Express News:
2025-10-20@00:10:02 GMT

افغانستان میں دہشت گردوں کا خاتمہ ضروری

اشاعت کی تاریخ: 20th, October 2025 GMT

پاکستان اور افغانستان کے درمیان دوحہ میں ہونے والے 13 گھنٹے طویل مذاکرات کامیابی کے ساتھ مکمل ہوگئے، جن کے نتیجے میں دونوں ممالک نے فوری جنگ بندی پر اتفاق کر لیا۔ اس معاہدے کے تحت افغانستان سے پاکستان کی سرزمین پر دہشت گردی کا سلسلہ فوری طور پر بند کیا جائے گا۔ فریقین نے اس بات پر بھی اتفاق کیا ہے کہ مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھا جائے گا تاکہ طے شدہ نکات پر عمل درآمد یقینی بنایا جا سکے۔

افغانستان اور پاکستان کے درمیان حالیہ جنگ بندی ایک وقتی اطمینان کا باعث ضرور بنی ہے، لیکن حقیقت میں یہ ایک ناپائیدار سکون ہے جو ایک آتش فشاں کے دہانے پرکھڑا ہے۔

مسئلے کی جڑیں اس سے کہیں گہری ہیں، جنھیں نظر انداز کرنا دانشمندی نہیں بلکہ غفلت کے مترادف ہوگا۔ افغانستان کی سرزمین اس وقت بین الاقوامی دہشت گرد تنظیموں کی محفوظ پناہ گاہ بنی ہوئی ہے۔

پاکستانی حکام متعدد بار اس امر کی نشان دہی کر چکے ہیں کہ افغان سرزمین سے پاکستان پر حملے کیے جا رہے ہیں اور یہ حملے محض انفرادی یا غیر منظم کارروائیاں نہیں بلکہ منظم منصوبہ بندی کا نتیجہ ہیں۔ یہ حقیقت اس قدر عیاں ہے کہ اس سے آنکھیں بند رکھنا خود فریبی کے سوا کچھ نہیں۔ یہ خطرہ صرف پاکستان کے لیے نہیں بلکہ پورے خطے کے لیے ہے، کیونکہ شدت پسندی کی یہ آگ جب بھڑکے گی تو نہ صرف پاکستان بلکہ ایران، چین، وسطی ایشیائی ریاستیں اور روس جیسے ممالک بھی اس کی لپیٹ میں آ سکتے ہیں۔

یہ بات کتنی تکلیف دہ ہے کہ جس ملک کی لاکھوں عوام کو چالیس سال سے زائد عرصے تک اپنی سرزمین پر سر چھپانے کی جگہ دی اور جس طالبان کے جتھے کو دوبارہ اقتدار تک لانے کی راہ ہموار کی، اسی ملک کا عاقبت نا اندیش ٹولہ پاکستان کو ہی آنکھیں دکھا کر مودی اور نئی دہلی کے ایجنٹ ہونے کا خود ہی ثبوت دے رہا ہے۔ سب سے زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ افغانستان اب بھارت کی پراکسی بننے کے راستے پر گامزن ہے۔ بھارت، جو ہمیشہ پاکستان کے خلاف سازشوں میں مصروف رہا ہے،

اب افغانستان کی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کر رہا ہے۔ یہ ایک گھناؤنا کھیل ہے جس کا خمیازہ بالآخر افغان عوام کو بھگتنا پڑے گا۔ تاریخ گواہ ہے کہ بھارت نے کبھی کسی ملک کا وفادار دوست ہونے کا ثبوت نہیں دیا۔ افغانستان کو سمجھنا ہوگا کہ بھارت صرف اپنے مفادات کے لیے افغانستان کو استعمال کر رہا ہے۔ جب وہ مفادات پورے ہو جائیں گے، تو بھارت پیچھے ہٹ جائے گا اور افغانستان ایک بار پھر تنہائی اور بدامنی کا شکار ہوگا۔

 پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحد پر حالیہ عسکری جھڑپیں اور اس سے پیدا ہونے والی کشیدگی ایک گہرے سیاسی و سلامتی بحران کی علامت ہیں۔ جب 2021میں طالبان نے کابل پر کنٹرول حاصل کیا، تو پوری دنیا نے اپنے سفارتخانے بند کردیے جب کہ پاکستان نے اپنا مشن کھلا رکھا اور انخلا کے مشکل دورانیے میں لوگوں کے محفوظ راستے کو بھی یقینی بنایا۔ اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی فورمز پر انخلا کے بعد ہونے والی ہر بحث میں، پاکستان نے افغان عوام کی مدد کے لیے ان کے9 ارب ڈالر کے منجمد اثاثوں کو جاری کرنے کی اپیلیں بھی کیں، تاکہ افغانستان اپنے پیروں پہ کھڑا ہو سکے۔

پاکستان نے ہر علاقائی پلیٹ فارم جیسے معاشی تعاون کی تنظیم (ECO) کا استعمال کرتے ہوئے افغان عوام کے حق میں امدادی اقدامات کی بھر پور وکالت بھی کی۔ پاکستان ہر مشکل وقت میں افغانستان میں امن اور استحکام کے لیے کھڑا ہوا، لیکن بدلے میں افغانستان ٹی ٹی پی کی مسلح آماجگاہ بنا کر پاکستان ہی کے خلاف استعمال ہونے لگا ہے۔ بار بار اشتعال انگیزیوں کے باوجود، پاکستان نے مذہبی، قبائلی اور سرکاری چینلز کے ذریعے پرامن کوششیں جاری رکھیں۔ اس وقت صورتحال انتہائی نازک ہے اور اس کے مزید بگڑنے کے خطرناک امکانات ہیں۔

 افغان طالبان کے رویے میں تضاد صاف جھلکتا ہے۔ ایک طرف وہ بین الاقوامی برادری سے سفارتی تسلیم اور امداد کے خواہاں ہیں، دوسری جانب پاکستان کے بار بار مطالبے کے باوجود وہ کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے خلاف کوئی واضح قدم نہیں اٹھاتے۔ یہ طرزِ عمل نہ صرف سفارتی سطح پر غیر ذمے داری کا مظہر ہے بلکہ تاریخی احسان فراموشی کی جھلک بھی رکھتا ہے۔ افغان قیادت کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ جب سوویت یونین نے افغانستان پر یلغار کی، تو پاکستان ہی وہ ملک تھا جس نے اپنی معیشت، معاشرت اور سلامتی کو قربان کر کے افغان عوام کی مدد کی۔ اس وقت پاکستان کے شہروں، اسکولوں، اسپتالوں اور بازاروں نے لاکھوں افغان پناہ گزینوں کو پناہ دی، ان کے لیے اپنے دروازے کھول دیے۔ نہ صرف یہ کہ ان پناہ گزینوں کو انسانی بنیادوں پر تحفظ فراہم کیا گیا بلکہ انھیں ایک شہری کی حیثیت سے زندگی گزارنے کے مواقع بھی دیے گئے، ایسا برادرانہ سلوک دنیا کی کسی اور ریاست نے کسی پناہ گزین قوم کے ساتھ نہیں کیا۔

 جب کوئی قوم اپنے ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنے سے انکار کر دے، تو اس کا حال داؤ پر لگ جاتا ہے اور مستقبل تاریکی میں گم ہو جاتا ہے۔ یہ ایک افسوسناک امر ہے کہ عبوری افغان حکومت، جو خود دہشت گردی کے خلاف ایک طویل جنگ کے بعد ابھری تھی، آج انھی عناصر کو پناہ دے رہی ہے جنھوں نے دہائیوں تک اس سرزمین کو خون میں نہلائے رکھا۔

طالبان قیادت نے عالمی برادری کے ساتھ وعدہ کیا تھا کہ وہ افغانستان کی سرزمین کو کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے۔ مگر حالات اور زمینی حقائق ان دعوؤں کی نفی کر رہے ہیں۔ تحریک طالبان پاکستان، داعش خراسان، اور القاعدہ جیسے عناصر نہ صرف افغانستان میں سرگرم ہیں بلکہ انھیں منظم انداز میں تحفظ دیا جا رہا ہے۔ ان گروہوں کو تربیت، وسائل، پناہ اور نظریاتی پشت پناہی فراہم کی جا رہی ہے۔

