بین الاقوامی سرمایہ کاری اور سی پیک؛ ترقی یا قرض کا جال؟
اشاعت کی تاریخ: 19th, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
پاکستان کے لیے ایک غیر معمولی موقع، لیکن کیا ہم اسے دانشمندی سے استعمال کر پائیں گے؟ قومیں مواقع ضائع کرنے سے نہیں بلکہ ان کے درست استعمال نہ کرنے سے زوال پذیر ہوتی ہیں۔ یہی نکتہ آج پاکستان اور چین کے مشترکہ منصوبے سی پیک پر صادق آتا ہے۔ یہ صرف ایک اکنامک کاریڈور نہیں بلکہ ایک معاشی وژن ہے، جو پاکستان کے روشن مستقبل اور ترقی کی راہیں متعین کر سکتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم اس موقع کو ترقی میں ڈھال پائیں گے یا یہ قرضوں کا جال بن جائے گا؟
پاکستان کی جغرافیائی حیثیت اسے عالمی سیاست و معیشت میں نمایاں کرتی رہی ہے۔ مشرقِ وسطیٰ، وسطی ایشیا اور جنوبی ایشیا کے سنگم پر واقع یہ ملک گوادر بندرگاہ کے ذریعے عالمی تجارتی سرگرمیوں کا مرکز بننے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چین نے اپنے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کے سب سے بڑے منصوبے کے طور پر سی پیک کا انتخاب کیا۔ اس منصوبے کی ابتدائی لاگت تقریباً 62 ارب ڈالر بتائی جاتی ہے، جس میں توانائی، شاہراہیں، ریل منصوبے اور گوادر کی ترقی شامل ہیں۔ حالیہ دنوں میں وزیر ِاعظم کے دورۂ چین کے دوران 8.
یہ سرمایہ کاری پاکستان کے لیے کئی حوالوں سے گیم چینجر ثابت ہو سکتی ہے۔ لاکھوں نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے، توانائی بحران میں کمی آئے گی، صنعتی برآمدات بڑھنے سے زرمبادلہ میں اضافہ ہوگا، اور گوادر کے ذریعے پاکستان خطے کا تجارتی مرکز بن سکتا ہے۔ محتاط اندازے کے مطابق صرف اگلے پانچ برسوں میں 20 لاکھ سے زائد براہِ راست و بالواسطہ روزگار کے مواقع پیدا ہو سکتے ہیں۔ تاہم یہ سب کچھ اتنا آسان نہیں۔ پاکستان پہلے ہی 100 ارب ڈالر سے زائد کے بیرونی قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔ اگر منصوبوں میں شفافیت اور بروقت تکمیل کو یقینی نہ بنایا گیا تو یہ سرمایہ کاری قرضوں کے بوجھ میں مزید اضافہ کر سکتی ہے۔ سیاسی عدم استحکام، پالیسی میں تسلسل کی کمی، ماحولیاتی خطرات اور مقامی کمیونٹیز کی شمولیت نہ ہونا مستقبل میں بڑی رکاوٹیں بن سکتی ہیں۔
سی پیک کا اصل فائدہ تبھی حاصل ہو سکتا ہے جب ٹیکنالوجی کی منتقلی یقینی بنائی جائے، تعلیمی اداروں کو صنعت سے جوڑا جائے تاکہ نوجوان جدید ہنر سیکھ سکیں، اور پالیسیوں میں تسلسل قائم رکھا جائے۔ اگر ایران، افغانستان اور وسطی ایشیا کو بھی اس منصوبے میں شامل کیا گیا تو پاکستان خطے کا معاشی پل بن سکتا ہے۔ سی پیک پاکستان کے لیے ایک نایاب موقع ہے۔ یہ محض سڑکوں اور بجلی گھروں کا منصوبہ نہیں بلکہ معاشی خودکفالت کی طرف ایک قدم ہے۔ لیکن اس کی کامیابی اس بات پر منحصر ہے کہ ہم اسے کس دانشمندی اور شفافیت کے ساتھ آگے بڑھاتے ہیں۔ اگر ہم نے یہ موقع گنوا دیا تو سی پیک قرضوں کا جال بن جائے گا، لیکن اگر ہم نے اس سے بھرپور فائدہ اٹھایا تو یہ پاکستان کے روشن مستقبل کی ضمانت ہوگا۔
کل ابتدائی لاگت (2013ء): 62 ارب ڈالر
بیجنگ معاہدے (2025ء): 8.5 ارب ڈالر
اہم شعبے: زراعت، توانائی، صنعت، صحت، الیکٹرک گاڑیاں۔
روزگار کے مواقع: متوقع 20 لاکھ براہِ راست و بالواسطہ۔
توانائی کا بوجھ: پاکستان کا 30 فی صد زرمبادلہ تیل و گیس پر خرچ۔
برآمدات میں اضافہ: 15–20 فی صد تک متوقع۔
اہم مرکز: گوادر بندرگاہ مشرقِ وسطیٰ، وسطی ایشیا اور چین کے درمیان پل ’’فیصلہ ہمارے ہاتھ میں ہے؛ سی پیک یا تو ہمیں قرض کے اندھیروں میں دھکیل دے گا یا پھر ترقی کے روشن چراغ جلائے گا۔ اب یہ قوم کی دانشمندی پر منحصر ہے کہ وہ کون سا راستہ اختیار کرتی ہے‘‘۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: سرمایہ کاری پاکستان کے ارب ڈالر سکتا ہے کے لیے سی پیک
پڑھیں:
سوچ بدلنی ہوگی، حکومت کا کام نوکریاں دینا نہیں،و وفاقی زیر خزانہ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی: وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ حکومت کا کام نوکریاں دینا نہیں ہے، ہمیں یہ سوچ بدلنی ہوگی۔
انسٹیٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن کے زیرِ اہتمام ہونے والے سیمینار میں ملکی معیشت کی موجودہ صورتحال پر گفتگو کرتے ہوئے وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب نے واضح کیا کہ دنیا کے کسی بھی ترقی پذیر ملک میں حکومت کا بنیادی کردار روزگار فراہم کرنا نہیں ہوتا، اسی لیے پاکستان میں بھی اب اس سوچ کو بدلنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ نئی عالمی معیشت میں آئی ٹی اور آن لائن مارکیٹ تیزی سے ترقی کر رہی ہے اور نوجوان طبقہ فری لانسنگ اور ڈیجیٹل اسکلز کے ذریعے خود اپنے روزگار کے مواقع پیدا کر سکتا ہے۔
وزیر خزانہ کی گفتگو کے برعکس سیمینار میں شریک مختلف ماہرینِ معیشت نے پاکستان کے معاشی ڈھانچے پر شدید تشویش کا اظہار کیا۔ آئی بی اے کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر ایس اکبر زیدی نے اپنے خطاب میں ملکی معاشی سمت کو تشویشناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ تمام بڑے معاشی اشاریے زوال کی طرف جا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں حکومتیں نجی شعبے کو ترقی کے لیے سازگار ماحول فراہم کرتی ہیں، مگر پاکستان میں سرمایہ کاروں کے لیے ایسا ماحول نہایت محدود ہے، جس کے باعث معاشی سرگرمیاں دبتے دبتے ختم ہونے کے قریب ہیں۔
ڈاکٹر زیدی کے مطابق پاکستان کا ہیومن ڈیولپمنٹ انڈیکس میں 168 واں نمبر انتہائی افسوسناک اور خطرناک ہے، جو واضح کرتا ہے کہ تعلیم، صحت اور انسانی ترقی جیسے شعبوں میں صورتحال مسلسل بگڑ رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایسے حالات میں نئی ڈیجیٹل معیشت یا آئی ٹی انقلاب کی بات کرنا زمینی حقائق سے متصادم ہے، کیونکہ جب تک بنیادی معاشی ڈھانچہ مضبوط نہیں ہوگا، ٹیکنالوجی پر مبنی ترقی محض ایک خوش فہمی ہی رہے گی۔ انہوں نے اسٹیٹ بینک کے گورنر کے اس اعتراف کا بھی حوالہ دیا کہ موجودہ معاشی نظام 25 کروڑ آبادی کا بوجھ اٹھانے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔
سیمینار میں سرمایہ کاری کے ماحول پر بھی کڑی تنقید کی گئی۔ شرکا نے یاد دلایا کہ اسپیشل انویسٹمنٹ فسیلیٹیشن کونسل کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے خود یہ تسلیم کیا ہے کہ پاکستان میں سرمایہ کاری کے حالات انتہائی خراب ہیں اور مقامی سرمایہ کار تیزی سے اپنا سرمایہ بیرونِ ملک منتقل کر رہے ہیں، جس کا براہِ راست اثر ملکی روزگار کے مواقع پر پڑ رہا ہے۔
شرکا کا مزید کہنا تھا کہ اسی دباؤ کے نتیجے میں بے روزگاری کی شرح بڑھ کر 7.1 فیصد تک پہنچ گئی ہے، جو دو دہائیوں کی بلند ترین سطح ہے۔ ڈاکٹر زیدی کے بقول یہ شرح بھی اصل صورتحال کا مکمل عکس نہیں، کیونکہ ہر سال 35 لاکھ سے زائد نوجوان پہلی مرتبہ روزگار کی تلاش میں مارکیٹ میں داخل ہوتے ہیں۔
بین الاقوامی ماہرین نے بھی پاکستانی نوجوانوں کے مستقبل کے حوالے سے تشویش ظاہر کی۔ ورلڈ بینک کی کنٹری ڈائریکٹر ڈاکٹر بولورما امگابازار نے کہا کہ پاکستان کی آبادی کا 60 فیصد حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے، جس میں بے پناہ صلاحیت موجود ہے، لیکن جب تک انہیں مناسب تربیت اور ملازمت کے حقیقی مواقع فراہم نہیں کیے جاتے، یہ صلاحیت کبھی عملی ترقی میں تبدیل نہیں ہوسکتی۔
سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے معروف ماہر معاشیات ڈاکٹر علی چیمہ نے آبادی کے تیز رفتار بڑھنے کو پاکستان کی سب سے بڑی معاشی رکاوٹ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ اگر آبادی میں اضافے کی موجودہ رفتار پر قابو نہ پایا گیا تو معاشی ترقی کا خواب صرف خواب ہی رہے گا۔
ڈاکٹر حنید مختار نے بتایا کہ پاکستان کی فی کس آمدن بھارت سے 71 فیصد کم اور بنگلادیش سے 53 فیصد کم ہے، جس کی بنیادی وجوہ کم سرمایہ کاری، پالیسیوں میں عدم تسلسل اور آبادی کا غیر معمولی دباؤ ہیں۔