امیگریشن محض نقل مکانی نہیں، باصلاحیت افراد کی مہارت اور علم کے تبادلے کا ذریعہ ہے
اشاعت کی تاریخ: 19th, October 2025 GMT
امیگریشن ماہر ابو بکر عادل نے کہا ہے کہ امیگریشن محض نقل مکانی کا عمل نہیں بلکہ صلاحیت، علم اور قیادت کے تبادلے کا ایک اہم ذریعہ ہےآج پاکستان کی افرادی قوت دنیا بھر میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہی ہے۔ کارپوریٹ دفاتر اور تحقیقی لیبارٹریوں سے لے کر اسپتالوں اور جامعات تک، پاکستانی ماہرین ایسے اہم کردار ادا کر رہے ہیں جو حقیقی معنوں میں عالمی اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔ اے پی پی سے گفتگو میں امیگریشن ماہر ابو بکر عادل نے کہا کہ بیرون ملک پاکستانیوں کی بڑھتی ہوئی موجودگی ہجرت نہیں بلکہ پاکستان کے اثر و رسوخ کا منظم، میرٹ پر مبنی اور قانونی توسیعی عمل ہے جو تعلیم اور پیشہ ورانہ مہارت کو عملی بین الاقوامی نتائج میں تبدیل کرتا ہے۔انہوں نے حکومت اور نجی اداروں کے کردار کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ عالمی سطح پر مواقع فراہم کرنے میں ان اقدامات کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ عادل نے اس بات پر زور دیا کہ نوجوانوں کو عالمی معیار کی تعلیم اور پیشہ ورانہ مہارت کے لیے تیار کرنا ضروری ہے۔ ان کے مطابق جب امیگریشن کو منظم طریقے سے انجام دیا جائے تو یہ قیادت، علم کے تبادلے اور مضبوط قومی شناخت کو فروغ دیتی ہے۔ یہ پاکستانی ماہرین کو بیرون ملک اپنا مستقبل بنانے کا موقع فراہم کرتی ہے جبکہ ملک کی عالمی ساکھ کو بھی بہتر بناتی ہے۔امیگریشن کے اس شعبے میں جہاں اکثر غیر حقیقی وعدے کیے جاتے ہیں، ابو بکر عادل ایک متوازن اور دیانتدار آواز کے طور پر ابھرے ہیں۔ ان کا نتیجہ خیز انداز شفافیت، درستگی اور ذمہ داری پر مبنی ہے، جو کھوکھلے دعوؤں کے بجائے دیانتدار تجزیے کو ترجیح دیتا ہے۔ سپیریئر کنسلٹنگ گلوبل، ان کی قیادت میں، بین الاقوامی روزگار کے مواقع اور تعلیمی نظاموں پر تفصیلی تجزیے فراہم کر رہا ہے، جس سے امیگریشن کنسلٹنسی میں پیشہ ورانہ معیار قائم ہو رہا ہے۔عادل کا انداز خاص طور پر آئی ٹی ماہرین کے لیے مؤثر ہے۔ وہ انہیں مشورہ دیتے ہیں کہ وہ غیر حقیقی دعووں کے بجائے اپنی اصل کامیابیوں پر توجہ دیں۔درخواست دہندگان کو چاہیے کہ وہ اپنی صلاحیتوں کے معتبر ثبوت پیش کریں، جیسے نمایاں منصوبے، اوپن سورس شراکتیں، تحقیقی اشاعتیں، اور قابل اعتماد سفارشات۔ مقصد اپنی اسناد کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا نہیں بلکہ اپنے کام کو ایسے نتائج کے ذریعے پیش کرنا ہے جن پر پالیسی ساز اعتماد کر سکیں۔یہی اصول، عادل کے مطابق، ڈاکٹروں اور طبی ماہرین پر بھی لاگو ہوتے ہیں جو بیرون ملک رجسٹریشن کے خواہاں ہیں۔ انہوں نے زور دیا کہ تربیتی ریکارڈ، آڈٹ رپورٹس، اور مسلسل پیشہ ورانہ ترقی (CPD) کے شواہد کو میزبان ممالک کے ضوابط کے مطابق ہم آہنگ کرنا چاہیے۔شارٹ کٹس بظاہر آسان لگ سکتے ہیں مگر یہ پیشہ ورانہ ساکھ کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ان کے مطابق، بہتر راستہ وہ ہے جو اعلیٰ تعلیم کو زیر نگرانی عملی تربیت کے ساتھ جوڑتا ہے، تاکہ پیشہ ورانہ دیانتداری برقرار رہے اور پاکستان کے اداروں سے تعلق مضبوط رہے۔عادل نے کہا کہ ایسی تیاری نہ صرف خاندانوں کو مالی و جذباتی دباؤ سے بچاتی ہے بلکہ بیرون ملک پاکستان کے پیشہ ورانہ تشخص کو بھی محفوظ رکھتی ہے۔