اسٹیبلشمنٹ کے نظریہ گرفت پر ہمیں اعتراض ہے اور رہے گا، مولانا فضل الرحمان
اشاعت کی تاریخ: 11th, January 2025 GMT
سربراہ جے یو آئی کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی نے حکومت کے ساتھ مذاکرات کے معاملے پر اعتماد میں نہیں لیا، پی ٹی آئی نے اس حوالے سے اعتماد میں نہیں لیا اور مجھے اس بارے میں کوئی علم نہیں ہے کہ وہ کہہ رہے ہیں اور کیا کر رہے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کا کوئی نظریہ نہیں ہے، ان کا نظریہ صرف اتھارٹی ہے کہ گرفت ہماری رہے،وہ جائز ہو، ناجائز ہو، اس پر ہمیں اعتراض ہے اور رہے گا۔ کراچی میں نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی نے حکومت کے ساتھ مذاکرات کے معاملے پر اعتماد میں نہیں لیا، پی ٹی آئی نے اس حوالے سے اعتماد میں نہیں لیا اور مجھے اس بارے میں کوئی علم نہیں ہے کہ وہ کہہ رہے ہیں اور کیا کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ مدت کرنے کا الیکشن کی شفافیت سے کوئی تعلق نہیں ہے، مدت تو آمرانہ حکومتیں بھی پوری کرلیتی ہیں، بلکہ 10، 10 سال حکومت کرتی ہیں، اس کا الیکشن کی شفافیت سے تعلق نہیں ہے۔
سربراہ جے یو آئی (ف) نے کہا کہ ابھی بلوچستان کے حلقہ 45 میں الیکشن ہوا، اس میں فاتح قرار دیا گیا امیدوار کسی ایک حلقے میں بھی نہیں جیتا ہے، فارم 45 میں کہیں ایک، کہیں دو، کہیں 5 اور کہیں 20 ووٹ حاصل کیے، یہ ان کا ووٹ ہے، ہم چیف الیکشن کمشنر پر کیسے اعتماد کریں، ابھی تک ان کا وتیرہ تبدیل نہیں ہو رہا ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ابھی تک اسٹیبلشمنٹ کہتی ہے کہ میں نے فیصلے کرنے ہیں، میں نے تنائج مرتب کرنے ہیں، عوام کی کیا حیثیت ہے کہ وہ کہیں میں نے اس کو ووٹ دیا، اس کو وو دیا، اس کا معنیٰ یہ ہے کہ وہ جمہوریت کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ سربراہ جے یو آئی نے کہا کہ جب اسٹیبلشمنٹ جمہوریت اور آئین کا مذاق اڑائے تو کیا لوگ ان کا مذاق نہیں اڑائیں گے، لوگ ان پر تنقید نہیں کریں گے، وہ تنقید پر ناراض ہوتے ہیں اور حرکتیں یہ کرتے ہیں، اقتدار ہمارے پاس ہوگا، گرفت ہماری ہوگی۔
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ان کا کوئی نظریہ نہیں ہے، ان کا نظریہ صرف اتھارٹی ہے کہ گرفت ہماری رہے، وہ جائز ہو، ناجائز ہو، ان کو کوئی پروا نہیں ہے، اس پر ہمیں اعتراض ہے اور رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ ہم اپنے مؤقف پر قائم ہیں، 2018 میں بھی قائم تھے، 2024 میں بھی قائم رہے، ان کے ساتھ ہم کوئی مذاکرات یا مفاہمت کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں شکایت سیاستدانوں سے ہے جو جمہوریت، آئین پر سمجھوتے کرتے ہیں اور تمام نظام ان کے حوالے کردیتے ہیں کہ صرف یہ کہ ہمیں اپنی معتبری مل جائے، یہ کوئی جائز پوسٹ نہیں ہے، گرفت ان کی ہے، معتبری ہمارے حوالے کردیتے ہیں کہ آپ پارلیمنٹ میں بیٹھے رہیں تاکہ آپ کو قوم میں معتبری مل جائے، اس میں تبدیلی کی کوئی اہمیت نہیں ہے ہماری نظر میں۔
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ آخر اسٹیبلشمنٹ یا حکمرانوں کو کیا شوق پڑا ہے کہ مدارس سے پنگا لینا ہے، کیوں ہر قیمت پر مذہبی طبقے کو اپنے مخالف کھڑا کرنا ہے، مدارس اپنے نظام تعلیم میں کسی قسم کی مداخلت تسلیم نہیں کریں گے۔ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ خالد مقبول میرے لیے قابل احترام ہیں، وہ ایکٹ سمجھنے میرے گھر آئے تھے، خالد مقبول وزیر تعلیم ضرور ہیں لیکن میرے گھر پر زیر تعلیم ہیں۔ مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ ملک کے اندر تمام معاملات قومی اتفاق سے حل ہونا چاہئیں، پارلیمنٹ کی سطح پر مدارس کی رجسٹریشن کے لیے قانون سازی ہو چکی ہے، صدارتی آرڈیننس کے ذریعے مدارس رجسٹریشن میں ریلیف دیا گیا ہے، ہمیں اعتراض نہیں ہے، حکومت نے کچھ مدارس کو اپنے کنٹرول میں رکھنے کے لیے اقدامات کیے ہیں۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: اعتماد میں نہیں لیا کا کہنا تھا کہ پی ٹی ا ئی نے مولانا فضل نے کہا کہ ا ہیں اور نہیں ہے رہے ہیں
پڑھیں:
اگر ہمیں جینے نہ دیا گیا تو دوسروں کو بھی نہیں جینے دیں گے: اسد قیصر
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
پاکستان تحریکِ انصاف کے رہنما اور سابق اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے کہا ہے کہ وہ آئین اور قانون کی بالادستی پر یقین رکھتے ہیں، تاہم اگر اُن کی سیاسی جماعت کو جینے کا حق نہ دیا گیا تو وہ بھی جواب دینا جانتے ہیں۔
صوابی کے علاقے ٹوپی میں نئے بس اسٹینڈ کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان تحریکِ انصاف کے رہنما اور سابق اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے کہا کہ پی ٹی آئی نے ہمیشہ آئین و قانون کا راستہ اپنایا ہے اور ایک بار پھر ریاستی نظام کو موقع دے رہے ہیں، مگر انہیں دیوار سے لگا کر مسائل حل نہیں ہو سکتے،
اسد قیصر نے کہا کہ سابق وزیراعظم عمران خان کے ساتھ ناروا سلوک کیا جا رہا ہے اور انہیں اہلِ خانہ سے ملاقات کی اجازت نہیں دی جا رہی، جو جیل مینوئل کی صریح خلاف ورزی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ یکطرفہ دباؤ اور مسلسل پابندیاں جمہوریت کے مفاد میں نہیں ہیں،عمران خان کی اہلِ خانہ اور وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا سے ملاقات تک نہیں کرائی جا رہی جبکہ قانون کے مطابق ہر قیدی کو یہ بنیادی حق حاصل ہے، اگر انصاف کا عمل یکطرفہ رہا تو سیاسی بےچینی مزید بڑھے گی۔
افغانستان کی صورتحال پر بات کرتے ہوئے اسد قیصر کا کہنا تھا کہ خطے میں جنگ نہیں، سفارت کاری واحد راستہ ہے۔ انہوں نے عالمی اور علاقائی ممالک سے مطالبہ کیا کہ وہ امن کے قیام کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھیں، کیونکہ خیبرپختونخوا مزید کسی نئی جنگ کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
ان کا کہنا تھا کہ بدامنی نے صوبے کی معیشت کو شدید نقصان پہنچایا، سرمایہ کار نقل مکانی پر مجبور ہوئے اور کاروبار اجڑ گئے، جب تک افغانستان اور وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ تجارت بحال نہیں ہوتی، خیبرپختونخوا کے تاجر لاہور اور کراچی کے بڑے تجارتی مراکز کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔
پی ٹی آئی رہنما نے واضح پیغام دیتے ہوئے کہا کہ خطے میں ایک نئی جنگ کی بنیاد رکھی جا رہی ہے، لیکن عوام اور صوبہ اب مزید جنگوں کا بوجھ نہیں اٹھا سکتے۔
انہوں نے حکومت پر زور دیا کہ سیاسی و معاشی استحکام کے لیے امن کو ترجیح دی جائے اور عوام کے مسائل کو سنجیدگی سے حل کیا جائ