ایران کی ریلوے کمپنی کے مطابق اس یادداشت پر ایران کے معاون وزیرِ ریلوے ڈاکٹر ذاکری ترکیہ کے ریلوے سربراہ ویسی کورت اور افغان ریلوئے کے سربراہ محمد اسحاق صاحب‌زاده نے دستخط کیے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ طالبان حکومت کی وزارتِ فوایدِ عامہ نے اعلان کیا ہے کہ افغانستان، ایران اور ترکیہ کے درمیان ریلوے لائنوں کی ترقی اور تجارتی ترانزٹ میں اضافے کے لیے ایک تین فریقی تعاون معاہدے پر دستخط ہو گئے ہیں۔ وزارت کے ترجمان محمد اشرف حق‌ شناس کے مطابق یہ معاہدہ ترکیہ میں منعقد ہونے والی بین الاقوامی ریلوے یونین (UIC) کی چھتیسویں علاقائی کانفرنس کے موقع پر طے پایا، اس کے تحت خواف ہرات ریلوے لائن کو مزار شریف تک توسیع دینے کا منصوبہ شامل ہے۔

یادداشت تینوں ممالک اپنی تکنیکی، مالی اور انسانی صلاحیتوں کو بروئے کار لائیں گے۔ معاہدے میں سرحدی گزرگاہوں پر سامان کی ترسیل میں سہولت، ریل ٹرانسپورٹ کی استعداد میں اضافہ، اور تکنیکی و تعلیمی تعاون پر بھی زور دیا گیا ہے۔ ایران کی ریلوے کمپنی کے مطابق اس یادداشت پر ایران کے معاون وزیرِ ریلوے ڈاکٹر ذاکری ترکیہ کے ریلوے سربراہ ویسی کورت اور افغان ریلوئے کے سربراہ محمد اسحاق صاحب‌ زاده نے دستخط کیے ہیں۔

 یہ پانچ سالہ مفاہمتی یادداشت تینوں ممالک کے درمیان ریلوے نیٹ ورک کی مرمت و دیکھ‌ بھال، ڈیجیٹلائزیشن، بنیادی ڈھانچے کی ترقی، اور افرادی قوت کی تربیت جیسے شعبوں میں تعاون پر مبنی ہے۔ اس منصوبے کا بنیادی مقصد موجودہ ریلوے راستوں کی کارکردگی میں اضافہ اور ایک پائیدار ریلوے راہداری کا قیام ہے جو تینوں ممالک کو باہم جوڑے۔ طالبان حکومت کا کہنا ہے کہ منصوبے کی تکمیل کے بعد افغانستان علاقائی ریلوے نیٹ ورک سے منسلک ہو جائے گا۔

اس سے جنوبی ایشیا، مشرقِ وسطیٰ اور یورپ کے درمیان ایک نیا تجارتی راستہ قائم ہوگا۔ خواف ہرات ریلوے لائن افغانستان کے اہم ترین بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں میں سے ایک ہے، جس کا ایک حصہ پہلے ہی ایران کے تعاون سے مکمل ہو چکا ہے۔ یہ لائن افغانستان کو مغرب میں ایران کے ریلوے نیٹ ورک سے جوڑتی ہے، جو آگے چل کر ترکیہ اور یورپ سے منسلک ہو جاتی ہے۔ اس سے یہ کوریڈور ایشیا و یورپ کے درمیان تجارتی راستوں میں اپنی اہمیت کو نمایاں طور پر بڑھا لے گا۔  

.

ذریعہ: Islam Times

پڑھیں:

پاک افغان کشیدگی اور ایران

اسلام ٹائمز: چین کیساتھ پاکستان کے تعاون کو مزید گہرا کرنے سے روکنے اور ایران کیخلاف محاصرے کو مکمل کرنے کیلئے امریکہ یہ کھیل شروع کرنا چاہتا ہے۔ اس تناظر میں، بین الاقوامی شدت پسند نیٹ ورکس کی بحالی بھی دباؤ کے منظرنامے کا حصہ بن سکتی ہے، کیونکہ طالبان گروپ ایران اور چین دونوں کے مفادات کیخلاف استعمال ہوسکتے ہیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران کیلئے اسٹریٹجک نقطہ نظر سے، یہ صورتحال اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ افغان بحران اب صرف مشرقی سرحد پر ایک سکیورٹی چیلنج نہیں رہا، بلکہ یہ ابھرتے ہوئے ایشیائی نظام کو روکنے کیلئے مغرب کی جغرافیائی سیاسی جنگ کا حصہ بن گیا ہے۔ ماسکو فارمیٹ میں فعال موجودگی، تاجکستان اور روس کیساتھ سکیورٹی کوآرڈینیشن کو مضبوط بنانا اور ایران کے اندر سرحدی محافظوں اور امیگریشن کنٹرول کی صلاحیتوں کو بڑھانا اس منظرنامے کے اثرات پر قابو پانے کیلئے اہم اور فوری ضرورت ہے۔ تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی

