آزاد کشمیر: ایکشن کمیٹی کی تحریک کا صرف تاجروں کو فائدہ، عوام کو ڈویژنز کے نام پر تقسیم کردیا
اشاعت کی تاریخ: 23rd, October 2025 GMT
آزاد کشمیر میں جموں و کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے زیراہتمام حال ہی میں چلنے والی احتجاجی تحریک نے جہاں ریاست میں افراتفری کو جنم دیا، وہیں فورم کے قائدین ذاتی مقاصد حاصل کرنے میں ضرور کامیاب رہے۔
جموں و کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کی تحریک میں ظاہری طور پر عوامی حقوق کے نام پر چارٹر آف ڈیمانڈ سامنے لایا گیا تھا، تاہم اس کے پس پردہ کچھ اور معاملات بھی تھے۔
یہ بھی پڑھیں: جموں کشمیر جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے متحرک رہنما شوکت نواز میر کون ہیں؟
عوامی ایکشن کمیٹی نے حکومت کو 38 نکاتی چارٹر آف ڈیمانڈ پیش کیا تھا، جن میں سے 90 فیصد مطالبات احتجاج سے قبل ہی مان لیے گئے تھے، تاہم ایکشن کمیٹی احتجاج پر بضد رہی۔
عوامی ایکشن کمیٹی نے 29 ستمبر کو آزاد کشمیر بھر میں شٹر ڈاؤن اور پہیہ جام ہڑتال کا آغاز کیا، جو 4 اکتوبر کو مذاکرات کی کامیابی کے بعد ختم ہوئی۔
وزیراعظم پاکستان شہباز شریف نے ملک میں نہ ہونے کے باوجود آزاد کشمیر میں افراتفری کا نوٹس لیتے ہوئے وفاقی وزرا سمیت سینیئر رہنماؤں پر مشتمل وفد کو مظفرآباد پہنچ عوامی ایکشن کمیٹی سے مذاکرات کرنے کی ہدایت کی۔
وفاقی وزیر امور کشمیر امیر مقام کی سربراہی میں طارق فضل چوہدری، راجا پرویز اشرف، قمر زمان کائرہ اور سردار مسعود نے مظفرآباد جاکر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی سے مذاکرات کیے۔
3 اور 4 اکتوبر کی درمیانی رات کو وفاقی مذاکراتی کمیٹی، عوامی ایکشن کمیٹی اور آزاد کشمیر حکومت کے درمیان ایک معاہدہ طے پا گیا جس کے بعد ہڑتال ختم کرنے کا اعلان کیا گیا۔
یہاں یہ واضح رہے کہ جموں و کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے دو اہم مطالبات میں آزاد کشمیر اسمبلی میں کشمیری مہاجرین کی نشستوں کا فوری خاتمہ اور حکمران طبقے کی مراعات میں کمی کا فوری نوٹیفکیشن تھا، تاہم ان دونوں معاملات پر کمیٹی بنانے پر اتفاق ہوا، جبکہ دیگر مطالبات بھی تسلیم کرلیے گئے۔
’جو مطالبات پہلے مان لیے گئے تھے 12 جانوں کے ضیاع کے بعد بھی انہی پر اتفاق ہوا‘اس سے پہلے جب احتجاج سے قبل وزیر امور کشمیر امیر مقام اور طارق فضل چوہدری مظفرآباد گئے تھے تو انہی باتوں پر اتفاق کرلیا تھا، لیکن ایکشن کمیٹی نے 12 قیمتی جانوں کے ضیاع کے بعد پرانے تسلیم شدہ مطالبات پر ہی معادہ کرلیا۔ ’یہ تمام مطالبات بغیر احتجاج کے بھی تسلیم کرلیے گئے تھے۔‘
جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی اور وفاقی مذاکراتی کمیٹی کے درمیان کشمیری مہاجرین کی اسمبلی نشستوں کے معاملے پر کمیٹی بنانے پر اتفاق ہوا، ایکشن کمیٹی کو ایسی کوئی یقین دہانی نہیں کرائی گئی کہ یہ نشستیں ختم کی جائیں گی۔
اس کے علاوہ پاکستان کے اعلیٰ سیکیورٹی حکام نے بھی واضح کیا ہے کہ جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے ساتھ مذاکرات میں مہاجرین کی 12 نشستوں پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا گیا کیونکہ یہ براہِ راست کشمیر کاز سے جڑا معاملہ ہے۔ تاہم پاکستانی ادارے گورننس کی بہتری، کرپشن کے خاتمے اور عوامی فلاح و بہبود کے مطالبات کی حمایت کرتے ہیں۔
