ظفر اللہ خان کیا ہیں؟ اس سوال کا جواب شاید ہمیں درست جواب سے دور لے جائے جیسے یہ سوال اگر کسی صحافی سے کیا جائے تو اس کا خیال ہو گا کہ یار ٹیڑھا آدمی ہے۔ کچھ لکھ بیٹھو تو جان کو آ جاتا ہے۔
یوں معلوم ہو گا کہ یہ شخص اصل میں تو بیوروکریسی کا کل پرزہ تھا، بیوروکریسی میں بھی ڈسٹرکٹ مینجمنٹ گروپ، گویا اس قبیلے کی اسٹیبلشمنٹ۔ نام کے ساتھ بیرسٹر لکھا دکھائی دے تو صاف معلوم ہو گا کہ یہ صاحب قانون دان ہیں لیکن قانون دانی ان کی واحد شناخت تو نہیں۔ ٹیلی ویژن پر وہ ہمیں سیاست پر گفتگو کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
انھیں بعض دانشوروں کی طرح غیر جانبداری کا عارضہ لاحق نہیں۔ وہ واضح سیاسی نقطہ نظر رکھتے ہیں جس کے حق میں وہ صرف آواز ہی بلند نہیں کرتے بلکہ اجتماعیت میں شرکت بھی ضروری سمجھتے ہیں، گویا سیاست دان بھی ہیں۔ تعارف کے تین پہلو تو سامنے آ گئے لیکن بات یہاں ختم ہوتی نہیں۔
ویسے تو راؤ فضل الرحمان کو ملاقات سے پرہیز ہے لیکن خوش قسمتی سے کبھی وہ دستیاب ہو ہی جائیں تو بتائیں گے کہ اصل میں تو وہ استاد ہیں اور وہ بھی دستوریات کے۔ فضل کو ان کی شاگردی کا اعزاز حاصل ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ دستور کو پڑھاتے ہوئے قرارداد مقاصد کی تفہیم جس خوبی اور وضاحت سے کرتے ہیں یہ ان ہی کا حصہ ہے۔ اس کے باوجود یہ دستاویز کسی کی سمجھ میں نہ آئے تو ظاہر ہے کہ اس کا ایک ایمان دارانہ سبب تو اختلاف رائے ہو سکتا ہے۔
دوسری وجہ جو سمجھ میں آتی ہے، یہ ہے کہ ہمارے یہاں عشروں تک جو نظریاتی آویزش رہی ہے، اس کی وجہ سے بہت سے اہم معاملات کی تفہیم میں رکاوٹ پیدا ہو جاتی ہے۔ خان صاحب کی اس شناخت کے ظاہر ہو جانے کے بعد بھی ان کا تعارف ختم نہیں ہوتا، جدید تعلیم کے بہت سے ہفت خواں اگرچہ انھوں نے طے کر رکھے ہیں لیکن وہ فی الاصل علوم دینیہ کے طالب علم ہیں اور ان علوم کا اصل اور کلاسیکی نصاب یعنی درس نظامی بھی اعزاز کے ساتھ پڑھ رہا ہے۔
اس کے علاوہ وہ سیاح بھی ہیں اور خواب بھی دیکھتے ہیں اور خواب بھی ایسے جو کسی اور زمانے کے ہوں۔ اتنی بہت سی خوبیوں اور شناختوں نے بیرسٹر صاحب کو منفرد شخصیت تو بنا ہی دیا ہے لیکن اس تنوع نے انھیں تصویر کے دوسرے نہیں تیسرے اور چوتھے پہلو کو دیکھنے کی صلاحیت بھی عطا کر دی ہے۔ یہ بات معمولی نہیں ہے کہ سینیٹر عرفان صدیقی جیسے استاد نہ صرف یہ تسلیم کریں بلکہ اعلان بھی کریں کہ بیرسٹر صاحب کا ٹیلنٹ ضایع ہو رہا ہے۔