اگر افغانستان کی عبوری حکومت یہ سمجھتی ہے کہ دہشت گردوں کی سرپرستی کرکے وہ پاکستان پر دباؤ ڈال سکتی ہے یا کسی حکمت عملی میں کامیابی حاصل کر سکتی ہے، تو یہ ایک سنگین غلط فہمی ہے۔ پاکستان ایک منظم ریاست ہے، جس نے دہشت گردی کے خلاف اپنی تاریخ میں عظیم قربانیاں دی ہیں۔ اس کی فوج، عوام اور ریاستی ادارے دہشت گردی کے خلاف یکجہت ہیں۔

ایسی ریاست کو غیر مستحکم کرنا نہ صرف ایک خطرناک خیال ہے بلکہ خطے میں خود افغان حکومت کی سلامتی کو بھی خطرے میں ڈال سکتا ہے۔ دہشت گردوں کی پشت پناہی کرتے ہوئے افغان حکومت کو یہ بھی سوچنا چاہیے کہ وہ عالمی برادری کی نظروں میں کیا مقام حاصل کر رہی ہے، اگر یہی روش جاری رہی تو نہ صرف بین الاقوامی امداد رُک جائے گی بلکہ افغانستان تنہا رہ جائے گا۔

 یہ لمحہ افغان حکومت کے لیے ایک فیصلہ کن موڑ ہے۔ وہ چاہے تو ایک ذمے دار ریاست کے طور پر دنیا کے ساتھ کھڑی ہو سکتی ہے، اور چاہے تو دہشت گردوں کا ساتھ دے کر دنیا سے کٹ سکتی ہے۔ لیکن یہ بات طے ہے کہ دہشت گردوں کی پشت پناہی کرتے ہوئے افغانستان کبھی بھی ایک مستحکم، خود مختار اور قابل احترام ریاست کے طور پر دنیا کے نقشے پر برقرار نہیں رہ سکے گا۔ اگر طالبان واقعی اسلامی نظام کے نفاذ کے خواہاں ہیں تو انھیں چاہیے کہ وہ اسلام کی اصل روح کو سمجھیں۔ اسلام ہمیں امن، رواداری، حسنِ سلوک اور ہمسایوں کے حقوق کی پاسداری کا درس دیتا ہے۔

کسی بھی ہمسایہ ملک کے خلاف دہشت گردی کی اجازت دینا نہ صرف اسلامی اصولوں کی خلاف ورزی ہے بلکہ خود اپنے عوام کے مستقبل سے خیانت ہے۔پاکستان نے ہمیشہ مذاکرات کو ترجیح دی ہے، اور آج بھی اس بات کا خواہاں ہے کہ افغانستان کے ساتھ مل کر ایک ایسا راستہ نکالا جائے جو دونوں ممالک کے لیے امن، ترقی اور استحکام کی نوید ہو۔ افغانستان کو چاہیے کہ وہ پاکستان کے ساتھ سنجیدہ، باضابطہ اور نتیجہ خیز مذاکرات پر عمل درآمد کرے۔ سرحدی نگرانی، انٹیلی جنس شیئرنگ، اور دہشت گردوں کے خلاف مشترکہ کارروائیاں وقت کی اہم ضرورت ہیں۔یہ محض ایک دو طرفہ مسئلہ نہیں بلکہ عالمی برادری کی بھی ذمے داری ہے کہ وہ افغانستان پر دباؤ ڈالے کہ وہ اپنی سرزمین کو دہشت گردی کے لیے استعمال نہ ہونے دے۔

افغان حکومت کو سوچنا ہوگا کہ وہ کس سمت جانا چاہتی ہے، اگر اس نے دہشت گردوں سے لاتعلقی اختیار نہ کی، تو نہ صرف خطہ عدم استحکام کا شکار ہوگا بلکہ افغانستان خود بھی دنیا میں تنہا ہو جائے گا، اور اگر اس نے ہوش مندی کا مظاہرہ کیا، پاکستان سے مل کر امن و استحکام کی راہ اپنائی، تو یہ صرف دو ملکوں کے لیے نہیں بلکہ پورے خطے کے لیے ایک نئی صبح کا آغاز ہو سکتا ہے۔ اب وقت فیصلے کا ہے۔ یہ فیصلہ افغانستان کی عبوری حکومت کو کرنا ہے کہ وہ امن کا ساتھ دیتی ہے یا دہشت گردی کا۔ اس فیصلے پر اس ملک کا مقدر، خطے کی سلامتی اور لاکھوں بے گناہ انسانوں کا مستقبل منحصر ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: بین الاقوامی کہ افغانستان افغانستان کی دہشت گردی کے افغان حکومت پاکستان کے افغان عوام پاکستان نے نہیں بلکہ سرزمین کو کی سرزمین کہ افغان چاہیے کہ ہیں بلکہ کے ساتھ سکتی ہے جائے گا کے خلاف اور اس یہ ایک کے لیے رہا ہے