افغانستان اور پاکستان کے درمیان حالیہ سرحدی تنازعات کو محض ڈیورنڈ لائن یا نسلی مسائل پر تاریخی اختلافات کی پیداوار کے طور پر نہیں دیکھا جا سکتا، بلکہ اس کشیدگی کا تجزیہ جیواسٹریٹیجک فریم ورک اور مغربی ایشیاء میں سکیورٹی کے نئے منظرناموں کی از سر نو ترتیب کے تناظر میں دیکھنا چاہیئے۔ افغانستان سے امریکی فوج کے انخلاء اور کابل میں نیٹو سے وابستہ سیاسی ڈھانچے کے خاتمے کے بعد، واشنگٹن "کنٹرولڈ عدم استحکام" کی حکمت عملی کے ذریعے خطے میں اپنی بالواسطہ مداخلت پسندانہ پوزیشن کو برقرار رکھنے اور آزاد ایشیائی سکیورٹی انتظامات کی تشکیل کو روکنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس نقطہ نظر سے، افغانستان پاکستان تنازعہ ایک ایسے علاقے میں مغرب کے مداخلت پسندانہ کردار کی تعمیر نو کا ایک نیا ذریعہ ہے، جو ماسکو، بیجنگ اور تہران کے درمیان تیزی سے بڑھتے تعاون میں رکاوٹ کا باعث بن سکتا ہے۔

امریکہ اور اس کے اتحادی کئی طریقوں سے اس تنازعے کو بڑھانے میں کردار ادا کر رہے ہیں۔ سب سے پہلے، ماسکو فارمیٹ میں علاقائی تعاون کو روک کر یہ کام شروع کیا جا رہا ہے۔ ماسکو فارمیٹ کا مرکز روس ہے اور اس میں وسطی ایشیائی ممالک، ایران، چین، پاکستان اور افغانستان شامل ہیں۔ یہ فارمیٹ بحرانوں سے نمٹنے اور دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ تاہم، کابل اور اسلام آباد کے درمیان تنازعات میں اضافے سے اراکین کی ہم آہنگی کمزور ہوسکتی ہے اور مغربی اثر و رسوخ کے خلاف اتفاق رائے کی صلاحیت محدود ہونے کا امکان ہے۔ دوسرا، یہ پاکستان کی تزویراتی آزادی کو روکتا ہے۔ حالیہ برسوں میں، اسلام آباد نے چین اور روس کے ساتھ بات چیت کے لیے زیادہ آمادگی ظاہر کی ہے اور سرحدوں پر تنازعات کو ہوا دے کر، امریکا ایک بار پھر پاکستانی فوج اور سکیورٹی اشرافیہ کو اپنی فوجی اور انٹیلی جنس امداد پر انحصار کے چکر میں ڈال رہا ہے۔

دوسری جانب پاک افغان سرحدی عدم استحکام چینی منصوبوں بالخصوص چین پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) کے لیے براہ راست خطرہ ہے۔ اس بحران پر انحصار کرتے ہوئے، واشنگٹن جنوبی ایشیا کو وسطی ایشیاء سے جوڑنے کے عمل کو مؤثر طریقے سے سست کر رہا ہے اور بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو (BRI) پر مبنی ترقیاتی منصوبوں کی پیش رفت میں رکاوٹ ڈال رہا ہے۔ اس کے علاوہ، سرحدی کشیدگی کے سائے میں، امریکی انٹیلی جنس بگرام بیس کے باقی ماندہ انفراسٹرکچر میں موجودگی کا سلسلہ جاری رکھنا چاہتا ہے اور یہ افغان سکیورٹی میں خفیہ مداخلت کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ علاقائی جغرافیائی سیاسی سطح پر، اس عدم استحکام کے کچھ  ثانوی اہداف بھی ہیں۔ ایران کی مشرقی سرحدوں پر سلامتی، نقل مکانی، اور ماحولیاتی بحران پیدا کرکے مغربی افغانستان میں ایران کے اثر و رسوخ کو کمزور کرنا۔

