کچے کے ڈاکوؤں نے کراچی کے 3 نوجوان کو جھانسہ دیکراغوا کرلیا، 60 لاکھ تاوان طلب
اشاعت کی تاریخ: 13th, January 2025 GMT
کراچی:
ڈسٹرکٹ سینٹرل کے علاقے رضویہ سوسائٹی وحیدہ آباد کے رہائشی 2 سگے بھائیوں سمیت 3 نوجوانوں کو گھوٹکی کے ڈاکوؤں نے دھوکے سے بلا کر اغوا کرلیا اور ان کی رہائی کے عوض 60 لاکھ روپے تاوان کا مطالبہ کر دیا۔ گورنر سندھ کامران ٹیسوری نے بھی واقعہ کا نوٹس لے لیا۔
تینوں مغوی آن لائن ڈرائی کلیننگ کا کام کرتے ہیں، ان کی زنجیر سے جکڑی ہوئی ویڈیو بھی منظر عام پر آگئی جس میں وہ اہلخانہ سے رقم کے بندوبست کرنے کی فریاد کرتے ہوئے سنائی دیے ، رضویہ سوسائٹی پولیس نے واقعہ کا مقدمہ اغوا برائے تاوان کی دفعہ کے تحت مغوی سگے بھائیوں کے چچا نعمان کی مدعیت میں درج کرلیا جسے بعدازاں تفتیش کے لیے اینٹی وائلنٹ کرائم سیل پولیس کے حوالے کر دیا گیا۔
رضویہ پولیس کے مطابق مدعی مقدمہ نعمان نے بتایا کہ وہ رکشا ڈرائیور ہے، میرا بھتیجا 24 سالہ اویس، اس کا چھوٹا بھائی اور دوست 20 سالہ انس ’پرفیکٹ چوائس ‘ کے نام سے آن لائن فیس بک پر پیج بنا کر ڈرائی کلینگ کا کام کرتے ہیں جس میں گھروں کی صفائی ستھرائی ، صوفے اور قالین وغیرہ واش کرتے ہیں۔
مدعی کے مطابق 2 جنوری کو میرے بھتیجے اویس کو آن لائن صوفے اور قالین کی کلیننگ کے کام کا آرڈرگھوٹکی سندھ سے بک ہوا جس پر اویس نے اپنی والدہ سے بات چیت کی اسی تاریخ کو میرے دونوں بھتیجے اور ان کے دوست کو گھوٹکی جانے والی بس میں رات ڈھائی بجے کے قریب بیٹھا کر روانہ کر دیا۔
مدعی کے مطابق میرے بھتیجے اور ان کا دوست جیسے ہی گھوٹکی سندھ پہنچے تو اویس نے موبائل فون سے والدہ سے رابطہ کیا اور کہا کہ یہ لوگ مجھ ٹھیک نہیں لگ رہے جس پر ان کی والدہ نے انھیں دلاسہ دیا اور کچھ دیر کے بعد اویس کے دونوں فون نمبر بند ہوگئے۔
بعدازاں 3 جنوری کو دوپہر چار بجے اویس نے اپنے موبائل فون سے رابطہ کیا اور مجھے کہا کہ چاچو یہ ڈاکو ہیں اور ایک بندے کے 20 لاکھ اور تینوں کے 60 لاکھ روپے مانگ رہے ہیں، اسی دوران اویس سے ایک شخص نامعلوم نے فون لیا اور کہا کہ 60 لاکھ روپے انتظام کرو پھر یہ تینوں بچے آپکو ملیں گے۔
مدعی کے مطابق اس شخص نے 2 دن کا وقت دیا اس کے بعد نامعلوم شخص نے اویس کے موبائل فون نمبر سے بذریعہ واٹس ایپ اویس ، اس کے بھائی اور دوست انس کی ویڈیو بنا کر بھیجی جس میں تینوں بچوں کی ٹانگوں کو زنجیر سے باندھا ہوا تھا اور تینوں بچے کہہ رہے تھے آپ پیسوں کا انتظام کرلو نہیں تو یہ لوگ ہمیں جان سے مار دیں گے۔
