Jasarat News:
2025-12-03@13:01:50 GMT

بین الاقوامی سرمایہ کاری اور سی پیک؛ ترقی یا قرض کا جال؟

اشاعت کی تاریخ: 19th, October 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251019-03-4
پاکستان کے لیے ایک غیر معمولی موقع، لیکن کیا ہم اسے دانشمندی سے استعمال کر پائیں گے؟ قومیں مواقع ضائع کرنے سے نہیں بلکہ ان کے درست استعمال نہ کرنے سے زوال پذیر ہوتی ہیں۔ یہی نکتہ آج پاکستان اور چین کے مشترکہ منصوبے سی پیک پر صادق آتا ہے۔ یہ صرف ایک اکنامک کاریڈور نہیں بلکہ ایک معاشی وژن ہے، جو پاکستان کے روشن مستقبل اور ترقی کی راہیں متعین کر سکتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم اس موقع کو ترقی میں ڈھال پائیں گے یا یہ قرضوں کا جال بن جائے گا؟

پاکستان کی جغرافیائی حیثیت اسے عالمی سیاست و معیشت میں نمایاں کرتی رہی ہے۔ مشرقِ وسطیٰ، وسطی ایشیا اور جنوبی ایشیا کے سنگم پر واقع یہ ملک گوادر بندرگاہ کے ذریعے عالمی تجارتی سرگرمیوں کا مرکز بننے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چین نے اپنے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کے سب سے بڑے منصوبے کے طور پر سی پیک کا انتخاب کیا۔ اس منصوبے کی ابتدائی لاگت تقریباً 62 ارب ڈالر بتائی جاتی ہے، جس میں توانائی، شاہراہیں، ریل منصوبے اور گوادر کی ترقی شامل ہیں۔ حالیہ دنوں میں وزیر ِاعظم کے دورۂ چین کے دوران 8.

5 ارب ڈالر کے معاہدے طے پائے۔ یہ سرمایہ کاری زراعت، توانائی، صنعت، صحت اور الیکٹرک گاڑیوں کے شعبوں میں تقسیم کی گئی ہے۔ زراعت میں ہائبرڈ بیج، ڈرون ٹیکنالوجی اور اسمارٹ فارمنگ کے منصوبے شامل ہیں۔ توانائی میں شمسی اور ہوائی بجلی کے منصوبے متعارف ہوں گے تاکہ مہنگے درآمدی ایندھن پر انحصار کم ہو۔ صنعت میں اسپیشل اکنامک زونز، اسٹیل ملز اور جدید کارخانے، صحت میں بائیوٹیک ریسرچ اور اسپتال، جبکہ ٹرانسپورٹ میں مقامی الیکٹرک گاڑیوں کی صنعت کو فروغ دیا جائے گا۔

یہ سرمایہ کاری پاکستان کے لیے کئی حوالوں سے گیم چینجر ثابت ہو سکتی ہے۔ لاکھوں نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے، توانائی بحران میں کمی آئے گی، صنعتی برآمدات بڑھنے سے زرمبادلہ میں اضافہ ہوگا، اور گوادر کے ذریعے پاکستان خطے کا تجارتی مرکز بن سکتا ہے۔ محتاط اندازے کے مطابق صرف اگلے پانچ برسوں میں 20 لاکھ سے زائد براہِ راست و بالواسطہ روزگار کے مواقع پیدا ہو سکتے ہیں۔ تاہم یہ سب کچھ اتنا آسان نہیں۔ پاکستان پہلے ہی 100 ارب ڈالر سے زائد کے بیرونی قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔ اگر منصوبوں میں شفافیت اور بروقت تکمیل کو یقینی نہ بنایا گیا تو یہ سرمایہ کاری قرضوں کے بوجھ میں مزید اضافہ کر سکتی ہے۔ سیاسی عدم استحکام، پالیسی میں تسلسل کی کمی، ماحولیاتی خطرات اور مقامی کمیونٹیز کی شمولیت نہ ہونا مستقبل میں بڑی رکاوٹیں بن سکتی ہیں۔

سی پیک کا اصل فائدہ تبھی حاصل ہو سکتا ہے جب ٹیکنالوجی کی منتقلی یقینی بنائی جائے، تعلیمی اداروں کو صنعت سے جوڑا جائے تاکہ نوجوان جدید ہنر سیکھ سکیں، اور پالیسیوں میں تسلسل قائم رکھا جائے۔ اگر ایران، افغانستان اور وسطی ایشیا کو بھی اس منصوبے میں شامل کیا گیا تو پاکستان خطے کا معاشی پل بن سکتا ہے۔ سی پیک پاکستان کے لیے ایک نایاب موقع ہے۔ یہ محض سڑکوں اور بجلی گھروں کا منصوبہ نہیں بلکہ معاشی خودکفالت کی طرف ایک قدم ہے۔ لیکن اس کی کامیابی اس بات پر منحصر ہے کہ ہم اسے کس دانشمندی اور شفافیت کے ساتھ آگے بڑھاتے ہیں۔ اگر ہم نے یہ موقع گنوا دیا تو سی پیک قرضوں کا جال بن جائے گا، لیکن اگر ہم نے اس سے بھرپور فائدہ اٹھایا تو یہ پاکستان کے روشن مستقبل کی ضمانت ہوگا۔

