Jasarat News:
2025-11-19@08:26:04 GMT

مولانا فضل الرحمن کی سیاست اور حالیہ بیانات

اشاعت کی تاریخ: 13th, January 2025 GMT

مولانا فضل الرحمن کی سیاست اور حالیہ بیانات

مولانا فضل الرحمن، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ، ایک زیرک سیاست دان اور پاکستان کی سیاست کا ایک اہم کردار ہیں۔ ان کی حالیہ پریس کانفرنس نے ملک کی جمہوری اور انتخابی خامیوں پر روشنی ڈالی ہے۔ مولانا نے جمہوریت کو ’’ڈھونگ‘‘ قرار دیتے ہوئے اقتدار کے اصل مراکز کی جانب اشارہ کیا اور عام انتخابات کے حوالے سے یہ سوال اٹھایا کہ کیا 2024 کے انتخابات شفاف تھے؟ موجودہ حکمرانوں کے پاس عوام کا حقیقی مینڈیٹ ہے؟ مولانا فضل الرحمن نے موجودہ جمہوری نظام کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسے محض ایک دکھاوا قرار دیا۔ ان کے مطابق اصل طاقت ’’کسی اور‘‘ کے ہاتھ میں ہے، جب کہ سیاست دان آئین اور اصولوں پر سمجھوتے کر لیتے ہیں۔ اس دعوے نے عوام کے ذہن میں یہ سوال پیدا کیا ہے کہ پارلیمنٹ اور حکومت کتنے خودمختار ہیں؟ پاکستان کی سیاسی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جمہوری ادارے ہمیشہ بیرونی دباؤ کا شکار رہے ہیں۔ مولانا کی یہ تنقید ملک کے جمہوری ڈھانچے میں موجود خامیوں کی درست نشاندہی کرتی ہے اور یہ یاد دہانی کراتی ہے کہ یہ نظام ایک گورکھ دھندہ ہے۔ مولانا نے بلوچستان کے دو حلقوں، پی پی 7 اور پی پی 45، کی مثال دے کر انتخابی عمل میں سنگین مسائل کو اجاگر کیا۔ ان کے مطابق نادرا کی رپورٹ میں یہ واضح ہوا کہ پی پی 7 میں صرف 2 فی صد ووٹوں کی تصدیق ہو سکی، جب کہ 98 فی صد ووٹ مشکوک ہیں۔ پی پی 45 کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ جیتنے والا امیدوار کسی ایک پولنگ اسٹیشن سے بھی اکثریت حاصل نہ کر سکا، جو انتخابی عمل کے ناقص ہونے کا ثبوت ہے۔ یہ حقائق ظاہر کرتے ہیں کہ پاکستان کے انتخابی نظام کے تحت نتائج ہمیشہ ایسے ہی آتے رہے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن نے بجا طور پر یہ سوال اٹھایا کہ اگر انتخابات شفاف نہیں ہوں گے تو عوامی اعتماد کیسے بحال ہوگا؟ ان کا کہنا ہے کہ یہ رویہ عوام کے ساتھ مذاق کے مترادف ہے۔ جب عوام کو لگے کہ ان کے ووٹ کی کوئی حیثیت نہیں تو وہ جمہوریت سے متنفر ہو جائیں گے۔ جمہوریت کا حقیقی مطلب عوام کی حکمرانی ہے، لیکن جب عوام کو یہ محسوس ہو کہ ان کا کردار محض رسمی ہے، تو یہ جمہوریت کے بنیادی اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔ مولانا نے مدارس کے نظام تعلیم میں مداخلت پر بھی سخت اعتراض کیا۔ ان کے مطابق مدارس کسی صورت اپنے نظام میں بیرونی مداخلت برداشت نہیں کریں گے۔ پاکستان میں مدارس صرف مذہبی تعلیم کا ذریعہ نہیں بلکہ معاشرتی استحکام اور نوجوان نسل کی تربیت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ مدارس کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے ایسی پالیسیاں ترتیب دے جو تعلیمی نظام کو جدید بنائیں لیکن مدارس کے خدشات کو بھی دور کریں۔ لیکن ان باتوں کے ساتھ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ مولانا فضل الرحمن کی سیاست ہمیشہ اقتدار کے گرد گھومتی رہی ہے۔ ان کی سیاست کو دیکھ کر یہ کہنا غلط نہیں کہ ان کی ترجیحات ہمیشہ ذاتی اور خاندانی مفادات کے تابع رہی ہیں۔ عوامی خدمت اور قومی مسائل کے حل کے بجائے وہ اقتدار کے حصول اور سیاسی اتحادوں کے ذریعے فائدہ اٹھانے تک ہی محدود رہے ہیں۔ متحدہ مجلس عمل کی تشکیل سے لے کر پی ڈی ایم کی قیادت تک، مولانا نے ہر دور میں سیاسی اتحاد قائم کیے اور اپنے اثر رسوخ کو مضبوط کیا۔ وہ اقتدار میں شمولیت کے لیے مختلف جماعتوں کے ساتھ سمجھوتے کرتے رہے ہیں، چاہے وہ نظریاتی طور پر ان کے قریب ہوں یا نہیں۔ انہوں نے پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) اور یہاں تک کہ عمران خان کی حکومت کے ساتھ بھی مذاکرات کی کوشش کی، حالانکہ ان کی جماعت کا عمران خان کے ساتھ نظریاتی اختلاف رہا اور ایک وقت میں وہ عمران خان کو یہودیوں کا ایجنٹ کہتے رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جمعیت علمائے اسلام بھی دیگر خاندانی جماعتوں کی طرح ایک مخصوص خاندان کی میراث بن چکی ہے۔ جس طرح نواز لیگ اور پیپلز پارٹی خاندانی سیاست کی مثالیں ہیں۔ مولانا کے سمدھی گورنر بن جاتے ہیں، بیٹے وفاقی وزیر، بھائی عطاء الرحمن سینیٹر اور پارٹی عہدے دار، لطف الرحمن خیبر پختون خوا میں اسمبلی رکن، اور مولانا کی سالی شاہدہ اختر رکن قومی اسمبلی اور اسلامی نظریاتی کونسل کی رکن رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مولانا کی پوری سیاست اسی اقربا پروری کے گرد گھومتی ہے۔ مولانا فضل الرحمن کے والد مفتی محمود پارٹی کے سربراہ تھے، اور ان کے انتقال کے بعد یہ عہدہ مولانا فضل الرحمن کو منتقل ہوا۔ امکان یہی ہے کہ مستقبل میں یہ عہدہ ان کے بیٹے کو منتقل ہوگا۔ اسی لیے ان پر یہ تنقید بھی کی جاتی ہے کہ وہ اصولوں کے بجائے ذاتی و سیاسی مفادات کو ترجیح دیتے ہیں۔ لیکن ان کی سیاست کو الگ رکھتے ہوئے، اصولی طور پر مولانا فضل الرحمن کے حالیہ بیانات نے ملک کے جمہوری، انتخابی، اور سیاسی مسائل کو ایک بار پھر عوام کے سامنے لا کھڑا کیا ہے۔ یہ وقت ہے کہ تمام سیاسی اور سماجی قوتیں مل کر ملک کے بہتر مستقبل کے لیے کچھ سوچیں اور عمل کریں۔ یہ وقت تقاضا کرتا ہے کہ تمام سیاسی اور سماجی قوتیں ملک کے بہتر مستقبل کے لیے سنجیدگی سے سوچیں اور عملی اقدامات کریں۔ عوام کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ اور مخصوص سیاست دانوں کا ’’سیاست‘‘ کے نام پر کھیل کب تک جاری رہے گا؟ یہ ایک اہم سوال ہے، کیونکہ اگر اس کا جواب تلاش نہ کیا گیا تو یہ ملک کے مستقبل کے لیے سنگین خطرہ بن سکتا ہے۔ بلوچستان سے خیبر پختون خوا تک حالات تشویشناک ہیں، جبکہ امریکا، بھارت اور دیگر دشمن عناصر موقع کی تاک میں ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ قوم کے ساتھ جاری کھیل اور تماشے کا خاتمہ کیا جائے اور ملک کو ترقی اور استحکام کی راہ پر گامزن کیا جائے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: مولانا فضل الرحمن مولانا نے کی سیاست عوام کے رہے ہیں کے ساتھ کے لیے ملک کے