بیرسٹر صاحب کے علم و فضل سے کوئی استفادہ کرتا ہے یا نہیں، وہ اپنے کام سے لگے رہتے ہیں جیسے حال ہی میں ان کی ایک کتاب شایع ہوئی ہے، ' اجتہاد' ۔ یہ کتاب کیا ہے، افکار کا عجائب خانہ ہے۔ عالمی تہذیب اور علوم و فنون آج جس مقام پر جا پہنچے ہیں، علم کی اس معراج میں مسلمانوں کا حصہ کیا ہے اور کتنا ہے؟ مرعوبین مغرب کی طرح ان کے ساتھ ایسا حادثہ تو نہیں ہوا کہ آرائشی علم کی چکا چوند میں ان کی آنکھیں چندھیا گئی ہوں لیکن پدرم سلطان بود والی کیفیت بھی ان میں نہیں ہے۔
فلسفہ، سائنس، طب، قانون، تاریخ اور سماجیات سمیت انھوں نے درجن بھر ابواب میں یہ بتا دیا ہے کہ یہ علوم آج کس بلندی پر جا پہنچے ہیں، اس شان دار علمی سفر میں کون کون سے پڑا ؤآئے نیز اس سربلندی میں مسلمان علما کی کدو کاوش کیا ہے۔ اس طرح کی بات ویسے اور لوگ بھی کر دیتے ہیں لیکن بیرسٹر صاحب کا اختصاص یہ ہے کہ انھوں نے تاریخی شواہد کے ساتھ یہ بھی بتا دیا ہے کہ علم کی عصری صورت حال میں ہم اتنے پیچھے کیوں رہ گئے ہیں اور اس پسپائی کے نتائج کیا برآمد ہوئے ہیں۔
کتاب کا دوسرا حصہ اسی موضوع پر ہے ۔ اس لیے زیادہ اہم اور دلچسپ ہے۔ مسلم معاشرے میں جو تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں ان میں بے شمار عوامل بروئے کار آتے ہیں، ان میں مذہب اور دینی طبقات زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔ پاکستان ہو، دیگر مسلم معاشرے ہوں یا دنیا کے مختلف معاشروں میں بسنے والی مسلمان اقلتیں، کتاب کے دوسرے حصے میںانھوں نے ان امور کو مختلف ابواب میں بالکل پہلے حصے کی طرح ہی حصوں میں بانٹ کر جائزہ لیا ہے۔
دوسرے حصے کا پہلا حصہ قابل توجہ ہے۔ ان کے مخاطب چوں کہ مسلمان ہیں اس لیے انھوں نے بڑی تفصیل سے یہ بتانا مناسب سمجھا ہے کہ زندگی کے مختلف معاملات میں اسلام یعنی قرآن و سنت کی حقیقی منشا کیا ہے۔ یہ سوال اہم ہو سکتا ہے کہ اسلام کی حقیقی منشا پر کیا اختلاف ہو سکتا ہے؟ یہ سوال اہمیت رکھتا ہے لیکن یہ حقیقت نظر انداز نہیں کی جا سکتی کہ پندرہ صدیوں کے سفر اور اس دوران میں رونما ہونے والے سیاسی، تہذیبی، تاریخی اور سائنسی ارتقا کے اثرات کے مسلم سماج نے کس طرح قبول کیے اور ان معاشروں میں کیا تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ بیرسٹر ظفر اللہ خان نے ان ابواب میں تفصیل کے ساتھ ان تبدیلیوں کا بہ کمال و تمام جائزہ لیا ہے۔
بیرسٹر صاحب نے مسلم سماج میں عوارض کی شناخت کی ہے؟یہ تذکرہ طویل ہے، اسے چند سطور یا ایک دو پیروں میں بیان کرنا نہ صرف یہ کہ آسان نہیں بلکہ یہ بھی ہے کہ سنجیدہ علمی کتابوں میں زیر بحث آنے والے مباحث کا اخباری کالموں میں زیر بحث لانے سے پیچیدگی بھی پیدا ہو سکتی ہے کیوں کہ اتنی بڑی بحث کو چند سطور میں سمیٹنا مشکل ہے ۔ ہاں، البتہ یہ ضرور ہے کہ اس جائزے کے ذریعے مصنف جن نتائج تک پہنچے ہیں، ان سے استفادہ کر لیا جائے۔
