اپنے ایک خطاب میں رہبر مسلمین جہاں کا کہنا تھا کہ دہشتگردی کیخلاف جنگ کا امریکی دعویٰ، سراسر جھوٹ ہے۔ غزہ کی جنگ میں 20 ہزار سے زائد معصوم بچے شہید ہوئے۔ کیا وہ بچے دہشتگرد تھے؟۔ اسلام ٹائمز۔ گزشتہ روز رہبر معظم انقلاب آیت الله سید علی خامنہ ای نے ایرانی کھلاڑیوں سے ملاقات کی۔ اس موقع پر انہوں نے خطے اور ایران کے خلاف ڈونلڈ ٹرامپ کی ہرزہ سرائی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ امریکی صدر نے مقبوضہ فلسطین کے سفر اور بے معنی باتوں کے ذریعے، مایوس صیہونیوں کو امید دلانے و ان کا مورال بڑھانے کی کوشش کی۔ انہوں نے کہا کہ صیہونیوں کی مایوسی کی وجہ 12 روزہ جنگ میں اسلامی جمہوریہ ایران کا زبردست طمانچہ ہے۔صیہونیوں کو توقع نہیں تھی کہ ایرانی میزائل اپنی آگ و حرارت کے ساتھ ان کے اہم اور حساس مراکز کے دل میں اتر کر انہیں تباہ و برباد کر دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری مسلح افواج اور عسکری صنعت نے ان میزائلوں کو بنایا اور استعمال کیا۔ ہمارے میزائل اب بھی تیار ہیں، اگر ضرورت پڑی تو اُنہیں دوبارہ استعمال کریں گے۔ حضرت آیت الله سید علی خامنہ ای نے کہا کہ ایران نے یہ میزائل کہیں سے خریدے یا کرائے پر نہیں لئے بلکہ یہ ہمارے اپنے نوجوانوں کی تخلیق کا شاہکار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جب ہمارا نوجوان میدان میں اترتا ہے اور سائنسی بنیادی ڈھانچہ تیار کرنے کی پوری کوشش کرتا ہے تو وہ ایسے عظیم کام کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ انہوں نے صیہونیوں کو حوصلہ دینے کے لئے ڈونلڈ ٹرامپ کی بیہودہ باتوں کے جانب اشارہ کرنے کے بعد، امریکہ کی دیگر تباہ کاریوں سے پردہ اٹھایا۔

اس بارے میں رہبر معظم انقلاب نے کہا کہ بلاشبہ غزہ کی جنگ میں امریکہ، صیہونی جرائم میں مکمل طور پر شریک ہے۔ بلکہ امریکی صدر خود بھی اعتراف کر چکے ہیں کہ وہ صیہونی رژیم کے ساتھ مل کر کام کر رہے تھے۔ امریکہ کے ہتھیاروں اور جنگی ساز و سامان ہی سے غزہ کے بے بس لوگوں پر بم برسائے گئے۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کا امریکی دعویٰ، سراسر جھوٹ ہے۔ غزہ کی جنگ میں 20 ہزار سے زائد معصوم بچے شہید ہوئے۔ کیا وہ بچے دہشت گرد تھے؟۔ اصل دہشت گرد تو خود امریکہ ہے جس نے داعش جیسے گروہ بنا کر پورے خطے میں پھیلائے اور آج بھی اس کے کچھ عناصر کو ایک خاص مقام پر اپنے مفادات کے لئے استعمال کر رہا ہے۔ رہبر معظم انقلاب نے غزہ کی جنگ میں تقریباً 70 ہزار افراد اور 12 روزہ جنگ میں 1 ہزار سے زیادہ ایرانیوں کی شہادت کو امریکہ و اسرائیل کے دہشت گردانہ مزاج کا واضح ثبوت قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ ان شیاطین نے عوام کے اجتماعی قتل و غارت کے علاوہ ہمارے سائنسدانوں کو بھی شہید کیا۔ پھر وہ ان جرائم پر فخر بھی کرتے ہیں حالانکہ انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ شخصیات کے قتل سے علم کا گلہ نہیں گھونٹا جا سکتا۔ رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ امریکی صدر فخر سے ایرانی جوہری تنصیبات پر بمباری کر کے اسے تباہ کرنے کا دعویٰ کرتا ہے۔

