اسرائیل نے جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے غزہ میں انسانی امداد کے داخلے پر مکمل پابندی عائد کردی ہے، جب کہ جنوبی رفح میں ایک حملے کے دوران 2 اسرائیلی فوجی ہلاک اور 3 زخمی ہوگئے۔ اس صورتِ حال نے جنگ بندی کے مستقبل کو غیر یقینی بنادیا ہے اور خطے میں کشیدگی ایک بار پھر بڑھنے لگی ہے۔

اسرائیلی میڈیا کے مطابق حکومت نے فوج کو ہدایت دی ہے کہ غزہ میں کسی بھی قسم کی انسانی امداد کو تاحکمِ ثانی داخل نہ ہونے دیا جائے۔

یہ بھی پڑھیں: اسرائیل کی جانب سے غزہ جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی پر حماس کا ردعمل آگیا

رپورٹس کے مطابق یہ فیصلہ حماس کی جانب سے جنگ بندی معاہدے کی مبینہ خلاف ورزی کے بعد کیا گیا ہے۔ اس سے قبل اسرائیلی فضائیہ نے غزہ کے مختلف علاقوں میں شدید بمباری کی جس کے نتیجے میں کم از کم 20 افراد شہید ہوگئے۔

اسرائیلی فوج کے بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ کارروائیاں اتوار کی صبح حماس کی جانب سے جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کے جواب میں کی گئیں۔ فوج کے مطابق جنوبی غزہ کے مختلف علاقوں میں درجنوں اہداف کو نشانہ بنایا گیا۔

واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ثالثی سے طے پانے والی جنگ بندی 10 اکتوبر کو نافذ ہوئی تھی، جس کے بعد اسرائیل اور حماس کے درمیان 2 سال سے جاری تباہ کن جنگ عارضی طور پر رک گئی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: اسرائیلی فوج کا غزہ پر نیا حملہ، جنگ بندی خطرے میں پڑ گئی

میڈیا رپورٹس کے مطابق اسرائیلی توپ خانے نے جنوبی غزہ کے خان یونس کے مشرقی علاقوں عبسان اور الزنہ پر بھی گولہ باری کی، جبکہ رفح میں ایک حملے کے دوران 2 اسرائیلی فوجی ہلاک اور 3 زخمی ہوگئے۔

اسرائیلی فوج نے بتایا کہ ہلاک ہونے والے اہلکاروں کی شناخت میجر یانیو کولا اور اسٹاف سارجنٹ ایتائے یاویٹس کے طور پر ہوئی ہے، جو ناحل بریگیڈ کی 932ویں بٹالین سے تعلق رکھتے تھے۔ یہ واقعہ آج صبح جنوب مشرقی رفح میں صلاح الدین روڈ کے قریب پیش آیا، جو جنگ بندی کے تحت اسرائیلی کنٹرول میں واقع علاقہ ہے۔

ابتدائی تحقیقات کے مطابق حملہ آور ایک سرنگ سے نکلے اور آر پی جی راکٹ سے ایک ایکسکویٹر کو نشانہ بنایا، جس سے 2 فوجی موقع پر جاں بحق ہوئے۔ بعد ازاں اسنائپر فائر سے مزید 3 فوجی زخمی ہوئے جن میں ایک کی حالت نازک بتائی گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: اسرائیل کی جانب سے غزہ جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی، حملے میں 9 فلسطینی شہید

اسرائیلی فوج کے مطابق یہ اہلکار علاقے میں حماس کی زیرِ زمین سرنگوں کے خاتمے کے آپریشن پر مامور تھے۔ حملے کے بعد اسرائیلی فضائیہ اور زمینی دستوں نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے جنوبی غزہ کے مختلف حصوں میں شدید بمباری کی۔

