افغانستان کی نگراں حکومت کے وزیر خارجہ امیر خان متقی کہتے ہیں کہ کیا پاکستان نے افغانستان کی تاریخ پڑھی ہے؟ افغانوں نے انگریز حکومت کا مقابلہ کیا اور سوویت یونین کو شکست دی، امریکا اور اتحادی فوجوں کو پسپائی برداشت کرنا پڑی، پاکستان کو افغانستان کی خود مختاری کا احترام کرنا چاہیے۔
پاکستان کی مدد سے 70کی دہائی سے جنگ لڑنے والے طالبان کے رہنماؤں نے تاریخ کو بھلا کر احسان فراموشی کی ایک نئی مثال قائم کی۔
یہ گزشتہ صدی میں 90کی دہائی کی تاریخ ہے کہ افغانستان میں ڈاکٹر نجیب اللہ کی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد افغانستان میں ایک خانہ جنگی کی صورتحال تھی۔ پاکستان کی مدد سے 1992 میں افغان مجاہدین کی مختلف تنظیموں کے درمیان پشاور میں ایک معاہدہ ہوا تھا اور اس معاہدے کے تحت برہان الدین ربانی ملک کے پہلے صدر بنائے گئے۔
ان کا تعلق شوریٰ نظر نامی تنظیم سے تھا۔ اس حکومت میں احمد شاہ مسعود شمالی اتحاد اورگلبدین حکمت یار اور یونس خالد وغیرہ کے گروپ شامل تھے، مگر افغان مجاہدین کی حکومت افغانستان پر مکمل طور پر عملداری قائم نہیں کرسکی تھی اور ملک کے مختلف حصوں میں وار لارڈ نے اپنی چھوٹی چھوٹی ریاستیں بنا لی تھیں۔
کابل کی حکومت پر ترکیہ اور وسطی ایشیائی ممالک کے علاوہ بھارت کے سائے گہرے ہو رہے تھے۔ یہ بات اسلام آباد کے لیے پریشان کن تھی۔ پیپلز پارٹی کی تیسری حکومت میں وزیراعظم بے نظیر بھٹو نے میجر جنرل ریٹائرڈ نصیر اللہ بابر کو وزیر داخلہ مقررکیا۔ نصیر اللہ بابر افغان امورکے ماہر سمجھے جاتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت میں نصیر اللہ بابر فرنٹیئر کانسٹیبلری کے انسپکٹر جنرل تھے۔
ذوالفقارعلی بھٹو کی حکومت نے کابل میں سردار داؤد کی حکومت کے مخالفین مجددی ربانی اور حکمت یار کو پشاور بلوایا تھا۔ ان رہنماؤں کو پشاور بلوانے کا مقصد سردار داؤد کی حکومت پر دباؤ ڈالنا تھا کہ کالعدم نیشنل عوامی پارٹی کے سربراہ ولی خان کی حمایت بند کردیں۔
پاکستان کے مختلف مدارس میں زیرِ تعلیم افغان طالب علموں کو ایک جنگجو فوج میں جمع کرنے کا فریضہ انجام دیا گیا تھا، یوں یہ فورس ’’طالبان‘‘ کہلائی اور طالبان مسلح ہوئے اور طالبان نے کابل کی طرف پیش قدمی کی۔ افغان امورکے ماہر صحافیوں کا کہنا ہے کہ شروع میں طالبان اتنے زیادہ تربیت یافتہ نہیں تھے کہ وہ افغانستان کو فتح کرسکیں۔ طالبان کو ہر قسم کی امداد سرحد کے اس پار سے ملی۔ پاکستان پہلا ملک تھا جس نے طالبان حکومت کو تسلیم کیا تھا۔
نائن الیون کی دہشت گردی کے بعد امریکا اور اتحادی فوجوں نے کابل پر قبضہ کرلیا اور طالبان رہنما روپوش ہوگئے۔ افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی نے بار بار الزام لگایا کہ ملا عمرکی قیادت میں قندھار شوریٰ اور القاعدہ کے رہنما اسامہ بن لادن پاکستان میں روپوش ہیں۔ پاکستان نے اس الزام کی تردید کی۔
