سعودی عرب میں مزید 2 شراب خانے کھولنے کی تیاری؛ رائٹرز کا دعویٰ
اشاعت کی تاریخ: 24th, November 2025 GMT
دھران (ویب ڈیسک)رائٹرز نے ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ سعودی عرب جلد ہی مزید دو شراب خانے کھولنے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔
عالمی خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق ان دو میں سے ایک شراب خانہ پٹرولیم کمپنی آرامکو کے غیر مسلم ملازمین کے لیے مشرقی صوبے دھران میں کھولا جائے گا۔
رائٹرز کی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ دوسرا شراب خانہ جدہ میں غیر مسلم سفارتکاروں کے لیے قائم کیا جائے گا۔
رائٹرز کے ذرائع کے بقول یہ دونوں شراب خانے ممکنہ طور پر آئندہ برس 2026 میں کھل سکتے ہیں جن کی حتمی تاریخوں کا اعلان نہیں کیا گیا۔
نئے دو شراب خانے کھولنے کی یہ خبر سعودی ولی عہد کے امریکا کے سات سال بعد کیے گئے خصوصی دورے کے بعد سامنے آئی ہے۔
رائٹرز نے اس خبر کی تصدیق کے لیے سعودی حکام اور آرامکو کی انتظامیہ سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن دونوں کی جانب سے کسی بھی تبصرے سے گریز کیا گیا۔
خیال رہے کہ 73 برس بعد سعودی عرب نے گزشتہ برس پہلی بار دارالحکومت ریاض کے سفارتی علاقے میں غیر مسلم سفارتکاروں کے لیے پہلا شراب خانہ کھولا تھا۔
اس شراب خانے کو غیر رسمی طور پر “بوٴز بنکر” کہا جاتا ہے۔ یہ اسٹور سعودی عرب میں الکوحل کی دستیابی کے سخت ضابطوں میں نرمی کی علامت سمجھا گیا۔
ریاض کے اس شراب خانے میں حال ہی میں غیر مسلم “سعودی پریمیئم ریذیڈنسی” ہولڈرز کو بھی خریداری کی اجازت دی گئی ہے۔
یاد رہے کہ سعودی عرب میں شراب اب بھی مکمل طور پر ممنوع ہے البتہ ملک میں تیزی سے تفریحی ایونٹس، کنسرٹس، سینما اور دیگر سرگرمیوں کی آزادی میں اضافہ ہوا ہے۔
علاوہ ازیں خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت بھی دیدی گئی ہے اور اُن پر مختلف روایتی اور سماجی پابندیاں بھی نرم کی گئی ہیں۔
سعودی عرب میں سیاحت اور عالمی سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے لیے ’ریڈ سی گلوبل‘ کے تحت اگلے سال تک 17 نئے لگژری ہوٹلز کھولے جائیں گے۔
تاہم یہ تمام لگژری ہوٹلز اور ریزورٹس الکوحل سے پاک رہیں گے۔
خاص طور پر 2034 کے فٹبال ورلڈ کپ کے انعقاد کی تیاریوں کے پیشِ نظر حال ہی میں ایک غیر مصدقہ رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ سعودی عرب سیاحتی علاقوں میں شراب کی فروخت کی اجازت دینے کا ارادہ رکھتا ہے۔
سعودی حکام نے ایسی تمام خبروں کو بے بنیاد اور جھوٹ قرار دیتے ہوئے وضاحت کی تھی کہ ملک میں شراب پر عائد پابندی برقرار رہے گی۔
سعودی وزیرِ سیاحت احمد الخطیب نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ غیر ملکی سیاحوں کی خواہشات کا احساس ہے لیکن شراب پر پابندی برقرار ہے۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: کے لیے
پڑھیں:
ضمنی گرانٹس کا آڈٹ کرایا جائے، بجٹ تیاری ایگزیکٹو کے سپرد، کرپشن کا باعث ہو سکتی ہے: آئی ایم ایف