حماس کا حملے سے لاتعلقی کا اظہار

دوسری جانب حماس کے عسکری ونگ القسام بریگیڈز نے واقعے سے لاعلمی ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ تنظیم جنگ بندی معاہدے پر قائم ہے۔ بیان میں کہا گیا کہ انہیں رفح کے علاقے میں کسی جھڑپ یا کارروائی کی معلومات نہیں، کیونکہ یہ علاقے قابض اسرائیلی افواج کے کنٹرول میں ہیں اور وہاں موجود مزاحمت کاروں سے رابطہ کئی ماہ سے منقطع ہے۔

ماہرین کے مطابق غزہ میں امدادی پابندی اور بڑھتے فضائی حملے خطے میں نئی انسانی بحران کی راہ ہموار کر سکتے ہیں، جبکہ جنگ بندی کے مستقبل پر بھی سوالات اٹھنے لگے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

we news اسرائیل اسرائیلی فوجی ہلاک امدادی کارروائیاں معطل بمباری توپ خانہ جنگ بندی حماس خان یونس غزہ.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: اسرائیل اسرائیلی فوجی ہلاک امدادی کارروائیاں معطل توپ خانہ خان یونس جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی اسرائیلی فوج کی جانب سے کے مطابق غزہ کے

پڑھیں:

غزہ امن منصوبہ: جنگ بندی کے باوجود اسرائیلی من مانی جاری

سابق چیئر مین شعبہ میڈیا اینڈ کمیونیکشن اسٹڈیز، اسلامیہ یونیورسٹی ، بہاولپور
 

یہ امر خوش آئند ہے کہ غزہ امن منصوبے کے پہلے مرحلے کے مطابق جنگ بندی کا اعلان کردیا گیا ہے۔اور طے شدہ فارمولے کے تحت حماس نے 20 زندہ یرغمالیوں اور چند یرغمالیوں کی لاشیں اسرائیل کے حوالے کی ہیں، جبکہ اسرائیل نے 1968 فلسطینی قیدی حماس کے حوالے کیے ہیں۔

اس موقع پر دونوں جانب جذباتی مناظر دیکھنے کو ملے۔ لیکن حقیقی صورتحال یہ ہے کہ اسرائیل کی طرف سے جنگ بندی کی خلاف ورزی جاری ہے۔ الجزیرہ کے مطابق تازہ اسرائیلی حملوں میں کم از کم نو فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔ جبکہ فوج نے غزہ کے شہریوں کو ان علاقوں سے دور رہنے کی ہدایت کی ہے جن پر وہ اب بھی قابض ہے۔اسی دوران اسرائیل نے رفح سرحدی گزرگاہ کھولنے سے انکار کر دیا ہے۔

جو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد کی فراہمی کے لیے نہایت اہم ہے۔ اسرائیل نے اقوام متحدہ کو مطلع کیا ہے کہ وہ غزہ میں داخل ہونے والی امداد نصف کر دے گا۔ جس کے تحت اب روزانہ صرف 300 ٹرکوں کو داخلے کی اجازت دیجائیگی۔جنوبی لبنان میںبھی اسرائیل کے دوفضائی حملوںمیںتین افراد زخمی ہوئے ہیں۔جبکہ وہاںبھی جنگ بندی کیخلاف ورزیاںجاری ہیں۔بین الاقوامی مبصرین کیمطابق اگرچہ غزہ میںجنگ بندی کانفاذ امن کے عمل کے لیے ایک مثبت پیش رفت ہے۔لیکن اسرائیلی اقدامات اسکے تسلسل کے لیے سنگین خطرہ بن سکتے ہیں۔

ادھر حماس نے آٹھ اسرائیلی قیدیوں کی لاشیں ریڈ کراس کے ذریعے اسرائیل کے حوالے کی ہیں۔ تاہم اسرائیل کا کہنا ہے کہ فلسطینی تنظیم باقی 20 قیدیوں کی رہائی میں سست روی دکھا رہی ہے۔ امریکی خبر رساں ادارے "ایکسئوس (Axios)"کے مطابق حماس نے اپنا بھاری اسلحہ، بالخصوص راکٹ اور میزائل، غزہ کی فلسطینی انتظامیہ یا کسی عرب ملک کے حوالے کرنے کی پیشکش کی ہے۔