پڑھیں:

ملائیشیا کے وزیراعظم سے رابطہ، شہباز شریف نے افغانستان سے دہشتگردی پر اعتماد میں لیا  

( ویب ڈیسک )وزیراعظم شہباز شریف اور ملائیشیا کے ہم منصب انور ابراہیم کے درمیان ٹیلیفونک رابطہ ہوا ہے۔ 

 دونوں رہنماؤں نے پاک ملائیشیا تعلقات، علاقائی صورتِ حال اور باہمی تعاون پر تبادلہ خیال کیا۔ شہباز شریف اور انور ابراہیم نے خطے کی صورتِ حال اور امن کی کوششوں پر بھی بات چیت کی۔

 وزیراعظم شہباز شریف نے ملائیشین ہم منصب انور ابراہیم کو پاک افغان سرحدی صورتحال سے بھی آگاہ کیا۔

دکی ؛ کوئلے کی کان میں مٹی کا تودہ گرنے سے دو کان کن جاں بحق

 شہباز شریف نے کہا کہ پاکستان کو افغان سرزمین سے سرحد پار دہشت گردی کا مسلسل سامنا ہے۔ افغان حکام کو چاہیے کہ وہ افغان سرزمین سے پاکستان میں حملے کرنے والے دہشت گرد نیٹ ورکس کے خلاف فوری اور مؤثر کارروائی کریں۔ 

 شہباز شریف نے کہا کہ پاکستان نے افغان حکام کی درخواست پر دوحہ میں مذاکرات میں عارضی جنگ بندی پر آمادگی ظاہر کی۔ سرحدی علاقوں میں امن و امان کی بحالی کے لیے تمام دہشت گرد تنظیموں کے خلاف عملی اور ٹھوس اقدامات ناگزیر ہیں۔ 

وزیراعلیٰ سندھ سے قمر زمان کائرہ کی ملاقات،سیاسی صورتحال اور پارٹی امور پر گفتگو

 انہوں نے کہا کہ فتنہ الخوارج، فتنہ ہندوستان، ٹی ٹی پی اور بی ایل اے کے خلاف مؤثر کارروائی ضروری ہے۔ 

 ملائیشیا کے وزیراعظم انور ابراہیم نے خطے میں بڑھتی کشیدگی پر تشویش کا اظہار کیا۔ 

متعلقہ مضامین

  • ملائیشیا کے وزیراعظم سے رابطہ، شہباز شریف نے افغانستان سے دہشتگردی پر اعتماد میں لیا  
  • افغانستان کا پاکستان مخالف کردار
  • بھارتی سرپرستی میں افغان سرزمین سے دہشت گردی کا سلسلہ ختم ہونا ضروری ہے، وزیر اطلاعات
  • غربت کا خاتمہ صرف سماجی تقاضا نہیں بلکہ ہماری قومی اور اخلاقی ذمہ داری ہے، گورنر سندھ
  • پاکستان اور افغانستان کے درمیان پُرامن حل کیلیے مذاکرات جاری، دفتر خارجہ
  • پاکستان اور افغانستان تعمیری مذاکرات میں مصروف ہیں: دفتر خارجہ
  • بھارت کی افغانستان میں دہشت گردوں کی پشت پناہی اور نرسریاں ریکارڈ پر ہیں، دفتر خارجہ
  • داعش خراسان کے تاجک، کرغیز، ازبک اور قازق زبانوں میں دہشت گردوں کی بھرتی کے لئے آن لائن اشتہارات
  • پاکستان کے خلاف را، خاد گٹھ جوڑ