مودی کی ہندوتوا سیاست کا روایتی ہتھیار: مسلمانوں کے خلاف نفرت اور تشدد کی مہم تیز
اشاعت کی تاریخ: 21st, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
بھارت میں مسلمانوں کے خلاف نفرت، تشدد اور امتیازی سلوک نئی بات نہیں، مگر مودی سرکار کے دور میں یہ رجحان خطرناک حد تک بڑھ چکا ہے۔
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی، جنہیں عالمی سطح پر ایک سخت گیر ہندو قوم پرست لیڈر کے طور پر جانا جاتا ہے، اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے مسلمانوں کے خلاف نفرت کو ایک آزمودہ انتخابی ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے رہے ہیں۔ جیسے ہی الیکشن قریب آتے ہیں، ہندو انتہا پسند تنظیمیں متحرک ہوجاتی ہیں اور بی جے پی کے حمایتی میڈیا چینلز نفرت انگیز بیانیے کو ہوا دینے لگتے ہیں۔
بین الاقوامی میڈیا رپورٹس کے مطابق بھارت کی بی جے پی حکومت کے زیرِ انتظام ریاستوں میں انتخابات کے دوران مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز تقاریر، حملوں اور تشدد کے واقعات میں نمایاں اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔
رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر بھی مسلمانوں کو بدنام کرنے اور ان کے خلاف نفرت پھیلانے کے لیے منظم مہمات چلائی جاتی ہیں، جس میں بھارتی میڈیا کا کردار بھی انتہائی جانبدارانہ ہے ، جو مسلمانوں کے گھروں پر حملے، ان کی دکانوں کو جلانے اور حتیٰ کہ ان کے قتل جیسے واقعات کو معمول کا حصہ بنا کر پیش کرتا ہے۔
رپورٹس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ بھارت میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز جرائم کی رپورٹنگ کرنے والے صحافی بھی محفوظ نہیں، انہیں ہراساں کیا جاتا ہے، گرفتار کیا جاتا ہے یا ان کے خلاف مقدمات قائم کیے جاتے ہیں۔
دوسری جانب ہندو انتہا پسند گروہ مسلمانوں پر حملے کر کے جشن مناتے ہیں اور سوشل میڈیا پر ویڈیوز شیئر کر کے اپنی نفرت انگیز کارروائیوں کو فخر کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔
بین الاقوامی خبر رساں اداروں کے مطابق صرف 2023 میں بھارت میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز تقاریر کے 668 واقعات درج کیے گئے جب کہ 2024 میں یہ تعداد بڑھ کر 1,165 تک جا پہنچی۔ اسی طرح بھارتی ویب سائٹ دی کوئنٹ نے رپورٹ کیا کہ اپریل سے مئی 2024 کے دوران ملک بھر میں کم از کم 184 نفرت پر مبنی جرائم رپورٹ ہوئے ۔ یہ وہ اعداد و شمار ہیں جو ظاہر کرتے ہیں کہ مودی کے بھارت میں مسلم دشمنی کس حد تک جڑ پکڑ چکی ہے۔
سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق مودی حکومت کا طریقہ کار واضح ہے کہ انتخابات کے دوران معاشی ناکامیوں، بے روزگاری اور عوامی مسائل سے توجہ ہٹانے کے لیے مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلائی جاتی ہے تاکہ ہندو ووٹ بینک کو متحد کیا جاسکے۔
آر ایس ایس اور بی جے پی کے مشترکہ جلسوں میں مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیز بیانات عام ہوچکے ہیں جب کہ پولیس اور عدلیہ کی خاموشی نے انتہا پسندوں کو مزید جری بنادیا ہے۔