تاہم تنظیم نے کہا ہے کہ وہ اپنے ہلکے ہتھیار، یعنی بندوقیں، دفاع کے لیے اپنے پاس رکھے گی۔ رپورٹ کے مطابق ایک امریکی عہدیدار اور ایک باخبر ذریعے نے بتایا کہ حماس نے بھاری ہتھیار چھوڑنے پر آمادگی ظاہر کی ہے مگر اپنے دفاع کے لیے ہلکے اسلحہ کو برقرار رکھنے پر اصرار کیا ہے۔

ٹرمپ نے منگل کے روزاعلان کیاہے کہ غزہ جنگ بندی معاہدے کا’’دوسرامرحلہ‘‘شروع ہوگیاہے۔اس مرحلے کے تحت غزہ کے لیے ایک نیاحکومتی نظام قائم کیا جائیگا۔ایک کثیرالملکی امن فورس تشکیل دیجائے گی اورحماس کوغیرمسلح کیاجائیگا۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حماس کو متنبہ کیا ہے کہ اگر اس نے اپنے ہتھیار خود نہ ڈالے تو اسے طاقت کے ذریعے غیر مسلح کر دیا جائے گا۔ تاہم انہوں نے غزہ میں ایک جرائم پیشہ گروہ کے خلاف کارروائی پر حماس کی تعریف بھی کی۔

اس دوران اسرائیل کے دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے وزیرِ خزانہ بیزالیل اسموتریچ (Bezalel Smotrich)نے اعلان کیا ہے کہ ’’غزہ میں یہودی بستیاں قائم کی جائیں گی۔‘‘انہوں نے جنوبی اسرائیلی شہر سدروت میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا۔’’ ہم صبر رکھتے ہیں مگر ہمارے اندر عزم اور ایمان ہے اور خدا کی مدد سے ہم فتوحات اور معجزات کا یہ سلسلہ جاری رکھیں گے۔‘‘

   دوسری جانب وہ جنگ بندی معاہدہ جس کی ضمانت امریکی صدر ٹرمپ نے دی ہے۔ اس کے مطابق اسرائیل کو اپنی فوج غزہ سے واپس بلانی تھی۔ تاہم اسموتریچ کے یہ بیانات امن عمل کے مستقبل پر نئے سوالات اٹھا رہے ہیں۔تجزیہ کاروں کے مطابق اب یہ واضح نہیں کہ آیا امریکی صدر حماس کو ہلکے ہتھیار رکھنے کی اجازت دیں گے یا نہیں اور آیا اسرائیلی حکومت اندرونی سطح پر اس معاہدے پر متفق ہے یا نہیں۔

 پہلے مرحلے کی پیش رفت کے بعد ٹرمپ نے اسرائیل اور مصر کا دورہ کیا۔ جہاں انہوں نے فریقین پر امن عمل کو آگے بڑھانے پر زور دیا۔ پیر کے روز مصر کے سیاحتی مقام شرم الشیخ میں ہونے والی کانفرنس کے دوران امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سمیت دیگر ثالث ممالک قطر، ترکی ا ور مصر نے غزہ امن معاہدے پر دستخط کر دیئے۔

شرم الشیخ مصر میں امریکہ اور مصر کی میزبانی میں منعقدہ کانفرنس میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوٹیرس' پاکستان' قطر' ترکیہ' اٹلی فرانس اور جرمنی سمیت 20 ممالک کے سربراہان نے شرکت کی جبکہ اسرائیلی وزیراعظم ،ترکی اور چند دیگر اسلامی ممالک کی مخالفت کے باعث شریک نہ ہوسکے۔انڈین وزیراعظم مودی کو بھی اس کانفرنس میں مدعو کیا گیا تھا لیکن وہ شریک نہیں ہوئے۔انکی جگہ وزیر مملکت برائے خارجہ امور کیرتی وردھن آئے اطلاعات کے مطابق حماس کا نمائندہ بعض نکات پر تحفظات کے باعث شریک نہیں ہوا۔