2023 میں معرض وجود میں آنے والی جموں و کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کا کوئی چیئرمین یا اس کی باڈی نہیں بلکہ ڈویژنز اور اضلاع کی بنیاد پر کور ممبران ہیں۔
مظفرآباد ڈویژن سے معروف تاجر رہنما شوکت نواز میر، راولاکوٹ سے سردار عمر نذیر کشمیری اور میرپور ڈویژن سے خواجہ مہران احتجاج کو لیڈ کررہے تھے۔
وفاقی مذاکراتی کمیٹی کے ساتھ ایکشن کمیٹی کے مذاکرات میں یہ طے پایا کہ تسلیم شدہ مطالبات پر عملدرآمد کے لیے ہر 15 روز بعد فالو اپ میٹنگ ہوگی، جس کی صدارت وزیر امور کشمیر امیر مقام کریں گے۔
اس سلسلے میں پہلی فالو اپ میٹنگ 21 اکتوبر کو اسلام آباد میں منعقد ہوئی، جس میں وفاقی وزیر امور کشمیر امیر مقام، طارق فضل چوہدری اور دیگر نے شرکت کی۔ اجلاس میں اس بات پر اتفاق کیا گیا ہے آئندہ فالو اپ میٹنگ مظفرآباد میں ہوگی۔
’آزاد کشمیر میں ڈویژنز کی بنیاد پر تفریق پیدا ہونے کا خدشہ‘یہاں ایک قابل ذکر بات یہ ہے کہ وفاقی مذاکراتی کمیٹی اور ایکشن کمیٹی کے درمیان طے پانے والے معاہدے میں مظفرآباد اور پونچھ ڈویژن میں الگ الگ امتحانی بورڈ قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، حالانکہ یہ مطالبات چارٹر آف ڈیمانڈ میں شامل نہیں تھے۔
اس سے قبل آزاد کشمیر میں ایک ہی تعلیمی بورڈ ہے جس کا ہیڈ آفس میرپور میں ہے، جبکہ مظفرآباد اور راولاکوٹ میں انتظامی دفاتر موجود ہیں۔
مظفرآباد اور راولاکوٹ میں نئے تعلیمی بورڈز کے قیام کے فیصلے پر میرپور ڈویژن کے عوام کی جانب سے شدید ردعمل ظاہر کیا جارہا ہے، اور ان کا کہنا ہے کہ اگر میرپور بورڈ کو تقسیم ہی کرنا ہے تو پھر دیگر اداروں کی تقسیم بھی اسی طرح ہونی چاہیے۔ اس ساری صورت حال میں آزاد کشمیر میں ڈویژنز کی بنیاد پر تفریق پیدا ہونے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔
جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کی جانب سے عوامی حقوق کے نام پر کیا جانے والا احتجاج پہلے روز سے ہی پرتشدد رہا، جس میں 3 پولیس اہلکاروں سمیت 12 افراد جان سے چلے گئے۔
29 ستمبر کو عوامی ایکشن کمیٹی کی احتجاجی کال کے جواب میں آزاد کشمیر کی معروف سیاسی جماعت مسلم کانفرنس نے مظفرآباد میں امن مارچ نکالا، جہاں ایکشن کمیٹی میں موجود شرپسند عناصر نے ان پر پتھراؤ اور فائرنگ شروع کردی، جس کے بعد حالات کشیدہ ہوگئے، اور مارچ کو لیڈ کرنے والے راجا ثاقب مجید نے کارکنوں کو پرامن رہنے کی ہدایت کرتے ہوئے مارچ ختم کردیا۔
آزاد کشمیر میں جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے احتجاج کے دوران 3 پولیس اہلکاروں سمیت 12 افراد جاں بحق ہوئے، احتجاج میں شامل شرپسند عناصر کے پاس اسلحہ اور کیلوں والے ڈنڈے موجود تھے۔
جموں و کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی بنیادی طور پر ریاست کے تاجروں کا ایک اتحاد ہے، جنہوں نے اس سے قبل مئی 2024 میں ایک احتجاج کے دوران آٹے اور بجلی کی قیمتوں میں کمی کروائی تھی۔
’آزاد کشمیر میں بجلی 3 روپے یونٹ، پھر بھی بلات کی ادائیگی بہت کم‘آزاد کشمیر میں اس وقت گھریلو صارفین کے لیے بجلی کی فی یونٹ قیمت 3 روپے جبکہ آٹا 40 کلو 2 ہزار روپے میں میسر ہے۔
جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کو یہ فائدہ ضرور ہوا ہے کہ اب انتظامیہ جعل سازی کرنے والے تاجروں پر ہاتھ ڈالنے سے پہلے سوچے گی کہ کہیں جتھہ سرکاری اہلکاروں پر حملہ آور تو نہیں ہو جائےگا۔
’آزاد کشمیر غیرمعیاری اشیائے خورونوش کی سب سے بڑی منڈی‘آزاد کشمیر غیرمعیاری اشیائے خورونوش کی سب سے بڑی منڈی ہے، لوگوں کو ایسی اشیا فروخت کی جارہی ہیں جن سے بیماریاں عام ہو چکی ہیں لیکن کوئی ایسے عناصر پر ہاتھ نہیں ڈال رہا۔
ریاست کے تاجروں پر مشتمل ایکشن کمیٹی نے بجلی تو سستی کروا لی لیکن اس کا عوام کو کوئی ریلیف نہیں ملا، اس کے علاوہ یہ طبقہ ٹیکس چوری میں بھی سرفہرست ہے، اور اب ان کو مزید تحفظ مل گیا ہے۔
وزیراعظم آزاد کشمیر چوہدری انوارالحق کے مطابق بجلی 3 روپے یونٹ ہونے کے بعد طلب میں اضافہ ہوگیا ہے، لیکن اس کے باوجود لوگ باقاعدگی سے بجلی کے بل ادا نہیں کررہے۔
وزیراعظم آزاد کشمیر چوہدری انوارالحق شروع سے ہی اس تحریک کو بھارتی فنڈڈ قرار دے رہے تھے، جبکہ دیگر سیاسی جماعتوں نے بھی اسے ریاست میں افراتفری کی کوشش قرار دے کر مسترد کردیا تھا۔
آزاد کشمیر میں عوامی ایکشن کمیٹی کی تحریک کے دوران بھارتی میڈیا پروپیگنڈا کرتا رہا، جبکہ بھارتی سیاسی قیادت یہ دعویٰ کرتی رہی کہ ریاست میں جو کچھ ہو رہا ہے یہ ان کے منصوبے کے عین مطابق ہے۔
یہاں ایک بات واضح رہے کہ آزاد کشمیر کے عوام کا احتجاج اپنے حکمرانوں کے خلاف تھا، بھارتی میڈیا کی جانب سے کیے جانے والے اس پروپیگنڈے میں کوئی حقیقت نہیں کہ یہ احتجاج ریاست پاکستان کے خلاف تھا۔ ’تحریک میں شامل کچھ شرپسند عناصر نے کچھ متنازعہ باتیں ضرور کیں، لیکن ایسے لوگ مٹھی بھر ہیں۔‘
’ایکشن کمیٹی کے رہنماؤں کا پاکستان مخالف عناصر سے لاتعلقی‘جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے متحرک رہنما شوکت نواز میر واضح کر چکے ہیں کہ پاکستان اور کشمیر کا رشتہ کوئی کمزور نہیں کر سکتا۔ انہوں نے ایسے لوگوں سے لاتعلقی کا اظہار کیا جو ریاست پاکستان کے خلاف بات کرتے ہیں۔
ایکشن کمیٹی کی تحریک میں اوورسیز سے آنے والے فنڈز کا حساب کون دے گا؟ایکشن کمیٹی کی تحریک کے دوران چونکہ ریاست بھر سے ہزاروں لوگ 29 ستمبر سے 4 اکتوبر تک سڑکوں پر رہے، اس دوران ان کے اخراجات کے لیے فنڈز اکٹھے کیے گئے تھے، جس میں اوورسیز کشمیریوں کا اہم کردار تھا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اوورسیز کشمیریوں سے لیے گئے فنڈز کا کوئی آڈٹ ہوا یا نہیں؟ ایکشن کمیٹی کے نمائندوں کی جانب سے ابھی تک اس حوالے سے کوئی تفصیلات جاری نہیں کی گئیں۔
سیاسی مبصرین کے مطابق آزاد کشمیر میں افراتفری کے خاتمے کے لیے ضروری ہے کہ کسی ایک جماعت کی مضبوط حکومت قائم ہو، اور ایسا شخص قائد ایوان ہو جو حالات کو سنبھالنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔
اس وقت ریاست میں کسی ایک پارٹی کی حکومت نہیں۔ آزاد کشمیر کے موجودہ وزیراعظم چوہدری انوارالحق کا تعلق پی ٹی آئی فارورڈ بلاک سے ہے، جبکہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن ان کی اتحادی جماعتیں ہیں اور اپوزیشن کا کوئی وجود ہی نہیں۔
