Islam Times:
2025-12-12@13:46:10 GMT

لمحے کو قید کر لو، یہی تمہارا اصلی سرمایہ ہے

اشاعت کی تاریخ: 28th, October 2025 GMT

لمحے کو قید کر لو، یہی تمہارا اصلی سرمایہ ہے

اسلام ٹائمز: مولانا رومی نے کہا تھا کہ ہر سانس غنیمت سمجھو، کیونکہ دنیا ایک ہی سانس ہے، اس کے بعد کا سانس ایک نئی داستان ہے۔ علامہ اقبالؒ نے بھی وقت کی اہمیت کو اپنی شاعری کا مرکزی مضمون بنایا۔ فرصت کا بہترین استعمال یہ ہے کہ انسان اپنے اندر جھانکے، اپنی خامیوں کو پہچانے، اپنے مقصد کو واضح کرے۔ مطالعہ کرے، سوچے، عبادت کرے یا کسی کے دل کا بوجھ ہلکا کرے۔ یہی وہ اعمال ہیں، جو وقت کو بابرکت بنا دیتے ہیں۔ آج کا انسان مشینی زندگی میں الجھ کر وقت کا غلام بن گیا ہے۔ وہ گھنٹوں بے مقصد مصروف رہتا ہے، مگر معنوی طور پر خالی ہو جاتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے وقت کو خدا کی امانت سمجھ کر استعمال کریں۔ اگر ہم اپنی فرصت کو علم، فکر اور خدمت میں ڈھال لیں تو یہی لمحے ہماری ابدی کامیابی کا زینہ بن جائیں گے۔ تحریر: محمد حسن جمالی

زندگی ایک بہتا ہوا دریا ہے۔ اس کے پانی کے ساتھ لمحے بہتے چلے جاتے ہیں۔ کوئی ان لہروں پر سوار ہو کر منزل پا لیتا ہے اور کوئی کنارے بیٹھا تماشائی بن جاتا ہے۔ وقت کسی کے لیے نہیں رکتا۔ جو اسے پہچان لیتا ہے، وہ آگے بڑھ جاتا ہے اور جو غفلت برتتا ہے، وہ پیچھے رہ جاتا ہے۔ زندگی ایک بہتا ہوا نغمہ ہے، جس کی ہر دُھن لمحوں کی صورت میں جنم لیتی ہے اور پھر خاموشی کے سناٹے میں گم ہو جاتی ہے۔ انسان اکثر یا تو گزری ہوئی یادوں کے زخموں میں الجھا رہتا ہے یا آنے والے دنوں کے خواب بُننے میں مصروف رہتا ہے، مگر جو لمحہ اس کے سامنے سانس لے رہا ہوتا ہے، وہی دراصل اس کی پوری زندگی کا حاصل ہوتا ہے۔ وقت کسی کے لیے نہیں رُکتا، لیکن وہ انسان خوش نصیب ہے، جو لمحے کو محسوس کرنا، جینا اور اپنے دل کے آئینے میں قید کر لینا جانتا ہے۔ ہر گزرتا پل ایک انمول تحفہ ہے، جو قدرت نے ہمیں خاموشی سے عطا کیا ہے۔ یہ لمحہ، یہی لمحہ۔۔۔ تمہارا سب سے قیمتی سرمایہ ہے۔ ماضی گزر چکا، مستقبل ابھی آیا نہیں، مگر یہ لمحہ تمہارے اختیار میں ہے۔ اسے اپنی توجہ، محبت اور احساس سے بھر دو، کامیابی مقدر بن کر رہے گی۔

یاد رہے کہ فرصت کا مطلب صرف فارغ وقت نہیں، بلکہ یہ وہ نعمت ہے، جو انسان کو کچھ بہتر کرنے، کچھ سیکھنے یا کچھ دینے کا موقع دیتی ہے، لیکن افسوس یہ ہے کہ اکثر لوگ اسی نعمت کو ضائع کر دیتے ہیں۔ سستی، بہانے اور تفریح کے نام پر وہ ان لمحوں کو کھو دیتے ہیں، جن میں ان کی تقدیر لکھی جا سکتی تھی۔ اگر ہم دیکھنا چاہیں کہ فرصت سے کیسے استفادہ کیا جا سکتا ہے تو رہبر معظم انقلاب آیت اللہ سید علی خامنہ‌ ای کی زندگی ہمارے لیے ایک زندہ مثال ہے۔ ان کی زندگی کا ہر لمحہ مقصد سے بھرا ہوا ہے۔ بچپن سے مطالعہ، علم و فکر اور عبادت ان کے معمول کا حصہ رہے۔ انہوں نے اپنی جوانی کے دن درس و تدریس، تحریر و تقریر اور معاشرتی خدمت میں گزارے۔ قید و بند کے ایام میں بھی وہ قلم اور کتاب سے جدا نہ ہوئے۔ جب جسم قید میں تھا تو ان کا ذہن اور دل علم و عمل میں آزاد تھا۔ قیادت کے منصب پر فائز ہونے کے بعد بھی ان کی زندگی میں نظم، مقصد اور جدوجہد نمایاں ہیں۔ فجر کے وقت اٹھنا، قرآن کی تلاوت، مطالعہ، ملاقاتیں اور عوامی امور کی نگرانی ان کا ہر لمحہ امت کی خدمت کے لیے وقف ہے۔ یہی تو فرصت کا بہترین استعمال ہے۔ وہ نوجوانوں کو نصیحت کرتے ہیں کہ جوانی کے ایام کو غفلت میں گنوا دینا سب سے بڑی محرومی ہے۔ یہ جملہ نصیحت سے بڑھ کر ایک طرزِ زندگی ہے۔ ان کے نزدیک فرصت وہ وقت ہے، جس میں انسان اپنے دل، دماغ اور روح کو مضبوط بنا سکتا ہے۔