“کمزور یا نامکمل درخواستیں نہ صرف فرد کے لیے نقصان دہ ہیں بلکہ نظام کی ساکھ کو بھی متاثر کرتی ہیں۔ان کا عملی اور شفاف انداز پاکستان میں امیگریشن کنسلٹنسی کو ازسرنو متعین کر رہا ہے، اسے منافع پر مبنی دعووں سے نکال کر پالیسی پر مبنی پیشہ ورانہ عمل کی طرف لے جا رہا ہے۔ان تبدیلیوں کے اثرات سرحدوں کے پار نمایاں ہو رہے ہیں۔ جب کوئی پاکستانی سافٹ ویئر انجینئر عالمی کمپنی میں شامل ہوتا ہے تو وہ علم وطن واپس لاتا ہے۔ جب ڈاکٹرز بیرون ملک اعلیٰ تربیت مکمل کرتے ہیں تو وہ نئی تکنیک کے ساتھ مقامی صحت کے معیار کو بلند کرتے ہیں۔ اور جب نوجوان کاروباری افراد بین الاقوامی سطح پر کامیابی حاصل کرتے ہیں تو وہ پاکستانی سپلائرز اور انجینئرز کے لیے نئے مواقع پیدا کرتے ہیں، یوں پاکستان کی معاشی اور پیشہ ورانہ موجودگی عالمی سطح پر مستحکم ہوتی ہے۔عادل اپنے پیغام کو عام کرنے کے لیے میڈیا، پوڈکاسٹس، اور ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر باقاعدگی سے گفتگو کرتے ہیں، تاکہ امیگریشن کے عمل کو سادہ اور قابل فہم انداز میں بیان کیا جا سکے۔ ان کے بقول،میرا مقصد سب سے مشہور کنسلٹنٹ بننا نہیں بلکہ اعلیٰ درجے کی دیانت اور وضاحت کے اصولوں پر قائم رہنا ہے۔ کامیابی کا معیار تعداد نہیں، بلکہ معیار اور اعتبار ہے۔مہارت، قانون پسندی، اور شفافیت پر مبنی امیگریشن کے فروغ کے لیے ان کی مسلسل جدوجہد پاکستان کی عالمی شناخت کو نئی جہت دے رہی ہے — جس سے امیگریشن محض نقل مکانی نہیں بلکہ مواقع، ترقی، اور قومی فخر کا پُل بن رہا ہے۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: پیشہ ورانہ نہیں بلکہ بیرون ملک کرتے ہیں کے مطابق ہیں بلکہ رہا ہے کے لیے
پڑھیں:
غربت کا خاتمہ صرف سماجی تقاضا نہیں بلکہ ہماری قومی اور اخلاقی ذمہ داری ہے، گورنر سندھ
اپنے خصوصی پیغام میں کامران خان ٹیسوری نے حکومت، اداروں اور مخیر حضرات سے اپیل کی کہ وہ معاشی استحکام کے لیے مشترکہ طور پر اپنا کردار ادا کریں تاکہ ایک خوشحال اور مساوی معاشرہ تشکیل دیا جا سکے۔ اسلام ٹائمز۔ گورنر سندھ کامران خان ٹیسوری نے غربت کے خاتمے کے عالمی دن کے موقع پر اپنے خصوصی پیغام میں کہا ہے کہ غربت کا خاتمہ صرف ایک سماجی تقاضا نہیں بلکہ ہماری قومی اور اخلاقی ذمہ داری بھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج کا دن دنیا بھر میں ان افراد سے یکجہتی کے اظہار کا دن ہے جو غربت کی چکی میں پس رہے ہیں۔ گورنر سندھ نے زور دیا کہ غریب اور مستحق خاندانوں کے لیے پائیدار پالیسی سازی وقت کی اہم ضرورت ہے تاکہ ان کی زندگیوں میں دیرپا بہتری لائی جا سکے۔
انہوں نے کہا کہ گورنر انیشیٹیوز کے تحت مستحق خاندانوں میں راشن کی فراہمی کا سلسلہ مستقل طور پر جاری ہے، جو اس عزم کا مظہر ہے کہ کوئی بھی فرد بنیادی ضروریات سے محروم نہ رہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ گورنر ہاؤس میں نوجوانوں کو مفت آئی ٹی تعلیم فراہم کی جا رہی ہے تاکہ وہ خود کفیل بن سکیں اور معاشی ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔ گورنر سندھ نے حکومت، اداروں اور مخیر حضرات سے اپیل کی کہ وہ معاشی استحکام کے لیے مشترکہ طور پر اپنا کردار ادا کریں تاکہ ایک خوشحال اور مساوی معاشرہ تشکیل دیا جا سکے۔