اسلامی فقہ کی تشکیل جدید کے مطالبے کی جڑیں مسلم تہذیب کا باریک بینی سے جائزہ لے کر اس کا علاج تجویز کرنے والے عبقری علامہ محمد اقبالؒ تک پہنچتی ہیں۔ اقبالؒ نے اپنے خطبات میں تفصیل کے ساتھ یہ بحث کی ہے لیکن کم و بیش ایک صدی گزرنے کے بعد حالات میں بہت سی تبدیلیاں رونما ہوچکی تھیں لہٰذا یہ ضروری ہو گیا تھا کہ مسلم سماج کے مسائل کو ایک بار پھر سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ بیرسٹر صاحب اس جائزے کی روشنی میں بتاتے ہیں کہ صدیوں کے الٹ پھیر اور حادثات کے نتیجے میں اسلامی فکر کا توازن متاثر ہو گیا ہے۔ یہ توازن اسلامی فکر کی تشکیل جدید کے نتیجے میں ہی بحال ہو سکتا ہے۔ اجتہاد اسی لیے کیا جاتا ہے جس کی بنیادیں قرآن و سنت فراہم کرتے ہیں۔
اجتہاد کے امور زیر بحث آئیں تو اس کے ساتھ کچھ تحفظات چلے آتے ہیں۔ مصنف نے اس ضمن میں قرآن و سنت کی روشنی میں ہی بتایا ہے کہ اجتہاد کے نتیجے میں کوئی نیا مذہب وجود میں نہیں آ جاتا بلکہ اس توازن کو بحال کر دیتا ہے جو اسلام کی منشا ہے۔ منصف اس عمل کو شاعرانہ زبان میں کسی اور زمانے کا خواب قرار دیتے ہیں۔ اس خواب کی تعبیر کیسے ممکن ہے؟ بیرسٹر صاحب نے اس کے راستے بھی تجویز کر دیے ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: انھوں نے ہے لیکن کے ساتھ ہیں اور کیا ہے
پڑھیں:
زر مبادلہ ذخائر میں بہتری، لیکن ڈالر ندارد
حکومت کے دعوے کے مطابق 14 سال کے وقفے کے بعد مالی سال کا اختتام جاری کھاتے (Current Account) کے سرپلس کے ساتھ ہوا، جس سے اسٹیٹ بینک (SBP) کو بیرونی کھاتہ منظم رکھنے میں مدد ملی، کیونکہ ملک مالی سال 2025-26 (FY26) میں داخل ہو چکا ہے۔اسٹیٹ بینک کی جانب سے جاری کردہ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق مالی سال 2024-25 میں جاری کھاتے کا سرپلس 2.105 ارب ڈالر رہا، جبکہ گزشتہ سال یہ 2.072 ارب ڈالر خسارے میں تھا۔ اس سے ظاہرہوتاہے کہ حکومت اور اسٹیٹ بینک نے بیرونی کھاتے کو دانشمندی سے سنبھالا، جس سے سرپلس برقرار رکھنے میں مدد ملی، اور اس نے زر مبادلہ کی شرح میں استحکام کو سہارا دیا۔ اس سرپلس سے اسٹیٹ بینک کو زرمبادلہ کے ذخائر کو مستحکم کرنے میں بھی مدد ملی۔ اگرچہ اسٹیٹ بینک نے انٹربینک مارکیٹ سے ڈالر کی خریداری کے سرکاری اعداد و شمار جاری نہیں کیے، لیکن بینکرز اور کرنسی ڈیلرز کا اندازہ ہے کہ اسٹیٹ بینک نے مالی سال FY25 کے دوران تقریباً 8 ارب ڈالر خریدے۔بیشترماہرینِ مالیات اس بات پر متفق ہیں کہ نیا مالی سال FY26 مثبت پیش رفت کے ساتھ شروع ہوا ہے، جن میں جاری کھاتے کا سرپلس، مستحکم زرِمبادلہ کی شرح اور اسٹیٹ بینک کے پاس موجود 14 ارب ڈالر سے زائد کے زرمبادلہ ذخائر شامل ہیں، نیز IMF پروگرام کا تسلسل بھی۔