اس کے بعد اویس کے موبائل فون نمبر سے ایک موبائل فون نمبر 03278403503 نمبر موصول ہوا اور کہا گیا کہ اس نمبر پر بیلنس لوڈ کراؤ ، مدعی کے مطابق نامعلوم شخص نے اتوار اور پیر کا وقت دیا ہے جس پر ہم بہت گھبرا گئے جس کے بعد میں اویس کی والد اور انس کی بہن کے ہمراہ تھانے آیا ہوں۔
میرا دعویٰ ملزم یا ملزمان اسم سکونت نامعلوم پر میرے دونوں بھتیجوں اور ان کے دوست کو صوفہ اور قالین کی صفائی کا جھانسہ دے کر گھوٹکی سندھ بلا کر اغوا کر کے تاوان طلب کرنے کا ہے لہٰذا ملزمان کے خلاف قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے جس پر رضویہ پولیس نے نعمان کی مدعیت میں مقدمہ نمبر 14 سال 2025 بجرم دفعہ 365 اے کے تحت درج کر کے مزید تحقیقات کے لیے اینٹی وائلنٹ کرائم سیل پولیس کے حوالے کر دیا جو واقعہ کی مزید تحقیقات کر رہی ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: مدعی کے مطابق موبائل فون فون نمبر اور ان کر دیا کے بعد
پڑھیں:
موبائل فونز پر ٹیکسز
پاکستان میں موبائل فونز پر عائد ٹیکسز اور ڈیوٹیز ایک عرصے سے عوامی بحث کا موضوع بنے ہوئے ہیں۔ آج کے دور میں جہاں ڈیجیٹل سہولیات تیزی سے روزمرہ زندگی کا حصہ بنتی جارہی ہیں موبائل فون صرف رابطے کا ذریعہ ہی نہیں رہے بلکہ تعلیم، کاروبار، خریداری اور معلومات تک رسائی کا بنیادی وسیلہ بن چکے ہیں۔
اس وقت ملک میں تقریباً 198 ملین موبائل صارفین موجود ہیں. ٹیلی ڈینسٹی 80.10 فیصد ہے جبکہ 150ملین سے زائد افراد براڈ بینڈ انٹرنیٹ استعمال کر رہے ہیں۔ ایسے میں موبائل فونز کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں، تاہم ایک عام غلط فہمی یہ ہے کہ موبائل فونز پر عائد ٹیکسز اور ڈیوٹیز کا ذمے دار پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) ہے۔ حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے ۔ درحقیقت، موبائل فونز پر تمام ٹیکسز اور ڈیوٹیز ایف بی آر وصول کرتی ہے، جبکہ پی ٹی اے کا اس مالیاتی عمل سے کوئی تعلق نہیں۔
یہ امر واضح رہنا چاہیے کہ ایف بی آر ہی وہ ادارہ ہے جو موبائل ڈیوائسز پر ٹیکس عائد کرنے، اس کی وضاحت دینے اور اس کی وصولی کا مکمل اختیار رکھتا ہے۔ اس مقصد کےلیے ایف بی آر نے کئی قانونی نوٹیفکیشنز جاری کیے ہیں، جن میں ایس آر او 2019/(I)50 2019/(I)51 اور کسٹمز جنرل آرڈر 01آف 2024شامل ہیں۔ جو ان تمام ٹیکسز کی بنیاد فراہم کرتے ہیں ایف بی آر مختلف ماڈلز اور کیٹیگریز کے لیے وقتاً فوقتاً ٹیکس چارٹس جاری کرتا رہتا ہے، جو ایف بی آر کی ویب سائٹ پر دستیاب ہوتے ہیں۔ موبائل رجسٹریشن کے دوران جو بھی ادائیگی کی جاتی ہے، وہ براہِ راست ایف بی آر کے اکاؤنٹ میں جمع ہوتی ہے۔
