Express News:
2025-10-23@00:46:30 GMT

کنفیوز پاکستان

اشاعت کی تاریخ: 23rd, October 2025 GMT

افغانستان میں طالبان حکومت کا مقصد امن تھا‘ یہ مقصد پورا ہو گیا‘ افغانستان میں واقعی امن ہو گیا لیکن اس امن سے ایک نئے بحران نے جنم لے لیا‘ طالبان اپنی سوچ پورے خطے میں پھیلانے لگے‘ پاکستان‘ ازبکستان‘ تاجکستان اور چین کا مسلم اکثریتی صوبہ سنکیانگ ان کے بڑے ہدف تھے‘ پاکستان میں افغان وار کے دوران بے شمار مذہبی سیاسی جماعتیں بنی تھیں۔

 یہ 1980کی دہائی کی ضرورت تھیں مگر یہ 1990میں غیر ضروری ہو گئیں تاہم اس وقت تک ان کا سائز اتنا بڑا ہو چکا تھا کہ انھیں سمیٹنا یاختم کرنا مشکل تھا‘ طالبان حکومت نے ان میں نئی روح پھونک دی اور انھیں محسوس ہونے لگا اگر افغانستان میں اسلامی حکومت بن سکتی ہے تو پھر پاکستان‘ ازبکستان‘ تاجکستان اور سنکیانگ میں کیوں نہیں؟ طالبان کے ساتھ القاعدہ بھی تھی‘ یہ عرب تھے اور افغانستان میں رہتے تھے۔

 انھیں بھی شہہ مل گئی اور انھوں نے بھی عرب ملکوں میں طالبان طرز کی حکومت کے بارے میں سوچنا شروع کر دیا‘ یہ کام پاکستان میں بہت آسان تھا‘ یونیورسٹی آف نبراسکا کی مہربانی سے پاکستان میں کروڑوں سلطان صلاح الدین ایوبی اور محمود غزنوی جنم لے چکے تھے‘فوج کے اندر بھی ایسے آفیسر اور جوان موجود تھے‘ یہ سب طالبان کے ساتھ جڑ گئے اور یوں انقلاب درہ خیبر‘ دریائے آمو اور واہ خان سے آگے بڑھنے لگا‘ یہ عربوں کے دروازے پر بھی دستک دینے لگا‘ القاعدہ نے اس زمانے میں سعودی عرب میں چندہ جمع کرنا شروع کر دیا۔

 حج کے دوران انھیں کروڑوں ڈالر مل جاتے تھے‘ خواتین اپنی بچیوں کے کانوں کی بالیاں تک القاعدہ کے باکس میں ڈال دیتی تھیں‘ طالبان اسے اپنی کام یابی سمجھنے لگے اور انھوں نے نہ صرف آگے بڑھ کر افغانستان میں خواتین کی تعلیم پر پابندی لگا دی بلکہ یہ سرعام لوگوں کو سنگسار بھی کرنے لگے‘ دنیا بھر کے مطلوب لوگ بھی افغانستان کا رخ کرنے لگے‘ اس بیک گراؤنڈ میں 24 دسمبر 1999کو ائیرانڈیا کا ایک طیارہ کھٹمنڈو سے ہائی جیک ہو گیا۔

یہ آئی سی 814 فلائیٹ تھی جس میں 179 مسافر اور عملے کے 11 افراد سوار تھے‘ ہائی جیکرز جہاز کو پہلے امرتسر‘ پھر دوبئی اور پھر قندہار لے گئے‘ طیارہ حرکت المجاہدین نے اغواء کیا تھا اور اس کا مقصد بھارت کی قید میں موجود مولانا مسعود اظہر اور ان کے ساتھیوں کی رہائی تھی‘ یہ آپریشن مولانا کے دو بھائیوں ابراہیم اطہر اور جہانگیر نے کیا‘ اس کے لیے پانچ کروڑ روپے کی رقم کراچی کے بزنس مینوں نے دی تھی‘ ہائی جیکرز میں کراچی کے تین نوجوان شاہد اختر سید‘ سنی احمد قاضی اور ظہور مستری شامل تھے جب کہ چوتھا شخص شاکر احمد سکھر اور ابراہیم اطہر بہاولپور سے تعلق رکھتا تھا‘ ابراہیم اطہر مولانا مسعود کا بھائی تھا۔

