اسرائیل(نیوز ڈیسک)اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی اور یرغمالیوں کے تبادلے کا بالآخر معاہدہ ہوگیا، 15 ماہ ایک ہفتے تک جاری جنگ میں غزہ پر 85 ہزار ٹن بارود برسایا گیا۔بدھ کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں وزیر اعظم محمد بن عبد الرحمان بن جاسم الثانی نے غزہ جنگ بندی معاہدہ طے پانے کا اعلان کیا اور کہا ہے کہ جنگ بندی معاہدہ کروانے کے لیے قطر، مصر اور امریکا کی کوششیں کامیاب ہوگئی ہیں۔انہوں نے کہا کہ جنگ بندی کا اطلاق19 جنوری سے ہوگا، حماس اور اسرائیل کے ساتھ جنگ بندی کے مراحل پر عمل درآمد کے حوالے سے کام جاری ہے۔

قطری وزیر اعظم نے بتایا کہ معاہدے کے پہلے مرحلے میں اسرائیلی یرغمالیوں اور فلسطینی قیدیوں کی رہائی ہوگی۔ معاہدے کے پہلے مرحلے میں بے گھر افراد کی گھروں کو واپسی شامل ہے۔رپورٹ کے مطابق 7 اکتوبر 2023 سے جاری جنگ میں غزہ پر 85 ہزارٹن بارود برسایا گیا جبکہ 47 ہزار سے زائد فلسطینیوں کی نسل کشی اور ایک لاکھ 15 ہزار زخمی کیے گئے۔تباہ شہروں کی عمارتوں اورگھروں کے ملبے سے ہزاروں لاپتہ فلسطینیوں کی لاشیں ملنے کا خدشہ ہے جبکہ ملبہ ہٹانے میں 10 سال سے زائد لگنے کا امکان ہے۔15 ماہ ایک ہفتے تک جاری رہنے والی جنگ میں نقل مکانی پر مجبور کیے گئے 20 لاکھ فلسطینی اجڑے گھروں کو لوٹنے کے منتظر ہیں۔اس جنگ میں حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کو تہران میں جبکہ دوسرے سربراہ یحییٰ سنوار کوغزہ میں شہید کیا گیا۔

سوا سال دنیا لفظی سفارتکاری سے کام چلاتی رہی،اس دوران امریکا نے اسرائیل کا کھلا ساتھ دیا۔یاد رہے کہ 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے حملے میں 1100 اسرائیلی ہلاک اور 240 کو یرغمال بنایا گیا تھا۔ زیادہ تریرغمالی پچھلے برس نومبر میں رہاہوئے یا اسرائیلی حملوں ہی میں مارے گئے۔اسرائیلی حکام کا دعویٰ ہے کہ 98 یرغمالی تاحال حماس کے پاس ہیں۔ اسرائیل پر حماس کے حملے کے بعد بہیمانہ جنگ مسلط کی گئی۔حماس نے کہا کہ جنگ بندی کا معاہدہ فلسطینی عوام کی بےمثال قربانیوں کا نتیجہ ہے، یہ غزہ میں 15 ماہ سےجاری دلیرانہ مزاحمت کا نتیجہ ہے،یہ فلسطینی عوام، مزاحمت،امت اور آزاد دنیا کے لیے کامیابی ہے۔واضح رہے کہ 6ہفتوں کی جنگ بندی پر عمل درآمد 3 مراحل میں کیا جائے گا،مرحلہ وار سویلین قیدیوں کا تبادلہ اور جنگ کے خاتمے پر مذاکرات ہوں گے۔دوسرے مرحلے میں اسرائیلی فورس کے قیدی حماس رہا کرے گی اور غزہ کے عوامی مقامات سے اسرائیلی فوج کا انخلا ہوگا۔تیسرے مرحلے میں اسرائیلی فورسز کا غزہ سے مکمل انخلا اور غزہ کی تعمیر نو پر کام کیا جائے گا۔