اس موقع پر ڈونلڈ ٹرمپ نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مشرق وسطیٰ میں قیام امن کے لیے کی یہ ایک تاریخی دن ہے ہم ملکر غزہ کی تعمیر نو کریں گے۔انہوں نے امن معاہدے پر عملدرآمد کرانے میں اہم کردار ادا کرنے پر قطر' ترکیہ ‘مصر اور دیگر ممالک کا شکریہ ادا کیا اور پاکستانی چیف آف آرمی سٹاف فیلڈ مارشل آصف منیر کو اپنا پسندیدہ فیلڈ مارشل قرار دیتے ہوئے غیر روایتی طور پر وزیراعظم شہباز شریف کو گفتگو کرنے کیلئے ڈائس پر بلایا۔

سفارتی سطح پر یقیناً یہ ایک مثبت سائن ہے پاکستانی حکومت کو سمجھداری کے ساتھ اس موقع سے بھرپور سیاسی معاشی اور دفاعی فائدہ اٹھانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ شہباز شریف نے گفتگو کرتے ہوئے ٹرمپ کو مین آف دا پیس قرار دیتے ہوئے دوبارہ امن کے نوبیل پرائز کیلئے نامزد کرنے کا عندیہ دے دیا۔

انہوں نے کہا کہ جنوبی ایشیا'مشرق وسطی اور دنیا کے دیگر خطوں میں امن کے قیام میں ٹرمپ کا اہم کردار ہے دنیا کو اس وقت ٹرمپ جیسی قیادت کی ضرورت ہے۔اس سے قبل اسرائیلی پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا کہ اسرائیل نے معاہدے کے ذریعے وہ سب کچھ حاصل کرلیا جو وہ چاہتا تھا۔انہوں نے معاہدے کی کامیابی میں اہم کردار ادا کرنے پر نیتن یاہو کی خدمات کو سراہتے ہوئے انہیں اہم راہنما قرار دیا۔انہوں نے کہا کہ اب ہمیں غزہ کی تعمیر نو پر توجہ کرنی ہوگی اور حماس کو غیر مسلح ہونا پڑے گا۔

انہوں نے کہا کہ بندوقیں خاموش ہو رہی ہیں امن آرہا ہے۔عرب اور مسلم ممالک نے یرغمالیوں کی رہائی کیلئے اپنا اثر رسوخ استعمال کیا ہے۔لوگوں کو لگ رہا تھا کہ ہم غزہ میں امن کی کوششوں پر وقت ضائع کررھے ہیں۔وقت آگیا ہے کہ میدان جنگ میں دہشت گردی کے خلا ف کامیابی کو مشرق وسطیٰ کیلئے خوشحالی کے حتمی انعام میں تبدیل کیا جائے۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ انہوں نے دونوں جگہ پر اپنی تقاریر میں اسرائیل کو معاہدے کی پاسداری کرنے 'جارحیت سے باز رہنے اور آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کو تسلیم کرنے پر کوئی بات نہیں کی۔تاہم ٹرمپ کی تقریر کے دوران اسرائیلی پارلیمنٹ کے بائیں بازو کے اتحاد حداش سے تعلق رکھنے والے عرب رکن پارلیمنٹ ایمن عودہ نے اسرائیل کے ساتھ آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے نعرے اور پوسٹر بلند کئے جس پر انہیں سیکیورٹی نے پارلیمنٹ سے باہر نکال دیا۔

