پاک افغان سرحدی بندش سے افغانستان میں بنیادی اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ
اشاعت کی تاریخ: 23rd, November 2025 GMT
کوئٹہ ( نیوزڈیسک) پاکستان کی سرحدی بندش سے افغانستان کو شدید معاشی نقصان کے باوجود افغان طالبان کی ہٹ دھرمی برقرار ہے۔
پاک افغان سرحد کی بندش سے افغان معیشت پر منفی اثرات نمایاں ہو رہے ہیں جس پر افغان عوام نے شدید ردعمل دیا ہے۔
افغان نشریاتی ادارہ آمو ٹی وی کے مطابق پاکستان سے سرحدی بندش سے افغانستان میں بنیادی اشیاء کی قیمتیں غیرمعمولی حد تک بڑھ گئیں۔
افغان حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے افغان عوام کا کہنا تھا کہ قیمتوں میں اضافہ عام لوگوں کیلئے ناقابل برداشت ہوگیا ہے، بنیادی غذائی اشیاء اب عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہیں، غریب کیسے گزارا کرے؟
افغان چیمبر آف کامرس کے مطابق ہر ماہ سرحد کی بندش سے تقریباً 200 ملین ڈالر کا نقصان ہو سکتا ہے، پاکستان پر تجارتی انحصار کی بدولت سرحدی بندش سے افغانستان کو سب سے زیادہ نقصان ہو رہا ہے۔
ماہرین کے مطابق خوراک اور ایندھن کی بڑھتی قیمتیں سردیوں کے دوران افغان عوام کی زندگی مزید مشکل بنا سکتی ہیں، اگر پاک افغان سرحد جلد نہیں کھلی تو انسانی اور اقتصادی نقصان میں اضافہ ہوگا۔
قابض افغان طالبان کی ہٹ دھرمی نے افغانستان کو شدید اقتصادی بحران کی دلدل میں دھکیل دیا ہے۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: سرحدی بندش سے افغانستان
پڑھیں:
افغان طالبان کی سخت گیر پالیسیوں نے افغانستان کو عالمی تنہائی میں دھکیل دیا
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
افغانستان میں دہشت گرد گروہوں کی سرپرستی، بنیادی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں اور سخت گیر پالیسیوں نے افغان طالبان رجیم کو عالمی سطح پر مکمل تنہائی کی طرف دھکیل دیا۔
عالمی میڈیا رپورٹ کے مطابق دنیا کے بیشتر ممالک نے طالبان حکومت پر کھلا عدم اعتماد ظاہر کرتے ہوئے انہیں بین الاقوامی فورمز سے دور رکھنے کی پالیسی برقرار رکھی ہے۔
افغان جریدے طلوع نیوز کے مطابق ماسکو میں ہونے والے شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) کے سربراہی اجلاس میں افغانستان کو ایک بار پھر شرکت کی دعوت نہیں دی گئی، اجلاس میں پاکستان، چین، بھارت اور دیگر رکن ممالک شریک تھے تاہم طالبان حکومت کا کوئی نمائندہ موجود نہیں تھا۔
رپورٹ کے مطابق اجلاس میں اقتصادی تعاون، تجارت، سرمایہ کاری، ثقافتی تبادلوں اور انسانی ہمدردی کے موضوعات زیرِ بحث آئے لیکن افغانستان کی مسلسل غیر موجودگی نے واضح کر دیا کہ عالمی برادری طالبان انتظامیہ کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔
اقتصادی امور کے ماہر عبدالظہور مدبر نے کہا ہے کہ افغانستان کی اہم جغرافیائی حیثیت اور ٹرانزٹ کوریڈور ہونے کے باوجود طالبان کی شدت پسندانہ حکمت عملی اور عوام پر مسلسل جبر کے باعث انہیں علاقائی تعاون سے دور رکھا جا رہا ہے۔
بین الاقوامی تجزیہ کاروں کے مطابق طالبان کی جانب سے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں، خواتین کی تعلیم و روزگار پر پابندیاں اور دہشت گرد گروہوں کی پناہ گاہیں عالمی برادری کو مجبور کر رہی ہیں کہ وہ طالبان حکومت پر سخت ترین سفارتی اور اقتصادی پابندیوں پر غور کرے۔