صدر ولی خان اور دیگر رہنما گرفتارکر لیے گئے تھے۔
سردار داؤد اور ولی خان کی رشتے داری تھی۔ سردار داؤد نے ولی خان کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا اور پختونستان کا نعرہ لگایا تھا۔ اس وقت وزیر اعظم بھٹوکے احکامات پر صدر داؤد کے منحرفین کی مدد کا سلسلہ شروع ہوا مگر پھر صدر داؤد کی حکومت اور پاکستان کے درمیان تعلقات معمول پر آگئے تھے، مگر اسی وقت سے پاکستان کے کچھ اہلکاروں کی افغانستان کے معاملات میں دلچسپی عملی شکل اختیار کر گئی۔ پھر جب افغانستان میں عوامی انقلاب آیا اور کامریڈ نور محمد تراکئی کی حکومت قائم ہوئی تو تراکئی حکومت نے قبائلی نظام کے خاتمے، زرعی اصلاحات، عورتوں کی آزادی جیسی اصلاحات کا آغاز کیا۔
امریکا نے افغانستان میں مداخلت کے لیے اربوں ڈالرکا پروجیکٹ شروع کردیا۔ جنرل ضیاء الحق کی حکومت اس پروجیکٹ میں اسٹیک ہولڈرزکی حیثیت سے شامل ہوئی یوں افغانستان میں باقاعدہ مداخلت کا آغاز ہوا۔ افغان مجاہدین کو سرحدی علاقوں میں تربیت دی جانے لگی۔ دنیا بھر سے جنگجو یہاں اکٹھے ہونے لگے۔ کسی خاصی پالیسی کے تحت افغان مجاہدین کی مختلف تنظیمیں قائم کی گئیں اور ان کی علیحدہ علیحدہ امداد کی گئی۔ ان اربوں ڈالروں کی بارش سے یہاں بہت سے لوگوں کی نسلیں ارب پتی ہوگئیں۔
اس پروجیکٹ میں شریک بعض مذہبی جماعتوں کے رہنماؤں اور کارکنوں کے وارے نیارے ہوگئے۔ امریکی سی آئی اے نے افغانستان کی کمیونسٹ حکومت کے خلاف بغاوت پھیلانے کے لیے مذہب کے کارڈ کو بھرپور استعمال کیا۔ امریکا کے سابق صدر ریگن نے افغان مجاہدین کی وائٹ ہاؤس میں ضیافت کی اور ان افغان رہنماؤں کو وار لارڈ سے عظیم رہنما قرار دیا گیا مگر اس پروجیکٹ کے خوفناک نتائج برآمد ہوئے۔
انتہا پسندی کا عنصر پاکستان سمیت پورے خطے میں پھیل گیا جس کی پاکستان کو بھاری قیمت ادا کرنی پڑی۔ کیسی عجیب بات ہے کہ ڈاکٹر نجیب اللہ کی حکومت کے خاتمے کے بعد مجددی ربانی، حامد کرزئی، ڈاکٹر اشرف غنی، ملا عمر اور اب مولانا ہیبت اللہ اخونزادہ کی حکومتیں پاکستان کی مدد سے قائم ہوئیں۔ ان حکومتوں نے کچھ عرصے کے لیے پاکستان سے تعلقات معمول کے مطابق برقرار رکھے مگر ان حکومتوں نے بعدازاں پاکستان مخالف پالیسیاں اختیار کر لیں۔ اس صورتحال کے ذمے دار کون ہیں، وہ جنھوں نے افغانستان کے بارے میں پالیسیاں تیار کی، کیا وہ بھی اس میں شریک ہیں۔
افغانستان جانے والے ایک پاکستانی صحافی کا کہنا ہے کہ طالبان کی حکومت افغانستان میں مقبول حکومت نہیں ہے، وہ پاکستان سے محاذ آرائی کرکے افغان عوام کی ہیرو بننا چاہتی ہے۔ یہی وقت ہے کہ ماضی کی غلطیوں کا اقرارکیا جائے، 80 کی دہائی سے افغانستان کے بارے میں غلط پالیسیوں کو تبدیل کیا جائے۔ پاکستان کو پڑوسی ممالک کو ساتھ ملا کر افغانستان پر دباؤ ڈالنا چاہیے تاکہ معاملہ پرامن طور پر حل ہوجائے۔ طالبان تحریک کا مقصد پورے خطے میں اپنا اقتدار قائم کرنا ہے، اس مسئلہ کا حل کوئی نہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: افغان مجاہدین کی افغانستان میں نے افغانستان افغانستان کی افغانستان کے پاکستان نے پاکستان کو حکومتوں نے پاکستان کے کی مدد سے حکومت نے کی دہائی نے افغان حکومت کے کی حکومت ولی خان کے لیے کے بعد
