پی آئی اے کی نجکاری میں تاخیر کیوں ہو رہی ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 21st, October 2025 GMT
قومی ایئرلائن پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) کی نجکاری ایک مرتبہ پھر بعض تکنیکی و انتظامی مسائل کی بنا پر تاخیر کا شکار نظر آ رہی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: برطانیہ کے لیے پروازیں 25 اکتوبر سے دوبارہ شروع کی جائیں گی، پی آئی اے کا اعلان
نجکاری کے عمل میں شامل مختلف فریقین کے مابین بعض امور پر ڈیڈلاک ہونے کے باعث نجکاری کی بولی کی تاریخ 30 اکتوبر سے بڑھا کر اب 17 نومبر کر دی گئی ہے۔
اس سے پہلے بھی گزشتہ سال نجکاری کے لیے بڈنگ کا انعقاد بھی ہوا تاہم صرف ایک کمپنی بلیو ورلڈ سٹیز نے اس میں حصہ لیا تاہم 85 ارب روپے کی بیس پرائیس کے مقابلے میں 10 ارب روپے کی بولی دی جس وجہ سے نیلامی کا عمل مکمل نہ ہو سکا۔
ذرائع کے مطابق پی آئی اے کی نجکاری میں اب تک 4 بڑی کمپنیوں نے دلچسپی ظاہر کی ہے جن میں عارف حبیب لمیٹڈ، فوجی فرٹیلائزر کمپنی، ایئر بلیو اور لکی گروپ شامل ہیں۔ یہ کمپنیاں پہلے ہی پری کوالیفائی کر چکی ہیں تاہم انہوں نے حکومت سے بعض شرائط میں نرمی کی درخواست بھی کی ہے۔
ذرائع کے مطابق پی آئی اے کی نجکاری میں اہم رکاوٹ ریٹائرڈ ملازمین کے حقوق سے متعلق ہے۔ نجکاری کے بعد ملازمین کی پنشن اور میڈیکل سہولیات کا مستقبل غیر واضح ہونے کی وجہ سے ہولڈنگ کمپنی اور ملازمین کی تنظیموں کے درمیان اختلافات جنم لے چکے ہیں۔
اسلام آباد میں ہونے والے حالیہ اجلاس میں انشورنس کمپنی کے ذریعے میڈیکل کی سہولت فراہم کرنے کی تجویز پیش کی گئی تاہم ملازمین نے اس حوالے سے تحریری پیشکش مانگی ہے۔
مزید پڑھیے: مقبوضہ کشمیر: پی آئی اے کے لوگو والے غبارے نے بھارتی حکام کی دوڑیں لگوا دیں
ذرائع کا کہنا ہے کہ ملازمین کی تنظیمیں اس بات پر بضد ہیں کہ ان کے میڈیکل اور پنشن جیسے بنیادی حقوق محفوظ رہیں جب کہ ہولڈنگ کمپنی نے اس مسئلے کے حل کے لیے مزید مہلت طلب کی ہے۔
واضح رہے کہ نجکاری کے عمل کے دوران حکومت نے یہ یقین دہانی کروائی ہے کہ پی آئی اے کا قومی تشخص برقرار رہے گا۔ یعنی ایئرلائن کا نام تبدیل نہیں کیا جائے گا اور طیاروں سے قومی پرچم نہیں ہٹایا جائے گا۔
مزید برآں پی آئی اے کی اکثریتی ملکیت صرف پاکستانی شہریوں تک محدود رہے گی اور کسی غیر ملکی فرد یا ادارے کو حصہ لینے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
یہ تمام عوامل نجکاری کے عمل کو سست کرنے کا باعث بن رہے ہیں تاہم حکومت اور متعلقہ ادارے اس اہم اسٹریٹجک فیصلے کو مکمل کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔
مزید پڑھیں: برطانوی ہائی کمشنر کا پی آئی اے کے ساتھ یادگار سفر، تجربہ کیسا رہا؟