بڑی علمی شخصیات کی زندگی کا مطالعہ کیا جائے تو ان کی علمی بلندی کا راز بھی یہی ہے کہ انہوں نے وقت کو ضائع نہیں ہونے دیا۔ علامہ طباطبائی نے برسوں تک مطالعے اور غور و فکر سے تفسیر المیزان جیسا شاہکار تحفہ امت کو دیا۔ ابن سینا، فارابی اور الغزالی جیسے مفکرین نے فرصت کے لمحوں کو تحقیق، مطالعہ اور تفکر میں ڈھال کر دنیا کو علم کا خزانہ عطا کیا۔ ان سب کی زندگیوں میں ایک قدر مشترک تھی، وہ ہے وقت کی حرمت۔ انہوں نے فرصت کو ضائع ہونے نہیں دیا، بلکہ اسے علم، فکر اور خدمت میں بدل دیا۔ یہی راز ہے ان کی علمی برتری کا۔ فرصت کا صحیح استعمال یہ ہے کہ انسان اپنے اندر جھانکے۔ خود سے سوال کرے کہ میں کہاں کھڑا ہوں۔؟ کیا میں وہ کر رہا ہوں، جو مجھے کرنا چاہیئے؟ کیا میں اپنے وقت کو بامقصد بنا رہا ہوں۔؟ یہ لمحے خود احتسابی کے ہوتے ہیں، خاموشی کے نہیں۔ مطالعہ، تفکر، عبادت یا کسی کے دل کا بوجھ ہلکا کرنا یہ سب فرصت سے استفادہ کی صورتیں ہیں۔

ہماری بڑی محرومی یہ ہے کہ ہم وقت کی قدر نہیں کرتے۔ ہم گھنٹوں باتوں، اسکرینوں اور بے مقصد مشاغل میں گزار دیتے ہیں، مگر یہی وقت اگر ہم کسی علم، ہنر یا نیکی کے کام میں لگا دیں تو ہماری زندگی بدل سکتی ہے۔ وقت وہ تلوار ہے، جو کاٹ بھی سکتی ہے اور محافظ بھی بن سکتی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ ہم اسے کس سمت میں استعمال کرتے ہیں۔ زندگی انہی کی ہوتی ہے، جو لمحوں کی قدر جانتے ہیں۔ جو آج کو کل پر نہیں ٹالتے۔ دنیا کی تاریخ انہی لوگوں سے روشن ہے، جنہوں نے اپنے وقت کا حق ادا کیا، چاہے وہ قلم کے میدان میں ہو، عبادت کے سفر میں یا خدمت کے راستے پر۔ یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ فرصت ایک نعمت بھی ہے اور آزمائش بھی۔ اگر ہم نے اس سے فائدہ اٹھایا تو یہ کامیابی کا زینہ بن جاتی ہے اور اگر ہم نے اسے ضائع کر دیا تو یہی نعمت حسرت بن جاتی ہے۔ فرصت کا صحیح مفہوم یہ نہیں کہ انسان فارغ ہو کر بے فکری اختیار کرے، بلکہ یہ وہ وقت ہے، جب انسان اپنی روح، فکر اور ارادے کو نکھار سکتا ہے۔