پڑھیں:
بھارت افغان گٹھ جوڑ،نئے خطرات کا اشارہ
پاکستان نے افغان طالبان کی سیز فائرکی درخواست پر 48 گھنٹوں کے لیے جنگ بندی کا فیصلہ کیا ہے۔ ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق دونوں اطراف بات چیت کے ذریعے اس مسئلے کا حل تلاش کرنے کی مخلصانہ کوشش کریں گے۔
دوسری جانب پاکستان نے افغان صوبہ قندھار اورکابل میں نپے تلے فضائی حملے خالصتاً افغان طالبان اور خوارج کے ٹھکانوں پرکیے۔ صدر مملکت آصف علی زرداری سے وزیراعظم شہباز شریف، فیلڈ مارشل عاصم منیر اور وزراء نے ملاقاتیں کیں، جس میں داخلی و خارجی سیکیورٹی صورتحال پر گفتگو کی گئی، صدر اور وزیراعظم نے افغان جارحیت کی مذمت کرتے ہوئے پاک فوج کی چوکسی اور مہارت کی تعریف کی، وزیراعظم نے کہا کہ ملکی سلامتی کا ہر صورت دفاع کیا جائے گا۔
پاکستان کی جانب سے افغانستان میں جوابی کارروائی کے بعد افغان طالبان کی حکومت پر دباؤ بڑھتا دکھائی دے رہا ہے اور وہ کمزور ہوتی جا رہی ہے، اگرچہ جھڑپیں تو رک چکی ہیں لیکن صورت حال اب بھی انتہائی نازک ہے۔ سرحدیں مکمل طور پر بند کردی گئی ہیں جس کے باعث دونوں ممالک کے درمیان تجارت اور آمد و رفت معطل ہو چکی ہے۔ دو ہمسایہ ممالک کے درمیان بگڑتا ہوا تنازع علاقائی سلامتی کے لیے سنگین نتائج کا باعث بن سکتا ہے۔
درحقیقت پاکستان پر حملہ ایک ایسے وقت میں کیا گیا جب عبوری افغان وزیرِ خارجہ امیر خان متقی بھارت کے دورے پر تھے اور اس دوران انھوں نے نہ صرف پاکستان مخالف بیانات جاری کیے بلکہ کشمیرکو بھارت کا حصہ بھی تسلیم کیا۔
ایک طرف افغانستان کے عبوری وزیر خارجہ کی دہلی میں بیٹھ کر بیان بازی اور دوسری طرف سرحد پر اشتعال انگیزی کے بعد کابل اور دہلی کے درمیان وہ ہم آہنگ منصوبہ بے نقاب ہوگیا ہے جس کا مقصد پاکستان کو غیر اعلانیہ جنگ، پراپیگنڈے اور سفارتی دباؤ کے ذریعے غیر مستحکم کرنا ہے اور اس کی پیش بندی پاکستان کی مشرقی اور مغربی دونوں سرحدوں کے اطراف ایک عرصے سے ہو رہی تھی۔
بھارت میں بڑھتی ہوئی افغان سرگرمیوں اور سرحد پر عسکری کارروائیوں میں ایک منظم تسلسل ہے جس کا مقصد پاکستان دشمن عناصرکو سیاسی تحفظ دینا ہے۔ افغان طالبان فورسز کی جانب سے بیک وقت مختلف صوبوں سے سرحدی علاقوں پر حملے ظاہر کرتے ہیں کہ ان کارروائیوں کے پیچھے کوئی مرکزی منصوبہ بندی کارفرما ہے۔ اس منصوبہ بندی پر خطے کے ایسے عناصر کا اثر ہے جو جنوبی ایشیا میں عدم استحکام کو فروغ دینا چاہتے ہیں۔
عبوری افغان حکومت کی تحریک طالبان پاکستان عناصر سے بڑھتی ملی بھگت دونوں ملکوں کے درمیان اعتماد کے رشتے کو مزید کمزورکر رہی ہے، اگرکابل نے یہ پالیسی جاری رکھی تو اسے خطے میں مزید تنہائی کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ انڈیا، افغان طالبان اور ٹی ٹی پی کے اتحادکو ایک بڑے علاقائی گیم پلان کے تناظر میں بھی پرکھا جا رہا ہے۔ پاکستان کے خلاف جارحیت اور انڈیا کے ساتھ دوستی کابل کو کتنی مہنگی پڑے گی؟ افغان عبوری حکومت اپنے عوام کی فلاح کے بجائے تخریبی اتحادوں اور بیرونی اثرات کو ترجیح دے کر خود اپنے شہریوں سے دوری اختیار کر رہی ہے۔