کل ابتدائی لاگت (2013ء): 62 ارب ڈالر
بیجنگ معاہدے (2025ء): 8.5 ارب ڈالر
اہم شعبے: زراعت، توانائی، صنعت، صحت، الیکٹرک گاڑیاں۔
روزگار کے مواقع: متوقع 20 لاکھ براہِ راست و بالواسطہ۔
توانائی کا بوجھ: پاکستان کا 30 فی صد زرمبادلہ تیل و گیس پر خرچ۔
برآمدات میں اضافہ: 15–20 فی صد تک متوقع۔

اہم مرکز: گوادر بندرگاہ مشرقِ وسطیٰ، وسطی ایشیا اور چین کے درمیان پل ’’فیصلہ ہمارے ہاتھ میں ہے؛ سی پیک یا تو ہمیں قرض کے اندھیروں میں دھکیل دے گا یا پھر ترقی کے روشن چراغ جلائے گا۔ اب یہ قوم کی دانشمندی پر منحصر ہے کہ وہ کون سا راستہ اختیار کرتی ہے‘‘۔

دلشاد عالم سیف اللہ

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: سرمایہ کاری پاکستان کے ارب ڈالر سکتا ہے کے لیے سی پیک

پڑھیں:

پاکستان فِن ٹیک کا نیا پاور ہاؤس بننے لگا، ڈیجیٹل بینکنگ اور آن لائن ادائیگیوں میں تیز رفتار ترقی

جنوبی ایشیا میں فِن ٹیک کا شعبہ تیزی سے پھیل رہا ہے اور اب یہ ترقی صرف بھارت تک محدود نہیں رہی۔

فوربس کی رپورٹ کے مطابق پاکستان، بنگلہ دیش اور نیپال میں ڈیجیٹل فنانس کے شعبے میں نمایاں پیش رفت دیکھنے میں آ رہی ہے، خصوصاً ڈیجیٹل بینکنگ اور آن لائن ادائیگیوں کے سیکٹر میں تیز رفتار ترقی جاری ہے۔

بھارت کئی برسوں سے خطے میں فِن ٹیک کا بڑا مرکز رہا ہے، تاہم اب اس کے پڑوسی ممالک بھی جدید مالیاتی ٹیکنالوجی کو اپنانے میں سنجیدہ ہیں۔

پاکستان اور بنگلہ دیش، جو دنیا کی سب سے بڑی ’اَن بینکڈ‘ آبادی رکھتے ہیں، تیزی سے ڈیجیٹل بینکنگ کی طرف بڑھ رہے ہیں جبکہ نیپال میں بھی ترقی کی رفتار بڑھ رہی ہے۔

رپورٹ کے مطابق پاکستان کو جنوبی ایشیا کا "سوتا ہوا فِن ٹیک جائنٹ" قرار دیا جا رہا ہے۔

پاکستان میں فِن ٹیک اسٹارٹ اپس کی سرمایہ کاری 2019 میں صرف 10.4 ملین ڈالر سے بڑھ کر 2022 میں 150 ملین ڈالر تک پہنچ گئی تھی۔ تاہم 2023 میں عالمی معاشی دباؤ کے باعث سرمایہ کاری کم ہو کر 12.5 ملین ڈالر رہ گئی۔

گزشتہ دو سالوں میں صورتحال بہتر ہوئی ہے اور فنڈنگ میں واضح بحالی دیکھنے میں آئی ہے۔ 2024 میں سرمایہ کاری بڑھ کر 26.3 ملین ڈالر اور 2025 کے پہلے چھ ماہ میں 52.5 ملین ڈالر ہوگئی۔ نومبر 2025 تک پاکستان کی 450 سے زائد فِن ٹیک کمپنیوں نے مجموعی طور پر 391 ملین ڈالر کی وی سی فنڈنگ حاصل کی۔

ماہرین کے مطابق جنوبی ایشیائی مارکیٹ میں ڈیجیٹل بینکنگ کے فروغ کے لیے مواقع وسیع ہیں کیونکہ یہاں صارفین کی حقیقی ضرورت موجود ہے، پالیسی ساز تعاون کر رہے ہیں اور روایتی بینک ڈیجیٹل مقابلے کی صلاحیت رکھنے میں پیچھے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • ٹیکنالوجی اصلاحات: پاکستان کی آئی ٹی سیکٹر میں غیرمعمولی رفتار سے ترقی
  • پاکستان 2040 تک ایک ٹریلین ڈالر کی معیشت بننے کی راہ پر گامزن
  • سی پیک کے تحت الیکٹرک گاڑیوں کی تیاری، چینی فرم سرمایہ کاری کی خواہاں
  • ترک وزیر کی ملاقات: وزیراعظم کا توانائی، پٹرولیم میں تعاون کے فروغ پر زور، سرمایہ کاری بڑھانے کی دعوت: پاکستان، ترکیہ کے کان کنی شعبہ میں سمجھوتے
  • پاکستان میں مالیاتی ٹیکنالوجی کے شعبے میں نمایاں پیشرفت ہوئی ہے، وزارت آئی ٹی
  • وزیراعظم شہباز شریف کی ترک کمپنیوں کو توانائی کی مارکیٹ میں سرمایہ کاری بڑھانے کی دعوت
  • وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا سہیل آفریدی سےاہم امریکی شخصیت کی بڑی ملاقات
  • یو اے ای کیساتھ تجارت، سرمایہ کاری اور دفاع میں تعاون مزید بڑھنے کا یقین ہے: صدر مملکت
  • پاکستان فِن ٹیک کا نیا پاور ہاؤس بننے لگا، ڈیجیٹل بینکنگ اور آن لائن ادائیگیوں میں تیز رفتار ترقی
  • سوچ بدلنی ہوگی، حکومت کا کام نوکریاں دینا نہیں،و وفاقی  زیر خزانہ