دوران ڈکیتی مزاحمت پر سیف علی خان شدید زخمی،اسپتال منتقل

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: مرحلے میں حماس کے

پڑھیں:

غزہ سے پہلے مغربی کنارہ ہڑپ ہو رہا ہے

وہی ہوا جو منطقی تسلسل میں ہوتا ہے۔ اسرائیلی پارلیمنٹ (کنیسٹ) نے مقبوضہ مغربی کنارے کو اسرائیل میں باقاعدہ ضم کرنے کی علامتی قرار داد گذرے بدھ تیرہ کے مقابلے میں اکہتر ووٹوں سے منظور کر لی۔ اس سے دنیا کو یہ پیغام دیا گیا ہے کہ اگر نیتن یاہو حکومت مستقبلِ قریب میں ایسا کوئی قدم اٹھاتی ہے تو پارلیمان اس کے پیچھے کھڑی ہے۔گزشتہ برس نو کے مقابلے میں اڑسٹھ ووٹوں سے دو ریاستی حل کا فارمولا مسترد کرنے کی قرار داد بھی کنیسٹ منظور کر چکی ہے۔

مغربی کنارے کو باقاعدہ ضم کرنے کی قرار داد کی مخالفت میں جو تیرہ ووٹ آئے وہ پارلیمنٹ میں عرب بلاک کے نمایندوں اور بائیں بازو بشمول لیبر ارکان نے دیے۔نام نہاد اعتدال پسند صیہونی جماعتوں ، دائیں بازو کی حکمران لیخود پارٹی اور اس کی حواری متشدد مذہبی پارٹیوں نے مقبوضہ علاقے کو اسرائیلی ریاست میں ضم کرنے سے اتفاق کیا۔

تو کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ مقبوضہ غربِ اردن کی فلسطینی آبادی کو ضم ہونے کی صورت میں برابر کا اسرائیلی شہری تسلیم کیا جائے گا اور ان پر موجودہ فوجی قوانین کے بجائے وہی سویلین قوانین لاگو ہوں گے جو اسرائیلی شہریوں پر لاگو ہوتے ہیں ؟ ہرگز نہیں۔

 اس کا عملی مطلب یہ ہے کہ انضمام کے بعد مسلح یہودی آبادکاروں کے حملے اور تیز ہو جائیں گے ، فلسطینیوں کی باقی ماندہ نجی زمینوں پر فوجی سنگینوں کے سائے میں ’’ دفاعی مقاصد ‘‘ کے نام پر قبضے کی رفتار بھی بڑھ جائے گی۔ان زمینوں پر نئی یہودی بستیاں بسائی جائیں گی۔یعنی ایسا ماحول پیدا کیا جائے گا کہ لاکھوں فلسطینیوں کا آخری ریلا بھی ’’ رضاکارانہ ‘‘ طور پر اپنی زمین سے نکل جائے اور جوڈیا سماریا (غربِ اردن ) ایک مکمل یہودی خطہ بن جائے۔

یہ قرار داد اسرائیلی کابینہ کے پندرہ وزرا کے بنام سرکار خط کی روشنی میں لکھی گئی۔ خط کے مطابق ’’ ایرانی شیطانی تکون ( حزب اللہ ، بشار الاسد ، یمنی ہوثی ) پر فتح کے بعد اب اندر موجود بقائی خطرے ( مقبوضہ فلسطینی ) سے بھی موثر انداز میں نمٹنے کی ضرورت ہے۔امریکا اور اسرائیل کی اسٹرٹیجک ساجھے داری اور صدر ٹرمپ کی مکمل حمائیت کے سبب یہی مناسب وقت ہے کہ آیندہ اسرائیلی نسلوں کا جغرافیائی مستقبل محفوظ کیا جائے۔ سات اکتوبر دو ہزار تئیس کے المیے نے ثابت کر دیا ہے کہ فلسطینی ریاست ہر شکل میں اسرائیل کی بقا کے لیے سنگین خطرہ ہے۔لہٰذا جوڈیا سماریا ( مقبوضہ کنارہ ) پر اسرائیل کا مکمل اختیار نافذ کیا جائے ‘‘۔