 ان پانچ لوگوں نے 190 مسافروں کا جہاز اغواء کیا اور انھیں طالبان کی بھرپور مدد حاصل تھی‘ ہائی جیکرز سے ڈیل کرنے والی مذاکراتی ٹیم میں بھارت کے آج کے نیشنل سیکیورٹیایڈوائزر اجیت دوول بھی شامل تھے‘ بہرحال قصہ مختصر انڈیا نے ہائی جیکرز کے مطالبے پر مولانا مسعود اظہر‘ مشتاق احمد زرگر اور احمد عمر سعید شیخ کو رہا کر دیا اور یوں یہ معاملہ نبٹ گیا مگر اس نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا‘ پاکستان اور امریکا کو پہلی بار محسوس ہوا طالبان کے اثرات کراچی تک پہنچ چکے ہیں۔

 دوسرا مولانا مسعود اظہر کو پرائیویٹ لوگ ایمبولینس میں ڈال کر قندہار سے کراچی لے آئے اور سی آئی اے اور آئی ایس آئی کو کانوں کان خبر نہیں ہوئی‘ یہ بہت بڑا انٹیلی جنس فیلیئر تھا اور یہ ثابت کرتا تھا اداروں میں ان کے لوگ موجود ہیں اور تیسرا ہائی جیکرز رہائی کے بعد غائب ہوگئے‘ امریکی اور پاکستانی انھیں تلاش ہی کرتے رہ گئے‘ سی آئی اے کو 11 ستمبر 2001 کے ٹوئن ٹاورز حملوں کے بعد پتا چلا پانچوں ہائی جیکرز کابل میں طالبان کے پاس تھے‘ وہ پاکستان آئے ہی نہیں تھے اور انھوں نے بعدازاں نائین الیون کے ہائی جیکرز کو طیارے اغواء کرنے اور مسافروں کو قابو کرنے کی تکنیکس سکھائی تھیں۔

 وہ مہینوں اسامہ بن لادن اور القاعدہ کو ٹریننگ دیتے رہے‘ یہ انکشاف لرزہ خیز ثابت ہوا‘ طالبان صرف افغانستان تک محدود رہتے‘ یہ اپنا نظریہ دوسرے ملکوں میں اسمگل نہ کرتے‘ یہ کراچی کے بزنس مینوں تک نہ پہنچتے‘ یہ ائیر انڈیا کی ہائی جیکنگ میں شامل نہ ہوتے یا ہائی جیکرز کو پناہ نہ دیتے اور یہ اگر نائین الیون میں ملوث نہ ہوتے تو دنیا شاید انھیں برداشت کر لیتی لیکن جب ان کا ماڈل سرحدوں سے باہر نکلنے لگا اور یہ ہائی جیکنگ جیسی وارداتوں میں ملوث ہو گئے تو پھر یہ ناقابل برداشت ہو گئے‘ آپ اگر اس سیناریو کو ذہن میں رکھیں تو آپ کو میاں نواز شریف کی دوسری حکومت کی رخصتی اور جنرل پرویز مشرف کی آمد کی وجہ سمجھ آ جائے گی۔