اسلام آباد (عترت جعفری)آئی ایم ایف نے کہاہے کہ بجٹ کی منصوبہ بندی اور تیاری کے مراحل کو جس طرح سے پورا کیا جاتا ہے اس سے بجٹ کی تیاری کا تمام دائرہ ایگزیکٹو کی صوابدید ہے اور کرپشن کا باعث بن سکتا ہے،غیر حقیقت پسندانہ ریونیو تخمینہ جات ،بجٹ کی پروجیکشنز اور سیلنگ کی وجہ سے اخراجات میں اضافہ ہوتا ہے،بقایہ جات کا حجم بڑھ جاتا ہے،پاکستان بجٹ کی ساکھ کمزور ہے جس کی وجہ سے متعدد میکرو اور نازک گورننس کے ایشوز پیدا ہو جاتے ہیں،ریونیو کے تخمینہ اور حاصل ہونے والے ریونیو کے درمیان تفاوت ہوتا ہے،مالی سال 2023 -24ء کی مثال دیتے ہوئے آئی ایم ایف نے کہا کہ اس سال حکومت نے خام ریونیو وصولی کا تخمینہ 12378 ا رب روپے لگایا تھا جبکہ وصولی 12 ہزار 271 ارب روپے ہوئی کل اخراجات کے کم تخمینہ کے مقابلہ میںجبکہ حقیقی اخراجات 14ہزار57 6ارب روپے ہوئے، سفارش کی ہے کہ گزشتہ برسوں میں جو بھی میکرو فسکل اندازے لگائے گئے اور جو اصل بجٹ تخمینہ جات آئے ان کی ری کانسلیشن کی جائے، بالائی سطح سے نیچے تک بجٹنگ اور میکرو فزیکل تجزیہ جات کیے جائیں، آئی ایم ایف نے یہ بھی کہا کہ پاکستان میں ضمنی گرانٹس کا بہت زیادہ استعمال اور بجٹ پر کمزور کنٹرول سے گورننس کی کمزوریاں پیدا ہوتی ہیں اور کرپشن کا خطرہ الگ سے ہوتا ہے،،2024ء تیار کی جانب والی ٹیکس گیپ رپورٹ میں 3.4 ٹریلین روپے کے ٹیکس گیپ کی نشاندہی کی گئی تھی جو کہ جی ڈی پی کے 3.9 فیصد کے مساوی ہے، دریں اثناء پاکستان کے دورہ مکمل کرنے والے آئی ایم ایف کے تکنیکی وفد نے حکومت کے ساتھ مذاکرات میں بجٹ تیاری میں ڈیٹا کے درست استعمال پر زور دیا، اس کے ساتھ ساتھ ٹیکس نیٹ بڑھانے اور ضمنی گرانٹس کے آڈٹ کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔ آئی ایم ایف بجٹ سازی پر تکنیکی رپورٹ جنوری میں جاری کرے گا ،آئی ایم ایف نے رجسٹرڈ ٹیکس دہندگان کی تعداد کم از کم ڈیڑھ کروڑ کرنے کا مطالبہ کیا ہے، جعلی رسیدوں اور ریفنڈز پر قابو پانے اور مختلف شعبوں کو حاصل ٹیکس چھوٹ یا مراعات ختم کرنے کی سفارش کی ہے۔ ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف کے تکنیکی مشن نے دو روزہ اجلاس میں حکومت کی معاشی ٹیم کے ساتھ بجٹ پراسیس کے اہداف پر عمل درآمد کا جائزہ لیا۔ دس روزہ بات چیت میں پبلک فنانس مینجمنٹ اور بجٹ سازی میں تبدیلی کے اہداف پر تفصیلی مشاورت کی گئی۔ حکومتی معاشی ٹیم نے آئندہ بجٹ سے قبل پبلک فنانس مینجمنٹ ایکٹ میں ترامیم پر اتفاق کیا تاکہ بجٹ پراسیس کو زیادہ شفاف اور مؤثر بنایا جا سکے۔ اس سے قبل جاری رپورٹ میں کہا گیا کہ ملک کی معیشت میں کرپشن کے عنصر کو جانچنے کا کوئی قابل بھروسہ طریقہ کار موجود نہیں ہے،گورنس اور کرپشن میٹرکس پر پاکستان کی کارکردگی معیار سے کم تر درجے کی ہے، پاکستان رول آف لا ڈبلیو جی ائز انڈکس میں 100 میں سے 14.62 سکور کا حامل ہے جبکہ اوسط سکور 32.89 فیصد ہے اور یہ دوسرے کمتر درمیانی آمدن کے حامل ممالک کا ہے،شہری اس بات پر مجبور ہوتے ہیں کہ وہ سروسز تک رسائی لینے کے لیے اہلکاروں کو رشوت دیں ، پاکستان کا ریونیو2018ء میںجی ڈی پی کے 13 فیصد کے مساوی تھا جو 2023ء میں گر کر 11.5 ہو گیا،پاکستان میں پالیسی کی تیاری غیر ضروری دباؤ کا شکار رہتی ہے۔پاکستان کا ٹیکس کا نظام بہت ہی پیچیدہ ہے جس سے ٹیکس گزاروں کے لیے غیر یقینی صورتحال پیدا ہوتی ہے اور تنازعات جنم لیتے ہیں اس کی وجہ سے کرپشن ہوتی ہے اور معاشی کارکردگی پر مصالحت کرنا پڑتی ہے۔ایف بی آر ایس ار او کے ذریعے اختیار کو استعمال کرتا ہے،2024 ء میں ایف بی ار نے 168 ایس آر او جاری کی ہے، خود ایف بی ار نے ٹیکس گیپ رپورٹ تیار کی جس میں 3.4 ٹریلین روپے کے ٹیکس گیپ کی نشاندہی کی گئی تھی جو کہ جی ڈی پی کے 3.9 فیصد کے مساوی ہے۔