ریاض احمدچودھری
پاکستان کے سکیورٹی حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ افغانستان کے صوبے پکتیکا میں گل بہادر گروپ کے شدت پسندوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا جس میں 70 جنگجو مارے گئے ہیں۔ مارے جانے والے شدت پسندوں میں صدیق اللہ داوڑ، غازی مداخیل، مقرب اور قسمت اللہ شامل تھے۔ ‘گروپ کے سرغنہ گلاب عرف دیوانہ بھی کارروائی میں مارے گئے جو اہم کامیابی ہے’۔وزیر اطلاعات عطاء اللہ تارڑ نے بتایا کہ پاکستانی علاقے میں شدت پسندوں کی جانب سے کیے گئے ایک حملے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ‘ گل بہادر گروپ نے شمالی وزیرستان میں گاڑی پر آئی ای ڈی حملہ کیا جس میں شہریوں اور پاک فوج کے ایک جوان نے شہادت کو گلے لگایا اور متعدد زخمی ہوئے۔تصدیق شدہ انٹیلی جنس رپورٹس کی بنیاد پر گل بہادر گروپ کے خارجیوں کے خلاف گزشتہ رات درست اور ہدف پر کارروائی کی گئی جن میں کم از کم 60 سے 70 خارجیوں اور ان کی قیادت کو ہلاک کیا گیا۔’عام شہریوں کو نشانہ بنانے کے حوالے سے کی جانے والی تمام قیاس آرائیاں اور دعوے غلط ہیں اور ان کا مقصد افغانستان کے اندر سے کام کرنے والے دہشت گرد گروپوں کی حمایت پیدا کرنا ہے۔پاکستان مخلصانہ طور پر اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ بھارت کی سرپرستی میں افغان سرزمین سے جنم لینے والی دہشت گردی کے اس پیچیدہ مسئلے کا حل بات چیت اور افغان حکام کی جانب سے غیر ریاستی عناصر پر موثر کنٹرول کے ذریعے ممکن ہے۔
وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ ‘کابل کے ساتھ تعلقات اب ماضی جیسے نہیں رہیں گے، اب احتجاجی مراسلے یا امن کی اپیلیں نہیں ہوں گی، کوئی وفد کابل نہیں جائے گا، جہاں کہیں بھی دہشت گردی کا منبع ہوگا، اسے بھاری قیمت چکانی ہوگی۔افغانستان بھارت کی گود میں بیٹھ کر پاکستان کے خلاف سازشیں کر رہا ہے، اور کہا کہ اسلام آباد اب ماضی جیسے تعلقات رکھنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ پاکستانی سرزمین پر موجود تمام افغانوں کو اپنے وطن واپس جانا ہوگا، اب ان کی اپنی حکومت (یا خلافت) کابل میں موجود ہے، اسلامی انقلاب کو 5 سال ہو چکے ہیں، اب انہیں پاکستان کے ساتھ ہمسایوں کی طرح رہنا ہوگا۔طالبان کے 2021 میں اقتدار میں آنے کے بعد، پاکستانی وزرائے خارجہ نے 4 بار کابل کا دورہ کیا، وزرائے دفاع اور آئی ایس آئی کے سربراہان نے دو بار، خصوصی نمائندے اور خارجہ سیکریٹری 5، 5 بار، قومی سلامتی مشیر نے ایک بار جب کہ جوائنٹ کوآرڈینیشن کمیٹی کے 8 اجلاس افغان دارالحکومت میں ہوئے۔ 225 بار سرحدی فلیگ میٹنگز ہوئیں، 836 احتجاجی مراسلے اور 13 سخت نوٹس (ڈی مارش) دیے گئے۔ 2021 سے اب تک 3 ہزار 844 شہادتیں (عام شہری، فوجی، اور قانون نافذ کرنے والے اہلکار) ہوئی ہیں، 10 ہزار 347 دہشت گرد حملے ہوئے ہیں۔
افغانستان عالمی دہشت گردی کا مرکز بن چکا ہے۔ 11 اور 12 اکتوبر کی درمیانی شب افغان طالبان نے پاکستان پر بلااشتعال فائرنگ کر دی تھی۔ طالبان سرحدی فورسز کے مطابق پاکستانی فضائی حملوں کے ردعمل میں افغان سرحدی فورسز مشرقی علاقوں میں بھاری لڑائی میں مصروف رہیں۔کنڑ، ننگرہار، پکتیکا، خوست اور ہلمند کے طالبان حکام نے بھی جھڑپوں کی تصدیق کی، اسلام آباد نے کابل پر زور دیا تھا کہ وہ کالعدم ٹی ٹی پی کو اپنی سرزمین پر پناہ دینے سے باز رہے۔ پاک فوج کی جوابی کارروائی میں درجنوں افغان فوجی مارے گئے اور عسکری گروہ مؤثر اور شدید جوابی کارروائی کے باعث پسپا ہو گئے تھے۔14 اکتوبر کو پاکـافغان سرحد میں کرم کے مقام پر ایک بار پھر افغان طالبان کی جانب سے بلااشتعال فائرنگ کی گئی تھی، پاک فوج نے بروقت جوابی کارروائی کی تھی، جس کے نتیجے میں طالبان پوسٹوں کو شدید نقصان پہنچا تھا۔15 اکتوبر کو پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے مطابق 15 اکتوبر 2025 کو علی الصبح افغان طالبان نے بلوچستان کے علاقے اسپن بولدک میں 4 مختلف مقامات پر بزدلانہ حملے کیے تھے، جنہیں پاکستانی سیکیورٹی فورسز نے بھرپور اور مؤثر انداز میں ناکام بنا دیا تھا، اس دوران 15 سے 20 افغان طالبان ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے تھے۔
15 اکتوبر کو ہی پاکستان نے افغانستان کے صوبہ قندھار اور دارالحکومت کابل میں افغان طالبان اور خوارج کے ٹھکانوں پر بمباری کی تھی، تمام اہداف باریک بینی سے منتخب کیے گئے جو شہری آبادی سے دور تھے، اس بمباری کے بعد پاکستان نے افغانستان کی جانب سے کی گئی سیز فائر کی درخواست قبول کرلی تھی۔ پاکستان کو اپنی سرحدی سالمیت اور اپنے عوام کی جان و مال کے تحفظ کا مکمل حق حاصل ہے اور ہم افغانستان سے آپریشن کرنے والے دہشت گردوں کو سکون سے رہنے کی اجازت ہرگز نہیں دیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: افغان طالبان کی جانب سے پاک فوج
پڑھیں:
افغانستان دہشت گردوں کو لگام ڈالے
وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ اس بات سے مشروط ہے کہ افغان طالبان، پاکستان پر اپنی سرزمین سے حملہ کرنیوالے دہشت گردوں کو قابو میں رکھیں۔ برطانوی خبر رساں ادارے رائٹر کو انٹرویو میں انھوں نے کہا افغانستان کی طرف سے ہونے والا کوئی بھی حملہ اس معاہدے کی خلاف ورزی ہوگی، ہر چیز اسی ایک شق پر منحصر ہے۔
افغانستان اور پاکستان کے درمیان حالیہ جنگ بندی معاہدہ اگرچہ بظاہر ایک سیاسی پیش رفت ہے، مگر اس کے مضمرات کہیں زیادہ گہرے، نازک اور دور رس ہیں۔ یہ معاہدہ خطے کے مستقبل پر بھی اثرانداز ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس معاہدے کی بنیاد ایک نہایت واضح اور دوٹوک شرط پر رکھی گئی ہے، جس کا مفہوم یہ ہے کہ جب تک افغانستان کی سرزمین سے پاکستان پر کوئی حملہ نہیں ہوتا، جنگ بندی برقرار رہے گی۔
گویا اس معاہدے کا تسلسل اور بقاء صرف اسی ایک اصول پر قائم ہے کہ افغان سرزمین کسی بھی طور پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہو۔ پاکستان نے اس موقع پر اپنے مؤقف کو نہایت وضاحت سے پیش کیا ہے کہ جنگ بندی کا دارومدار افغان حکومت کی جانب سے عسکریت پسندوں کو کنٹرول میں رکھنے پر ہے۔
یہ عسکریت پسند، جو ماضی قریب میں پاکستانی سرزمین پر حملوں کے مرتکب ہوئے ہیں، ان کے ٹھکانے، سہولت کار اور منصوبہ ساز بیشتر افغان حدود میں موجود پائے گئے ہیں۔ پاکستان نے اس روش پر شدید تحفظات کا اظہار کیا اورکئی بار سفارتی ذرایع سے کابل کو متنبہ کیا کہ اگر ایسے حملے بند نہ ہوئے تو تعلقات کی نوعیت مزید بگڑ سکتی ہے۔