ٹرمپ کی تقریر سے پہلے عود نے اپنی سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر تحریر کیا تھا کہ ایوان میں منافقت کی حد ہوگئی ہے نیتن یاہو اور اسکی حکومت کو انسانیت کے خلاف جرائم اور فلسطینیوں کی نسل کشی سے بری نہیں کیا جا سکتا۔میں صرف جنگ بندی اور مجموعی امن معاہدے کے احترام میں پارلیمنٹ میں موجود ہوں۔انہوں نے مزید تحریر کیا کہ اسرائیل کے ساتھ فلسطین کو بھی ایک ریاست کے طور پر تسلیم کیا جائے اور اسرائیلی غیر قانونی قبضے کو ختم کیا جائے۔سیاسی مبصرین کے مطابق عودہ کا یہ جرات مندانہ اقدام اسرائیلی سیاست کے اندر بڑھتی ہوئی تقسیم اور جنگ بندی کے بعد کے پیچیدہ حالات کی نشاندھی کرتا ہے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے پیش کیے گئے 20 نکاتی امن معاہدے کے پہلے مرحلے کے مکمل ہونے پر اگلے اقدامات پر عملدرآمد کے لیے مزید مذاکرات کیے جائیں گے۔بہرحال اس وقت تک مثبت پیش رفت یہ ہے کہ پہلے مرحلے میں یرغمالیوں کی رہائی سے قبل اسرائیلی فوج غزہ میں پیچھے ہٹ گئی ہے جس کے بعد اب ان کے پاس غزہ کے 53 فیصد حصے کا کنٹرول رہ گیا ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ کے منصوبے کے مطابق یہ غزہ سے اسرائیلی انخلا کے تین مراحل میں سے پہلا مرحلہ ہے۔ایک سینیئر امریکی اہلکار کے مطابق اگلے مراحل میں امریکی فوج کے زیرِ نگرانی لگ بھگ 200 فوجیوں پر مشتمل ایک کثیر الملکی فورس جنگ بندی کی نگرانی کرے گی۔ خیال کیا جاتا ہے کہ اس فورس میں مصر، قطر، ترکی اور متحدہ عرب امارات کے فوجی شامل ہوں گے۔تاہم امریکی حکام کا کہنا ہے کہ امریکی فوجی غزہ میں تعینات نہیں کیے جائیں گے۔

20 نکاتی منصوبے کے تحت اگر دونوں فریق، اسرائیل اور حماس، اس معاہدے پر راضی ہو جاتے ہیں تو جنگ فوراً ختم ہو جائے گی۔ اس کے علاوہ غزہ کو غیر فوجی زون بنایا جائے گا اور ہر طرح کی عسکری اور دہشتگردی کی تنصیبات تباہ کر دی جائیں گی۔غزہ میں ایک ٹیکنوکریٹ، غیر سیاسی فلسطینی کمیٹی کی عارضی عبوری حکومت قائم کی جائے گی جو غزہ میں عوامی خدمات اور بلدیاتی ادارے چلانے کی ذمہ دار ہو گی۔ یہ کمیٹی فلسطینیوں اور بین الاقوامی ماہرین پر مشتمل ہو گی۔ اس کمیٹی کی نگرانی ایک نیا بین الاقوامی عبوری ادارہ بورڈ آف پیس کرے گا جس کی سربراہی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کریں گے۔

غزہ کی تعمیر نو اور اصلاحات کے بعد غزہ کا کنٹرول فلسطینی اتھارٹی کے حوالے کر دیا جائے گا جو ابھی مغربی کنارے پر حکومت کر رہی ہے۔حماس جو کہ 2007 سے غزہ میں بر سرِ اقتدار ہے اس کا غزہ کی حکمرانی میں براہ راست، بالواسطہ یا کسی بھی صورت میں کوئی کردار نہیں ہو گا۔ حماس کے وہ ارکان جو پرامن بقائے باہمی کا وعدہ کریں گے اور اپنے ہتھیار ڈال دیں گے انھیں عام معافی دی جائے گی۔ اس کے علاوہ کسی کو بھی غزہ چھوڑنے پر مجبور نہیں کیا جائے گا اور جو غزہ چھوڑنا چاہیں گے وہ ایسا کرنے کے لیے آزاد ہوں گے اور وہاں واپس آنے کے لیے بھی۔

غزہ کی تعمیر نو کے لیے ٹرمپ کے اقتصادی ترقی کا منصوبہ ایسے ماہرین کا پینل تیار کرے گا جنھوں نے مشرق وسطیٰ میں ترقی پذیر جدید شہروں میں سے کچھ کو بنانے مدد دی تھی۔غزہ کا نقشہ جس میں اسرائیلی فوج کے مرحلہ وار انخلا کے بارے میں بتایا گیا ہے۔