امریکی میرین دستوں نے گیریژن سٹی ایبٹ آباد میں چھاپہ مار کارروائی میں اسامہ بن لادن کو ہلاک کردیا۔ غیر ملکی ذرایع ابلاغ میں مسلسل یہ رپورٹیں شایع ہوتی رہیں کہ طالبان غیر ملکی مدد سے کابل پر حملہ آور ہیں۔ صرف طالبان ہی نہیں لاکھوں افغان شہری 80ء کی دہائی میں کمیونسٹ حکومت کی تبدیلی پروجیکٹ شروع ہونے کے بعد پاکستان آئے۔
جنرل ضیاء الحق کی حکومت نے افغان مہاجرین کو جائیداد کی خریداری کرنے، کاروبارکرنے اور تعلیمی اداروں میں داخلے لینے کی اجازت دیدی تھی۔ بعض صحافیوں نے لکھا ہے کہ مقامی پولیس کو افغان مجاہدین کی ان غیر قانونی سرگرمیوں کو چیک کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ پھر بعد میں برسر اقتدار آنے والی حکومتوں نے افغان مہاجرین کے لیے یہ مراعات برقرار رکھیں۔ برسر اقتدار حکومتوں کی نرم پالیسی کی بناء پر ہزاروں افغان باشندوں نے پاکستان کے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ حاصل کیے۔
ان دستاویزات کی مدد سے یہ مہاجرین امریکا،کینیڈا اور یورپی ممالک میں آباد ہوئے۔ حامد کرزئی اور ڈاکٹر اشرف غنی کی حکومتوں نے اقوام متحدہ کے اداروں، سلامتی کونسل اور جنرل اسمبلی میں بار بار پاکستان پر طالبان مزاحمت کاروں کی مدد کے الزامات لگائے، سابق صدر پرویز مشرف نے اپنی سوانح عمری "In the line of fire" میں اس بات کا اقرارکیا ہے کہ پاکستان نے ایک مرحلے میں افغانستان میں موجود طالبان کی مدد کی تھی تاکہ بھارت کے عزائم ناکام بنائے جاسکیں۔ مگر آج طالبان حکومت پاکستان کو تاریخ سے سبق حاصل کرنے کی ہدایت کررہی ہے۔ افغانستان میں طالبان کے موجودہ رویے کو تاریخی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔
قیام پاکستان کے بعد سے پاکستان اور افغانستان کے تعلقات خوشگوار نہیں رہے۔ جنرل ایوب خان کے دور میں شدید کشیدگی پیدا ہوئی تھی۔ پاکستان نے 1960 میں باجوڑکیمپس پر آپریشن کیا تھا مگر پھر دونوں ممالک کے تعلقات معمول پرآگئے تھے۔ 1973 میں افغانستان میں ایک بڑی تبدیلی رونما ہوئی۔ افغانستان کے شاہ ظاہر شاہ معزول ہوئے اور سردار داؤد صدر بن گئے۔ اس وقت پیپلز پارٹی کی حکومت نے نیشنل پارٹی کے خلاف کارروائی کی تھی۔ نیشنل عوامی پارٹی کے صدر ولی خان اور دیگر رہنما گرفتارکر لیے گئے تھے۔
سردار داؤد اور ولی خان کی رشتے داری تھی۔ سردار داؤد نے ولی خان کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا اور پختونستان کا نعرہ لگایا تھا۔ اس وقت وزیر اعظم بھٹوکے احکامات پر صدر داؤد کے منحرفین کی مدد کا سلسلہ شروع ہوا مگر پھر صدر داؤد کی حکومت اور پاکستان کے درمیان تعلقات معمول پر آگئے تھے، مگر اسی وقت سے پاکستان کے کچھ اہلکاروں کی افغانستان کے معاملات میں دلچسپی عملی شکل اختیار کر گئی۔ پھر جب افغانستان میں عوامی انقلاب آیا اور کامریڈ نور محمد تراکئی کی حکومت قائم ہوئی تو تراکئی حکومت نے قبائلی نظام کے خاتمے، زرعی اصلاحات، عورتوں کی آزادی جیسی اصلاحات کا آغاز کیا۔
امریکا نے افغانستان میں مداخلت کے لیے اربوں ڈالرکا پروجیکٹ شروع کردیا۔ جنرل ضیاء الحق کی حکومت اس پروجیکٹ میں اسٹیک ہولڈرزکی حیثیت سے شامل ہوئی یوں افغانستان میں باقاعدہ مداخلت کا آغاز ہوا۔ افغان مجاہدین کو سرحدی علاقوں میں تربیت دی جانے لگی۔ دنیا بھر سے جنگجو یہاں اکٹھے ہونے لگے۔ کسی خاصی پالیسی کے تحت افغان مجاہدین کی مختلف تنظیمیں قائم کی گئیں اور ان کی علیحدہ علیحدہ امداد کی گئی۔ ان اربوں ڈالروں کی بارش سے یہاں بہت سے لوگوں کی نسلیں ارب پتی ہوگئیں۔