’آزاد کشمیر میں اپوزیشن کا وجود نہ ہونے کے باعث افراتفری کا ماحول پیدا ہوا‘آزاد کشمیر میں اپوزیشن کا کوئی وجود نہ ہونے کے باعث یہ خلا عوامی ایکشن کمیٹی نے پُر کرلیا اور ریاست میں افراتفری پیدا ہوئی، جس کے لیے سیاسی حلقوں کو سر جوڑ کر بیٹھنے کی ضرورت ہے۔
ایک روز قبل پاکستان مسلم لیگ ن آزاد کشمیر کے صدر شاہ غلام قادر نے آزاد کشمیر حکومت سے علیحدگی کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم اپوزیشن بینچوں پر بیٹھیں گے اور ریاست میں ہونے والی کسی بھی تبدیلی کا حصہ نہیں بنیں گے۔
آزاد کشمیر میں عام انتخابات آئندہ برس جولائی میں ہوں گے، جس کے لیے سیاسی جماعتوں نے تیاریاں شروع کر دی ہیں، اور جگہ جگہ شمولیتی پروگرام ہو رہے ہیں۔
ایکشن کمیٹی کی تحریک کے بعد ریاست میں قانون کی پاسداری معمہ بن گیا، زاہد عباسیزاہد عباسی کا تعلق آزاد کشمیر سے ہے، جو سرکاری خبر رساں ادارے ’اے پی پی‘ سے منسلک ہیں، اور ریاست کے معاملات پر گہری نظر رکھتے ہیں، نے ’وی نیوز‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ ایکشن کمیٹی جو 38 نکات لے کر نکلی تھی ان میں سے کچھ تو عوامی حقوق سے متعلق تھے، لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان لوگوں کا مقصد عوام کو ریلیف دلانا بھی تھا یا نہیں؟
بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہاکہ ایکشن کمیٹی کی تحریک کے دوران آزاد کشمیر میں انتظامیہ اور پولیس کے ساتھ جو سلوک روا رکھا گیا اس سے قانون کی پاسداری ایک معمہ بن گیا ہے۔
’اب جس کے پاس افرادی قوت ہوگی وہ قانون کو یوں ہی گھر کی لونڈی سمجھے گا۔ قانون کی عملداری اس کے احترام کی وجہ سے ممکن ہوتی ہے، ورنہ دنیا میں کہیں اتنی تعداد پولیس اہلکاروں کی نہیں ہوتی کہ ایک فرد کے لیے ایک اہلکار ہو۔‘
زاہد عباسی نے کہاکہ ایکشن کمیٹی کی تحریک کے دوران جتھہ گردی نے ثابت کیا کہ وہ قانون کا احترام سرے سے نہیں کرتے، دوسری سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس تحریک میں فرنٹ سے لیڈ کرنے والا تاجر طبقہ تھا جو زیادہ تر پیٹ سے سوچتا ہے۔
’جعل سازی میں آزاد کشمیر کے تاجروں کا کوئی ثانی نہیں‘انہوں نے کہاکہ آزاد کشمیر میں جعل سازی، ناجائز منافع خوری، دو نمبر اشیا کی فروخت اور ٹیکس چوری ان تاجروں کی پہچان ہے۔ ان لوگوں میں شاید اتنی اہلیت نہیں تھی کہ اس جتھے کو صرف عوامی حقوق تک ہی سنبھال کر رکھتے، ان کی اس کمزوری کا فائدہ قوم پرستوں نے بھرپور اٹھایا اور اس تحریک پر اپنے مخصوص انداز میں مکمل کنٹرول حاصل کرلیا۔
یہ بھی پڑھیں: ’آزاد کشمیر میں پاکستان زندہ باد کے نعرے گونجتے رہیں گے‘، وفاقی مذاکراتی کمیٹی اسلام آباد پہنچ گئی
انہوں نے کہاکہ تاجروں پر مشتمل ایکشن کمیٹی نے وفاقی مذاکراتی کمیٹی کے ساتھ جو معاہدہ کیا اس میں اپنے 38 نکات تو وہ بھول ہی گئے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews آزاد کشمیر امیر مقام ایکشن کمیٹی تحریک شہباز شریف کشمیری مہاجرین وزیر امور کشمیر وزیراعظم پاکستان وفاقی مذاکراتی کمیٹی وی نیوز.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ایکشن کمیٹی تحریک شہباز شریف کشمیری مہاجرین وزیراعظم پاکستان وفاقی مذاکراتی کمیٹی وی نیوز جموں و کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی ایکشن کمیٹی کی تحریک کے دوران جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے وفاقی مذاکراتی کمیٹی عوامی ایکشن کمیٹی کی ایکشن کمیٹی نے ا زاد کشمیر کے میں افراتفری عوامی حقوق کی جانب سے ریاست میں تحریک میں پر اتفاق انہوں نے نے کہاکہ کا کوئی نہیں کر پیدا ہو کیا گیا نے والے گئے تھے لیے گئے ہونے کے کمیٹی ا کے ساتھ کے لیے گیا ہے کہ ایک کے بعد