غزہ امن معاہدے میں کئی ایسے نکات شامل ہیں جن پر آنے والے دنوں میں مذاکرات کے دوران اختلاف کا امکان ہے ان میں سے ایک حماس کے غیر مسلح ہونے کی شرط ہے۔حماس پہلے بھی ہتھیار ڈالنے سے انکار کر چکی ہے۔ اس کا موقف ہے کہ وہ فلسطینی ریاست کے قیام تک ہتھیار نہیں ڈالے گی۔

فلسطینی تنظیم نے گذشتہ ہفتے کے آخر میں غزہ منصوبے کے بارے میں اپنے ابتدائی ردعمل میں غیر مسلح ہونے کا کوئی تذکرہ نہیں کیا ہے جس نے اس قیاس آرائی کو ہوا دی ہے کہ اس کے موقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ تاہم حالیہ اطلاعات کے مطابق حماس نے بھاری اسلحہ چھوڑنے پرآمادگی ظاہرکی ہے مگراپنے دفاع کے لیے ہلکااسلحہ برقراررکھنے پراصرارکیا ہے۔ اس حوالے سے ابھی تک حماس کی جانب سے باضابطہ بیان سامنے نہیںآیا۔

دوسری طرف اگرچہ اسرائیل نے ٹرمپ کے منصوبے سے مکمل اتفاق کیا ہے تاہم اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو

جنگ کے بعد غزہ میں فلسطینی اتھارٹی کے کردار کے حق میں نظر نہیں آتے۔حماس نے بھی کہا ہے کہ مستقبل میں

غزہ میں ان کا بھی کچھ کردار ہونا چاہیے۔

ایک اور اہم نکتہ اسرائیلی فوج کا انخلا ہے۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ انخلا کے پہلے مرحلے کے بعد وہ غزہ کے تقریباً

53 فیصد حصے پر اپنا کنٹرول برقرار رکھے گا۔ وائٹ ہاؤس کے منصوبے کے مطابق اسرائیلی کنٹرول بتدریج 40 فیصد اور پھر 15 تک محدود کر دیا جائے گا۔انخلا کا آخری مرحلہ ایک سیکیورٹی حصار کے طور پر ہوگا جو اس وقت تک برقرار رہے گا جب تک کہ غزہ سے دوبارہ کسی بھی دہشتگرد حملے کا خطرہ ختم نہیں ہو جاتا۔ معاہدے کا یہ نکتہ واضح نہیں اور اسرائیل کے مکمل انخلا کے لیے کوئی واضح ٹائم لائن نہیں دیتا اور متوقع طور پر اس پر حماس وضاحت چاہے گا۔

دوسری طرف اردن کے شاہ عبداللہ دوئم نے خبردار کیا ہے کہ جب تک ایسا امن عمل شروع نہیں کیا جاتا جس کے نتیجے میں فلسطینی ریاست کا قیام ممکن ہو مشرق وسطیٰ کی تباہی یقینی ہے۔یہ بات انھوں نے مصر کے شہر شرم الشیخ میں غزہ امن اجلاس سے قبل بی بی سی پینوراما کو دیے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں کہی۔ شاہ عبداللہ کا کہنا تھا کہ اگر ہم اس مسئلے کو حل نہیں کرتے، اگر ہم اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے مستقبل اور اسرائیل کے ساتھ عرب اور مسلم دنیا کے تعلقات قائم کرنے کی کوشش نہیں کرتے تو ہماری تباہی یقینی ہے۔

شاہ عبداللہ کا کہنا تھا کہ اس خطے میں امن کے لیے کئی کوششیں کی گئی جو ناکام ہوئیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ دو ریاستی حل جس میں اسرائیل کے ساتھ مغربی کنارے اور غزہ پر مشتمل ایک آزاد فلسطینی ریاست کا قیام ہی اس کا واحد حل ہے۔شاہ عبداللہ کا کہنا تھا کہ انھیں امید ہے کہ مزاکرات کار سیاسی بصیرت کے ساتھ صورتحال کو واپس پہلے کی پوزیشن پر واپس لا سکیں گے۔ کیونکہ اگر ہم اس مسئلے کو اب حل نہیں کرتے ہیں تو ہمیں دوبارہ اس مسئلے کا شدت سے سامنا کرنا پڑے گا۔