تاریخ شاہد ہے کہ پاکستان نے ہمیشہ افغانستان کے ساتھ برادرانہ تعلقات استوار رکھنے کی کوشش کی ہے۔ چاہے وہ لاکھوں افغان مہاجرین کی میزبانی کا معاملہ ہو یا مختلف ادوار میں افغانستان میں قیام امن کی کوششیں، پاکستان نے اپنی بساط سے بڑھ کر کردار ادا کیا، مگر اس کے باوجود افغانستان کی سرزمین کا پاکستان کے خلاف استعمال ہونا، ایک لمحہ فکریہ رہا ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق افغانستان کے حالیہ حملے کے پیچھے کئی عوامل کارفرما ہیں جن میں طالبان حکومت پر داخلی دباؤ، پاکستان میں افغان مہاجرین کی واپسی سے پیدا ہونے والی ناراضی اور افغانستان کی اپنی سرحدی پالیسی شامل ہیں۔ بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ افغان طالبان حکومت پاکستان کے خلاف سخت موقف اپنا کر داخلی حمایت حاصل کرنا چاہتی ہے، اگر موجودہ روش برقرار رہی تو نہ صرف عسکری تصادم کا خطرہ بڑھے گا بلکہ انسانی اور معاشی نقصان بھی شدید ہو گا نتیجتاً دونوں ممالک کی عوام، تجارت اور علاقائی امن کو نقصان پہنچے گا۔
افغانستان سے پاکستان کا کوئی جھگڑا تنازع نہیں ہے، پاکستان اِس پر جارحیت کا تصور بھی نہیں کرسکتا، اِسے ایک ہی شکایت ہے اور اِس کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان میں دراندازی کے لیے استعمال نہ ہو۔ 2600 کلو میٹر لمبی سرحد کو باڑ لگانے کے باوجود جسے سیل نہیں کیا جا سکتا، افغانستان میں موجود دہشت گردوں کی گزر گاہ بنی ہوئی ہے۔ اگر افغان حکومت میں یہ صلاحیت موجود نہیں ہے کہ وہ اپنی سرزمین پر موجود دہشت گرد گروہوں کی سرکوبی کر سکے تو پھر اُسے پاکستان کے ساتھ مل کر کارروائیاں کرنے پر آمادہ ہو جانا چاہیے۔
کہا جاتا ہے کہ احسان فراموش سب سے پہلے اپنے محسن کو نشانہ بناتا ہے‘ اور افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ افغانستان کی طالبان حکومت نے اس مقولے کو سچ کر دکھایا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب پوری دنیا نے ان سے منہ پھیر لیا تھا، تب بھی پاکستان نے افغانوں کو تنہا نہیں چھوڑا۔ 1979میں روسی فوج کی افغانستان میں مداخلت سے لے کر طالبان کے دوسرے دور تک، 1951کے عالمی کنونشن اور 1967کے مہاجرین پروٹوکول پر دستخط کیے بغیر محض جذبہ انسانی ہمدردی‘ بھائی چارے اور ہمسائیگی کے پیشِ نظر 60لاکھ افغانوں کو اپنے ہاں پناہ د ی۔ جب کہ مہاجرین کی دوسری‘ تیسری نسل بھی یہاں آباد ہو چکی ہے۔
پاکستان کی جانب سے افغانستان میں صحتِ عامہ کی سہولتوں کے لیے تین بڑے اسپتال بھی قائم کیے گئے۔ پاکستان نے بیشتر تعمیراتی منصوبے بھی شروع کر رکھے ہیں۔
پلوں، شاہراہوں کی تعمیر کے علاوہ بجلی اور ٹیلی کام کے شعبوں میں بھی بھرپور تعاون کیا۔ چار ہزار افغان طالب علموں کو اسکالر شپس کی فراہمی، زراعت، بینکنگ، ریلوے، عسکری اور ڈپلومیسی کے شعبہ جات میں فنی و مالی معاونت فراہم کی۔
آٹھ سے دس ہزار مریض ہر روز افغانستان سے پاکستان میں علاج کے لیے آتے ہیں۔ روزانہ ایک ہزار افغان باشندوں کو ویزا جاری کرنا کوئی معمولی کام نہیں۔ پاکستان افغانستان کا ایک بڑا تجارتی پارٹنر بھی ہے۔ بدلے میں انھوں نے کیا دیا؟ دہشت گردی، پاکستانی چوکیوں پر حملے‘ بھارتی ایما پر افغان سرزمین پر پاکستان مخالف سازشیں، جارحیت، پاکستان کے خلاف نفرت انگیز بیان بازی اور دہشت گردوں کے لیے محفوظ پناہ گاہیں۔ افغان وزیر خارجہ امیر متقی کے دورہ بھارت کے دوران پاکستان مخالف بیانات کو مشترکہ اعلامیہ کی شکل دیتے ہوئے 11اور 12اکتوبر کے درمیانی شب پاکستان پر حملہ کرنا محض اتفاق نہیں بلکہ ایک گھناؤنی سازش کی طرف اشارہ ہے ۔