ہلمند اور نمروز میں مقامی تنازعات کو ہوا دینے سے مہاجرین اور ایندھن اور منشیات کی اسمگلنگ کی ایک نئی لہر پیدا کرنا اور ایرانی سرحد کی طرف بڑھتے ہوئے اسلامی جمہوریہ کی سکیورٹی کی کچھ صلاحیتوں اور وسائل کو اس سرحد پر الجھانا ہے۔ اس دوران تاجکستان کا کردار بھی اہم ہے۔ یہ ملک، جو روس کے ساتھ قریبی رابطے میں ہے، افغانستان میں پیش رفت پر کنٹرول کے لئے شمالی حلقے کے طور پر کام کرتا ہے۔ افغانستان کی جنوبی سرحدوں پر تنازعات میں اضافہ دوشنبہ-ماسکو محور کی ضرورت کو بڑھا دے گا اور وسطی ایشیاء میں روس اور امریکہ کے درمیان اثر و رسوخ کے توازن کو تبدیل کرسکتا ہے۔ مجموعی طور پر، افغانستان اور پاکستان کے درمیان عدم استحکام کو دوبارہ پیدا کرکے، امریکہ شنگھائی اور ماسکو فارمیٹ میں ایشیائی انضمام کے عمل کو نقصان پہنچانے کے درپے ہے۔

چین کے ساتھ پاکستان کے تعاون کو مزید گہرا کرنے سے روکنے اور ایران کے خلاف محاصرے کو مکمل کرنے کے لئے امریکہ یہ کھیل شروع کرنا چاہتا ہے۔ اس تناظر میں، بین الاقوامی شدت پسند نیٹ ورکس کی بحالی بھی دباؤ کے منظرنامے کا حصہ بن سکتی ہے، کیونکہ طالبان  گروپ ایران اور چین دونوں کے مفادات کے خلاف استعمال ہوسکتے ہیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے لیے اسٹریٹجک نقطہ نظر سے، یہ صورت حال اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ افغان بحران اب صرف مشرقی سرحد پر ایک سکیورٹی چیلنج نہیں رہا، بلکہ یہ ابھرتے ہوئے ایشیائی نظام کو روکنے کے لیے مغرب کی جغرافیائی سیاسی جنگ کا حصہ بن گیا ہے۔ ماسکو فارمیٹ میں فعال موجودگی، تاجکستان اور روس کے ساتھ سکیورٹی کوآرڈینیشن کو مضبوط بنانا اور ایران کے اندر سرحدی محافظوں اور امیگریشن کنٹرول کی صلاحیتوں کو بڑھانا اس منظرنامے کے اثرات پر قابو پانے کے لیے اہم اور فوری ضرورت ہے۔

متعلقہ مضامین

  • سربراہ پاک بحریہ کا کریکس ایریا میں اگلے مورچوں کا دورہ
  • اسرائیل نے غزہ کی بین الاقوامی امن فورس میں ترکیہ کی شمولیت پر اعتراض کردیا
  • پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان ریلوے میں تعاون کے فروغ پر اتفاق
  • پاکستان، افغان طالبان مذاکرات کا دوسرا دور آج، افغانستان سے دہشتگردی روکنےکیلئے مانیٹرنگ میکنزم پربات ہوگی
  • پاکستان اور ایران کا ریلوے تعاون بڑھانے اور علاقائی رابطوں کے فروغ پر اتفاق
  • پاکستان، ایران، ترکیہ فریٹ ٹرین دسمبر 2025ء میں دوبارہ چلے گی
  • ٹرانس افغان ریلوے اور اسلام آباد تہران استنبول راہداری تجارت کے نئے باب کا آغاز ہوں گے، وزیراعظم
  • پاک مصر دفاعی تعاون علاقائی امن و استحکام کے لیے اہم ہے، فیلڈ مارشل عاصم منیر
  • پاک افغان کشیدگی اور ایران