 میاں نواز شریف جنرل ضیاء الحق کی جہادی سوچ کی ایکسٹینشن تھے اور یہ 1997 میں دو تہائی اکثریت کے بعد امیرالمومنین بننے کے بارے میں بھی سوچ رہے تھے‘ میاں صاحب نے 1998 میں ایٹمی دھماکے بھی کر دیے تھے لہٰذا افغانستان میں طالبان‘ پاکستان میں آگے بڑھتی ہوئی طالبان سوچ‘ میاں نواز شریف کی دو تہائی اکثریت اور اوپر سے ایٹمی طاقت دنیا ڈر گئی اور اسے اب جنرل پرویز مشرف جیسا کوئی لبرل جنرل چاہیے تھا چناں چہ جنرل پرویز مشرف آ گیا اور اس نے نائن الیون کے بعد جنرل ضیاء الحق کی بچھائی جائے نماز لپیٹنا شروع کر دی‘ اس نے افغانستان اور پاکستان دونوں سے جہادی سوچ کے لوگ پکڑ کر امریکا کے حوالے کرنا شروع کر دیے۔

ہم اگر آج تجزیہ کریں تو ہمیں ماننا پڑے گا جنرل ضیاء الحق کی جہادی اور جنرل پرویز مشرف کی لبرل دونوں سوچیں غلط تھیں‘ دونوں میں شدت تھی اور ہمارا معاشرہ دونوں کے لیے نہیں بنا ‘ پاکستان جنگ کے بجائے جمہوری عمل کے ذریعے بنا تھا‘ برصغیر کے مسلمان کسی حدتک جمہوریت پسند اور لبرل تھے‘ آپ اس کا اندازہ دو حقیقتوں سے لگا لیجیے‘ ہندوستان کے مسلمانوں کی اکثریت سنی العقیدہ تھی لیکن آل انڈیا مسلم لیگ کے پہلے صدر اسماعیلیوں کے مذہبی رہنما آغا خان سوم تھے اور یہ اس کے تاحیات صدر رہے۔

 مسلم لیگ کے 80 فیصد قائدین اہل تشیع تھے اور انھوں نے سنی اکثریت کے لیے ملک بنایا اور سنی مسلمان آج بھی ان کی تصویریں چومتے ہیں‘ علامہ اقبال اور قائداعظم کے مسلک مختلف تھے لیکن علامہ نے اس کے باوجود 1937 میں خط لکھ کر قائداعظم کو لندن سے واپس بلایا اور انھیں مسلمانوں کی قیادت کے لیے قائل کیا لیکن جنرل ضیاء الحق نے ایسے لبرل جمہوری ملک کو جہادی سوچ میں دھکیل دیا جس نے ملک کی بنیادیں ہلا کر رکھ دیں‘دوسری حقیقت پاکستانی لبرل اور جمہوری ہونے کے ساتھ ساتھ معتدل مسلمان بھی ہیں۔

 یہ جس طرح مذہبی شدت سے دور ہیں یہ بالکل اسی طرح ایکسٹریم لبرل ازم کے بھی خلاف ہیں‘ یہ مسجد میں تفرقہ اور نفرت پسند نہیں کرتے تھے اور کسی کو مسجد شہیدبھی نہیں کرنے دیتے تھے جب کہ جنرل مشرف جنرل ضیاء الحق کی مکمل ضد تھے‘ یہ ایکسٹریم لبرل تھے اور انھوں نے جہادی گود میں پلنے والے بچے کو ماں کی چھاتی سے کھینچ کر کلب میں کھڑا کر دیا‘ یہ دوسری ایکسٹریم تھی اور اگر ان دونوں حدوں کے درمیان تیس چالیس سال کا فاصلہ ہوتا تو شاید معاشرہ اسے ہضم کر لیتا لیکن بدقسمتی سے یہ تبدیلی ایک نسل میں لانے کی کوشش کی گئی‘ ہم بچے تھے تو ملک میں جمعہ کے دن چھٹی ہوتی تھی۔

