بھارت کا حیرت انگیز گاؤں؛ جہاں افریقی رہتے ہیں اور پان گٹکا کھاتے ہیں
اشاعت کی تاریخ: 15th, November 2025 GMT
بھارتی ریاست گجرات میں ایک علاقہ ایسا بھی ہے جہاں کے مکین شکل و صورت سے گجراتی تو کیا بھارتی بھی نہیں لگتے اور اپنی ایک علیحدہ شناخت اور تاریخ رکھتے ہیں۔
بھارتی گجرات کے اس عجیب و غریب گاؤں کا نام حمبور ہے جہاں کے زیادہ تر مکین صرف 25 سال قبل یہاں آباد ہوئے، آخر یہ لوگ کہاں سے آئے تھے۔
اس سوال کے جواب کی تلاش میں جب صحافیوں کی ٹیم اس علاقے میں پہنچی تو حیرت انگیز حقائق سامنے آئے۔
چشم کشا رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ اس گاؤں کے 80 فیصد باسی نائیجیریا، گھانا اور کینیا سمیت دیگر افریقی ممالک سے تعلق رکھتے ہیں۔
یہ تمام افراد روزگار کی تلاش میں کسی طرح بھارتی گجرات پہنچے اور اب یہی کے مکین ہوکر رہ گئے یہاں تک کہ افریقی بود و باش کے بجائے بھارتی ثقافت بھی اپنالی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایک عام گجراتی کی طرح یہاں کے سیاہ فام اور گھنگریالے بالوں والے افریقیوں کا بھی مرغوب شوق پان اور گٹکا کھانا ہوچکا ہے۔
اس سے بھی حیرت انگیز بات یہ ہے کہ مختلف افریقی ممالک سے تعلق رکھنے والے دراز قد افریقی اب فر فر ہندی بھی بولتے ہیں۔
ان میں سے اکثر نے قانونی دستاویزات بھی بنوالیے ہیں اور چھوٹے موٹے کاروبار کر رہے ہیں۔
.
ذریعہ: Express News
پڑھیں:
دہلی دھماکا: بھارت کی الزام تراشی پر ترکیہ کا سخت ردعمل
بھارتی دارالحکومت دہلی میں پیر کے روز ہونے والے لال قلعہ دھماکے کے بعد بھارت کے کئی میڈیا اداروں نے اپنی رپورٹوں میں ترکیہ کو نشانہ بنانا شروع کردیا ہے۔ بھارتی میڈیا نے دعویٰ کیا ہے کہ دھماکے میں ملوث ملزمان کو ترکیہ سے لاجسٹک سپورٹ فراہم کی گئی، اور ان کے غیرملکی روابط انقرہ تک پہنچتے ہیں۔
بھارتی خبر رساں ادارے ”انڈیا ٹوڈے“ نے اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا کہ تحقیقاتی اداروں نے گرفتار ملزمان اور ایک غیرملکی ”ہینڈلر“ کے درمیان تعلقات کا سراغ لگایا ہے، جو مبینہ طور پر ترکیہ کے دارالحکومت انقرہ سے کارروائیوں کی نگرانی کرتا تھا۔
انڈیا ٹوڈے نے پولیس ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس ہینڈلر کا کوڈ نیم ”عکاسہ“ تھا، جس کے عربی میں معنی ”مکڑی“ ہیں۔ تفتیش کاروں کا کہنا ہے کہ عکاسہ ممکنہ طور پر ایک فرضی نام ہے، جو اصل شناخت چھپانے کے لیے استعمال کیا گیا۔
بھارتی حکام کا دعویٰ ہے کہ عکاسہ براہِ راست مبینہ مرکزی ملزم ڈاکٹر عمر ان نبی اور اس کے ساتھیوں سے رابطے میں تھا۔ یہ رابطہ ”سیشن“ نامی خفیہ میسجنگ ایپ کے ذریعے کیا گیا، جو نگرانی سے بچنے کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔
مزید دعویٰ کیا گیا کہ تحقیقات کے مطابق، عکاسہ نے نہ صرف گروہ کی نقل و حرکت بلکہ مالی معاملات اور نظریاتی رہنمائی میں بھی کردار ادا کیا۔
بھارتی میڈیا کے مطابق، فریدآباد کے ایک مبینہ دہشت گرد نیٹ ورک کے چند افراد مارچ 2022 میں انقرہ گئے تھے، جہاں ان کی ملاقات اس ہینڈلر سے ہوئی۔ بعد ازاں، وہی افراد بھارت واپس آکر ”ڈاکٹر ماڈیول“ کا حصہ بن گئے، جو تعلیم یافتہ نوجوانوں پر مشتمل گروہ تھا۔
بھارتی ایجنسیاں اب ان ملزمان کے موبائل، چیٹ ہسٹری، کال لاگز اور ڈیجیٹل شواہد کا جائزہ لے رہی ہیں تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ اس نیٹ ورک کے پاکستان سے تعلقات تھے یا نہیں۔
تاہم، نئی دہلی میں ترک سفارت خانے نے ان بھارتی الزامات کو سختی سے مسترد کردیا ہے۔ اپنے باضابطہ بیان میں ترک سفارتخانے نے کہا کہ “بھارت کے بعض میڈیا ادارے بدنیتی پر مبنی جھوٹی رپورٹس چلا رہے ہیں، جن میں ترکیہ کو دہشت گرد گروہوں کی مالی اور سفارتی مدد دینے والا ملک قرار دیا جا رہا ہے۔”
pic.twitter.com/23e7ola3ah
— Türkiye in India (@TC_YeniDelhiBE) November 12, 2025
سفارت خانے نے واضح کیا کہ ترکیہ دہشت گردی کی ہر شکل کی سخت مذمت کرتا ہے اور عالمی برادری کے ساتھ مل کر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں نمایاں کردار ادا کر رہا ہے۔ بیان میں مزید کہا گیا کہ ایسے بے بنیاد الزامات کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو خراب کرنا اور ترکیے کے عالمی تشخص کو نقصان پہنچانا ہے۔
ترک سفارت خانے نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ بھارتی میڈیا کی جھوٹی اور گمراہ کن خبروں پر یقین نہ کریں۔
انقرہ نے باور کرایا کہ ”ترکیہ امن، استحکام اور انسدادِ دہشت گردی کے لیے کام کر رہا ہے، نہ کہ کسی ملک کے خلاف۔“