قرار داد کی علامتی اہمیت اپنی جگہ مگر عملاً اسرائیل بیشتر مقبوضہ علاقے کو پہلے ہی بتدریج ہضم کر چکا ہے۔مغربی یروشلم انیس سو اڑتالیس میں ہی اسرائیل کا حصہ قرار دے دیا گیا۔فلسطینی اکثریتی مشرقی یروشلم انیس سو سڑسٹھ کی جنگ کے بعد گریٹر یروشلم میونسپلٹی کا حصہ بنا دیا گیا۔ فلسطینی اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کے لیے یروشلم کے چاروں طرف آبادکار بستیوں کا جال بچھا دیا گیا۔

حالانکہ اقوامِ متحدہ نے نومبر انیس سو سینتالیس میں فلسطین کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کی جو قرار داد منظور کی تھی اور جس کی بنیاد پر چھ ماہ بعد اسرائیل کا وجود عمل میں آیا۔ اس قرار داد کے تحت یروشلم ایک کھلا بین الاقوامی شہر ہو گا۔مگر اسرائیلی پارلیمان نے انیس سو اسی میں متحدہ یروشلم کو اسرائیل کا تاریخی دارالحکومت قرار دے کے قصہ چکتا کر دیا۔

 اسرائیل نے شام سے انیس سو سڑسٹھ میں چھینی گئی گولان پہاڑیوں کو انیس سو اکیاسی میں باقاعدہ ضم کر لیا۔اگرچہ سلامتی کونسل نے اس اقدام کو بھی غیر قانونی قرار دیا۔مگر پہلی ٹرمپ انتظامیہ نے دو ہزار انیس میں نہ صرف گولان کو اسرائیل کا جائز حصہ مان لیا بلکہ یروشلم پر بھی اسرائیل کی حاکمیت کو قانونی تسلیم کر کے وہاں سفارت خانہ منتقل کر کے عشروں پرانی مبہم امریکی پالیسی ٹھکانے لگا دی۔

غزہ کے المئے نے نہ صرف وہاں کی پوری آبادی کو غذائی و عسکری نسل کشی کے دہانے تک پہنچا دیا ہے بلکہ مغربی کنارے کی قسمت بھی سربمہر کر دی ہے۔اس بحران کے شروع ہونے کے بعد سے اب تک مغربی کنارے پر اکتیس نئی یہودی بستیوں کی آبادکاری کی منظوری دی جا چکی ہے۔مزید چالیس ہزار سے زائد فلسطینی خاندان بے گھر ہو گئے ہیں۔ سیکڑوں ایکڑ فصلیں اور باغات نذرِ آتش ہو چکے ہیں یا اجاڑے جا رہے ہیں ، لگ بھگ ایک ہزار فلسطینی شہید اور چار گنا زخمی ہو چکے ہیں۔

انیس سو چورانوے کے نام نہاد اوسلو سمجھوتے کے تحت مغربی کنارے کا ساٹھ فیصد علاقہ ایریا سی کے نام پر اسرائیل کی دفاعی ضروریات کے لیے مختص ہے۔یہاں کوئی فلسطینی باشندہ کچھ بھی تعمیر نہیں کر سکتا۔اکیس فیصد علاقہ ایریا بی کے نام سے اگرچہ اسرائیل اور فلسطینی اتھارٹی کے مشترکہ کنٹرول میں ہے۔ عملاً اسرائیلی فوج مسلح آباد کاروں کو آگے رکھ کے ایریا بی کو بھی مقامی آبادی سے صاف کر رہی ہے۔

