وفاقی حکومت کی فراہم کردہ بلٹ پروف گاڑیاں فعال اور محفوظ، ذرائع کا دعویٰ
اشاعت کی تاریخ: 21st, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
پشاور میں وفاقی حکومت کی جانب سے خیبرپختونخوا پولیس کو دی گئی بلٹ پروف گاڑیوں کے معاملے پر نیا موڑ سامنے آگیا۔
سرکاری ذرائع کے مطابق پولیس کو فراہم کی گئی تینوں گاڑیاں اگرچہ 15 سال پرانے ماڈل کی ہیں، تاہم ان کی بنیادی افادیت اور بلٹ پروف معیار اب بھی برقرار ہے۔
ذرائع نے واضح کیا کہ یہ گاڑیاں کسی مقامی ورکشاپ میں تیار نہیں کی گئیں بلکہ بین الاقوامی ادارے کے زیرِ استعمال رہنے کے بعد بین الاقوامی معیار کے تحت بلٹ پروف کی گئی تھیں۔
یاد رہے کہ چند روز قبل وفاقی وزیرِ داخلہ محسن نقوی نے کے پی پولیس کو یہ تین بلٹ پروف گاڑیاں فراہم کی تھیں۔ تاہم گزشتہ روز وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا سہیل آفریدی نے ان گاڑیوں کو “پرانا اور ناقص” قرار دیتے ہوئے پولیس کو انہیں استعمال نہ کرنے کی ہدایت کی تھی۔
وزیراعلیٰ نے اعلان کیا کہ کے پی پولیس کو نئی بلٹ پروف گاڑیاں، جدید اسلحہ اور بہتر سہولیات فراہم کی جائیں گی تاکہ صوبے میں امن و امان کی صورتحال مزید مضبوط بنائی جا سکے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت کی فراہم کردہ گاڑیاں اب بھی تکنیکی لحاظ سے کارآمد ہیں اور ان کی بلٹ پروفنگ کسی صورت غیر معیاری نہیں۔
ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
وفاقی پولیس کا سائبر کرائم ونگ ختم، تمام افسران و اہلکار سی ٹی ڈی کے سپرد
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد: وفاقی پولیس کے سائبر کرائم ونگ کو باضابطہ طور پر ختم کرکے اس کے تمام افسران اور اہلکاروں کو کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) کے ماتحت منتقل کردیا گیا ہے۔
اسی طرح اس یونٹ کے پاس موجود تمام مقدمات اور جاری انکوائریز بھی نیشنل کاؤنٹر کرائم اینڈ انویسٹی گیشن ایجنسی (این سی سی آئی اے) کے سپرد کر دی گئی ہیں۔
نوٹیفکیشن کے مطابق تبادلہ کیے گئے اہلکاروں کی مجموعی تعداد 22 ہے، جن میں انچارج سائبر کرائم ونگ انسپکٹر آصف خان، 3 سب انسپکٹرز، 2 اسسٹنٹ سب انسپکٹرز، 6 لیڈی کانسٹیبلز اور 10 مرد کانسٹیبلز شامل ہیں۔
اسلام آباد پولیس کے ریکارڈ کے مطابق سائبر کرائم ونگ کے پاس مجموعی طور پر 112 شکایات زیر التوا تھیں۔ ان میں سے دو اہم مقدمات کے چالان عدالتوں میں جمع کرائے جا چکے تھے، بیس شکایات انکوائری کے مرحلے میں تھیں جب کہ 90 شکایات پر قانونی کارروائی جاری تھی۔ اب یہ تمام کیسز این سی سی آئی اے کے پاس منتقل ہو چکے ہیں۔