فلک جاوید پولیس افسران پر حملے میں ملوث ہے، پولیس، عدالت سے مزید ریمانڈ کی درخواست
اشاعت کی تاریخ: 27th, October 2025 GMT
اسلام آباد(نیوز ڈیسک)زمان پارک میں اسلام آباد پولیس پر حملے کے مقدمے میں عدالت نے صنم جاوید کی بہن فلک جاوید کے جسمانی ریمانڈ پر فیصلہ محفوظ کرلیا، پولیس نے جج سے کہا کہ فلک جاوید پولیس افسران پر حملے میں ملوث ہے مزید ریمانڈ دیا جائے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق ملزمہ فلک جاوید کو 14 روزہ جسمانی ریمانڈ مکمل ہونے پر پیش کیا گیا، انسداد دہشت گردی عدالت کے ایڈمن جج منظر علی گل نے سماعت کی۔
پولیس نے ملزمہ فلک جاوید کے مزید جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی۔ تفتیشی افسر نے عدالت سے کہا کہ ملزمہ اسلام آباد پولیس کے افسران پر حملے میں ملوث ہے، ملزمہ سے پیٹرول بم برآمد کیا گیا مزید تفتیش کرنی ہے۔
ملزمہ کی جانب سے میاں علی اشفاق ایڈووکیٹ نے دلائل دیئے اور کہا کہ ملزمہ کو پولیس نے سپلیمنٹری بیان کی بنیاد پر گرفتار کیا، ملزمہ کو سیاسی بنیاد پر گرفتار کیا گیا ہے، ملزمہ کو مقدمے سے ڈس چارج کیا جائے۔
تفتیشی افسر نے کہا کہ ملزمہ زمان پارک میں اسلام آباد پولیس پرحملے کے مقدمہ میں ملوث ہے، اسلام آباد پولیس طلبی سمن کی تعمیل کیلیے بانی پی ٹی آئی کی رہائش گاہ آئی تھی جہاں مشتعل کارکنان نے پیٹرول بم پھینکے اور پولیس افسران کو زخمی کیا، پولیس پر حملے کا تھانہ ریس کورس میں مقدمہ نمبر 410/23 درج ہے۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: اسلام آباد پولیس میں ملوث ہے فلک جاوید پر حملے کہا کہ
پڑھیں:
ڈگری تنازع کیس: جسٹس طارق محمود جہانگیری کو کام سے روکنے کی درخواست قابل سماعت قرار
اسلام آباد ہائیکورٹ کے ڈویژن بینچ نے جسٹس طارق محمود جہانگیری کے خلاف مبینہ جعلی ڈگری کیس میں اہم پیشرفت کرتے ہوئے درخواست کو قابل سماعت قرار دے دیا۔
چیف جسٹس سردار محمد سرفراز ڈوگر اور جسٹس محمد اعظم خان پر مشتمل ڈویژن بینچ نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس طارق محمود جہانگیری کو نوٹس جاری کرتے ہوئے 3 روز میں جواب طلب کرلیا ہے۔
عدالت میں دلائل کے دوران درخواست گزار میاں داؤد ایڈوکیٹ نے موقف اختیار کیا کہ جسٹس جہانگیری نے جعلی فارم پر امتحانی انرولمنٹ جمع کرائی اور ابتدائی طور پر وکیل بننے کے لیے بھی کوالیفائی نہیں کرتے تھے۔
ان کے مطابق کراچی یونیورسٹی کے کنٹرولر امتحانات نے ابتدائی تصدیق فراہم کی کہ لیٹر درست نہیں ہے اور ڈگری جعلی ہے، جس کی بنیاد پر درخواست کو ہائیکورٹ میں دائر کیا گیا۔
درخواست گزار کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ 1989 میں جسٹس طارق محمود جہانگیری پر یو ایف ایم کمیٹی کی جانب سے 3 سال کی پابندی عائد کی گئی تھی، جبکہ پابندی کے دوران انہوں نے جعلی انرولمنٹ سے امتحان دیا۔
وکیل کا کہنا تھا کہ اب بارِ ثبوت جسٹس جہانگیری پر ہے کہ وہ اپنی ڈگری کی اصلیت ثابت کریں۔
دوسری جانب اسلام آباد ڈسٹرکٹ بار اور اسلام آباد بار کونسل نے عدالت میں استدعا کی کہ یہ معاملہ ان کے دائرہ اختیار میں آتا ہے اور ہائیکورٹ کو اس میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔
وکلا نے عدالت کو باور کرایا کہ ڈگری اور وکالت کے معاملات کی تصدیق اور فیصلہ متعلقہ بار کونسلز کریں، جبکہ جوڈیشل کمیشن جج کے تقرر کے معاملات دیکھتا ہے۔
عدالتی معاون بیرسٹر ظفر اللہ خان نے دلائل پیش کرتے ہوئے بھارتی اور سپریم کورٹ کے عدالتی فیصلوں کا حوالہ دیا۔ چیف جسٹس نے دلائل مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا۔
عدالت نے واضح کیا کہ یہ کیس ہائیکورٹ کے جج کی اہلیت اور ڈگری کی سچائی کے معاملے پر ہے اور تمام فریقین کو 3 روز میں اپنی جانب سے جواب جمع کرانا ہوگا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس طارق محمود جہانگیری جعلی ڈگری چیف جسٹس سرفراز ڈوگر