data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
جس دیس کے حاکم ظالم ہوں،
سسکی نہ سنیں مجبوروں کی
جس دیس کے عادل بہرے ہوں،
آہیں نہ سنیں معصوموں کی
جس دیس میں عہدیداروں سے
عہدے نا سنبھالے جاتے ہوں
جس دیس کے سادہ لوح انسان
وعدوں پہ ہی ٹالے جاتے ہوں
اس دیس کے ہر ایک لیڈر
پر سوال اٹھانا واجب ہے
اس دیس کے ہر ایک حاکم کو
سولی پر چڑھانا واجب ہے
فیض احمد فیض نے تو اپنے پڑھنے والوں کو سوال اُٹھانے کی ترغیب دی تھی مگر افسوس، کراچی کے معصوم شہری جو لاکھوں کروڑوں روپے کا ٹیکس حکومت کو دیتے ہیں، اگر وہ حاکم وقت سے ان کی کارکردگی پر کوئی سوال کر بیٹھیں تو ان پر سیاسی ہونے کے لیبل لگائے جاتے ہیں۔ حالانکہ یہ جاننا ہر شہری کا حق ہے کہ آیا اس کے ٹیکس کے پیسوں سے اسے کچھ سہولت میسر بھی ہیں یا یہ صرف ارباب اختیار کی تجوریوں کو بھرنے کے کام آ رہی ہیں۔ پچھلے دنوں جب ایک صحافی نے میئر کراچی کو ان کی ذمے داری یاد دلانی کی کوشش کی تو اسے صحافت کا سبق یاد کرادیا گیا۔ ترقی یافتہ شہروں میں مئیر as a ruler ’’تعینات‘‘ نہیں کیا جاتا بلکہ وہ شہریوں کے لیے “Father of the city” کا درجہ رکھتا ہے۔ وہ اپنے شہر کے کونے کونے کو “own” کرتا ہے اس شہر میں بسنے والے ایک ایک فرد، خواہ وہ کسی بھی سیاسی جماعت سے تعلق رکھتا ہو، یکساں سہولتیں بہم پہنچانا اپنی ذمے داری سمجھتا ہے۔ ایسے ہی جیسے ایک باپ اپنے تمام بچوں کی ضروریات کو پورا کرنا اپنا فرض سمجھتا ہے۔ ضروری نہیں کہ سب بچے اس کے تابعدار بھی ہوں لیکن وہ کسی سے نفرت نہیں کرتا نہ ہی اپنی طرز عمل سے اس کی زندگی کو جہنم بناتا ہے بالکل اسی طرح ایک میئر کا کردار بھی اپنے شہریوں کے ساتھ منصفانہ، مشفقانہ اور پدرانہ ہونا چاہیے۔ اس کے اندر عوام کی خدمت کا جذبہ موجزن ہونا چاہیے کجا یہ کہ وہ عوام کو احسان جتلاتا پھرے۔ (معذرت کے ساتھ) احسان تو عوام یا پھر۔۔۔ کا ہے جنہوں نے اسے مسند اقتدار پر بٹھایا۔
کیا ہمارے “Father of the city” نے خلیفہ اوّل سیدنا ابوبکرؓ کا وہ واقعہ نہیں پڑھا کہ وہ کیسے روزانہ فجر کی نماز سے فارغ ہو کر ایک نابینا ضعیفہ کے گھر کا کام کاج کیا کرتے تھے، اس کا سودا سلف لاتے، اس کی بکریوں کا دودھ دوہتے اس کے گھر کو صاف ستھرا کرتے۔ جب خلیفہ بن گئے تو اس عورت کو خدشہ ہوا کہ اب تو وہ حکمران بن گئے ہیں اب کہاں مجھ نابینا کا کام کریں گے لیکن سیدنا ابوبکرؓ کے کہے گئے یہ الفاظ رہتی دنیا تک امت مسلمہ کے حکمرانوں کے لیے مشعل راہ ہیں ’’اگر میں خلیفہ بن گیا ہوں تو کیا ہوا میں اب بھی تمہارا سودا لایا کروں گا تمہاری بکریوں کا دودھ دوہا کروں گا‘‘۔