سیکریٹری نجکاری کمیشن عثمان باجوہ چند ماہ قبل قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے نجکاری کو بتا چکے ہیں کہ ہمارے ریجن کی بڑی ایئر لائن قطر، گلف، اتحاد اور سعودی ایئر لائنز نے پی آئی اے کی خریداری میں اس لیے دلچسپی کا اظہار نہیں کیا کیونکہ پی آئی اے کے خسارے میں جانے سے ان کمپنیوں کو بہت فائدہ ہوا۔
عثمان باجوہ نے بتایا کہ پی آئی اے کے نقصان میں جانے سے مذکورہ فضائی کمپنیوں کے کاروبار بڑھ گئے ہیں اور اگر پی آئی اے پھر سے ایک کامیاب ایئر لائن بن کر سامنے آتی ہے تو ان کا کاروبار انتہائی متاثر ہو گا۔
ان کا کہنا تھا کہ ایئر انڈیا کی نجکاری کے باعث ان کمپنیوں کا کاروبار 30 فیصد متاثر ہوا تھا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ان کمپنیوں کا کاروبار اس لیے متاثر ہوتا ہے کیونکہ لوگ ڈائریکٹ فلائٹس پر سفر کرنے کو ترجیح دیتے ہیں جبکہ ان کمپنیوں کی کنیکٹنگ فلائٹس ہوتی ہیں۔
سیکریٹری نجکاری کمیشن کے مطابق پی آئی اے کی خریداری میں دلچسپی رکھنے والی 5 کمپنیوں کی اہلیت کا جائزہ لینے کے بعد 4 کمپنیوں کو پہلے مرحلے میں ہی اہل قرار دے دیا ہے جن کو اب ڈیو ڈیلیجنس کے مرحلے میں پی آئی اے کے حوالے سے تفصیلی بریفننگ دی جائے گی۔
یہ بھی پڑھیے: پی آئی اے کو 200 ارب کا نقصان، ذمہ دار کون؟ خاور مانیکا کا بیٹا کیوں گرفتار ہوا؟
عثمان باجوہ نے بتایا تھا کہ جن 4 کنسورشیم کو پی آئی اے کی خریداری کے لیے اہل قرار دیا گیا ہے ان میں سے پہلے کنسورشیم میں لکی سیمنٹ لمیٹڈ، حب پاور ہولڈنگز لمیٹڈ، کوہاٹ سیمنٹ کمپنی لمیٹڈ اور میٹرو وینچرز لمیٹڈ شامل ہیں، دوسرے کنسورشیم میں عارف حبیب کارپوریشن لمیٹڈ، فاطمہ فرٹیلائئزر کمپنی، سٹی اسکولز لمیٹڈ اور لیک سٹی ہولڈنگز شامل ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ اس کے علاوہ فوجی فرٹیلائزر اور ایئربلیو بطور الگ الگ کمپنیوں کے پی آئی اے کی خریداری کے لیے اہل قرار دیا گیا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
پی آئی اے پی آئی اے کی نجکاری نجکاری کمیشن.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: پی ا ئی اے پی ا ئی اے کی نجکاری نجکاری کمیشن پی آئی اے کی خریداری ئی اے کی نجکاری پی ا ئی اے کی ان کمپنیوں نجکاری کے ئی اے کے کے لیے
پڑھیں:
بھارت میں فون لوکیشن کی نگرانی، ایپل، گوگل اور سام سنگ نے سخت اعتراضات اٹھا دیے
بھارت میں فون لوکیشن نگرانی بڑھانے کی تجویز پر شدید بحث چھڑ گئی ہے، جبکہ ایپل، گوگل اور سام سنگ نے حکومت کے منصوبے پر سخت اعتراضات اٹھا دیے ہیں۔ حکومت اس تجویز کا جائزہ لے رہی ہے جس کے تحت اسمارٹ فونز میں سیٹلائٹ لوکیشن ٹریکنگ مستقل طور پر فعال رکھنے کی پابندی عائد کی جاسکتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ’جن طیاروں کی پوجا لیموں اور مرچ سے کی گئی تھی، وہ کہاں گئے‘؟ بھارتی لوک سبھا میں ہنگامہ
سرکاری دستاویزات کے مطابق یہ تجویز ٹیلی کام سیکٹر کی جانب سے پیش کی گئی ہے، جس کا کہنا ہے کہ موجودہ طریقہ کار میں حکام کو تفتیش کے دوران درست مقام کی معلومات حاصل نہیں ہوتیں اور سیلولر ٹاور ڈیٹا کئی میٹر تک غلط ہوسکتا ہے۔ ٹیلی کام کمپنیوں کے اتحاد نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ اے جی پی ایس ٹیکنالوجی کو لازمی طور پر ہر فون میں ہمیشہ فعال رکھا جائے تاکہ حکام ایک میٹر تک درست مقام حاصل کرسکیں۔
