Express News:
2025-09-18@17:28:58 GMT

فکر اسلامی کی تشکیل نو

اشاعت کی تاریخ: 13th, January 2025 GMT

ظفر اللہ خان کیا ہیں؟ اس سوال کا جواب شاید ہمیں درست جواب سے دور لے جائے جیسے یہ سوال اگر کسی صحافی سے کیا جائے تو اس کا خیال ہو گا کہ یار ٹیڑھا آدمی ہے۔ کچھ لکھ بیٹھو تو جان کو آ جاتا ہے۔

یوں معلوم ہو گا کہ یہ شخص اصل میں تو بیوروکریسی کا کل پرزہ تھا، بیوروکریسی میں بھی ڈسٹرکٹ مینجمنٹ گروپ، گویا اس قبیلے کی اسٹیبلشمنٹ۔ نام کے ساتھ بیرسٹر لکھا دکھائی دے تو صاف معلوم ہو گا کہ یہ صاحب قانون دان ہیں لیکن قانون دانی ان کی واحد شناخت تو نہیں۔ ٹیلی ویژن پر وہ ہمیں سیاست پر گفتگو کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

انھیں بعض دانشوروں کی طرح غیر جانبداری کا عارضہ لاحق نہیں۔ وہ واضح سیاسی نقطہ نظر رکھتے ہیں جس کے حق میں وہ صرف آواز ہی بلند نہیں کرتے بلکہ اجتماعیت میں شرکت بھی ضروری سمجھتے ہیں، گویا سیاست دان بھی ہیں۔ تعارف کے تین پہلو تو سامنے آ گئے لیکن بات یہاں ختم ہوتی نہیں۔

ویسے تو راؤ فضل الرحمان کو ملاقات سے پرہیز ہے لیکن خوش قسمتی سے کبھی وہ دستیاب ہو ہی جائیں تو بتائیں گے کہ اصل میں تو وہ استاد ہیں اور وہ بھی دستوریات کے۔ فضل کو ان کی شاگردی کا اعزاز حاصل ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ دستور کو پڑھاتے ہوئے قرارداد مقاصد کی تفہیم جس خوبی اور وضاحت سے کرتے ہیں یہ ان ہی کا حصہ ہے۔ اس کے باوجود یہ دستاویز کسی کی سمجھ میں نہ آئے تو ظاہر ہے کہ اس کا ایک ایمان دارانہ سبب تو اختلاف رائے ہو سکتا ہے۔

دوسری وجہ جو سمجھ میں آتی ہے، یہ ہے کہ ہمارے یہاں عشروں تک جو نظریاتی آویزش رہی ہے، اس کی وجہ سے بہت سے اہم معاملات کی تفہیم میں رکاوٹ پیدا ہو جاتی ہے۔ خان صاحب کی اس شناخت کے ظاہر ہو جانے کے بعد بھی ان کا تعارف ختم نہیں ہوتا، جدید تعلیم کے بہت سے ہفت خواں اگرچہ انھوں نے طے کر رکھے ہیں لیکن وہ فی الاصل علوم دینیہ کے طالب علم ہیں اور ان علوم کا اصل اور کلاسیکی نصاب یعنی درس نظامی بھی اعزاز کے ساتھ پڑھ رہا ہے۔

اس کے علاوہ وہ سیاح بھی ہیں اور خواب بھی دیکھتے ہیں اور خواب بھی ایسے جو کسی اور زمانے کے ہوں۔ اتنی بہت سی خوبیوں اور شناختوں نے بیرسٹر صاحب کو منفرد شخصیت تو بنا ہی دیا ہے لیکن اس تنوع نے انھیں تصویر کے دوسرے نہیں تیسرے اور چوتھے پہلو کو دیکھنے کی صلاحیت بھی عطا کر دی ہے۔ یہ بات معمولی نہیں ہے کہ سینیٹر عرفان صدیقی جیسے استاد نہ صرف یہ تسلیم کریں بلکہ اعلان بھی کریں کہ بیرسٹر صاحب کا ٹیلنٹ ضایع ہو رہا ہے۔