پڑھیں:
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے امور کشمیر و گلگت بلتستان کا سکردو میں اجلاس
کمیٹی نے ہدایت دی کہ گلگت بلتستان حکومت جنگلات کے حوالے سے اقدامات، فیصلے، یا قانون سازی کرنے کی صورت میں کمیٹی اراکین کو لازماً مطلع کرے۔ اسلام ٹائمز۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے امور کشمیر ،گلگت بلتستان اور سیفران نے گلگت بلتستان میں جنگلات کے تحفظ سے متعلق موسمی اثرات کو کم کرنے کے لئے جاری کوششوں کا براہ راست جائزہ لینے کے لیے بلتستان کا دورہ کیا، کمیٹی کا اجلاس سینیٹر اسد قاسم کی زیر صدارت کمشنر کانفرنس ہال سکردو میں منعقد ہوا۔سیکریٹری جنگلات گلگت بلتستان نے کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ گلگت بلتستان فاریسٹ ایکٹ 2019ء نافذ العمل ہے، جس کے تحت جنگلات کے انتظام و تحفظ کے لیے ایک جامع قانونی فریم ورک فراہم کیا گیا ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ڈویژنل فاریسٹ آفیسرز (DFOs) کو مجسٹریٹ کے اختیارات تفویض کیے گئے ہیں تاکہ جنگلاتی قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف فوری کارروائی عمل میں لائی جا سکے۔
سیکریٹری جنگلات نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ اب تک غیر قانونی 11 لاکھ فٹ لکڑی ضبط کی جا چکی ہے، تاہم اس کے قانونی اور منظم استعمال کے لیے گلگت بلتستان حکومت ایک جامع ورکنگ پلان تیار کر رہی ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ جنگلات کا محکمہ جو ماضی میں وفاقی حکومت کے دائرۂ کار میں آتا تھا، 2018ء میں گلگت بلتستان حکومت کے ماتحت کر دیا گیا، جس کے بعد مقامی سطح پر قانون سازی اور عمل درآمد ممکن ہو سکا۔ چیئرمین کمیٹی کے سوال پر کمشنر بلتستان ڈویژن نے وضاحت کی کہ خطے میں بجلی کی عدم دستیابی کے باعث سردیوں میں عوام ایندھن کے طور پر لکڑی پر انحصار کرتے ہیں، تاہم وزیراعظم پاکستان کی خصوصی ہدایت پر 100 میگا واٹ سولر پاور پراجیکٹ سکردو کے لیے منظور کیا گیا ہے۔
مزید برآں، 26 میگاواٹ شغرتھنگ ہائیڈرو پاور پراجیکٹ اور 34.5 میگاواٹ ہرپو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ پر کام جاری ہے جو 2030ء تک سسٹم میں شامل ہو جائیں گے۔ ان منصوبوں سے نہ صرف بجلی کی قلت میں کمی آئے گی بلکہ ایندھن کے متبادل ذرائع کی دستیابی سے جنگلات کی کٹائی میں بھی کمی واقع ہو گی۔ کمیٹی نے ہدایت دی کہ جنگلات سے متعلق ورکنگ پلان جلد از جلد کمیٹی کے ساتھ شیئر کیا جائے، اور لوکل کمیونٹی میں جنگلات کے تحفظ کے لیے آگاہی و حوصلہ افزائی کے لیے انسنٹئوز دیا جائے۔ تاکہ مقامی آبادی کی شراکت سے جنگلات کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے۔مزید برآں کمیٹی نے ہدایت دی کہ گلگت بلتستان حکومت جنگلات کے حوالے سے اقدامات، فیصلے، یا قانون سازی کرنے کی صورت میں کمیٹی اراکین کو لازماً مطلع کرے۔ بعد ازاں کمیٹی ممبران نے ایڈمنسٹریشن کمپلیکس میں پودے بھی لگائے۔