افغان عوام تعلیم، صحت، تجارت اور روزگار کے لیے دہائیوں سے پاکستان پر انحصار کرتے آئے ہیں اور اگر کابل نے یہی روش برقرار رکھی تو پاکستان کے یہ دروازے جو ماضی میں افغان عوام کی بقا اور روابط کا ذریعہ رہے ہیں، بند ہو جائیں گے۔ ان پالیسیوں سے نہ صرف افغانستان علاقائی طور پر مزید تنہا ہو جائے گا بلکہ اس کے عوام اور پناہ گزینوں کی مشکلات میں بھی اضافہ ہوگا۔
حالیہ واقعات اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ آنے والا وقت خطے میں مزید کشیدگی لائے گا اور پاکستان کو بیک وقت افغان طالبان اور انڈیا کی جارحیت کا مقابلہ کرنا ہو گا، وہ جارحیت عسکری کے ساتھ ساتھ پراپیگنڈے کے میدان میں بھی ہو گی۔ پاکستان کا ایک طویل عرصے سے یہ موقف رہا ہے کہ افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہو رہی ہے، وہاں سے ہونے والی دہشت گردی کو بھارت سپورٹ کر رہا ہے۔
پاکستان جب بھی طالبان حکومت کے سامنے یہ معاملہ رکھتا تھا تو ان کی جانب سے یہ کہا جاتا کہ تحریک طالبان پاکستان یعنی فتنہ الخوارج کے لوگ ان کے کنٹرول میں نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ چار روز قبل پیدا ہونے والی کشیدہ صورتحال میں افغانستان کو پاکستان کے خلاف سرزمین استعمال کرنے کی قیمت چکانا ہو گی۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان نے کابل میں فتنہ الخوارج کے مرکز اور لیڈر شپ کو نشانہ بنایا ہے۔ آئی ایس پی آر کا اعلامیہ بڑے واضح انداز میں بتا رہا ہے کہ پاکستان افغانستان کو اب پہلے جیسا ٹریٹ نہیں کرے گا۔ افغانستان میں طالبان کی عبوری حکومت کو اپنا دہرا معیار ختم کر نا ہوگا اور فتنہ الخوارج اور پاکستان میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوگا۔
اس صورتحال میں پاکستان دو اہم فیصلے کر چکا ہے کہ اب اگر پاکستان کے خلاف افغان سرزمین استعمال ہوئی تو پاکستان کو خود کارروائی کا حق حاصل ہے۔ دوسرا پاکستان افغان مہاجرین اور غیر قانونی افغانوں کے انخلا سے متعلق سخت پالیسی نافذ کرنے جا رہا ہے۔
پاکستان میں امن و استحکام کے لیے غیر قانونی افغان مہاجرین کی واپسی ناگزیر ہو چکی ہے۔ پاکستان نے گزشتہ پانچ دہائیوں سے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر لاکھوں افغان پناہ گزینوں کی میزبانی کی ہے۔ دوحہ معاہدے کے بعد افغانستان سے تمام غیر ملکی افواج اور خانہ جنگی کا خاتمہ ہو چکا جس کے بعد افغان مہاجرین کا پاکستان میں رہنے کا کوئی جواز باقی نہیں رہا۔ غیر قانونی مقیم مہاجرین کے کچھ عناصر پاکستان میں امن و امان کی صورتحال کی خرابی اور جرائم میں ملوث پائے گئے ہیں۔