پاک فوج کی بھرپور جوابی کارروائی وقت کا تقاضا تھا جس نے یہ واضح کر دیا کہ اگر افغانستان میں طالبان عبوری حکومت کسی غلط فہمی کا شکار ہے تو وہ اپنے طرزِ عمل پر فوری نظر ثانی کرے۔ پاکستان مخالف افغان بیورو کریسی اور انٹیلی جنس آپریٹرز کے ذریعے خطے کے امن کو برباد کیا جا رہا ہے۔ افغان سرزمین کو کالعدم تنظیمیں مسلسل استعمال کر رہی ہیں جس کے متعدد بار ثبوت بھی فراہم کیے گئے۔ اگر کابل حکومت ان گروہوں کے خلاف فوری کارروائی نہیں کرے گی تو یہ رجحان پورے خطے کو ایک نئے تصادم کی طرف دھکیل سکتا ہے۔
طالبان قیادت، پر اب ایک بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس معاہدے کی روح کے مطابق اقدامات کرے۔ ان عناصر کو لگام دے جو دونوں ممالک کے مابین فاصلے پیدا کرنے کے درپے ہیں، اگر طالبان حکومت واقعی سنجیدہ ہے تو اسے چاہیے کہ وہ ایسے تمام گروہوں کے خلاف ٹھوس کارروائی کرے جو پاکستان کے خلاف سرگرم عمل ہیں۔ الفاظ کے بجائے عملی اقدامات وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہیں، اگر معاہدے کی خلاف ورزی ہوتی ہے تو پاکستان کو نہ صرف اپنے دفاع کا حق حاصل ہے بلکہ عالمی برادری کو بھی اس سے آگاہ کیا جانا چاہیے۔
استنبول میں ہونے والا آیندہ اجلاس اس تناظر میں نہایت اہمیت کا حامل ہے، جہاں اس معاہدے کی تفصیلات کو حتمی شکل دی جائے گی۔ اس اجلاس میں بین الاقوامی مبصرین کی شمولیت، جنگ بندی کی نگرانی کے لیے کوئی مضبوط میکانزم اور اعتماد سازی کے مزید اقدامات زیر بحث آ سکتے ہیں، اگر یہ اجلاس کامیابی سے ہمکنار ہوتا ہے تو یہ معاہدہ محض ایک وقتی حل نہیں رہے گا بلکہ ایک مضبوط سفارتی ڈھانچے کی بنیاد بن سکتا ہے۔
افغانستان کے عوام، جو دہائیوں سے بدامنی، خانہ جنگی اور غیر یقینی حالات کا شکار رہے ہیں، اس معاہدے کو ایک امید کی کرن کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ اگر ان کی حکومت بین الاقوامی ذمے داریوں کو نبھاتی ہے، تو یہ نہ صرف افغانستان کے لیے مفید ہوگا بلکہ پورے خطے کے لیے امن و ترقی کے دروازے کھول دے گا۔ بین الاقوامی برادری کا کردار بھی اس موقع پر غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے۔
خاص طور پر وہ ممالک جو افغانستان میں امن کے خواہاں ہیں، جیسے چین، روس، ترکیہ، ایران اور عرب ممالک، ان پر لازم ہے کہ وہ اس معاہدے کی کامیابی کے لیے دونوں ممالک کو مثبت خطوط پر رہنمائی فراہم کریں۔ اقوام متحدہ اور او آئی سی جیسے ادارے بھی اس عمل کی نگرانی اور سہولت کاری میں کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں، اگر عالمی برادری اس معاہدے کو محض ایک علاقائی معاملہ سمجھ کر نظر انداز کرتی ہے تو شاید یہ کوشش بھی دیگر کوششوں کی طرح بے نتیجہ رہ جائیں۔
آنے والے دن، ہفتے اور مہینے اس بات کا تعین کریں گے کہ یہ معاہدہ ایک سیاسی ضرورت تھا یا واقعی امن کی نیت کا آئینہ دار۔اگر معاہدے پر خلوص نیت سے عمل کیا گیا، تو وہ دن دور نہیں جب پاکستان اور افغانستان نہ صرف اپنے مسائل پر قابو پائیں گے بلکہ ایک دوسرے کے لیے ترقی، تعاون اور برادری کی مثال بنیں گے۔
تب ہی ہم کہہ سکیں گے کہ امن بحال ہوا اور دونوں ہمسایہ ممالک کے تعلقات معمول پر آگئے، لیکن اگر یہ معاہدہ بھی سابقہ وعدوں کی طرح بھلا دیا گیا، تو خطہ ایک بار پھر عدم استحکام، بداعتمادی اور خونریزی کی لپیٹ میں آ جائے گا ۔دعا یہی ہے کہ یہ معاہدہ محض ایک عارضی صلح نامہ نہ بنے بلکہ خطے میں دیرپا امن و استحکام کی بنیاد ثابت ہو۔ امن، جس کا خواب ہر افغان اور ہر پاکستانی برسوں سے دیکھ رہا ہے، اب تعبیر کے قریب ہے، اگر ہم اسے سنبھالنے اور نبھانے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