بیرسٹر صاحب کے علم و فضل سے کوئی استفادہ کرتا ہے یا نہیں، وہ اپنے کام سے لگے رہتے ہیں جیسے حال ہی میں ان کی ایک کتاب شایع ہوئی ہے، ' اجتہاد' ۔ یہ کتاب کیا ہے، افکار کا عجائب خانہ ہے۔ عالمی تہذیب اور علوم و فنون آج جس مقام پر جا پہنچے ہیں، علم کی اس معراج میں مسلمانوں کا حصہ کیا ہے اور کتنا ہے؟ مرعوبین مغرب کی طرح ان کے ساتھ ایسا حادثہ تو نہیں ہوا کہ آرائشی علم کی چکا چوند میں ان کی آنکھیں چندھیا گئی ہوں لیکن پدرم سلطان بود والی کیفیت بھی ان میں نہیں ہے۔

فلسفہ، سائنس، طب، قانون، تاریخ اور سماجیات سمیت انھوں نے درجن بھر ابواب میں یہ بتا دیا ہے کہ یہ علوم آج کس بلندی پر جا پہنچے ہیں، اس شان دار علمی سفر میں کون کون سے پڑا ؤآئے نیز اس سربلندی میں مسلمان علما کی کدو کاوش کیا ہے۔ اس طرح کی بات ویسے اور لوگ بھی کر دیتے ہیں لیکن بیرسٹر صاحب کا اختصاص یہ ہے کہ انھوں نے تاریخی شواہد کے ساتھ یہ بھی بتا دیا ہے کہ علم کی عصری صورت حال میں ہم اتنے پیچھے کیوں رہ گئے ہیں اور اس پسپائی کے نتائج کیا برآمد ہوئے ہیں۔

کتاب کا دوسرا حصہ اسی موضوع پر ہے ۔ اس لیے زیادہ اہم اور دلچسپ ہے۔ مسلم معاشرے میں جو تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں ان میں بے شمار عوامل بروئے کار آتے ہیں، ان میں مذہب اور دینی طبقات زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔ پاکستان ہو، دیگر مسلم معاشرے ہوں یا دنیا کے مختلف معاشروں میں بسنے والی مسلمان اقلتیں، کتاب کے دوسرے حصے میںانھوں نے ان امور کو مختلف ابواب میں بالکل پہلے حصے کی طرح ہی حصوں میں بانٹ کر جائزہ لیا ہے۔

دوسرے حصے کا پہلا حصہ قابل توجہ ہے۔ ان کے مخاطب چوں کہ مسلمان ہیں اس لیے انھوں نے بڑی تفصیل سے یہ بتانا مناسب سمجھا ہے کہ زندگی کے مختلف معاملات میں اسلام یعنی قرآن و سنت کی حقیقی منشا کیا ہے۔ یہ سوال اہم ہو سکتا ہے کہ اسلام کی حقیقی منشا پر کیا اختلاف ہو سکتا ہے؟ یہ سوال اہمیت رکھتا ہے لیکن یہ حقیقت نظر انداز نہیں کی جا سکتی کہ پندرہ صدیوں کے سفر اور اس دوران میں رونما ہونے والے سیاسی، تہذیبی، تاریخی اور سائنسی ارتقا کے اثرات کے مسلم سماج نے کس طرح قبول کیے اور ان معاشروں میں کیا تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ بیرسٹر ظفر اللہ خان نے ان ابواب میں تفصیل کے ساتھ ان تبدیلیوں کا بہ کمال و تمام جائزہ لیا ہے۔

