ٹرمپ کا امریکا میں ’ڈیپ اسٹیٹ‘ ختم کرنے کا فیصلہ، افسران کے خلاف کارروائیاں شروع
اشاعت کی تاریخ: 21st, October 2025 GMT
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت نے ایک خفیہ مگر وسیع سرکاری مہم شروع کر دی ہے، جس کا مقصد اُن لوگوں کے خلاف کارروائی کرنا ہے جنہیں ٹرمپ اور اُن کے حامی ”ڈیپ اسٹیٹ“ یا ریاست کے اندر ریاست سمجھتے ہیں۔
خبر رساں ایجنسی “رائٹرز“ کے مطابق، یہ مہم دراصل ایک بین الادارہ جاتی کمیٹی کے ذریعے چلائی جا رہی ہے، جسے ”انٹرایجنسی ویپنائزیشن ورکنگ گروپ“ (Interagency Weaponization Working Group) کہا جاتا ہے۔ اس گروپ میں امریکی خفیہ اداروں، وزارتِ انصاف، دفاع، داخلہ، سی آئی اے، ایف بی آئی، انکم ٹیکس محکمے (IRS)، فیڈرل کمیونیکیشن کمیشن (FCC) اور وائٹ ہاؤس سمیت درجنوں اداروں کے افسران شامل ہیں۔
رائٹرز نے ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ یہ گروپ مئی 2025 سے خفیہ طور پر اجلاس منعقد کر رہا ہے، جس کا مقصد اُن اہلکاروں یا اداروں کی نشاندہی کرنا ہے جن پر الزام ہے کہ انہوں نے ماضی میں حکومتی اختیارات کا غلط استعمال کرتے ہوئے ٹرمپ کو سیاسی طور پر نشانہ بنایا۔
صدر ٹرمپ نے اپنی دوسری مدتِ صدارت کے آغاز پر ایک ایگزیکٹو آرڈر جاری کیا تھا، جس میں اٹارنی جنرل اور دیگر وفاقی اداروں کو ہدایت دی گئی کہ وہ ’قانون نافذ کرنے والے اور خفیہ اداروں کی طاقت کے سیاسی استعمال‘ سے متعلق تمام پرانے معاملات کی تحقیقات کریں۔
اٹارنی جنرل پم بونڈی اور نیشنل انٹیلی جنس کی سربراہ ٹلسی گیبرڈ نے اس حکم کے بعد اپنے اپنے اداروں میں ”ویپنائزیشن یونٹس“ قائم کیے، جن کا مقصد اُن افراد کو بے نقاب کرنا تھا جو ماضی میں حکومت کے اختیارات کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتے رہے۔
ذرائع کے مطابق اب یہ نیا بین الادارہ جاتی گروپ ان چھان بینوں کو مزید مربوط کر رہا ہے۔ رائٹرز کے مطابق، ایک عہدیدار نے کہا کہ ”یہ گروپ دراصل اُن طاقتوں کے خلاف کام کر رہا ہے جو حکومت کے اندر رہ کر سیاسی فیصلوں کو متاثر کرتی تھیں۔“
ٹرمپ اور اُن کے حامیوں کا دعویٰ ہے کہ سابق حکومتوں، خصوصاً اوباما اور بائیڈن ادوار میں، سرکاری اداروں کو ٹرمپ کے خلاف استعمال کیا گیا۔ ان میں 2016 کے الیکشن میں روسی مداخلت کی تحقیقات، ٹرمپ کی دونوں مواخذے کی کارروائیاں اور 6 جنوری 2021 کے ہنگاموں کی عدالتی کارروائیاں شامل ہیں۔
تاہم امریکی میڈیا کے مطابق اس گروپ کا اصل مقصد اُن مخالفین سے بدلہ لینا ہے جنہیں ٹرمپ ”ڈیپ اسٹیٹ“ کا حصہ سمجھتے ہیں۔
ذرائع کے مطابق اس گروپ کی ملاقاتوں میں سابق ایف بی آئی ڈائریکٹر جیمز کومی، ڈاکٹر انتھونی فاؤچی، سابق فوجی کمانڈرز، اور صدر بائیڈن کے صاحبزادے ہنٹر بائیڈن جیسے نام زیرِ بحث آئے ہیں۔
اگرچہ سرکاری سطح پر کسی فرد کو نشانہ بنانے کی تردید کی جا رہی ہے، مگر رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ یہ گروپ اُن تمام اہلکاروں کے خلاف شواہد جمع کر رہا ہے جنہوں نے مبینہ طور پر ماضی میں ٹرمپ یا اُن کے حامیوں کے خلاف اختیارات کا غلط استعمال کیا۔
دستاویزات کے مطابق اب تک 39 سرکاری اور سابقہ اہلکار اس ورکنگ گروپ کا حصہ بن چکے ہیں۔ ان میں فوجی افسران، انٹیلی جنس حکام، وکلاء، اور وہ لوگ بھی شامل ہیں جو کھلے عام ٹرمپ کے انتخابی دھاندلی کے بیانیے کی حمایت کرتے رہے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس گروپ میں شامل بعض افسران وہ ہیں جو پہلے کووِڈ ویکسین کے لازمی حکم کے خلاف تھے، اور کچھ وہ ہیں جو 2020 کے الیکشن میں دھاندلی کے دعوؤں کو درست سمجھتے ہیں۔
سی آئی اے، ایف بی آئی، ڈیفنس اور دیگر اداروں نے فی الحال اس بارے میں کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ البتہ وائٹ ہاؤس کے ایک افسر نے کہا ہے کہ ”یہ سب کچھ نیا نہیں، صدر ٹرمپ صرف یہ چاہتے ہیں کہ حکومت اب کبھی عوام کے خلاف استعمال نہ ہو۔“