اس پروجیکٹ میں شریک بعض مذہبی جماعتوں کے رہنماؤں اور کارکنوں کے وارے نیارے ہوگئے۔ امریکی سی آئی اے نے افغانستان کی کمیونسٹ حکومت کے خلاف بغاوت پھیلانے کے لیے مذہب کے کارڈ کو بھرپور استعمال کیا۔ امریکا کے سابق صدر ریگن نے افغان مجاہدین کی وائٹ ہاؤس میں ضیافت کی اور ان افغان رہنماؤں کو وار لارڈ سے عظیم رہنما قرار دیا گیا مگر اس پروجیکٹ کے خوفناک نتائج برآمد ہوئے۔
انتہا پسندی کا عنصر پاکستان سمیت پورے خطے میں پھیل گیا جس کی پاکستان کو بھاری قیمت ادا کرنی پڑی۔ کیسی عجیب بات ہے کہ ڈاکٹر نجیب اللہ کی حکومت کے خاتمے کے بعد مجددی ربانی، حامد کرزئی، ڈاکٹر اشرف غنی، ملا عمر اور اب مولانا ہیبت اللہ اخونزادہ کی حکومتیں پاکستان کی مدد سے قائم ہوئیں۔ ان حکومتوں نے کچھ عرصے کے لیے پاکستان سے تعلقات معمول کے مطابق برقرار رکھے مگر ان حکومتوں نے بعدازاں پاکستان مخالف پالیسیاں اختیار کر لیں۔ اس صورتحال کے ذمے دار کون ہیں، وہ جنھوں نے افغانستان کے بارے میں پالیسیاں تیار کی، کیا وہ بھی اس میں شریک ہیں۔
افغانستان جانے والے ایک پاکستانی صحافی کا کہنا ہے کہ طالبان کی حکومت افغانستان میں مقبول حکومت نہیں ہے، وہ پاکستان سے محاذ آرائی کرکے افغان عوام کی ہیرو بننا چاہتی ہے۔ یہی وقت ہے کہ ماضی کی غلطیوں کا اقرارکیا جائے، 80 کی دہائی سے افغانستان کے بارے میں غلط پالیسیوں کو تبدیل کیا جائے۔ پاکستان کو پڑوسی ممالک کو ساتھ ملا کر افغانستان پر دباؤ ڈالنا چاہیے تاکہ معاملہ پرامن طور پر حل ہوجائے۔ طالبان تحریک کا مقصد پورے خطے میں اپنا اقتدار قائم کرنا ہے، اس مسئلہ کا حل کوئی نہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: افغان مجاہدین کی افغانستان میں نے افغانستان افغانستان کی افغانستان کے پاکستان نے پاکستان کو حکومتوں نے پاکستان کے کی مدد سے حکومت نے کی دہائی نے افغان حکومت کے کی حکومت ولی خان کے لیے کے بعد
پڑھیں:
طالبان حکام دہشت گردوں کی سہولت کاری بند کریں،ترجمان پاک فوج
پاکستان اور افغانستان کے مابین تجارت کی بندش کا مسئلہ ہماری سیکیورٹی اور عوام کے جان و مال کے تحفظ سے جڑا ہے ،خونریزی اور تجارت اکٹھے نہیں چل سکتے ،بھارتی آرمی چیف کا آپریشن سندور کو ٹریلر کہنا خود فریبی ہے
خیبرپختونخوا میں سرحد پر موجودہ صورتحال میں آمد و رفت کنٹرول کرنا چیلنج ہے ، دنیا میں بارڈر مینجمنٹ دونوں اطراف کے ممالک مل کر کرتے ہیں، طالبان حکام دہشت گردوں کی سرپرستی کر رہے ہیں،ڈی جی آئی ایس پی آر
