فلسطین کے حامیوں نے امریکی وزیر خارجہ کو تقریر روکنے پر مجبور کردیا
اشاعت کی تاریخ: 15th, January 2025 GMT
امریکا کے وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن کو واشنگٹن ڈی سی میں دوران تقریر فلسطین کے حامیوں کی جانب سے شدید احتجاج کا سامنا کرنا پڑا۔
اینٹنی بلنکن اپنی تقریر میں جنگ بندی کے بعد غزہ سے متعلق امریکی منصوبے پر تقریر کررہے تھے کہ حاضرین میں بیٹھے بعض مظاہرین نے اٹھ کر باری باری نعرے لگانا شروع کردیے۔
مظاہرین نے امریکا کی طرف سے اسرائیل کی مسلسل امداد اور اسے جنگی ہتھیار فراہم کرنے کا الزام لگایا جس پر اینٹنی بلنکن کو کئی بار اپنی تقریر روکنا پڑی۔
مظاہرین نے اینٹنی بلنکن کو غزہ میں جاری فلسطینیوں کی نسل کشی کا ذمہ دار بھی قرار دیا۔
یہ بھی پڑھیے:غزہ جنگ بندی معاہدے کے لیے مذاکرات جاری، حماس 2 اہم شرائط سے دستبردار
مظاہرین میں سے ایک شخص نے پوسٹر لہرایا جس پر جلی حروف میں ’بلنکن، جنگی جرائم کا مجرم‘ درج تھا۔ احتجاج کرنے والے شخص نے دعویٰ کیا کہ امریکا نے گزشتہ سال 25 ارب ڈالر اسرائیل کو فراہم کیے ہیں۔ اس موقع پر سیکیورٹی اہلکار مظاہرین کو ہال سے باہر نکالتے رہے۔
یاد رہے کہ امریکا، مصر، قطرکی ثالثی میں غزہ جنگ بندی کے حوالے سے مذاکرات دوحہ قطر میں جاری ہیں جس کے بعد 15 مہینوں سے جاری اس خون ریز تنازعے کے خاتمے کی امید کی جارہی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
Blinken’s speech Gaza Protester war crimes امریکا اینٹنی بلنکن.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: امریکا اینٹنی بلنکن اینٹنی بلنکن
پڑھیں:
غزہ کی جنگ بندی اور انسانی بحران پر استنبول میں اعلیٰ سطح اجلاس، مسلم وزرائے خارجہ کی شرکت متوقع
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
استنبول: ترکی کے وزیر خارجہ ہاکان فیدان کی میزبانی میں پیر کے روز غزہ کی تازہ صورتحال اور جنگ بندی کے مستقبل پر ایک اہم اجلاس منعقد ہوگا، جس میں متحدہ عرب امارات، انڈونیشیا، قطر، پاکستان، سعودی عرب اور اردن کے وزرائے خارجہ شرکت کریں گے۔
ترک سفارتی ذرائع کے مطابق یہ اجلاس انہی ممالک کے وزرائے خارجہ کا تسلسل ہے جنہوں نے 23 ستمبر کو نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے موقع پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کی تھی، استنبول میں ہونے والے اجلاس میں 10 اکتوبر کی جنگ بندی کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال اور غزہ میں انسانی بحران پر تفصیلی غور کیا جائے گا۔
ذرائع کے مطابق ہاکان فیدان اجلاس میں اسرائیل کی جانب سے جنگ بندی ختم کرنے کے بہانے تراشنے کی کوششوں کی مذمت کریں گے اور اس بات پر زور دیں گے کہ عالمی برادری کو تل ابیب کے اشتعال انگیز اقدامات کے خلاف مضبوط اور مؤثر موقف اختیار کرنا ہوگا۔
ترک وزیر خارجہ اس بات پر بھی زور دیں گے کہ مسلم ممالک کو مشترکہ حکمتِ عملی اپناتے ہوئے جنگ بندی کو مستقل امن میں تبدیل کرنے کے لیے مربوط کردار ادا کرنا چاہیے۔ وہ یہ بھی واضح کریں گے کہ غزہ میں پہنچنے والی انسانی امداد ناکافی ہے اور اسرائیل اپنی انسانی و قانونی ذمہ داریاں پوری کرنے میں ناکام رہا ہے۔
ہاکان فیدان اس بات کو بھی اجاگر کریں گے کہ غزہ میں مسلسل اور بلا رکاوٹ انسانی امداد کی فراہمی انسانی اور قانونی تقاضہ ہے، لہٰذا اسرائیل پر دباؤ بڑھایا جانا چاہیے تاکہ امدادی سامان کی ترسیل یقینی بنائی جا سکے۔
انہوں نے توقع ظاہر کی ہے کہ اجلاس میں فلسطینی انتظامیہ کو غزہ کی سلامتی اور انتظامی امور کی ذمہ داری دینے کے حوالے سے عملی اقدامات پر بھی غور کیا جائے گا، تاکہ فلسطینی عوام کے جائز حقوق کا تحفظ ہو اور دو ریاستی حل کے وژن کو تقویت ملے۔
ذرائع کے مطابق اجلاس میں شریک ممالک اقوام متحدہ کے پلیٹ فارمز پر آئندہ کے اقدامات کے لیے بھی مشاورت اور قریبی رابطہ برقرار رکھنے پر اتفاق کریں گے۔
خیال رہےکہ حماس کی جانب سے تو جنگ بندی کی مکمل پاسداری کی جارہی ہے لیکن اسرائیل نے اپنی دوغلی پالیسی اپناتے ہوئے 22 سال سے قید فلسطین کے معروف سیاسی رہنما مروان البرغوثی کو رہا کرنے سے انکاری ظاہر کی ہے اور اسرائیل کے متعدد وزیر اپنی انتہا پسندانہ سوچ کے سبب صبح و شام فلسطینی عوام کو دھمکیاں دے رہے ہیں جبکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی جارحانہ انداز اپناتے ہوئے مسلسل دھمکیاں دے رہے ہیں۔