صرف رواں ماہ ٹی ٹی پی کے مختلف دھڑوں کے حملوں میں فوجی افسران سمیت پاکستانی سیکیورٹی اہلکاروں کی بڑی تعداد شہید ہوچکی ہے۔ یہ سال گزشتہ دہائی کا سب سے خون ریز سال ثابت ہوا ہے۔ پاکستان کا افغان طالبان انتظامیہ کے خلاف صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے جو ٹی ٹی پی کے دھڑوں کی محفوظ پناہ گاہوں کے خلاف کارروائی کرنے سے مسلسل انکاری ہے جنھیں وہ سرحد پار حملوں کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ اسٹریٹجک اعتبار سے دو اہم صوبوں، خیبر پختونخوا اور بلوچستان جو کہ شدت پسندانہ حملوں کے مراکز ہیں، وہاں سیاسی عدم استحکام نے کالعدم گروہوں کو سرگرم عمل ہونے کا زبردست موقع فراہم کیا ہے۔ افغانستان سے پاکستان پر حملے کی یہ صورتِ حال اچانک پیدا نہیں ہوئی، برسوں کی سازشیں، سرحد پار اڈوں کا استعمال اور غیر ریاستی گروہوں کو افغان حکومت کے پناہ دینے کی خاموش روایتیں ہی آج اس تناؤ کی بنیاد ہیں۔ پاکستان نے بارہا افغان قیادت کو واضح شواہد دے کر کہا کہ تحریکِ طالبانِ پاکستان، داعش، خراسان اور دیگر شدت پسند گروہ افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف لانچنگ پیڈ کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔
اس مسئلے پر جب افغانستان کی طرف سے سنجیدگی نظر نہ آئی اور وہاں سے مسلسل پاکستان مخالف کارروائیوں کا سلسلہ جاری رہا حتیٰ کہ یہ سلسلہ بڑھ کر پاکستان پر حملے تک آپہنچا تو دفاعی اداروں کو اپنی زمینی اور فضائی صلاحیتیں بروئے کار لانا پڑیں۔
ایک اور پہلو جو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا وہ ہے اطلاعاتی جنگ اور سوشل میڈیا پر پراپیگنڈہ۔ دشمن قوتیں، خاص طور پر بھارتی خفیہ ایجنسیاں محض عسکری حملوں تک محدود نہیں رہتیں، وہ غلط معلومات، جھوٹے بیانات اور اشتعال انگیز پیغامات کے ذریعے معاشرتی انتشار بھی پھیلاتی ہیں۔ اس لیے حکومت کو میڈیا کمیونیکیشن، شفاف اطلاعات اور سچائی کی فراہمی میں فعال رہنا ہوگا تاکہ عوام میں درپیش خطرات، سرحدی حالات اور ریاستی اقدامات کے پیچھے کے منطقی دلائل سمجھائے جاسکیں معاشی اور سفارتی راستے بھی اسی نسبت سے اہم ہیں۔
خطے میں امنِ سرمایہ کاری، تجارتی راہ داری اور توانائی کے منصوبے وہ مشترکہ مفادات ہیں جو افغان قوم کو بھی فائدہ پہنچا سکتے ہیں۔ جب کابل کے عوام کو معلوم ہوگا کہ امن کے ذریعے ان کی معیشت بہتر ہوگی، روزگار بڑھے گا اور بنیادی سہولتیں بہتر ہوں گی تو وہاں کے حکمرانوں پر بھی عوامی دباؤ بڑھے گا کہ وہ دہشت گردی کے خلاف سخت اقدامات کریں۔
آیندہ کے لیے واضح کرنا ہے کہ اگر داعش، فتنہ خوارج اور مسلح خفیہ نیٹ ورکس نے اپنے عزائم ترک نہ کیے تو پاکستان مجبوراً خود اپنے دفاع کے لیے کارروائی جاری رکھے گا، مگر حقیقی فتح وہی ہے جو امن، ترقی اور بھائی چارے کے ذریعے حاصل ہو، اور اس امن کے لیے افغان اقتدار پر بیٹھے سخت گیر حکمرانوں کو اپنی پالیسیوں میں تبدیلیاں کرنا ہوں گی۔ بھارتی قربتیں تو افغانستان کو کبھی کوئی فائدہ نہ دے سکیں گی، بھارتی حکمران تو فتنہ انگیزیاں چاہتے ہیں جس سے افغانستان کو دامن بچانا ہوگا، افغانستان کا حقیقی بہی خواہ صرف پاکستان ہے، افغانستان کو یہ سمجھنا ہوگا۔