 مسجدوںمیں باقاعدہ نمازیوں کی حاضری لگتی تھی اور ہمیں یونیورسٹی آف نبراسکا کی تیار شدہ اسلامیات اور مطالعہ پاکستان پڑھایا جاتا تھا‘ تعلیمی اداروں میں مذہبی جماعتیں بھی تھیں اور جو اسٹوڈنٹ ان کی محفلوں میں نہیں جاتا تھا اسے پھینٹا لگایاجاتا تھا لیکن ہم جب جوان ہوئے تو چھٹی اتوار پر شفٹ ہو گئی‘ جہاد کے ذکر پر پابندی لگ گئی‘ پولیس داڑھی والوں کو گرفتار کر کے تھانے لے جانے لگی‘ مسجدوں پر ریاستی حملے شروع ہو گئے یہاں تک کہ لال مسجد کے خلاف فوجی آپریشن ہو گیا لہٰذا میری نسل کنفیوز ہو گئی‘ میں آج بھی جنرل ضیاء اور جنرل مشرف کی سوچ کے درمیان پنڈولم بنا ہوا ہوں‘ میرا دل مذہبی اور دماغ لبرل ہے اور میں روز ان دونوں کے درمیان توازن پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہوں اور ناکام ہو جاتا ہوں۔

میں کیا کروں میری پرورش اور پروفیشنل گروتھ دونوں ایک ہی ملک میں مختلف سوچ کے ساتھ ہوئی اور میں دونوں کے درمیان تقسیم ہو کر رہ گیاہوں اور یہ تضاد صرف مجھ تک محدود نہیں‘ ہماری ریاست‘ افغانستان اور مدارس بھی اس عمل سے گزر رہے ہیں‘ ہم کبھی افغانستان کے لیے جہادی فیکٹری ہوتے تھے‘ ہم پھر ان کے دشمن ہو گئے‘ ہم پھر ان کے دوست بنے اور ہم اب ایک بار پھر ان کے دشمن بن گئے ہیں‘ سوچ کی اس شفٹنگ نے پورے خطے کو ہلا کر رکھ دیا‘ میں اگر آج اس کا تجزیہ کروں تو مجھے اس کا ذمے دار صرف ایک ملک ملتا ہے اور اس کا نام امریکا ہے۔

 امریکا کو ضرورت تھی تو اس نے ہمیں جہادی بنا دیا‘ اسے ضرورت پڑی تو اس نے ہمیں لبرل بنا دیا‘ اسے تیسری مرتبہ ضرورت پڑی تو اس نے 2021 میں ہمیں ایک بار پھر طالبان کا ہمدرد بنا دیا اور ہم طالبان کو لے کر دوحا پہنچ گئے اور ان کے امریکا سے 165 مذاکرات کرا دیے‘ ہم نے انھیں امریکا کے حکم پر ایک بار پھر افغانستان کے تخت پر بٹھا دیا‘ آپ ذرا خود ٹھنڈے دماغ سے سوچیے اگر کوئی قوم 45 سال میں چار مرتبہ اپنی سوچ میں 180 درجے تبدیلی لائے گی وہ جہادی بنے گی‘ پھر لبرل ہو گی‘ پھر سیمی جہادی ہو گی اور آخر میں جہادیوں کے خلاف جہاد کرے گی تو اس کا کیا نتیجہ نکلے گا اور یہ نتیجہ اس وقت نکل رہا ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: جنرل ضیاء الحق کی جنرل پرویز مشرف افغانستان میں مولانا مسعود اور انھوں نے پاکستان میں میں طالبان ہائی جیکرز کے درمیان طالبان کے تھے اور ہو گیا ہو گئے کے بعد اور یہ اور ان اور اس اور ہم کر دیا

پڑھیں:

پاک افغان معاہدہ: دہشتگردی کو پاکستان کا اندرونی معاملہ کہنے والوں کا ٹی ٹی پی کی حمایت ترک کرنے کا وعدہ

پاکستان اور افغانستان کے درمیان قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امن معاہدہ ہوگیا جس میں طالبان نے تسلیم کیا کہ وہ پاکستان مخالف عناصر کی حمایت نہیں کریں گے۔ ’دوسرے لفظوں میں طالبان حکومت نے تحریکِ طالبان پاکستان کی سرپرستی کو تسلیم کیا۔‘