اب اہم سوالات یہ ہیں کہ معاہدے کے اگلے مراحل میں کیا ہو گا؟کیا اسرائیل یرغمالیوں کی رہائی کے بعد ماضی کی طرح معاہدے کو کسی بہانے سے توڑ کر دوبارہ جارحیت کا آغاز نہیں کردے گا؟کیا اس معاہد ے کا انجام بھی اوسلو اور دیگر معاہدوں کی طرح نہیں ہوگا؟ کیا ٹرمپ اسرائیل کو معاہدے کے مکمل نکات پر عمل درآمد کراتے ہوئے اپنے دعوے کے مطابق مشرقِ وسطیٰ میں پائیدار امن قائم کرسکیں گے۔ان سوالات کے حتمی جوابات تو مستقبل میں ہونے والی پیش رفت سے ہی حاصل ہو سکیں گے لیکن اگر مسلم ممالک متحد ہوکر اچھی حکمت عملی اور جارحانہ سفارت کاری کے ذریعے دباؤ برقرار رکھتے ہیں تو توقع کی جاسکتی ہے کہ ٹرمپ اپنے مخصوص مزاج اور امن کے چیمپئن کا ٹائٹل حاصل کرنے کیلئے اپنے پیش کردہ معاہدے کو کافی حد تک کامیابی سے ہم کنار کرسکتے ہیں۔

دنیا بھر میں اس معاہدے کیلئے حکومتی اور عوامی سطح پر اس وقت سازگار ماحول ہے تاہم نیتن یاہو کو اپنی من مانیوں سے روکنے کیلئے ٹرمپ کو اس پر اپنا دباؤ برقرار رکھنا پڑے گا اور اس کیلئے اسلامی ممالک کو دیگر ہم آہنگی رکھنے والے اہم یورپی ممالک کے ساتھ مل کر ٹرمپ کو ذہنی طور پر اس مقصد کے لیے تیار کرنا ہوگا۔

اسلامی ممالک کے ساتھ اس مسئلے پر پیدا ہونے والی قربت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ٹرمپ کی خواہش ہوگی کہ ابرہام اکارڈ کے تحت دیگر اسلامی ممالک کو بھی اس کا حصہ بنا کر اسرائیل کو تسلیم کرنے کیلئے راہ ہموار کی جائے اور اس پہلو کو پیش نظر رکھتے ہوئے تمام مسلم ممالک کو اپنی سابقہ گروہ بندی اور انفرادی مفادات کے برعکس اس مشترکہ موقف پر سختی سے کھڑا رہنا ہوگا کہ آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کیلئے راہ ہموار ہونے تک یہ ممکن نہیں ہوگا۔

متعلقہ مضامین

  • غزہ امن منصوبہ: جنگ بندی کے باوجود اسرائیلی من مانی جاری
  • اسرائیل کی جانب سے غزہ جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی پر حماس کا ردعمل آگیا
  • اسرائیلی فوج کا غزہ پر نیا حملہ، جنگ بندی خطرے میں پڑ گئی
  • حماس نے دو مزید یرغمالیوں کی لاشیں اسرائیل کے حوالے کر دیں
  • حماس نے مزید دو اسرائیلی قیدیوں کی لاشیں ریڈ کراس کے حوالے کر دیں
  • یرغمالیوں کی لاشیں، نیتن یاہو کا نیا بہانہ
  • اسرائیل کی جانب سے غزہ جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی، حملے میں 9 فلسطینی شہید
  • حماس نے ایک اور مغوی کی لاش ریڈ کراس کے ذریعے اسرائیل کے حوالے کردی
  • خوئے بد را بہانہ ہائے بسیار!