اس کے علاوہ، دوست ممالک کی حمایت بھی حاصل رہی، جنہوں نے FY25 کے دوران تقریباً 16 ارب ڈالر کے قرضے رول اوور کیے۔ بیرونی کھاتے کی بہتر حالت کے پیشِ نظر FY26 میں مزید امداد کا امکان ہے۔کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس یقینا ایک بڑی کامیابی ہے جو14 سال کے وقفے کے بعدحاصل ہوسکی ہے لیکن اس کامیابی کے باوجود زمینی حقائق اور صورت حال ملکی معیشت کی کوئی اچھی تصویر پیش نہیں کررہے ہیں جس کا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتاہے کہ کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس کے باوجود صورت حال یہ ہے کہبظاہر پاکستان ایک تضاد کا سامنا کر رہا ہے: کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس، ترسیلات زر کی بلند ترین سطح، اور پھر بھی ڈالرز ناپید۔تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق، ملک نے جون میں 2.1 ارب ڈالر کا سرپلس ریکارڈ کیا، جس نے سالانہ کرنٹ اکاؤنٹ بیلنس کو 14 سال بعد پہلی بار مثبت بنا دیا۔ اس کے ساتھ ساتھ بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کی ترسیلات بھی 38.3 ارب ڈالر کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہیں۔ ایک عام تاثر یہ ہو سکتا ہے کہ پاکستان کا بیرونی شعبہ مستحکم ہے، لیکن یہ استحکام صرف کاغذات تک محدود ہے۔ زمینی حقیقت یہ ہے کہ طلبہ، مسافر، اور مریض، سبھی کو بینکوں سے زرمبادلہ حاصل کرنے میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔یہ تضاد ایک گہرے ساختی مسئلے کو ظاہر کرتا ہے۔ چاہے ڈالرز ملک میں آ بھی رہے ہوں، وہ رسمی نظام کے ذریعے گردش نہیں کر رہے جیسا کہ ہونا چاہیے۔ غیر رسمی مارکیٹ ایک بار پھر پھلنے پھولنے لگی ہے۔ اوپن مارکیٹ اور سرکاری ایکسچینج ریٹ کے درمیان فرق (کرِب پریمیم) دوبارہ ابھر آیا ہے، جس کی وجہ سے ترسیلات زر رسمی ذرائع کے بجائے غیر رسمی چینلز کی طرف منتقل ہو رہی ہیں۔ بینکوں کو ڈالر کی قلت طلب کی زیادتی کی وجہ سے نہیں، بلکہ رسمی نظام پر اعتماد کی کمی کی وجہ سے درپیش ہے۔ ایسے حالات میں برآمد کنندگان کی طرف سے آمدنی واپس نہ لانا اور تاجروں کی طرف سے کرنسی کی تبدیلی میں تاخیر فطری بات ہے۔ ایکسچینج ریٹ اگرچہ مستحکم ہے، لیکن اس پر یقین رکھنے والے کم ہی ہیں۔یہ اعتماد کی کمی کی علامت ہے، نہ کہ سرمایہ کی۔ حکومت کی انتظامی کنٹرول کی حکمتِ عملی جیسے درآمدات پر پابندیاں، غیر رسمی ایکسچینج ریٹ گائیڈنس، اور وقتی مراعات نے وقتی طور پر کچھ مہلت تو دی، مگر اعتماد بحال نہیں کر سکی۔ اب ان پالیسیوں میں دراڑیں نمایاں ہونے لگی ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ ایک اور گہرا تضاد موجود ہے۔ یہ سرپلس نہ تو برآمدات میں اضافے کی وجہ سے آیا ہے، نہ ہی عالمی مسابقت میں بہتری کی بدولت۔ بظاہر یہ صورتحال مصنوعی طور پر کم کی گئی درآمدات اور وقتی طور پر چھپائی گئی سرمایہ گری کی پیداوار ہے۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ کرنٹ اکاؤنٹ میں بہتری اکثر ”دباؤ سے” آتی ہے نہ کہ ”پیداوار سے”۔ یعنی اگر درآمدات بند کر دی جائیں، مشینری نہ منگوائی جائے، صنعتی خام مال محدود ہو، تو بظاہر سرپلس تو حاصل ہو جاتا ہے لیکن معیشت کی نمو رک جاتی ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اس معاشی بہتری کو صنعتی پیداوار، برآمدات اور روزگار میں اضافے کا ذریعہ بنائے، ماہرین سمجھتے ہیں کہ جب تک پاکستان اپنا زاویہِ نظر تبدیل نہیں کرتا، اُس کی بقا کی بحث سہ ماہی بنیادوں پر مالی خلا پورا کرنے تک محدود رہے گی۔ ملک کو مالی، مانیٹری، اور ادارہ جاتی سطح پر اعتماد بحال کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ جب تک یہ نہ ہو، ہر سرپلس ایک سراب ہوگا، اور ہر بہتری عارضی۔ وزیراعظم شہباز شریف اور وزیرخزانہ محمد اورنگ زیب مسلسل اقتصادی ڈھانچے کی دل خوش کن تصویر پیش کرتے رہتے ہیں مگر ان تمام حکومتی دعووں اور اپنی کامرانیوں کے ڈنکے بجانے کے باوجود عوام کے چہروں پر ان کے روٹی روزگار اور غربت مہنگائی کے مسائل میں ریلیف کے حوالے سے خوشی کی کوئی رمق امڈتی نظر نہیں آتی اور اپنے اقتصادی مسائل کے معاملہ میں ان کا اضطراب بڑھتا ہی چلا جارہا ہے۔بجلی پانی اور جان بچانے والی ادویات کے نرخوں میں بیجا اضافہ کرکے انہیں عملاً زندہ درگور کیا جا چکا ہے جنہیں دو وقت کی روٹی کیلئے بھی جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں،عوامی معیشت مشکلات میں گھری ہوئی نظر آ رہی ہے۔ عوام میں کسی سطح پر بھی،کسی طبقے میں بھی اطمینان نہیں پایا جاتا۔ قومی معیشت کی بہتری اپنی جگہ ہوگی۔ اعدادوشمار کچھ بھی بولتے ہوں لیکن جو کچھ صارف مارکیٹوں میں نظر آ رہا ہے اور یہی زمینی حقائق ہیں، وہ خوفناک نہیں، پریشان کن ہیں، اطمینان بخش نہیں ہیں۔ اس لئے اہل اقتدار کی جانب سے زمینی حقائق سے قطعی برعکس عوام کو غربت میں کمی اور خوشحالی کی تصویر دکھائی جاتی ہے تو وہ ایسے حکومتی دعووں کو اپنے زخموں پر نمک پاشی سے ہی تعبیر کرتے ہیں۔ترسیلات میں اضافہ خوش آئند ضرور ہے، لیکن ایک ایسی معیشت کو سہارا نہیں دے سکتا جس کی بنیادیں کمزور ہوں۔ وقتی سہولتیں صرف زوال کو مؤخر کرتی ہیں۔ آگے بڑھنے کے لیے عارضی اقدامات کافی نہیں۔ کرِب پریمیم کو ختم کرنے کے لیے شفاف اور قابلِ اعتماد ایکسچینج ریٹ پالیسیوں کی ضرورت ہے۔ اسی طرح، مارکیٹ پر مبنی شرحِ سود ہونی چاہیے جو ڈالرز رکھنے کی ترغیب دے، اور ایسی سرمایہ اکاؤنٹ پالیسی ہونی چاہیے جو گھبراہٹ کا تاثر نہ دے۔ حکومت کو عوام کا مکمل اعتماد اس وقت ہی حاصل ہوپائے گا جب وہ اپنے روزمرہ کے مسائل بالخصوص مہنگائی کے مسائل میں عملی طور پر ریلیف ملتا ہوا محسوس کریں گے۔ جب حکمران طبقات کی جانب سے عوام پر مہنگائی در مہنگائی کا بوجھ لاد کر اپنی سہولتوں اور مراعات میں بے انتہاء اضافے کے منتخب ایوانوں میں قوانین منظور کرائے جاتے ہیں تو عوام کو اپنے اقتصادی مسائل کے حل کے حکومتی اعلانات مذاق ہی نظر آتے ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف کے گذشتہ روز کے دل خوش کن اعلانات کے ساتھ ہی گذشتہ روز وفاقی ادارہ شماریات کی رپورٹ میں جولائی کے تیسرے ہفتے میں بھی مہنگائی کے جھکڑ چلنے کا عندیہ دیا گیا ہے جس کے مطابق رواں ماہ کے دوران مہنگائی کی شرح میں 0.38 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ پھر مہنگائی میں ریلیف اور اقتصادی استحکام کے دل خوش کن حکومتی دعووں پر عوام کیسے مطمئن ہو سکتے ہیں۔ بے شک حکمران اقتصادی ترقی کیلئے اٹھائے گئے اپنے اقدامات کا کریڈٹ لیں مگر عوام کو بھی ان کے مسائل کے حل کے معاملہ میں ضرور مطمئن کریں۔ اگر عوام بجلی گیس کے ناروا اضافی بلوں کی اذیت سے ہی خود کو باہر نہیں نکال پائیں گے تو ان سے حکومتی گورننس کے لیئے رطب اللسان ہونے کی کیا توقع کی جا سکتی ہے۔
اس وقت حقیقی صورت حال یہ ہے اور ارباب اختیار بھی اس کی تردید نہیں کرسکتے کہ ابتدائی تخمینوں کے مطابق موجودہ مالی سال کے دوران بیرونی قرضوں کی ادائیگی کی ضروریات 23 سے 26 ارب ڈالر کے درمیان ہوں گی۔جون 2025 میں جاری کھاتے کا سرپلس 328 ملین ڈالر رہا، جو مئی کے 84 ملین ڈالر خسارے سے خاصی بہتری ظاہر کرتا ہے۔ مالی سال کے بیشتر حصے میں جاری کھاتہ سرپلس میں رہا۔ چار میں سے صرف پہلی سہ ماہی (جولائی-ستمبر ) میں 474 ملین ڈالر کا خسارہ ریکارڈ کیا گیا۔دوسری سہ ماہی میں 1.492 ارب ڈالر کا سرپلس رہا، تیسری میں 820 ملین ڈالر اور چوتھی میں 262 ملین ڈالر۔ تاہم، اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ دوسری سہ ماہی کے بعد سرپلس میں بتدریج کمی واقع ہوئی۔کئی سال کی بلند ترین سطح پر ذخائر اور زبردست جاری کھاتہ سرپلس بڑی کامیابی ہے، لیکن یہ حیرت کی بات ہے کہ فارن ایکسچینج کی لیکویڈیٹی کم ہے، اور درآمد کنندگان بروقت ادائیگیاں کرنے میں مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔غیر ملکی سرمایہ کاری (FDI) میں مالی سال 25 کے دوران معمولی اضافہ ہوا، جو حکومتی کوششوں کے برعکس ہے۔ اسٹیٹ بینک کے مطابق، 25 میں FDI 4.7 فیصد بڑھ کر 2.457 ارب ڈالر رہی۔ جون میں FDI کا حجم 206.6 ملین ڈالر رہا، جو کہ جون 2024 میں 205 ملین ڈالر تھا۔