اب رہ جاتا ہے انیس فیصد ایریا اے۔کہنے کو یہاں فلسطینی اتھارٹی کی اتھارٹی چلنی چاہیے۔مگر اسرائیلی فوج دھشت گردوں کے قلع قمع کے نام پر ایریا اے کے شہروں اور قصبوں میں جس وقت جہاں اور جب چاہے گھس جاتی ہے ، ناکہ بندی کرتی ہے اور برسوں سے قائم پناہ گزین کیمپوں کو بھی مکمل منہدم کر رہی ہے۔

مسجدِ اقصی کا احاطہ اگرچہ قانوناً غیر مسلموں پر بند ہے اور اس احاطے کی علامتی نگرانی اردن کے ہاتھ میں ہے۔مگر کوئی ہفتہ ایسا نہیں جاتا کہ کوئی نہ کوئی صیہونی جتھہ اس احاطے میں نہ گھسے اور نمازیوں کو بے دخل نہ ہونا پڑے۔

مسجد مسلسل فوج اور پولیس کے محاصرے میں رہتی ہے۔یعنی یروشلم سمیت مغربی کنارہ عملاً اسرائیل میں ضم ہو چکا ہے۔بس باضابطہ اعلان کی کسر ہے تاکہ عرب ممالک ، او آئی سی ، اقوامِ متحدہ اور کچھ غیر عرب ریاستیں بین الاقوامی قوانین کا علم اٹھائے پہلے کی طرح کچھ ہفتے ماتم کر سکیں۔

اگلا منصوبہ یہ ہے کہ اسرائیل کس طرح غزہ سے تمام فلسطینیوں کو زندہ یا مردہ نکالتا ہے ، جنوبی لبنان کی سرحدی پٹی پر مستقل پنجے گاڑنا ہے اور جنوبی شام کے گولان سے متصل کچھ اور علاقے ہڑپ کرنے کے عمل میں قبائلی و علاقائی خانہ جنگی کو ہوا دے کر شام کے چار ٹکڑے ( دروز ، علوی ، سنی ، کرد ) کرواتا ہے۔

 علاقے میں بس ترکی آخری طاقت رہ گیا ہے جو اسرائیل کو کبھی منہ دے سکے۔چنانچہ ان سب ہتھکنڈوں کا ہدف اگلے مرحلے میں ترکی کو تنہا کرنا ہے۔

آپ کے علم میں ہے کہ اسرائیلی بچوں کو اسکول میں کیا پڑھایا جاتا ہے ؟

’’ خدا نے دریاِ نیل تا فرات پھیلی زمین بنی اسرائیل کو ہمیشہ کے لیے بخشی ہے ‘‘۔

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)

متعلقہ مضامین

  • غزہ سے پہلے مغربی کنارہ ہڑپ ہو رہا ہے
  • حماس رہنما جنگ بندی پر راضی نہیں، وہ مرنا چاہتے ہیں اور اسکا وقت آگیا؛ ٹرمپ کی دھمکی
  • غزہ جنگ بندی مذاکرات، امریکا اور اسرائیل نے اپنے وفود واپس بُلالیے
  • امریکا اور اسرائیل کا غزہ جنگ بندی مذاکرات سے اچانک انخلا، حماس پر نیک نیتی کی کمی کا الزام
  • امریکا اور اسرائیل نے جنگ بندی مذاکرات سے ٹیمیں واپس بلائیں، حماس نے مؤقف کو ناقابل فہم قرار دیا
  • غزہ جنگ بندی مذاکرات، امریکا اور اسرائیل نے اپنے وفود واپس بلالیے
  • غزہ میں جنگ بندی کی اسرائیلی تجویز کا جواب دے دیا ہے، حماس
  • حماس نے غزہ جنگ بندی معاہدے پر اپنا تحریری جواب ثالثوں کو بھیج دیا
  • اسرائیل کی 60 روزہ جنگ بندی تجویز پر حماس کا جواب سامنے آگیا
  • مغربی کنارے میں اسرائیلی خودمختاری کی درخواست منظور، خبر ایجنسی