امریکی سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ ”ویپنائزیشن ورکنگ گروپ“ کی سرگرمیاں اس بات کا اشارہ ہیں کہ صدر ٹرمپ اپنی دوسری مدت میں ریاستی نظام کو ازسرِ نو ترتیب دینے کے لیے پرعزم ہیں۔ لیکن ناقدین کے نزدیک یہ اقدام دراصل سیاسی مخالفین کے خلاف انتقامی مہم ہے۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: کر رہا ہے کے مطابق کے خلاف اس گروپ
پڑھیں:
چین کو ٹرمپ کی نئی دھمکی، نومبر سے 155 فیصد ٹیرف عائد کرنے کی تیاری
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر چین کو سخت وارننگ دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر چینی صدر شی جن پنگ نے امریکہ کے ساتھ ”منصفانہ تجارتی معاہدے“ پر دستخط نہ کیے تو یکم نومبر سے چینی مصنوعات پر 155 فیصد تک ٹیکس (ٹیرف) عائد کیا جا سکتا ہے۔ اس اعلان کے بعد دنیا کی دو سب سے بڑی معیشتوں کے درمیان تجارتی کشیدگی دوبارہ بڑھنے لگی ہے۔
ٹرمپ نے یہ بات آسٹریلیا کے وزیراعظم انتھونی البانیز کے ساتھ وائٹ ہاؤس میں ملاقات کے دوران کہی، جہاں دونوں ممالک نے معدنیات کے شعبے میں ایک اہم معاہدے پر دستخط کیے تاکہ امریکا اپنی سپلائی لائن کو مضبوط بنائے اور چین پر انحصار کم کیا جا سکے۔
ٹرمپ نے کہا کہ ”چین ہمارے ساتھ کافی احترام سے پیش آرہا ہے۔ وہ پہلے ہی ہمیں ٹیرف کی مد میں 55 فیصد کی شرح سے بھاری رقم ادا کر رہا ہے، اور اگر ہم معاہدہ نہ کر سکے تو یہ شرح یکم نومبر سے 155 فیصد تک بڑھ سکتی ہے۔“
انہوں نے کہا کہ امریکا نے اب کئی ایسے ممالک کے ساتھ نئے معاہدے کیے ہیں جو ماضی میں واشنگٹن کا فائدہ اٹھاتے تھے، مگر اب ایسا ممکن نہیں۔ ٹرمپ کے مطابق، ”ہم جلد ہی صدر شی کے ساتھ ایک منصفانہ تجارتی معاہدہ طے کر لیں گے، جو دونوں ممالک کے لیے شاندار ہوگا۔“
ٹرمپ نے ایک بار پھر واضح کیا کہ ان کی حکومت کسی بھی ملک کو امریکا کے ساتھ غیرمنصفانہ تجارتی رویہ اپنانے کی اجازت نہیں دے گی۔ انہوں نے کہا کہ ”بہت سے ممالک نے ماضی میں امریکہ کا استحصال کیا، مگر اب وہ ایسا نہیں کر سکتے“۔
یہ بیان ایسے وقت میں آیا ہے جب چین نے ستمبر میں امریکا سے سویا بین کی ایک بھی کھیپ درآمد نہیں کی ہے، نومبر 2018 کے بعد پہلی بار ایسا ہوا ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ چینی خریدار اب جنوبی امریکا کی طرف رخ کر رہے ہیں، جس سے دونوں ممالک کے درمیان تجارتی تناؤ مزید بڑھ گیا ہے۔
ٹرمپ پہلے ہی اعلان کر چکے ہیں کہ وہ یکم نومبر سے چینی مصنوعات پر 100 فیصد نئے ٹیرف لگائیں گے اور تمام ”اہم سافٹ ویئر“ کی برآمدات پر بھی نئی پابندیاں عائد کریں گے۔ یہ نئے ٹیرف پہلے سے موجود 55 فیصد ٹیکس کے علاوہ ہوں گے۔
اتوار کے روز ٹرمپ نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ ان کے اور صدر شی کے تعلقات اچھے ہیں۔ ”ہمارے درمیان کچھ اختلافات ضرور ہیں، مگر چین ہمیں ٹیرف کی مد میں بہت زیادہ رقم دے رہا ہے۔ وہ شاید اسے کم کرنا چاہیں گے، اور ہم اس پر بات کریں گے، لیکن انہیں بھی ہمیں کچھ دینا ہوگا۔ اب یکطرفہ فائدے کا زمانہ ختم ہو گیا ہے“َ
انہوں نے تصدیق کی کہ وہ جلد جنوبی کوریا میں صدر شی جن پنگ سے ملاقات کریں گے۔ ٹرمپ نے کہا کہ ”مجھے یقین ہے ہماری ملاقات کے بعد چین اور امریکا کے درمیان ایک منصفانہ اور شاندار تجارتی معاہدہ طے پائے گا، جو دونوں ممالک اور پوری دنیا کے لیے فائدہ مند ہوگا“۔
ادھر امریکی وزیر خزانہ اسکاٹ بیسنٹ نے تصدیق کی ہے کہ امریکی اور چینی حکام اس ہفتے ملائیشیا میں مذاکرات کریں گے۔ رپورٹس کے مطابق ٹرمپ نے عارضی طور پر شی جن پنگ سے اپنی ملاقات منسوخ کرنے پر غور کیا تھا، مگر بعد میں فیصلہ بدلا۔
سیاسی مبصرین کے مطابق، ٹرمپ کا تازہ بیان ایک طرف چین پر دباؤ بڑھانے کی حکمتِ عملی ہے، تو دوسری جانب یہ ان کی انتخابی مہم کا حصہ بھی ہو سکتا ہے، جس میں وہ امریکا کو ”مضبوط اقتصادی قوت“ کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