سوال یہ ہے کہ یہ فیصلہ کرنے والے تم ہوتے کون ہو کہ کس کے پاس جوہری ٹیکنالوجی ہونی چاہئے اور کس کے پاس نہیں۔ امریکہ کا اس بات سے کیا لینا دینا کہ ایران کے پاس جوہری صلاحیت ہے یا نہیں؟۔ یہ نامناسب، غلط اور زبردستی مداخلت ہے۔ اپنی گفتگو کے دوران حضرت آیت الله سید علی خامنہ ای نے امریکہ کی مختلف ریاستوں اور شہروں میں ڈونلڈ ٹرامپ کے خلاف ہونے والے وسیع مظاہروں کا تذکرہ کیا، جس میں سات ملین افراد شریک ہوئے۔ اس سلسلے میں انہوں نے کہا کہ اگر تمہیں اپنی طاقت پر اتنا ہی ناز ہے تو جھوٹ پھیلانے، دوسرے ممالک کے معاملات میں مداخلت کرنے اور وہاں فوجی اڈے بنانے کی بجائے، ان لاکھوں لوگوں کو سنبھالو اور انہیں اپنے گھروں میں واپس بھیجو۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کا اصلی نمونہ، امریکہ ہے۔ ایرانی عوام کی حمایت کا امریکی دعویٰ فقط جھوٹ ہے۔ کیونکہ امریکی ثانوی پابندیاں براہ راست ایرانی عوام کو متاثر کرتی ہیں۔ اس بناء پر تم ایرانی عوام کے دوست نہیں بلکہ دشمن ہو۔ ٹرامپ کی جانب سے ایران کے ساتھ معاہدہ کرنے کے بارے میں انہوں نے کہا کہ وہ کہتا ہے کہ میں معاہدہ کرنے کا حامی ہوں، لیکن اگر معاہدہ زبردستی تھوپا جا رہا ہو اور اس کا نتیجہ پہلے سے طے شدہ ہو، تو یہ معاہدہ نہیں بلکہ زبردستی اور دباؤ ہے۔ جسے ایرانی عوام ہرگز قبول نہیں کرے گی۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: رہبر معظم انقلاب انہوں نے کہا کہ غزہ کی جنگ میں ایرانی عوام کہ امریکی

پڑھیں:

’تمام پابندیوں سے آزاد ہیں‘، ایرانی جوہری پروگرام پر 10 سالہ عالمی معاہدہ باضابطہ ختم

ایران نے 2015 کے تاریخی جوہری معاہدے کی میعاد ختم ہونے کے بعد کہا ہے کہ وہ اب اس معاہدے کی تمام پابندیوں سے آزاد ہے۔

عالمی میڈیا کے مطابق ایران نے 2015 کے جوہری معاہدے کو سرکاری طور پر ختم کرنے کا اعلان کر دیا ہے، جسے جوائنٹ کمپری ہنسو پلان آف ایکشن (JCPOA) کے نام سے جانا جاتا ہے۔

ایران کی وزارت خارجہ کےجاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ”ایران اب اس معاہدے کے تحت کسی بھی قسم کی پابندیوں کا پابند نہیں ہے اور معاہدے کے تمام اہداف اور میکانیزم ختم ہو چکے ہیں“۔

یہ معاہدہ 2015 میں امریکی صدر باراک اوباما کی حکومت کے دوران ایران، چین، برطانیہ، فرانس، جرمنی، روس اور امریکا کے درمیان طے پایا تھا۔ معاہدے کے تحت، ایران کے جوہری پروگرام پر پابندیاں عائد کی گئیں، جبکہ ایران کے خلاف عالمی اقتصادی پابندیاں ہٹائی گئیں۔

اس معاہدے کا مقصد مشرق وسطیٰ میں جوہری ہتھیاروں کی پھیلاؤ کو روکنا تھا اور ایران کے ساتھ مغربی دنیا کے تعلقات کو بہتر بنانا تھا۔

تاہم، 2018 میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یکطرفہ طور پر امریکا کو اس معاہدے سے نکال لیا اور ایران کے خلاف دوبارہ پابندیاں عائد کر دیں۔ ٹرمپ نے اوباما کے معاہدے کو تنقید کا نشانہ بنایا اور ایران کے حریف اسرائیل نے بھی اس معاہدے کی سخت مخالفت کی۔ امریکا کے اخراج کے بعد، ایران نے اپنے جوہری پروگرام کو تیز کر دیا۔

یورپ نے معاہدے کو بحال کرنے کی متعدد کوششیں کیں، لیکن ان مذاکرات میں کوئی کامیابی نہیں ہوئی۔ اس سال اسرائیل اور امریکہ کی جانب سے ایران پر بمباری نے معاہدے کے دوبارہ آغاز کی امیدوں کو مزید کم کر دیا۔ جون میں ایران کی پارلیمنٹ نے ایک بل پاس کیا جس کے تحت عالمی جوہری توانائی ایجنسی (IAEA) کے ساتھ تعاون سے انکار کیا گیا۔

ایران نے معاہدے کی منسوخی کے باوجود کہا کہ وہ ”سختی سے سفارت کاری کے اصولوں پر قائم ہے“ اور عالمی سطح پر مذاکرات کے لیے تیار ہے۔

متعلقہ مضامین

  • امریکی سلطنت کے زوال کی علامات
  • غزہ میں 98فلسطینیوں کا خون بہانے کے بعد اسرائیل نے جنگ بندی معاہدہ بحال کر دیا
  • ایران بھارت فطری شراکت دار ہیں، سابق ایرانی سفیر کا الوداعی نوٹ
  • ایٹمی پروگرام سے متعلق کیا گیا معاہدہ اپنی مدت مکمل کر چکا، اب ہم کسی کے پابند نہیں، ایران
  • ’تمام پابندیوں سے آزاد ہیں‘، ایرانی جوہری پروگرام پر 10 سالہ عالمی معاہدہ باضابطہ ختم
  • تمام پابندیوں سے آزاد ہیں، ایرانی جوہری پروگرام پر 10 سالہ عالمی معاہدہ باضابطہ ختم
  • ٹرمپ مخالف مظاہروں میں شدت
  • امن معاہدے کے اثرات
  • امریکہ۔سعودی عرب دفاعی معاہدے کے پس منظر میں، ریاض کا چاہتا ہے؟