پی ٹی اے پر ٹیکسز کا الزام دینا نہ صرف غلط فہمی کو جنم دیتا ہے بلکہ عوامی بحث کو غلط سمت میں موڑ دیتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پی ٹی اے نہ تو کوئی ٹیکس عائد کرتا ہے اور نہ ہی کوئی مالی وصولی کرتا ہے۔ پی ٹی اے کا کردار صرف ریگولیٹری ہے، یعنی ٹیلی کام سروسز کی نگرانی، معیار کی جانچ اور صارفین کی شکایات کا ازالہ و رہنمائی تک محدود ہے، نہ کہ ٹیکس وصولی۔
اس فرق کو سمجھنا ضروری ہے، لیکن عمومی طور پر سوشل میڈیا، مارکیٹوں اور روزمرہ گفتگو میں ’’پی ٹی اے ٹیکس‘‘ جیسی غلط اصطلاح عام طور پر رائج ہو چکی ہے جو حقائق کے منافی ہے۔
موبائل فونز کی قانونی رجسٹریشن اور ٹیکس ادائیگی کے عمل کو سمجھنے کےلیے ہمیں 2019میں لانچ کیے گئے ڈی آئی آر بی ایس (DIRBS) نظام کو دیکھنا ہوگا۔ یہ نظام ’’ٹیلی کام پالیسی 2015‘‘ کے تحت متعارف کروایا گیا تاکہ پاکستان میں اسمگل شدہ، نان کمپلائنٹ یا جعلی موبائل فونز کو بلاک کیا جاسکے۔ یہ سسٹم GSMA معیارات اور پی ٹی اے کے ٹائپ اپروول اصولوں کے مطابق کام کرتا ہے۔ DIRBS پی ٹی اے، ایف بی آر، جی ایس ایم اے، موبائل نیٹ ورک آپریٹرز اور صارفین کو ایک خودکار ڈیجیٹل سسٹم کے تحت باہم مربوط کرتا ہے۔ جو رجسٹریشن، تصدیق اور ادائیگی کے تمام مراحل کا احاطہ کرتا ہے۔ اس نظام کے ذریعے صارفین موبائل فون کی رجسٹریشن (*8484#) یا DIRBS ویب پورٹل کے ذریعے کر سکتے ہیں۔
جب فون کا IMEI نمبر سسٹم میں درج کیا جاتا ہے تو ایف بی آر کی جانب سے مقرر کردہ ٹیکس کے مطابق ایک پیمنٹ سلپ آئی ڈی (PSID) جاری ہوتی ہے۔ صارف یہ رقم براہِ راست بینک کے ذریعے ایف بی آر کو ادا کرتا ہے، اور ادائیگی کی تصدیق کے بعد فون کو وائٹ لسٹ کرکے پاکستانی موبائل نیٹ ورکس پر فعال کر دیا جاتا ہے۔ رجسٹریشن کی حیثیت ایس ایم ایس، ویب سائٹ یا DIRBS ایپ کے ذریعے معلوم کی جاسکتی ہے۔
اوورسیز پاکستانیوں کےلیے حکومت نے رجسٹریشن میں سہولت فراہم کرنے کےلیے خصوصی مراعات بھی متعارف کروائی ہیں، جن میں 60 دن کے اندر رجسٹریشن پر 10 فیصد ٹیکس رعایت اور ہر وزٹ پر فون کی 120 دن کےلیے عارضی طور پر مفت رجسٹریشن شامل ہے۔ ان اقدامات سے قانونی درآمدات کو فروغ اور اوورسیز پاکستانیوں کو مدد فراہم کرنا ہے۔
ٹیکس سے متعلق تمام سوالات کے لیے صارفین ایف بی آر ہیلپ لائن 051111772772 یا ای میل [email protected] پر رابطہ کرسکتے ہیں۔ اس پورے عمل میں پی ٹی اے کا کردار تکنیکی معاونت اور رہنمائی تک محدود ہے۔ پی ٹی اے روزانہ سیکڑوں شہریوں کی رہنمائی اور مسائل کے حل میں مصروفِ عمل رہتا ہے۔ صرف 2024 میں پی ٹی اے کو DIRBS سے متعلق 1,99,722شکایات موصول ہوئیں، جن میں سے 99.9 فیصد کا کامیابی سے ازالہ کیا گیا۔ روزانہ اوسطاً 150 سے 200 شہری پی ٹی اے کے مرکزی دفتر میں رجوع کرتے ہیں۔ رجسٹریشن یا تکنیکی مسائل کےلیے پی ٹی اے کی ہیلپ لائن 080055055 پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔ پی ٹی اے اپنی خدمات تمام صارفین کو بغیر کسی فیس کے فراہم کررہا ہے۔