تاہم ایپل، گوگل اور سام سنگ نے نئی دہلی کو واضح پیغام دیا ہے کہ صارفین کی مرضی کے بغیر مستقل لوکیشن آن رکھوانا دنیا میں کہیں بھی رائج نہیں اور یہ اقدام نجی زندگی میں غیرمعمولی مداخلت ہوگا۔ ان کمپنیوں کی نمائندہ تنظیم آئی سی ای اے نے خفیہ خط میں خبردار کیا ہے کہ ایسا کوئی بھی فیصلہ قانونی، پرائیویسی اور نیشنل سیکیورٹی کے سنگین خطرات پیدا کرسکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: فضائی حدود کی بندش: بھارتی ایئرلائنز کی 800 سے زائد پروازیں متاثر، تاشقند اور الماتی پرواز معطل
یہ معاملہ اس وقت مزید سنگین ہوا جب بھارتی حکومت کو حالیہ عوامی ردعمل کے بعد ایک حکم واپس لینا پڑا، جس کے مطابق اسمارٹ فون کمپنیوں کو ایک سرکاری سائبر سیفٹی ایپ لازمی طور پر ہر فون میں پہلے سے انسٹال کرنا تھا۔ سیاسی جماعتوں اور کارکنوں نے اسے ممکنہ نگرانی کا ذریعہ قرار دیا تھا۔
ماہرین کے مطابق اے جی پی ایس کو مستقل فعال رکھنے کا مطلب یہ ہوگا کہ ہر اسمارٹ فون ایک نگرانی کرنے والا آلہ بن جائے گا۔ برطانیہ کے ادارے آئی ای ٹی سے منسلک ڈیجیٹل فورینزک ماہر جنید علی نے کہا کہ ایسا کوئی ماڈل دنیا میں کہیں نافذ نہیں۔ امریکی ادارے الیکٹرانک فرنٹیئر فاؤنڈیشن کے ماہر کوپر کوئنٹن نے اسے خوفناک قرار دیا۔
یہ بھی پڑھیں: برطانیہ: جنسی جرائم پر سزا پانے والوں میں بھارتی شہری سب سے آگے، رپورٹ میں انکشاف
بھارت میں اس وقت 735 ملین اسمارٹ فونز استعمال ہورہے ہیں جن میں 95 فی صد سے زائد گوگل کے اینڈرائیڈ پر چلتے ہیں۔ ان کمپنیوں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ مسلسل ٹریکنگ کے نتیجے میں فوجی اہلکاروں، ججوں، صحافیوں اور حساس اداروں میں کام کرنے والے افراد کی سیکیورٹی شدید متاثر ہو سکتی ہے۔
ٹیلی کام کمپنیوں نے اپنے مؤقف میں یہ بھی کہا ہے کہ موجودہ نظام میں جب حکام کسی صارف کی لوکیشن تک رسائی لیتے ہیں تو فون میں ایک پاپ اپ میسج ظاہر ہوتا ہے جس سے ہدف کو علم ہو جاتا ہے کہ اسے ٹریک کیا جا رہا ہے، جو سیکیورٹی اداروں کے لیے مسئلہ ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ حکومت اس فیچر کو بھی ختم کرے۔
یہ بھی پڑھیں: مودی حکومت کے جبر کے خلاف لداخ میں عوامی بغاوت شدت اختیار کر گئی
تاہم ایپل اور گوگل کی تنظیم نے سختی سے کہا ہے کہ پرائیویسی کو ترجیح دی جانی چاہیے اور ایسے حفاظتی پاپ اپ ختم کرنا کسی صورت مناسب نہیں۔
بھارتی وزارت داخلہ اور وزارت آئی ٹی نے ابھی تک اس بارے میں کوئی واضح پالیسی فیصلہ نہیں دیا اور نہ ہی رائٹرز کی جانب سے بھیجے گئے سوالات کا جواب دیا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news آئی فون انڈیا ایپل سام سنگ سیلولر ڈیٹا فون لوکیشن