پڑھیں:

چاچا کے خلاف جھوٹی ایف آئی آر کی تحقیقات کی جائے‘حافظ الرحمن

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

کراچی(مانیٹرنگ ڈیسک)شہری حافظ الرحمن نے کہاہے کہ میرے چاچا کی بلاجواز گرفتاری اوران کے خلاف جھوٹی ایف آئی آر کی تحقیقات کرکے متعلقہ پولیس افسر کے خلاف کارروائی کی جائے ۔ان کاکہناتھا کہ گزشتہ روز 12 نومبر کی صبح تقریباً 7 سے 8 بجے معمول کے مطابق میرے چچا جان خستہ خان (عمر: 65 سال)، جو پیشے کے اعتبار سے گاڑیاں صاف کرتے ہیں، کام پر نکلے۔ اس کے بعد دن بھر نہ ان کا کوئی پتہ چلا اور نہ ہی ان کا موبائل نمبر ملا، جو مسلسل بند آرہا تھا۔ ہم نے شام تک ہر ممکن تلاش کی مگر کوئی رابطہ نہ ہوسکا۔بالآخر ہم نے مبینہ ٹاؤن تھانے میں لاپتہ ہونے کی درخواست جمع کروائی۔ درخواست جمع ہونے کے تقریباً دو گھنٹے بعد ایک شخص ظہیر نامی نے ہم سے رابطہ کیا اور خود کو لسبیلہ/لیاقت آباد پولیس اسٹیشن کا اہلکار بتایا۔ اس نے اطلاع دی کہ ہمارے چچا خستہ خان پولیس حراست میں ہیں اور ان پر شریف آباد تھانے کی جانب سے دفعہ 23(I)(a) کے تحت ایف آئی آر درج ہے، اور تفتیش اس کے ذمہ ہے۔ اس نے ہمیں اگلے دن عدالت آنے کا کہا۔مورخہ 13 تاریخ کو ہم عدالت پہنچے اور اپنے چچا سے معاملہ پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ وہ اپنی سائیکل پر سہراب گوٹھ کے پل پر چڑھ رہے تھے کہ دو موٹر سائیکل سوار پولیس اہلکاروں نے انہیں روک کر تلاشی لی اور الزام لگایا کہ ’’تمہارے پاس پستول ہے‘‘۔ پھر انہیں زبردستی تھانے لے جایا گیا اور بعد ازاں دوسرے تھانے منتقل کردیا گیا۔ اس پورے معاملے کے پیچھے ایک شخص جاوید کا ہاتھ ہے، جو چند روز قبل بھی دھمکی دے چکا تھا کہ ’’میں تمہیں بند کروا دوں گا‘‘۔ میرے چچا ایک نہایت سادہ لوح بزرگ ہیں، ٹھیک طرح بات بھی نہیں کرسکتے، صرف گاڑیاں دھو کر روزی کماتے ہیں ۔ ان پر اس نوعیت کا اسلحہ رکھنا کاالزام سراسر جھوٹا اورغلط ہے۔ آئی جی سندھ ‘ ایس ایس پی سینٹرل سے مطالبہ کرتے ہیںکہ متعلقہ ایس ایچ او سے پوچھ گچھ کی جائے کہ غیر اخلاقی اور غیر قانونی طریقے سے یہ جھوٹی ایف آئی آر کس بنیاد پر اور کس کے کہنے پر درج کرکے ہمیںانصاف دلایاجائے۔

مانیٹرنگ ڈیسک گلزار

متعلقہ مضامین

  • نیلسن منڈیلا امن سیمینار کے مقررین کی طرف سے کشمیری عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی
  • دہشتگردی، مذاکرات ساتھ نہیں چل سکتے، محسن نقوی: پاکستانی عوام کی قربانیوں کو خراج تحسین، قائم مقام امریکی سفیر
  • بھارتی آرمی چیف کے بیانات کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا، سرحد پر ممکنہ حملے کا خدشہ ہے : خواجہ آصف
  • حسینہ واجد کو سزائے موت دنیا بھر کے فرعونوں کے لیے درس عبرت ہے‘حافظ نعیم الرحمن
  • وفاقی حکومت نے حالیہ تباہ کن سیلاب سے ہونے والے مالی نقصانات کی جامع رپورٹ جاری کر دی
  • دہشت گردی کی حالیہ لہر …نمٹنے کیلئے قومی وحدت ناگزیر ہے !!
  • چاچا کے خلاف جھوٹی ایف آئی آر کی تحقیقات کی جائے‘حافظ الرحمن
  • دہشت گردی کی حالیہ لہر ...نمٹنے کیلئے قومی وحدت ناگزیر ہے !!
  • خیبر پختونخوا کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک کیا جاتا ہے، سہیل آفریدی
  • عقیدہ ختم نبوت امت میں وحدت و اتفاق کی علامت ہے، مولانا فضل الرحمن