پی ٹی اے نہ صرف ایک فعال ریگولیٹری ادارہ ہے بلکہ ملکی موبائل مینوفیکچرنگ انڈسٹری کو بھی فروغ دے رہا ہے۔ صرف 2024 میں 3۔3 کروڑ موبائل فون پاکستان میں تیار کیے گئے جب کہ 2025 کے ابتدائی پانچ ماہ میں مزید 12.81ملین فونز مقامی طور پر بنائے گئے۔ اس سے درآمدی انحصار کم ہونے اور خود کفالت کی راہ ہموار ہوئی ہے۔ یہ پیش رفت مقامی صنعت اور روزگار کے مواقع میں اضافے لیے ایک مثبت اشارہ ہے۔
مزید برآں پی ٹی اے کی جانب سے قومی خزانے میں جمع کی گئی رقوم بھی قابل ذکر ہیں، جن میں 2021-22 میں 112.71 ارب روپے، 2022-23 میں 99 ارب روپے اور 2023-24 میں 54 ارب روپے شامل ہیں۔ یہ تمام آمدن پی ٹی اے کی لائسنس فیس، اسپیکٹرم نیلامی اور دیگر ضوابطی اقدامات سے حاصل ہوئی اس کے ساتھ ساتھ پی ٹی اے ملک بھر میں ٹیلی کام سروسز کے معیار کو جانچنے کےلیے باقاعدہ سروے کرتا ہے، اور خراب کارکردگی کی صورت میں لائسنس یافتہ کمپنیوں کو شوکاز نوٹسز اور جرمانے بھی عائد کرتا ہے۔ اس کے علاوہ، ’’پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ‘‘ (PECA)کے تحت آن لائن مواد کی نگرانی، غیر اخلاقی، فحش، نفرت انگیز اور بچوں کےلیے نقصان دہ مواد کو بلاک کرنے جیسے اہم فرائض میں بھی سرگرم عمل ہے۔
اگرچہ موبائل فونز پر عائد ٹیکس اور ڈیوٹیز قومی آمدنی کا ایک اہم ذریعہ ہیں، تاہم ان ٹیکسز کی شرح پر تنقید ایک فطری عمل ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تنقید اور اصلاحات کا رخ درست سمت میں ہو۔ عوامی سطح پر غلط فہمیوں کے بجائے درست معلومات کا فروغ نہایت اہم ہے۔ ایک تجویز یہ ہے کہ پرانے یا درمیانے درجے کے فونز پر ٹیکس کم کیا جائے، جس کے لیے GSMA TAC ڈیٹابیس کے ذریعے ماڈلز کو کیٹیگرائز کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح مہنگے فونز پر ٹیکس کی شرح کو متوازن بنا کر قانونی رجسٹریشن کی ترغیب دی جا سکتی ہے اس سے ٹیکس نیٹ بیس میں بھی اضافہ کیا جاسکتا ہے۔
عوام، میڈیا اور صارفین کو اس فرق کو سمجھنا چاہیے کہ ٹیکس کا ذمے دار ادارہ ایف بی آر ہے نہ کہ پی ٹی اے۔ پی ٹی اے ایک ریگولیٹری ادارہ ہے جو ملک کے ڈیجیٹل انفرااسٹرکچر کی ترقی، معیار اور تحفظ کےلیے کوشاں ہے۔ درست معلومات پر مبنی مکالمہ ہی ملک کو بہتر پالیسی سازی، ڈیجیٹل شمولیت اور قانونی درآمدات کی راہ پر ڈال سکتا ہے۔ باشعور شہری ہی بہتر پالیسی اور مضبوط معیشت کی بنیاد فراہم کرتے ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