بیرسٹر صاحب نے مسلم سماج میں عوارض کی شناخت کی ہے؟یہ تذکرہ طویل ہے، اسے چند سطور یا ایک دو پیروں میں بیان کرنا نہ صرف یہ کہ آسان نہیں بلکہ یہ بھی ہے کہ سنجیدہ علمی کتابوں میں زیر بحث آنے والے مباحث کا اخباری کالموں میں زیر بحث لانے سے پیچیدگی بھی پیدا ہو سکتی ہے کیوں کہ اتنی بڑی بحث کو چند سطور میں سمیٹنا مشکل ہے ۔ ہاں، البتہ یہ ضرور ہے کہ اس جائزے کے ذریعے مصنف جن نتائج تک پہنچے ہیں، ان سے استفادہ کر لیا جائے۔

اسلامی فقہ کی تشکیل جدید کے مطالبے کی جڑیں مسلم تہذیب کا باریک بینی سے جائزہ لے کر اس کا علاج تجویز کرنے والے عبقری علامہ محمد اقبالؒ تک پہنچتی ہیں۔ اقبالؒ نے اپنے خطبات میں تفصیل کے ساتھ یہ بحث کی ہے لیکن کم و بیش ایک صدی گزرنے کے بعد حالات میں بہت سی تبدیلیاں رونما ہوچکی تھیں لہٰذا یہ ضروری ہو گیا تھا کہ مسلم سماج کے مسائل کو ایک بار پھر سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ بیرسٹر صاحب اس جائزے کی روشنی میں بتاتے ہیں کہ صدیوں کے الٹ پھیر اور حادثات کے نتیجے میں اسلامی فکر کا توازن متاثر ہو گیا ہے۔ یہ توازن اسلامی فکر کی تشکیل جدید کے نتیجے میں ہی بحال ہو سکتا ہے۔ اجتہاد اسی لیے کیا جاتا ہے جس کی بنیادیں قرآن و سنت فراہم کرتے ہیں۔

اجتہاد کے امور زیر بحث آئیں تو اس کے ساتھ کچھ تحفظات چلے آتے ہیں۔ مصنف نے اس ضمن میں قرآن و سنت کی روشنی میں ہی بتایا ہے کہ اجتہاد کے نتیجے میں کوئی نیا مذہب وجود میں نہیں آ جاتا بلکہ اس توازن کو بحال کر دیتا ہے جو اسلام کی منشا ہے۔ منصف اس عمل کو شاعرانہ زبان میں کسی اور زمانے کا خواب قرار دیتے ہیں۔ اس خواب کی تعبیر کیسے ممکن ہے؟ بیرسٹر صاحب نے اس کے راستے بھی تجویز کر دیے ہیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: انھوں نے ہے لیکن کے ساتھ ہیں اور کیا ہے

پڑھیں:

انیق ناجی نے ولاگنگ سے دوری کی وجہ خود ہی بتا دی ، پنجاب حکومت پر تنقید

لاہور (ویب ڈیسک) تجزیہ نگار انیق ناجی نے ولاگنگ سے دوری کی وجہ بتادی اور ساتھ ہی حکومت پنجاب کو شدید تنقید کا نشانہ بنادیا۔

اپنے ولاگ میں انیق ناجی کاکہناتھاکہ  طویل غیر حاضری کی ایک وجہ بیزاری تھی، ہرروز ایک نئی حماقت،" ن لیگ کیساتھ 34سال رفاقت رہی اور عمران خان کے دور میں بھی اپنی حیثیت کے مطابق مریم نواز اورنوازشریف کوسپورٹ کرتارہا،سمجھتا تھا کہ یہ لوگ نشیب وفراز سے گزرے ہوئے ہیں ، ملک سنبھال سکتے ہیں لیکن جس طرح کی حماقتیں ہوئی ہیں، اس میں آدمی چپ ہی کرسکتاہے،