مولانا رومی نے کہا تھا کہ ہر سانس غنیمت سمجھو، کیونکہ دنیا ایک ہی سانس ہے، اس کے بعد کا سانس ایک نئی داستان ہے۔ علامہ اقبالؒ نے بھی وقت کی اہمیت کو اپنی شاعری کا مرکزی مضمون بنایا۔ فرصت کا بہترین استعمال یہ ہے کہ انسان اپنے اندر جھانکے، اپنی خامیوں کو پہچانے، اپنے مقصد کو واضح کرے۔ مطالعہ کرے، سوچے، عبادت کرے یا کسی کے دل کا بوجھ ہلکا کرے۔ یہی وہ اعمال ہیں، جو وقت کو بابرکت بنا دیتے ہیں۔ آج کا انسان مشینی زندگی میں الجھ کر وقت کا غلام بن گیا ہے۔ وہ گھنٹوں بے مقصد مصروف رہتا ہے، مگر معنوی طور پر خالی ہو جاتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے وقت کو خدا کی امانت سمجھ کر استعمال کریں۔ اگر ہم اپنی فرصت کو علم، فکر اور خدمت میں ڈھال لیں تو یہی لمحے ہماری ابدی کامیابی کا زینہ بن جائیں گے۔ خیام فرماتے ہیں:
ابر آمد و باز بر سر سبزه گریست
بی بادهٔ گل‌ رنگ نمی‌ باید زیست
این سبزه که امروز تماشاگه ماست
تا سبزهٔ خاک ما تماشاگه کیست!

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: انسان اپنے نے وقت کو دیتے ہیں کی زندگی کہ انسان اپنے وقت یہ ہے کہ ہے کہ ہم فکر اور فرصت کا جاتا ہے رہتا ہے ہے اور وقت کی اگر ہم کسی کے

پڑھیں:

ایشا دیول نے دھرمیندر کی سالگرہ کے موقع پر کیا عہد کیا؟

بالی ووڈ کی معروف اداکارہ ایشا دیول نے اپنے آنجہانی والد و اداکار دھرمیندر کی موت کے بعد ان کی پہلی سالگرہ کے موقع پر خود سے ایک عہد کیا ہے۔

ایشا دیول نے فوٹو اینڈ ویڈیو شیئرنگ ایپ انسٹاگرام پر دھرمیندر کے ساتھ اپنی کچھ یاد گار تصاویر شیئر کی ہیں۔

اُنہوں نے تصاویر شیئر کرتے ہوئے کیپشن میں لکھا کہ میرا اور پاپا کا رشتہ بہت مضبوط تھا، ہم ہر زندگی میں ساتھ رہیں گے چاہے وہ زندگی آسمان پر ہو یا زمین پر، ہم ایک ہیں۔

View this post on Instagram

A post shared by ESHA DHARMENDRA DEOL (@imeshadeol)


اداکارہ نے مزید لکھا کہ اب میں نے اپنی باقی کی زندگی کے لیے پاپا کو اپنے دل میں محفوظ کر لیا ہے۔

اُنہوں نے لکھا کہ پاپا نے جو قیمتی یادیں، زندگی کے سبق، تعلیم، رہنمائی، گرمجوشی، غیر مشروط محبت، وقار اور طاقت مجھے اپنی بیٹی کے طور پر دی ہے اس کی جگہ کوئی اور نہیں لے سکتا۔

ایشا دیول نے لکھا کہ پاپا، آپ مجھے بہت یاد آتے ہیں، آپ جب گلے لگاتے تھے تو ایسا لگتا تھا جیسے میں ایک نرم ملائم کمبل میں لپٹی ہوئی ہوں، آپ کا نرم لیکن مضبوط ہاتھ سے مجھے تھامنا جن میں میرے لیے بہت سارے پیغامات تھے اور آپ کا مجھے پکارنا اور پھر آپ کی لامتناہی گفتگو، ہنسی اور شاعری سب بہت یاد آتا ہے۔

اُنہوں نے لکھا کہ پاپا کی زندگی کا مقصد بس یہی تھا کہ انسان دوسروں کے ساتھ ہمیشہ عاجزی کے ساتھ پیش آئے، خوش، صحت مند اور مضبوط رہے۔

اداکارہ نے لکھا کہ میں آج پاپا کی میراث کو فخر اور احترام کے ساتھ جاری رکھنے کا وعدہ کرتی ہوں اور میں ان کی محبت کو ان تمام لوگوں تک پہنچانے کی پوری کوشش کروں گی جو میری ہی طرح ان سے محبت کرتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • 25 برس سے گھر سے باہر کھانا نہیں کھایا، سلمان خان کا انکشاف
  • 25 سال ہوگئے باہر ڈنر نہیں کیا: سلمان خان کا انکشاف
  • سابق فرانسیسی صدر نے جیل کی زندگی کو جہنم قرار دے دیا
  • انسانی حقوق کوئی تحفہ نہیں‘ ہر انسان کا فطری حق ہیں،منورحمید
  • انسان اور چھوٹی کائنات (پہلا حصہ)
  • ہم اور دوسرے
  • انسان ہوں فرشتہ نہیں، ندا یاسر نے فوڈ ڈلیوری رائیڈرز سے معافی مانگ لی
  • ایشا دیول نے دھرمیندر کی سالگرہ کے موقع پر کیا عہد کیا؟
  • زویا ناصر نے دوبارہ محبت نہ کرنے کی وجہ بتا دی
  • آج کا دن کیسا رہے گا؟