معاہدے پر پاکستان کے دوست ممالک جیسا کہ قطر، ترکیہ، عمان اور چین نے مبارکباد دی جبکہ بھارتی وزارتِ خارجہ نے بیان جاری کیا کہ وہ طالبان حکومت کی ٹھوس حمایت جاری رکھیں گے۔

یہ بھی پڑھیں: پاک افغان جنگ بندی معاہدہ کا عالمی سطح پر خیرمقدم، سیاسی رہنماؤں کی جانب سے بھی تعریف

ایک طرف اِس چیز کو پاکستان کی سفارتی کامیابی سمجھا جا رہا ہے تو دوسری طرف یہ سوالات بھی اُٹھائے جا رہے ہیں کہ افغان تاریخ کو مدنظر رکھتے ہوئے معاہدے کو حتمی نہیں سمجھا جا سکتا اور اگر پاکستان کے دشمن ممالک جنگ کے وقفے میں افغانستان کو ہتھیار سپلائی کرتے ہیں تو پاکستان کو ایسی صورتحال سے چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔

افغان وزارتِ داخلہ آج ایک ٹوئٹ کے ذریعے بتایا کہ افغان انسدادِ دہشت گردی پولیس نے افغانستان کے صوبے پراوان میں آپریشن کر کے بڑی تعداد میں اسلحہ اور گولہ بارود ضبط کر لیا۔ افغان انسدادِ دہشتگردی پولیس کی کاروائی ظاہر کرتی ہے کہ افغان طالبان نے دہشتگردی کے خلاف جنگ کو سنجیدگی سے لینا شروع کردیا ہے۔

اس سے قبل قائم مقام افغان وزیرِخارجہ امیر خان متقی نے بھارت میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ دہشتگردی پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے اور افغانستان کا پاکستان میں ہونے والی دہشتگردی سے کوئی واسطہ نہیں۔

تاہم قطر معاہدے میں افغان طالبان حکومت نے تسلیم کیا کہ وہ ٹی ٹی پی اور دیگر دہشتگرد گروہوں کی سرپرستی نہیں کریں گے جو پاکستان کے لیے ایک بڑی سفارتی کامیابی ہے۔

قطر اور ترکیہ کی ثالثی میں ہونے والے جنگ بندی معاہدے کو مختلف ماہرین نے مختلف زاویوں سے دیکھا ہے۔ کچھ اسے پاکستان کی حکمت عملی کی کامیابی قرار دیتے ہیں، جبکہ دیگر اسے بغیر کسی فریق کی واضح فتح کے عارضی اور غیر مستحکم سمجھتے ہیں۔ جبکہ پاکستان کے حکومتی عہدیداروں نے معاہدے کو خوش آئند قرار دیا۔

پاکستان کے نائب وزیراعظم و وزیرخارجہ اسحاق ڈار نے معاہدے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہاکہ پاکستان اِس معاہدے کو خوش آئند قرار دیتا ہے اور اِس میں برادر مُلکوں قطر اور ترکیہ کے مثبت کردار کو سراہتا ہے۔

اسحاق ڈار نے کہا کہ ہم افغانستان کے ساتھ ایک مضبوط اور قابلِ تصدیق نگرانی کا طریقہ کار بنانے کی اُمید رکھتے ہیں، مزید جانوں کے ضیاع کو روکنا ضروری ہے۔

دوسری طرف پاکستان کے وزیردفاع جو اِس معاہدے پر دستخط کر کے آئے ہیں اُن کا یہ کہنا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے مابین سیز فائر کا معاہدہ طے پاگیا۔ پاکستان کی سرزمین پہ افغانستان سے دہشت گردی کا سلسلہ فی الفور بند ہوگا۔ دونوں ہمسایہ ممالک ایک دوسرے کی سرزمین کا احترام کریں گے۔

انہوں نے کہاکہ 25 اکتوبر کو استنبول میں دوبارہ وفود کی شکل میں ملاقات ہوگی، اور تفصیلی معاملات پر بات ہوگی۔ ہم قطر اور ترکیہ دونوں برادر ممالک کے تہہ دل سے شکر گزار ہیں۔