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا ہے کہ طالبان رجیم کا یہ دعویٰ کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے لوگ ہجرت کرکے آئے ہیں، مہمان ہیں، غیر منطقی ہیں، اگر وہ پاکستانی ہیں تو انہیں ہمارے حوالے کریں،افغانستان میں دہشتگردی کے مراکز اور دہشتگرد قیادت موجود، طالبان سہولت کاری بند کریں، رواں سال ملک میں مجموعی طور پر ایک ہزار 873 دہشت گردوں کو جہنم واصل کیا گیا، جن میں 136 افغان باشندے شامل ہیں، خیبرپختونخوا میں سرحد پر موجودہ صورتحال میں آمد و رفت کنٹرول کرنا چیلنج ہے ، دنیا میں بارڈر مینجمنٹ دونوں اطراف کے ممالک ملکر کرتے ہیں، طالبان حکام دہشت گردوں کی سرپرستی اور سہولت کاری کر رہے ہیں،پاکستان اور افغانستان کے مابین تجارت کی بندش کا مسئلہ ہماری سیکیورٹی اور عوام کے جان و مال کے تحفظ سے جڑا ہے ،خونریزی اور تجارت اکٹھے نہیں چل سکتے ،بھارتی آرمی چیف کا آپریشن سندور کو ٹریلر کہنا خود فریبی ہے ، 7 جہازوں کی تباہی، اسلحہ ڈپو، دفاعی نظام ایس 400 کا خاتمہ ان کیلئے ہارر مووی بن چکا ہے ،آپریشن سندور کی شکست پر بار بار جھوٹے ہندوستانی بیانات عوامی غصے کو تحلیل کرنے کیلئے ہیں،کسی بھی بیرونی جارحیت کا جواب سخت اور شدید ہوگا،بیرون ملک سے آپریٹ ہونے والے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پاکستان کیخلاف بیانیہ بنانے میں مصروف ہیں،تمام سیاسی جماعتوں کا اتفاق ہے کہ دہشتگردی کا حل نیشنل ایکشن پلان میں ہے ۔پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے مطابق ڈی جی آئی ایس پی آر کی سینئر صحافیوں سے ملکی سلامتی کے امور پر مزید تفصیلات سامنے آئی ہے جس کے مطابق ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ 4نومبر 2025 سے اب تک دہشت گردی کے خلاف 4 ہزار 910 انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز کیے گئے ۔ رواں سال خیبر پختونخوا میں 12 ہزار 857 اور بلوچستان میں 53 ہزار 309 انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کیے گئے ۔ ان آپریشنز کے دوران 206 دہشت گردوں کو جہنم واصل کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ رواں سال مجموعی طور پر 1873 دہشت گرد جہنم واصل ہوئے ، جن میں 136 افغانی بھی شامل ہیں۔ پاک افغان بارڈر انتہائی مشکل اور دشوار گزار راستوں پر مشتمل ہے ۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ خیبر پختونخوا میں پاک افغان سرحد 1229 کلومیٹر پر محیط ہے ، جس میں 20 کراسنگ پوائنٹس ہیں، پاک افعان بارڈر پر پوسٹوں کا فاصلہ 20 سے 25 کلومیٹر تک بھی ہے ۔ لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ بارڈر فینس اس وقت تک مؤثر نہیں ہوسکتی اگر وہ آبزرویشن اور فائر سے کور نہ ہو، اگر 2 سے 5 کلومیٹر کے بعد قلعہ بنائیں اور ڈرون سرویلنس کریں تو اس کے لیے کثیر وسائل درکار ہوں گے ۔انہوںنے کہاکہ پنجاب اور سندھ کے برعکس خیبر پختونخوا میں بارڈر کے دونوں اطراف منقسم گاؤں ہیں، ایسی صورتِ حال میں آمد و رفت کو کنٹرول کرنا ایک چیلنج ہے ۔انہوں نے کہا کہ دنیا میں بارڈر مینجمنٹ ہمیشہ دونوں ممالک مل کر کرتے ہیں، اس کے برعکس افغانستان سے دہشت گردوں کی پاکستان میں دراندازی کے لیے افغان طالبان مکمل سہولت کاری کرتے ہیں۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ اگر افغان بارڈر سے متصل علاقے دیکھیں بمشکل موثر انتظامی ڈھانچہ گورننس کے مسائل میں اضافے کا باعث ہے ، ان بارڈر ایریاز میں انتہائی مضبوط پولیٹیکل ٹیرر کرائم گٹھ جوڑ ہے ، سہولت کاری فتنہ الخوارج کرتے ہیں، اگر سرحد پار سے دہشت گردوں کی تشکیلیں یا اسمگلنگ، تجارت ہو تو اندرون ملک اس کو روکنا کس کی ذمے داری ہے ؟لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ اگر لاکھوں نان کسٹم پیڈ گاڑیاں آپ کے صوبے میں گھوم رہی ہیں تو انہیں کس نے روکنا ہے ؟ نان کسٹم پیڈ گاڑیاں اس پولیٹیکل ٹیرر کرائم نیکسز کا حصہ ہیں جو خودکش حملوں میں استعمال ہوتی ہیں، افغانستان کے ساتھ دوحہ معاہدے کے حوالے سے پاکستان کا موقف بالکل واضح ہے ،پاکستان کا موقف ہے کہ افغان طالبان رجیم دہشت گردوں کی سہولت کاری بند کریں۔انہوں نے کہا کہ افغانستان میں دہشت گردی کے مراکز اور القاعدہ، داعش اور دہشت گرد تنظیموں کی قیادت موجود ہے ، افغانستان سے انہیں اسلحہ اور فنڈنگ بھی ملتی ہے جو پاکستان کے خلاف استعمال ہوتی ہے ، ہم نے افغانستان کے سامنے تمام ثبوت رکھے جنہیں وہ نظرانداز نہیں کرسکتے ۔ انہوںنے کہاکہ پاکستان کا افغان طالبان رجیم سے مطالبہ ہے کہ وہ ایک قابلِ تصدیق میکانزم کے تحت معاہدہ کریں، اگر قابلِ تصدیق میکنزم تھرڈ پارٹی نے رکھنا ہے تو پاکستان کو اس پر اعتراض نہیں ہوگا، پاکستان کے اس مو قف کی مکمل آگاہی ثالث ممالک کو بھی ہے ۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ فتنہ الخوراج کے بارے میں طالبان رجیم کا دعویٰ کہ وہ پاکستانی ہیں، طالبان رجیم کا دعویٰ ہے کہ وہ ہجرت کر کے آئے ہیں، ہمارے مہمان ہیں غیر منطقی ہے ، اگر وہ پاکستانی شہری ہیں تو ہمارے حوالے کریں، ہم ان کو اپنے قانون کے مطابق ڈیل کریں گے ، یہ کیسے مہمان ہیں جو مسلح ہو کر پاکستان آتے ہیں؟لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ افغان رجیم ناصرف پاکستان بلکہ پورے خطے اور دنیا کے لیے ایک خطرہ بن چکا ہے ، افغانستان میں 2021 کے بعد ریاست اور حکومت کا قیام ہونا تھا جو ممکن نہ ہوسکا، طالبان رجیم نے اس وقت نان اسٹیٹ ایکٹرز پالے ہوئے ہیں۔ نان اسٹیٹ ایکٹرز خطے کے مختلف ممالک کے لیے خطرہ ہیں۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کا مطالبہ واضح ہے کہ افغان طالبان کا طرز عمل ایک ریاست کی طرح ہونا چاہیے ، دوحہ مذاکرات میں افغان طالبان نے بین الاقوامی برادری سے اپنی سرزمین دہشت گردی کے لیے استعمال نہ ہونے کا وعدہ کیا، افغان طالبان نے اپنی سرزمین دہشت گردی کے لیے استعمال نہ ہونے کے وعدہ پر اب تک عمل نہیں ہوا۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ افغان طالبان رجیم افغانیوں کا نمائندہ نہیں ہے کیونکہ یہ تمام قومیتوں کی نمائندگی نہیں کرتا، افغانستان کی 50 فیصد خواتین کی نمائندگی کا اس رجیم میں کوئی وجود نہیں، ہمارا افغانیوں کے ساتھ کوئی مسئلہ نہیں، بلکہ ہمارا مسئلہ افغان طالبان رجیم کے ساتھ ہے ، پاکستان اور افغانستان کے مابین تجارت کی بندش کا مسئلہ ہماری سیکیورٹی اور عوام کے جان و مال کے تحفظ سے جڑا ہے ،خونریزی اور تجارت اکٹھے نہیں چل سکتے ، ہمارے لیے اچھے یا برے دہشت گرد میں کوئی تفریق نہیں، ہمارے لیے اچھا دہشت گرد وہی ہے جو جہنم واصل ہو چکا، ہمیشہ حق باطل پر غالب آتا ہے ، ہم حق پر ہیں اور حق ہمیشہ فتحیاب ہوتا ہے ۔لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ افغان مہاجرین کی باعزت وطن واپسی کے عمل کے تحت 2024 میں 366704 افراد کو واپس بھیجا جا چکا ہے ، 2025 میں 971604 کو افغان مہاجرین کو وطن واپس بھیجا جا چکا ہے ، صرف رواں ماہ یعنی نومبر کے دوران 239574 افراد کو واپس بھیجا گیا۔انہوں نے کہا کہ ہندوستان میں خود فریبی کی سوچ رکھنے والی قیادت کی اجارہ داری ہے ، انڈین آرمی چیف کا یہ بیان کہ ہم نے آپریشن سندور کے دوران ایک ٹریلر دکھایا خود فریبی کی حامل سوچ کا عکاس ہے ، جس ٹریلر میں7 جہاز گریں، 26 مقامات پر حملہ، ایسـ400 کی بیٹریاں تباہ ہوں تو ایسے ٹریلر پر مبنی فلم ان کے لیے ڈراؤنی فلم بن جائیگی،سندور میں ہوئی شکست پر بار بار کے جھوٹے ہندوستانی بیانات عوامی غم وغصے کو تحلیل کرنے کے لیے ہیں۔ انہوںنے کہاکہ کوئی بھی ملک اگر افغان طالبان رجیم کو فوجی سازو سامان مہیا کرتا ہے تو یہ دہشت گردوں کے ہاتھ ہی لگے گا، ریاست پاکستان اور اس کے اداروں کے خلاف زہریلا بیانیہ بنانے والے سوشل میڈیا اکاؤنٹس بیرون ملک سے چلتے ہیں، پاکستان سے باہر بیٹھ کر یہاں کی سیاست اور دیگر معاملات میں زہر ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ بیرون ملک سے آپریٹ ہونے والے سوشل میڈیا کے یہ اکاؤنٹس لمحہ بہ لمحہ پاکستان کے خلاف بیانیہ بنانے میں مصروف ہیں، یہ بات واضح ہے کہ جو سوشل میڈیا پاکستان میں چل رہا ہے درحقیقت اس کے پیچھے بیرونی ہاتھ ہیں، دہشت گردی پر تمام حکومتوں اور سیاسی پارٹیوں کا اتفاق ہے کہ اس کا حل نیشنل ایکشن پلان میں ہے ، اس پلان کو عملی جامہ پہنانے کے لیے بلوچستان میں ایک مربوط نظام وضع کیا گیا جبکہ کے پی میں اس کی کمی نظر آتی ہے ۔ اس نظام کے تحت ضلعی، ڈویڑنل اور صوبائی سطح پر اسٹیئرنگ، مانیٹرنگ اور ایمپیلیمنٹیشن کمیٹیاں بنائی گئی ہیں۔انہوں نے کہا کہ ایرانی ڈیزل کی اسمگلنگ غیرقانونی اسپیکٹرم کی بڑی وجوہات میں سے ایک ہے ، اس مد میں حاصل ہونے والی رقم دہشت گردی کے فروغ کے لیے استعمال کی جاتی ہے ، ایرانی ڈیزل کی اسمگلنگ پر کریک ڈاؤن سے پہلے 20.5 ملین لیٹر ڈیزل کی یومیہ اسمگلنگ ہوتی تھی۔ یہ مقدار کم ہو کر 2.7 ملین لیٹر یومیہ پر آچکی ہے ۔انہوںنے کہاکہ ایران سے اسمگل ہونے والے ڈیزل کی مد میں حاصل ہونے والی رقم بی ایل اے اور بی وائی سی کو جاتی ہے ، نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کے باعث بلوچستان کے 27 ضلعوں کو پولیس کے دائرہ اختیار میں لایا جاچکا ہے ، بلوچستان کے 27 ضلعے بلوچستان کا 86 فیصد حصہ ہے ، بلوچستان میں صوبائی حکومت، سیکیورٹی فورسز مقامی لوگوں سے مسلسل انگیجمنٹ کر رہے ہیں۔ انہوںنے کہاکہ اس طرح کی 140 یومیہ اور 4000 ماہانہ انگیجمنٹ ہو رہی ہیں جسکے بہت دورس نتائج ہیں،ان حکومتی اقدامات کے بغیر دہشت گردی کو قابو نہیں کیا جا سکتا۔