اسی طرح جب خلیفہ دوم سیدنا عمر فاروقؓ سے ایک شخص نے بھرے مجمعے میں سوال کر ڈالا کہ آپ کا قد لمبا ہے کپڑے کے ایک ٹکڑے سے آپ کی قمیص نہیں بن سکتی آپ جواب دیں کہ یہ کیسے بنائی تو انہوں نے نہ سوال کرنے والے پر غصہ کیا اور نہ ہی اپنے خلیفہ وقت ہونے کا رعب جمایا بلکہ انہوں نے تحمل سے اس کی پوری بات سنی اور پھر وضاحت فرمائی کہ کس طرح انہوں نے اپنے بیٹے عبداللہ سے بھی کپڑے لے کر دو ٹکڑوں سے یہ قمیص بنائی ہے۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم زبانی، کلامی اور پیدائشی مسلمان تو ہیں مگر ہمارے اندر نہ خوف خدا ہے اور نہ ہی جواب دہی کا خوف جس دن یہ دونوں خصوصیات ہمارے اندر بیدار ہو جائیں گی تو ہمیں دوسروں کی آنکھ کے تنکے کے ساتھ ساتھ اپنی آنکھ کا شہتیر بھی نظر آنے لگ جائے گا۔
پچھلے دنوں ابراہیم نامی تین سالہ ننھا معصوم بچہ جو کہ کھلے مین ہول میں گر کر ربّ کے حضور پیش ہو گیا، جسے 16 گھنٹے کی تلاش بسیار کے بعد ایک عام محنت کش بچے نے نکالا۔۔ کہاں تھی انتظامیہ؟ کہاں تھے متعلقہ اداروں کے ذمے دار؟۔ یقینا اس کی ذمے داری مئیر کراچی (Father of the city) پہ عاید ہوتی ہے اور وہ اس کے لیے جواب دہ ہیں۔۔ لیکن ہمیں بھی اپنے گریبانوں میں ذرا جھانکنا چاہیے۔۔ اس مین روڈ پر بشمول اس ڈیپارٹمنٹل اسٹور جس کے سامنے یہ مین ہول تھا اور کتنی ہی دکانیں ہوں گی جن کے مالکان نماز، روزے کے بھی پابند ہوں گے، ربیع الاوّل کے مہینے میں رسول اللہؐ کی محبت کا دم بھرتے ہوئے ان کی ولادت کی خوشی میں جشن بھی مناتے ہوں گے۔ ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ ہم تو اس نبی کی امتی ہیں جنہوں نے ہر دم ہمیں نیکی اور خیر کے کام کرنے کا حکم دیا ہے۔۔ کیا ہمیں اپنے ہادی رہبرؐ کی حدیث کا مفہوم یاد نہیں…؟ کہ ’’راستے سے تکلیف دینے والی چیز کو ہٹا دینا صدقہ ہے‘‘، کیا ہی اچھا ہوتا کہ نبی مکرمؐ کی اس حدیث پر عمل کرتے ہوئے کھلے ہوئے مین ہول پر ڈھکن نہ سہی کوئی بڑی جھاڑی یا لکڑی کا ٹکڑا ہی رکھ دیا جاتا تو آج وہ ننھا معصوم بچہ جو اپنا من پسند کھلونا خریدنے کے بعد خوشی خوشی گھر جانے کے لیے نکلا تھا یوں مین ہول کی نذر نہ ہوتا۔۔۔ افسوس من حیثیت القوم ہم سب اندھے ہو چکے ہیں لہٰذا جیسی عوام ہے ویسے ہی ہم پر حکمران مسلط ہیں۔
ارباب اختیار اگر چاہیں تو اسٹریٹ کرائم پر قابو پانا مشکل ہے نہ ہی گٹروں پر ڈھکن لگانا اور نہ ہی چوروں، ڈاکوؤں اور منشیات فروشوں کا سراغ لگانا بس اس کے لیے ایک ایسا ’’ای چالان‘‘ سسٹم متعارف کرانے کی ضرورت ہے جو کسی بھی علاقے میں حادثہ وقوع پذیر ہونے کی صورت میں فوراً اس کے متعلقہ ذمے دار کی نشاندہی کر دے اور پھر حکومت اس کے خلاف ایکشن لے۔۔ اگر اب بھی عملی طور پر بر وقت اقدامات کرنے کے بجائے صرف تعزیتی اور سیاسی بیان بازی پر ہی ساری توجہ مرکوز رکھی جائے گی تو پھر کراچی کے شہریوں کو تیار رہنا چاہیے کہ کسی وقت ان کا بھی کوئی پیارا کسی حادثے کا شکار ہو سکتا ہے اور وہ بھی ان کے لیے ویسے ہی دہائیاں دے رہے ہوں گے جیسے ابراہیم کی والدہ…!!
