27 ویں کی ترمیم اور مضمرات
اشاعت کی تاریخ: 13th, November 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
یہ بات پہلے سے یقینی تھی کہ حکومت اور بڑی طاقتوں کو ہر صورت میں سینیٹ اور قومی اسمبلی سے 27 ویں ترمیم کی منظوری کو یقینی بنانا ہے۔ اس تناظر میں کسی بھی رکاوٹ کو نہ تو حکومت برداشت کرنے کے لیے تیار تھی اور نہ ہی اسٹیبلشمنٹ کے حلقے۔ یہی وجہ ہے کہ 27 ویں ترمیم کی منظوری جس سیاسی پھرتی اور سیاسی عجلت میں کی گئی ہے وہ ظاہر کرتی ہے کہ اس ترامیم کے پیچھے قانون سے زیادہ سیاسی محرکات ہیں۔ سینیٹ سے منظوری کے لیے حکومت کے پاس دو ووٹ کم تھے اور یہ کمی پی ٹی آئی اور جے یو آئی کے ایک ایک رکن کی حمایت سے یقینی بنا لی گئی۔ سینیٹ سے منظوری کے بعد قومی اسمبلی سے بھی 27 ویں ترمیم کی منظوری ممکن ہو جائے گی۔ 27 ویں ترمیم کی منظوری کے بعد ایک بات یقینی ہو گئی ہے کہ ہمارے ہاں سیاسی طاقت اور سیاسی کنٹرول سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں غیر سیاسی قوتوں کے ہاتھوں میں ہے۔ وہ جیسا چاہیں اور جب چاہیں اپنی مرضی اور منشا کے مطابق سیاست، جمہوریت اور پارلیمنٹ کو اپنے حق میں استعمال کر سکتے ہیں۔ استثنیٰ کی سیاست نے کئی چہروں کو بے نقاب کیا ہے اور اس سے پورا حکومتی ڈھانچہ متاثر بھی ہوا ہے۔ یہ سارا منظر نامہ ظاہر کرتا ہے کہ حکومت اور طاقتور طبقات کے سامنے ریاست، حکومت اور عوام کے مفادات کے مقابلے میں اپنے ذاتی مفادات کی اہمیت زیادہ ہوتی ہے۔ پیپلز پارٹی نے اس کھیل میں آصف علی زرداری کے لیے فوجداری مقدمات سے بچنے کے لیے استثنیٰ حاصل کر لیا ہے۔ اسی طرح حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو عدلیہ کے اندر سے جس مزاحمت کا سامنا تھا اس کے بھی پر کاٹ دیے گئے ہیں۔ پہلے 26 ویں ترمیم کے ذریعے عدلیہ کو کمزور کیا گیا اور اب 27 ویں ترمیم میں بچی کھچی عدلیہ کا بھی صفایا کر دیا گیا ہے۔ عدالت عظمیٰ کے مقابلے میں آئینی عدالتوں کا قیام ظاہر کرتا ہے کہ اس کے پیچھے سیاسی مقاصد ہیں اور عدالت عظمیٰ کے مقابلے میں آئینی عدالتوں کو اہمیت دے کر حکومت اپنے سیاسی مفادات کی تکمیل کی خواہشمند ہے۔ بظاہر تو یہ کہا جاتا ہے کہ پارلیمنٹ نے اس میں ترمیم کی منظوری دی ہے لیکن اصل حقیقت یہ ہے کہ یہ صرف ترمیم نہیں تھی بلکہ آئین کو ایک خاص مقصد کی بنیاد پر دوبارہ لکھا گیا ہے۔ بلاول زرداری کے بقول 27 ویں ترمیم سے کسی بھی طرح سے نہ تو پارلیمنٹ کی تذلیل ہوئی ہے اور نہ ہی پارلیمانی اور جمہوری سیاست کو نقصان پہنچا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ جس انداز سے 27 ویں ترمیم منظور ہوئی ہے اس نے نمائشی پارلیمنٹ کی حیثیت کو بھی بے نقاب کر دیا ہے اور ساتھ ساتھ لوگوں کو اندازہ ہوا ہے کہ پاکستان کی نام نہاد جمہوری قوتیں غیر سیاسی قوتوں کا الہ ِ کار بن کر کام کر رہی ہیں۔ اس ترمیم سے ہم جمہوری سفر میں آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے کی طرف گئے ہیں اور صاف نظر آتا ہے کہ ہم نے جمہوریت اور قانون یا آئین کی حکمرانی کے تناظر میں سیاسی سمجھوتا کیا ہے۔ دنیا میں پارلیمانی جمہوریت میں آئین کی منظوری یا ترمیم کے حوالے سے جو عمل ہم نے دکھایا ہے وہ ظاہر کرتا ہے کہ ہم کس حد تک خود مختار سیاست جمہوریت اور پارلیمنٹ رکھتے ہیں۔ پارلیمنٹ کو تو بڑی قوتوں نے محض ایک ربڑ اسٹمپ کے طور پر استعمال کیا ہے۔ اس ترمیم کی منظوری سے عدلیہ کا پورا نظام متاثر ہوا ہے اور حیرت اس بات پر ہے کہ عدلیہ میں موجود سپریم کورٹ، ہائی کورٹ کے ججوں نے بھی پسپائی اختیار کر کے خود اپنے ادارے کو کمزور کیا ہے۔ اصل میں تو حکومت نے مخالف سیاسی قوتوں کو دیوار سے لگا دیا ہے اور ان کے لیے کوئی راستہ نہیں بچا۔ حکومت کو اس وقت عدلیہ کے اندر سے مزاحمت کا سامنا تھا اور اس ترمیم کی مدد سے اس مزاحمت کا علاج بھی کر دیا گیا ہے۔ سیکورٹی کے نئے اداروں کا قیام اور فیلڈ مارشل یا آرمی چیف کو بہت زیادہ اختیارات دے کر بھی بحث کا ایک نیا راستہ کھولا گیا ہے۔ اگرچہ حکومت کا موقف ہے کہ موجودہ حالات میں پاکستان کو جو داخلی اور علاقائی چیلنجز ہیں ان میں اس طرز کی ترمیم کرنا یا فیلڈ مارشل کو زیادہ اختیارات دینا وقت کا تقاضا بھی تھا اور اس عمل سے تمام سیکورٹی اداروں کے درمیان باہمی رابطہ کاری اور ہم آہنگی کا عمل بھی مضبوط ہوگا۔ ممکن ہے کہ یہ بات درست ہو لیکن اس کے لیے پراسرار طریقہ کیوں اختیار کیا گیا اور کیوں ایک بڑے بحث و مباحثہ اور اتفاق رائے سے گریز کیا گیا۔ کیا یہ ضروری تھا کہ 27 ویں ترمیم کو اس عجلت میں منظور کیا جاتا جیسے کیا گیا ہے۔ اس عمل نے 27 ویں ترمیم کو وجہ متنازع بنا دیا ہے اور پہلے سے موجود سیاسی اور قانونی تقسیم کو بھی اور زیادہ گہرا کر دیا ہے۔ پی ٹی آئی سمیت دیگر اپوزیشن جماعتوں نے 27 ویں ترمیم کی منظوری کا نہ صرف بائیکاٹ کیا ہے بلکہ ایک ملک گیر تحریک چلانے کا اعلان بھی کر دیا ہے۔ ان کے بقول 27 ویں ترمیم آئین اور قانون کی بالادستی کے مقابلے میں شخصیات کو طاقت دینے کا کھیل تھا اور اس میں اپوزیشن کے موقف کو بالکل نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ قومی اسمبلی کے نامزد اپوزیشن لیڈر محمود خان اچکزئی اور سینیٹ میں نامزد اپوزیشن لیڈر علامہ راجا ناصر عباس نے کہا ہے کہ 27 ویں ترمیم کی منظوری سے پورا آئین کا ڈھانچہ متاثر ہوا ہے اور اس سے ملک میں آئین اور قانون کی حکمرانی کا تصور کمزور ہوا اور شخصی حکمرانی کو طاقت ملی ہے۔ اس سارے کھیل میں جہاں مسلم لیگ ن کی سیاسی بے بسی دیکھنے کو ملی وہیں پیپلز پارٹی کا سیاسی کردار بھی سمجھوتے کی سیاست کا نظر آیا۔ فیصل وائوڈا پہلے ہی کہہ چکے تھے کہ 27 ویں ترمیم کی منظوری کا ٹاسک ہر صورت میں ان دونوں بڑی سیاسی جماعتوں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کو دیا گیا ہے اور وہ اس ٹاسک کو مکمل کرنے میں مکمل تعاون کریں گے۔ کیونکہ اس ترمیم کی منظوری کے علاوہ ان دونوں بڑی جماعتوں کے پاس اور کوئی آپشن نہیں ہے۔ پیپلز پارٹی کے حلقوں میں نجی طور پر یہ اعتراف کیا جا رہا ہے کہ اس ترمیم سے ان کی پارٹی کی سیاست متاثر ہوئی ہے اور لوگوں میں یہ سوچ آگے بڑھی ہے کہ پیپلز پارٹی بھی بڑی طاقتوں کے سامنے خود کو سرنڈر کر چکی ہے۔ بلاول جو مرضی کہتے رہیں اصل حکم تو آصف علی زرداری کا چل رہا تھا اور وہی چلا ہے۔ کیا آصف علی زرداری سمجھتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ ہی اصل طاقت ہے اور ان کو راضی کر کے ہی ہم اقتدار کی سیاست کو محفوظ بنا سکتے ہیں۔ اس حالیہ ترمیم کی منظوری پر عدالت عظمیٰ کے دو سینئر ججوں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللہ نے اپنے تحفظات کی بنیاد پر موجودہ چیف جسٹس کو خط لکھا ہے اور کہا ہے کہ اس ترمیم اس کی منظوری پر اعلیٰ عدلیہ کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ لیکن عدالت عظمیٰ یا عدالت عالیہ کے ججوں کا یہ پہلا خط نہیں ہے اس سے قبل بھی مختلف معاملات پر اعلیٰ عدلیہ کے جج چیف جسٹس کو تحریری طور پر اپنے تحفظات پیش کر چکے ہیں۔ لیکن ان کی کوئی شنوائی نہیں ہو سکی اور وہ بدستور عدالتی معاملات میں اپنے بہت سے تحفظات رکھتے ہیں۔ لیکن لگتا ہے کہ اس ریاست اور حکومت کے نظام میں جمہوریت اور آئین کی حکمرانی کا تصور بہت پیچھے چلا گیا ہے اور ہم افراد کی بنیاد پر سیاست کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جس طرح وفاقی حکومت فوری طور پر وفاق کی سطح پر عینی عدالتوں کے قیام کی کوشش کر رہی ہے اس سے بھی یہ شکوک و شبہات بڑھتے ہیں کہ حکومت آنے والے دنوں میں ان آئینی عدالتوں کو اپنے سیاسی مفادات کے لیے استعمال کر سکتی ہے۔ ممکن ہے جب آپ یہ تحریر پڑھ رہے ہوں تو قومی اسمبلی سے بھی 27 ویں ترمیم کی منظوری ہو چکی ہوگی اور یہ باقاعدہ آئین کا حصہ بن جائے گی۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: ویں ترمیم کی منظوری کہ 27 ویں ترمیم کے مقابلے میں جمہوریت اور پیپلز پارٹی قومی اسمبلی عدالت عظمی دیا گیا ہے حکومت اور منظوری کے اور قانون کی سیاست ہے کہ اس تھا اور حکومت ا کیا گیا کر دیا اور اس دیا ہے ہے اور کے لیے ہوا ہے کیا ہے
پڑھیں:
آئینی ترمیم کی منظوری : نمبر گیم پوری کرنے کیلئے حکومت نے پلان بی پر کام شروع کردیا،اپوزیشن کے4ممبران سے رابطوں کا انکشاف
آئینی ترمیم کی منظوری : نمبر گیم پوری کرنے کیلئے حکومت نے پلان بی پر کام شروع کردیا،اپوزیشن کے4ممبران سے رابطوں کا انکشاف WhatsAppFacebookTwitter 0 10 November, 2025 سب نیوز
اسلام آباد (سب نیوز )ترمیم کی منظوری کے سلسلے میں حکومت نمبر گیم پوری کرنے کیلئے متحرک ہوگئی، نمبر گیم پوری کرنے کیلئے حکومت نے پلان بی پر کام شروع کردیا۔رپورٹ کے مطابق حکومت نے نمبر گیم پوری کرنے کیلئے پی ٹی آئی اور جے یو آئی ممبران سے رابطے کیے ہیں۔ان رابطوں کے بعد حکومت نے اپوزیشن کے 3 ممبران کو ووٹ کے لیے راضی کرنے کا دعوی کیا ہے اور کہا ہے کہ حکومت کی جانب سے کی گئی کوششوں سے ایک اضافی سینیٹر بھی راضی ہوگیا۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرفخر ہے کہ اس ملک کو ایسے وزیراعظم ملے جو خود کو احتساب کے لیے پیش کرتے ہیں: ایمل ولی خان فخر ہے کہ اس ملک کو ایسے وزیراعظم ملے جو خود کو احتساب کے لیے پیش کرتے ہیں: ایمل ولی خان سینیٹ اجلاس: 27 ویں آئینی ترمیم سے متعلق قائمہ کمیٹی کی رپورٹ ایوان میں پیش،کاروائی جاری ،جلد ووٹنگ کا امکان امریکی سینیٹ نے شٹ ڈا ئون ختم کرنے کی جانب اہم پیش رفت کرلی اسلام آباد ہائی کورٹ میں آئینی عدالت کی ممکنہ تشکیل کے لیے تیاریاں تیز معروف پروفیسر ڈاکٹر عارفہ سیدہ زہرا انتقال کر گئیں کیش لیس معیشت سے گورننس میں بہتری اور کرپشن میں کمی آئے گی، وزیراعظمCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہماری ٹیم