پاکستان کو چوکنا رہنے کی ضروت ہے، خالد نعیم لودھی

دفاعی اُمور کے تجزیہ نگار لیفٹیننٹ جنرل (ر) خالد نعیم لودھی نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہاکہ پاکستان کے پاس صلاحیت ہے کہ وہ طویل عرصے تک روایتی جنگ لڑ سکتا ہے جب کہ افغان طالبان گوریلا جنگ کے ماہر ہیں۔

انہوں نے کہاکہ اگر افغان طالبان کو پاکستان کے دُشمن ممالک نے اسلحے کی فراہمی شروع کر دی تو پھر افغان طالبان بھی طویل جنگ لڑنے کے قابل ہو سکتے ہیں، ایسی صورتحال میں پاکستان کو چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔

معاہدہ خوش آئند لیکن ٹی ٹی پی سے متعلق ذکر ہونا چاہیے تھا، شیریں مزاری

پاکستان کی سابق انسانی حقوق کی وزیر شیریں مزاری نے اپنے ایکس پیغام میں کہاکہ دونوں ملکوں کے درمیان معاہدہ خوش آئند ہے لیکن اِس معاہدے میں افغان طالبان کی جانب سے ٹی ٹی پی کی حمایت اور اُنہیں محفوظ ٹھکانے مہیّا کرنے کا ذکر نہیں۔

اُنہوں نے کہاکہ کم از کم معاہدے میں افغان طالبان کی جانب سے ٹی ٹی پی کی حمایت ختم کرنے کا ذکر ہونا چاہیے تھا۔

دونوں ملکوں کے درمیان مزید بات چیت میں مسئلے کے حل کا میکنزم ڈھونڈا جائےگا، ملیحہ لودھی

امریکا میں پاکستان کی سابق سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے معاہدے کو خوش آئند قرار دیا اور کہاکہ قطر اور ترکیہ کی ثالثی سے معاہدہ کامیاب ہوا اور اِس سے پاکستان کو سب سے اہم چیز مل گئی یا مل جائے گی وہ یہ یقین دہانی ہے کہ افغان طالبان اپنی سرزمین سے پاکستان کے خلاف حملہ نہیں ہونے دیں گے اور نہ ہی کسی ایسے گروہ کی حمایت کریں گے جو پاکستان پر حملے کرتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: افغانستان کے لیے پاکستان لائف لائن، جنگ کے سبب افغانستان کو کتنا بڑا معاشی نقصان ہورہا ہے؟

انہوں نے کہاکہ دونوں ملکوں کے درمیان ابھی مزید مذاکرات ہوں گے جس میں وہ میکنزم ڈھونڈا جائے گا جس کے تحت اس ساری چیز کی نگرانی کی جا سکے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

wenews پاک افغان معاہدہ پاکستان افغانستان جنگ ثالثی ممالک خواجہ آصف دوحہ مذاکرات سیز فائر وزیر دفاع وی نیوز

متعلقہ مضامین

  • کابل کو شدت پسندوں کو روکنا ہوگا تبھی جنگ بندی برقرار رہ سکے گی، وزیردفاع
  • پاکستان طالبان رجیم سے مذاکرات ضرور کرے مگر بارڈر پر بھی نظر رکھے، اعزاز احمد چوہدری
  • افغان دہشت گردی کا مؤثر جواب
  • پاکستان اور افغانستان میں کشیدگی
  • افغانوں کو نہیں، بُرے کو بُرا کہیں
  • امن معاہدہ، خدشات اور مستقبل
  • پاک افغان معاہدہ، بیرونی اثرات سے بھی نکلیں
  • عمران خان کے کہنے پر دہشتگردوں کے مذاکرات نہیں کریں گے، وزیر دفاع خواجہ آصف
  • پاک افغان معاہدہ: دہشتگردی کو پاکستان کا اندرونی معاملہ کہنے والوں کا ٹی ٹی پی کی حمایت ترک کرنے کا وعدہ