نوازشریف کے بارے میں تو اتنا کہنا ہی کافی ہے کہ غلام اسحاق خان  ،فاروق لغاری ہو یا پھر پرویز مشرف ہو،  سیاسی طور پر انہیں کوئی ختم نہیں کرسکالیکن جو حال ان کیساتھ ان کے خاندان نے کیا ہے ، وہ دیکھ کر ہی دکھ ہوتا ہے کہ وہ آدمی نہ ہنس سکتا ہے اور نہ رو سکتا ہے، آج کسی کا سامنا نہیں کرسکتا، انہیں لندن میں پی ٹی آئی کے لوگ برا بھلا کہتے رہے لیکن اس نے کبھی جواب نہیں دیا، اب کسی سے ملنے کے قابل بھی نہیں رہا۔

سی ایم پنجاب گرین کریڈٹ پروگرام کے تحت ای بائیکس کی رجسٹریشن میں نمایاں اضافہ

ان کا مزید کہناتھاکہ  مریم نواز نے  جو پنجاب میں مظاہرہ کیا، ہر روز ایک نئی حماقت، ذاتی اور گھریلوملازمین کو اپنے اردگرد رکھا ہواہے جن کا نہ کوئی آگے ہے اور نہ کوئی پیچھے،صرف مسلم لیگ ن سے تعلق کے علاوہ ان کی کوئی حیثیت ہی نہیں،  ان کے کہنے پر سب کچھ ہو رہا، بیڑہ غرق کرکے رکھ دیا، ن لیگ کے اپنے لوگ بھی حیران پریشان ہیں ، وہ قیادت سے ملنے کی درخواستیں کیا کرتے تھے،اب  منہ چھپا رہے ہیں کہ کہیں تصویر بنوانے کے لیے بلوا نہ لیں، اراکین اسمبلی اپنے حلقوں میں نکلنے کے قابل نہیں رہے، آپ کو وہ سرکاری ہسپتال بھی یا دہوگاجہاں میڈم منہ چھپا کر گئی تھیں اور پھر تقریر کی تھی کہ امیرآدمی تو بیرون ملک چلاجاتاہے لیکن عام آدمی کیا کرے، میں تو ایک عام شہری کی طرح یہاں آئی ہوں، کونسا عام آدمی ہوتا ہے جو 20گاڑیوں کیساتھ سرکاری ہسپتال جاتاہے؟

اداکارہ عائشہ عمر کے شو لازوال عشق پر عوامی اعتراضات، پیمرا کا ردعمل

لیکن بس خیال ہے کہ لوگ اس طرح ساتھ آجائیں گے، مریم اورنگزیب صاحبہ بھی بھیس بدل کر چھاپے مار رہی ہیں ، کیمرہ مین اور پولیس اہلکار بھی ساتھ ہیں، لب و لہجہ ہی ایسا ہے ، نہ اردو آتی ہے اور نہ صحیح سے انگریزی، اداکاری ہورہی ہے ، چھوٹے چھوٹے کھانے کے پیکٹس پر بھی اپنی تصویر، بیزاری اور ولاگنگ سے دوری کی وجہ بھی یہی ہے ۔ 

مزید :

متعلقہ مضامین

  • لیڈی ڈاکٹر نے نالے میں چھلانگ لگا لی، وجہ کیا بنی؟
  • ہونیاں اور انہونیاں
  • گزرا یوم آزادی اور تجدید عہد
  • اسرائیل ختم ہو جائیگا، شیخ نعیم قاسم
  • بینک اسلامی اور ایم جی موٹر زکے درمیان کار فنانسنگ کامعاہدہ
  • سیلاب سے متاثرہ دربار صاحب کرتار پور کو صفائی کے بعد سکھ یاتریوں کے لیے کھول دیا گیا
  • انیق ناجی نے ولاگنگ سے دوری کی وجہ خود ہی بتا دی ، پنجاب حکومت پر تنقید
  • سید علی گیلانیؒ… سچے اور کھرے پاکستانی
  • ’’عشق پیغمبر اعظم، مرکز وحدت مسلمین‘‘ کانفرنس
  • اسرائیل کے انسانیت کیخلاف جرائم کو روکنے کیلیے عرب ٹاسک فورس تشکیل دی جائے