مودی کا یہ خطرناک کھیل نہ صرف بھارت کے اندر فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لیے زہر بن چکا ہے ۔ عالمی ادارے بارہا خبردار کر چکے ہیں کہ اگر اس نفرت انگیز سیاست کو نہ روکا گیا تو بھارت ایک ایسے بحران میں داخل ہو جائے گا جس سے واپسی ممکن نہیں ہوگی۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: مسلمانوں کے خلاف نفرت میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز بھارت میں کے لیے
پڑھیں:
سلمان خان کے بیانات: مقبولیت کی سیاست یا حب الوطنی کا دکھاوا؟
بولی ووڈ کے معروف اداکار سلمان خان کے حالیہ بیانات نے ایک بار پھر اس رجحان کو اجاگر کیا ہے جس کے تحت بھارت کے مسلمان فنکاروں کو اپنی حب الوطنی اور ریاستی وفاداری بار بار ثابت کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔
بلوچستان سے متعلق سلمان خان کے ریمارکس کسی بے ساختہ رائے کا نتیجہ نہیں بلکہ ایک سوچی سمجھی حکمتِ عملی دکھائی دیتے ہیں جس کا مقصدر بی جے پی کو خوش کرنا، سیاسی مقبولیت حاصل کرنا اور اپنی آنے والی فلم کے لیے ماحول سازگار بنانے کی کوشش کے سوا کچھ نہیں۔
تجزیہ کاروں کے مطابق یہ وہی پرانا فارمولا ہے جس کے تحت بھارت کے مسلمان فنکار اپنے وجود کا جواز پاکستان کے خلاف بیانات دے کر تلاش کرتے ہیں۔ ہر چند ماہ بعد فلمی اور کھیلوں کی دنیا سے کوئی نہ کوئی چہرہ سیاسی بیانیے میں حصہ ڈالتا ہے جو حکمران جماعت بی جے پی کے نظریے سے مطابقت رکھتا ہے۔ کبھی یہ ’حب الوطنی‘ دباؤ کے زیرِ اثر ہوتی ہے، کبھی ذاتی مفاد کے تحت، مگر انجام ہمیشہ ایک ہی ہوتا ہے یعنی اقتدار کو خوش کرنا اور وقتی شہرت حاصل کرنا۔
سلمان خان کے بیانات اسی سوچے سمجھے سلسلے کا تسلسل ہیں، جو اس بڑے المیے کی عکاسی کرتے ہیں جہاں بھارت کے مسلمان اداکار، کھلاڑی اور فنکار اپنی ریاستی وفاداری کے ثبوت میں اپنی شناخت کو قربان کرتے ہیں۔ یہ کوئی نیا رجحان نہیں بلکہ وہ بوجھ ہے جو ان پر قیامِ پاکستان کے بعد سے لاد دیا گیا ہے۔
قائداعظم محمد علی جناح کے تاریخی الفاظ آج بھی صادق آتے ہیں کہ بھارت میں رہنے والے مسلمان ہمیشہ اپنی وفاداری ثابت کرنے پر مجبور کیے جائیں گے اور یہ کام روزانہ کی بنیاد پر اور ہر موقع پر ہوگا۔
عرفان پٹھان، جاوید اختر اور اب سلمان خان، ان سب کی مثالیں واضح کرتی ہیں کہ یہ بیانات جذباتی ردِعمل نہیں بلکہ خوف، مقبولیت اور دباؤ کے سیاسی کھیل کا حصہ ہیں۔ پیغام صاف ہے کہ اپنی حد میں رہو، گاؤ، ناچو، اداکاری کرو مگر اکثریت کے بیانیے پر سوال مت اٹھاؤ۔
واضح رہے کہ بلوچستان پاکستان ہے اور پاکستان کسی کو بھی اپنے داخلی معاملات یا قومی وقار پر غلط بیانی کی اجازت نہیں دے گا۔ فنکار کا اصل کام حقیقت بیان کرنا ہے، نہ کہ جھوٹ بیچنا۔ خوشامد سے حاصل ہونے والی مقبولیت عارضی ہے، مگر سچائی اور غیرت سے کمائی گئی عزت نسلوں تک قائم رہتی ہے۔ اگلی بار اگر زبان پھسلے، تو جواب دلیل، وقار اور پاکستان کی غیر متزلزل خودمختاری کے ساتھ دیا جائے گا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں