23ویں فارما ایشیا انٹرنیشنل نمائش 2025، پاکستانی فارما شعبے کی ترقی و توسیع کا نیا باب
اشاعت کی تاریخ: 2nd, December 2025 GMT
23ویں فارما ایشیا انٹرنیشنل نمائش 2025 ،پاکستانی فارما شعبے کی ترقی و توسیع کا نیا باب
ایس آئی ایف سی کی اسٹریٹجک معاونت سے فارما انڈسٹری میں ٹیکنالوجی اپگریڈیشن اور ڈیجیٹلائزیشن کو تقویت ملی ہے۔
نمائش میں وفاقی و صوبائی وزراء اور ملکی و غیر ملکی ماہرین کی بڑے پیمانے پر شرکت متوقع ہے۔ 25 ہزار سے زائد صنعتی شعبہ سے منسلک نمائندے اور 750 سے زیادہ اسٹالز نمائش کا حصہ ہونگے۔
اس نمائش میں 100 سے زائد بین الاقوامی نمائش کنندگان کی شرکت بھی متوقع ہے۔ اس نمائش میں چین کا خصوصی پویلین جدید فارما ٹیکنالوجیز اور ڈیجیٹل سلوشنز پیش کرے گا۔ فارما ایشیا میں 150 ملین ڈالر کے تجارتی و سرمایہ کاری معاہدے بھی متوقع ہیں۔
نمائش میں فارما مشینری، خام مال، لیبارٹری آلات اور جدید پیکیجنگ سلوشنز بھی پیش کئے جائیں گے۔ یہ نمائش انڈسٹری 4.
ذریعہ: Express News
پڑھیں:
بے کار آلو بھی کارآمد ہو سکتے ہیں: بیوٹی انڈسٹری میں حیران کن تحقیق
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
دنیا بھر میں جہاں زرعی فضلہ ایک بڑا چیلنج سمجھا جاتا ہے، وہیں اسکاٹ لینڈ کے سائنسدانوں نے آلو کے بارے میں ایسی نئی تحقیق پیش کی ہے جس نے بیوٹی انڈسٹری میں ہلچل مچا دی ہے۔
آلو عام طور پر ہماری خوراک کا حصہ ہوتے ہیں، مگر اس تحقیق کے مطابق ان کے وہ حصے جو فصل کی کٹائی کے بعد پھینک دیے جاتے ہیں، اب مہنگی بیوٹی مصنوعات بنانے میں استعمال ہوسکتے ہیں۔ یہ دریافت نہ صرف خوب صورتی کے شعبے میں نئی راہیں کھول رہی ہے بلکہ زرعی فضلے کو قیمتی وسائل میں بدلنے کا عملی مظاہرہ بھی کر رہی ہے۔
یونیورسٹی آف ابردین کے محققین نے آلو کے پتوں اور نرم ٹہنیوں سے ایک اہم کمپاؤنڈ ’سولانیسول‘ نکالنے کا طریقہ دریافت کیا ہے۔ یہ کمپاؤنڈ جدید اسکن کیئر پروڈکٹس میں استعمال ہونے والے Coenzyme Q10 اور Vitamin K2 جیسی مہنگی اجزاء کی بنیاد سمجھا جاتا ہے، جو اینٹی ایجنگ، جلد کی مرمت اور نمی برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
حیرت انگیز طور پر اب تک سولانیسول کا سب سے بڑا تجارتی ذریعہ تمباکو تھا، لیکن نئی تحقیق نے آلو کو ایک سستا، پائیدار اور آسان متبادل قرار دیا ہے۔
تحقیق کے مطابق اسکاٹ لینڈ میں ہر سال ہزاروں ایکڑ پر آلو کے بیجوں کی کاشت کی جاتی ہے اور فصل کا بڑا حصہ کٹائی کے بعد فضلے میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اگر اسی فضلے سے بیوٹی مصنوعات کے کارآمد اجزا حاصل کیے جائیں تو یہ نہ صرف خوب صورتی کی صنعت میں انقلاب لاسکتا ہے بلکہ زرعی معیشت کو بھی غیر معمولی فائدہ پہنچا سکتا ہے۔
پروجیکٹ سے وابستہ سوفیا الیکسیو نے اسے ’’زرعی شعبے کے لیے بڑی کامیابی‘‘ قرار دیا، جبکہ پروفیسر ہیذر ولسن کے مطابق یہ مثال ثابت کرتی ہے کہ کسانوں کے لیے بیکار سمجھا جانے والا مواد دراصل مستقبل کی معیشت کا خزانہ بن سکتا ہے۔
دلچسپ پہلو یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر آلو کا استعمال پہلے ہی خوب مقبول ہو چکا ہے۔ ٹک ٹاک پر مختلف صارفین اسے جلد کے داغ دھبے، پفنیس اور ڈارک سرکلز کم کرنے کے لیے استعمال کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ کچھ لوگ آلو کے قتلے آنکھوں کے نیچے رکھ کر فوری بہتری کا دعویٰ کرتے ہیں، جب کہ کئی ویڈیوز میں نوجوان اسے پمپل پیچ کے طور پر آزما رہے ہیں۔
ایک صارف نے یہاں تک کہا کہ آلو ’’آنکھوں کے نیچے کنسیلر‘‘ کا کام کرتا ہے اور چند منٹ میں تھکن کم محسوس ہوتی ہے۔
غذائیت کے ماہرین بھی اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ آلو خصوصاً شکر قندی میں موجود بیٹا کیروٹین اور لائکوپین جلد کی چمک بڑھانے اور سورج کی ہلکی شعاعوں سے قدرتی تحفظ دینے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سوشل میڈیا ٹرینڈز اور جدید سائنسی تحقیق مل کر ایک ایسے مستقبل کی نشاندہی کر رہے ہیں جہاں ’’فارم ٹو فیس‘‘ اسکن کیئر عام ہوجائے گا اور ممکن ہے جلد چمک بڑھانے والا ماسک، جھریاں کم کرنے والا سیرم یا ڈارک سرکلز ہٹانے والی کریم، یہ سب کچھ آلو سے تیار ہونے لگے۔
یہ نیا تصور نہ صرف بیوٹی صنعت کو ماحول دوست بنا سکتا ہے بلکہ عام کسانوں اور زرعی معیشت کے لیے ایک نیا راستہ بھی کھول سکتا ہے۔ آنے والے برسوں میں آلو شاید صرف کھانے کی چیز نہ رہیں بلکہ جدید اسکن کیئر کے سب سے اہم اجزا میں شمار ہوں۔