حکومت کی سرمایہ کاری کے فروغ کی کوششوں کے باوجود اندرونی اور علاقائی حالات سرمایہ کاروں کے لیے سازگار نہیں رہے۔مالیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت کی جارحیت اور مسلسل مخاصمانہ رویے نے پاکستان میں سرمایہ کاری کو پرخطر بنا دیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ملک کے اندرونی سیاسی حالات بھی غیر یقینی کا شکار ہیں، جس سے غیر ملکی دلچسپی کم ہو رہی ہے۔ایران اور اسرائیل کے حالیہ تنازعے نے بھی پاکستان کو متاثر کیا، اور ایران کے ساتھ تجارت اپنی نچلی ترین سطح پر آ گئی۔تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ ان دونوں تنازعات نے پورے خطے کو سرمایہ کاری کے لیے غیر پرکشش بنا دیا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ صنعتی شعبے میں ملکی سرمایہ کاری بھی کم ہوئی ہے، جس کی وجہ غیر موزوں معاشی پالیسیاں اور پالیسی سازوں کے ساتھ کاروباری طبقے کے بڑھتے ہوئے اختلافات ہیں۔اس سرپلس کی سب سے بڑی وجہ 38.3 ارب ڈالر کی ریکارڈ ترسیلات زر تھیں، جو گزشتہ سال کے مقابلے میں 27 فیصد زیادہ تھیں اور اسٹیٹ بینک کے ذخائر کے لیے بنیادی سہارا بنی رہیں۔ اگرچہ حکومت کو امید ہے کہ اس سال پی آئی اے اور دیگر اثاثوں کی فروخت سے غیر ملکی سرمایہ آئے گا، لیکن قومی ایئر لائن کو ایک مقامی کمپنی کے حاصل کرنے کا امکان ہے لیکن ان تمام کامیابیوں کے باوجود حقیقت یہی ہے جسے ارباب حکومت کو تسلیم کرنا چاہئے کہ مالی سال 25 میں نجکاری پالیسی غیر ملکی سرمایہ کاری کو متوجہ کرنے میں ناکام رہی ہے۔اس دوران، اسٹیٹ بینک نے یہ بھی رپورٹ کیا کہ حقیقی مؤثر شرح تبادلہ (REER) انڈیکس پر روپیہ 21 ماہ کی کم ترین سطح پر آ گیا۔ مئی میں 97.79 پوائنٹس کے مقابلے میں جون 2025 میں REER 1.22 فیصد کم ہو کر 96.61 پوائنٹس پر آ گیا۔وزیراعظم شہباز شریف نے دعویٰ کیاہے کہ حکومت کاروباری اور سرمایہ کار دوست ماحول کو مزید بہتر بنانے کے لیے ترجیحی اقدامات کر رہی ہیلیکن اب تک ایسی کوششیں کہیں نظر نہیں آرہی ہیں اس کے برعکس صورت حال یہ ہے کہ ملک میں صنعت کاروں اور سرمایہ کاروں نے صنعتوں میں توسیع انھیں اپ گریڈ کرنے کے کم وبیش تمام منصوبے التوا میں ڈال دیے ہیں اور غالباً دیکھو اور انتظار کرو کی پالیسی پر عمل کررہے ہیں جس کی وجہ سے صنعتی شعبے کی کارکردگی میں کوئی بہتری نظر نہیں آرہی ہے اور ہماری برآمدات میں اب تک ہونے والا اضافہ ٹیکسٹائل سیکٹر کے سوا زیادہ تر غیررسمی اور زرعی شعبے کا مرہون منت رہا ہے ،اور ظاہر ہے کہ موسم جس طرح کروٹ بدل رہاہے ہم زرعی شعبے کی برآمدات پر زیادہ انحصار نہیں کرسکتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