حبیب جالب نے کیا خوب کہا تھا
اے چاند یہاں نہ نکلا کر
بے نام سے سپنے دیکھا کر
یہاں اْلٹی گنگا بہتی ہے…
اس دیس میں اندھے حاکم ہیں
نہ ڈرتے ہیں نہ نادم ہیں
نہ لوگوں کے وہ خادم ہیں
ہے یہاں پہ کاروبار بہت
اس دیس میں گردے بکتے ہیں
یہ دیس ہے اندھے لوگوں کا
اے چاند یہاں نہ نکلا کر
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: مین ہول دیس کے کے لیے
پڑھیں:
ہماری اولین ترجیح صیہونی جیلوں سے اپنے قیدیوں کی رہائی ہے، لبنانی صدر
اپنے ایک بیان میں جوزف عون کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے بعض عناصر امریکہ کیجانب سے لبنانی فوج کی مدد کو بہانہ بنا کر اشتعال پھیلا رہے ہیں حالانکہ فوج کی ذمے داری صرف "حزب الله" کو غیر مسلح کرنا نہیں۔ اسلام ٹائمز۔ عسکری پہلووں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے لبنان کے صدر "جوزف عون" نے کہا کہ جب کوئی فوج جنگ میں داخل ہوتی ہے لیکن پھر بھی تنازعات کا حل نہ نکال سکے تو ایسے میں مذاکرات کی راہ اختیار کرنی چاہئے۔ انہوں نے سوال اُبھارا کہ کیا حالیہ صورت حال میں لبنان کسی نئی جنگ کا متحمل ہو سکتا ہے؟، جب کہ ہمارا سامنا ایسے دشمن سے ہو جس نے ہماری سرزمین پر قبضہ کیا ہو، ہمیں ہر روز نشانہ بنائے اور ہمارے بیٹے اس کی قید میں ہوں۔ اس لئے ہماری اولین ترجیح صیہونی جیلوں سے اپنے قیدیوں کی رہائی ہے۔ امریکی ایلچی "ٹام باراک" کے لبنان کو شام سے ملحق کرنے کے بیان پر انہوں نے کہا کہ تمام لبنانی اس بیان کو مسترد کرتے ہیں۔ شام کے ساتھ لبنان کی سرحد کے تعین کے بارے میں انہوں نے کہا کہ فرانس نے شام کے ساتھ بارڈر کا نقشہ ہمیں فراہم کر دیا ہے اور جب بھی دمشق اپنی حدود کا تعین کرنے کے کا فیصلہ کرے گا لبنان اس کے ساتھ تعاون کے لئے تیار ہے۔
تاہم شبعا فارمز کو آخر کے لئے چھوڑ دیں گے۔ نیز ہم سمندری و زمینی سرحدوں کے تعین کے لئے بھی ایک کمیٹی تشکیل دے سکتے ہیں۔ جوزف عون نے ہتھیاروں سے پاک لبنان کے حوالے سے کہا کہ امریکی حکومت میں لبنانی فوج کی مدد کے لئے بہت زیادہ اور متاثرکن آوازیں بلند ہو رہی ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے بعض عناصر امریکہ کی جانب سے لبنانی فوج کی مدد کو بہانہ بنا کر اشتعال پھیلا رہے ہیں حالانکہ فوج کی ذمے داری صرف "حزب الله" کو غیر مسلح کرنا نہیں۔ انہوں نے کہا کہ فوج کی توجہ صرف جنوبی علاقوں پر نہیں بلکہ وہ اپنی ذمے داری پورے ملک میں احسن طریقے سے نبھا رہی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ فوج کے علاوہ کسی کے پاس ہتھیار نہیں ہونے چاہئیں۔ اس منصوبے پر عمل ہو رہا ہے اور ہم اس منصوبے کو مکمل کر کے رہیں گے۔ واضح رہے کہ ہتھیاروں سے پاک لبنان کا منصوبہ، دراصل امریکی و صیہونی چال ہے، جس کا ہدف مقاومت اسلامی کو کمزور کرنا ہے۔