مولانا قاری محمد سلمان عثمانی
٭جس میں اللہ جل شانہُ کی رضا نہ ہو اس کا کوئی فائدہ نہیں،محض دنیا کو دکھانے کیلئے کام کرنا وبال بن جا تا ہے ٭ارشاد باری تعالیٰ ہے ‘‘بے شک منافق اللہ سے دھوکا کررہے ہیں اور وہ انہیں اس دھوکے کا بدلہ دینے والا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ریاکاری (دکھلاوے )ایک ایسا فعل ہے جو خالق کائنات کو کسی بھی صورت پسند نہیں،ایسا کام جس میں اللہ جل شانہُ کی رضا نہ ہو اس کا کوئی فائدہ نہیں،محض دنیا کو دکھانے کیلئے کام کرنا وبال بن جا تا ہے،جو اللہ کو نا پسند عمل ہے،اللہ تعالیٰ نے اس کی مذمت فرمائی ہے، کوئی بھی کام کیا جا ئے تواس میں اللہ کی رضا شامل ہو ریا کاری نہ ہو،دنیا کو دکھانا مقصد نہ ہو تو اس عمل کا دائمی اجر ہے،جوخالق کائنات کا وعدہ ہے،اللہ تعالیٰ اس کو ضرور اجر عطا فرماتے ہیں۔
ریاکاری ایسا مذموم وصف ہے کہ اس کی وجہ سے مسلمان کا بڑے سے بڑا نیک عمل اللہ کے ہاں رائی کے دانے کی حیثیت نہیں رکھتا، اور ریاکاری کے بغیر کیا ہوا چھوٹاعمل بھی اللہ کے ہاں پہاڑ کے برابر حیثیت رکھتا ہے، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: اے ایمان والو! اپنے صدقات احسان جتا کر اور دکھ دے کر اس شخص کی طرح برباد نہ کر لیا کرو جو مال لوگوں کے دکھانے کے لئے خرچ کرتا ہے اور نہ اللہ پر ایمان رکھتا ہے اور نہ روز قیامت پر، اس کی مثال ایک ایسے چکنے پتھر کی سی ہے جس پر تھوڑی سی مٹی پڑی ہو، پھر اس پر زوردار بارش ہو تو وہ اسے پھر وہی سخت اور صاف پتھر کر کے ہی چھوڑ دے، سو اپنی کمائی میں سے ان (ریاکاروں) کے ہاتھ کچھ بھی نہیں آئے گا، اور اللہ، کافر قوم کو ہدایت نہیں فرماتا(سورۃ البقرہ)
اس آیت میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے واضح انداز میں بیان فرمایا ہے کہ جو عمل اس کی رضا و خوشنودی اور آخرت میں ثواب کی امیدکے حصول کے بجائے، نام و نمود اور ریاکاری و دکھاوے کے جذبے سے انجام دیا جائے، تو اس عمل پر کوئی ثواب نہیں ملتا اور وہ عمل ضائع اور برباد ہو جاتا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے ‘‘بے شک منافق اللہ سے دھوکا کررہے ہیں اور وہ انہیں اس دھوکے کا بدلہ دینے والا ہے اور جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہیں تو بڑی کاہلی کی حالت میں کھڑے ہوتے ہیں،صرف لوگوں کو دکھاتے ہیں اور یاد الٰہی تو یوں ہی برائے نام کرتے ہیں۔’’ (سورۃ النساء 142)
اسی طرح ایک مقام پر نماز میں سستی و غفلت کرنے والے ریا کاروں کیلئے ہلاکت کی وعید سنائی گئی ہے، اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ‘‘ہلاکت و بربادی ہے اُن نمازیوں کے لئے جو اپنی نماز سے غافل ہیں وہ جو ریا کاری کرتے ہیں’’(سورۃ الماعون) یعنی نمازوں کا اہتمام نہیں کرتے، ان کی ادائیگی میں غفلت برتتے ہیں، نمود ونمائش اور لوگوں کو دکھانے کیلئے کبھی لوگوں کے درمیان ہوتے ہیں تو پڑھ لیتے ہیں، ورنہ ان کی زندگی میں نماز کا کوئی اہتمام اور حصہ نہیں ہوتا۔
اس طرح قرآن پاک میں ایک اورجگہ ریا کاری کو کافروں کا شیوہ قرار دیتے ہوئے اہل ایمان کو اس سے روکا گیا، ارشاد باری تعالیٰ ہے ‘‘اور ان لوگوں کی طرح نہ ہوجاؤ جو اتراتے ہوئے اور لوگوں میں خود نمائی (دکھاوا) کرتے ہوئے اپنے گھروں سے نکلے’’(سورۃ الانفال47)یہی وجہ ہے حضورﷺ کواپنی امت کے بارے میں اس بات کا بہت ڈر(اندیشہ)تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ میری امت اس بیماری کا شکار ہوجائے۔
اس لئے آپﷺ نے اس کی برائی اور تباہی کو اپنے ارشادات سے واضح فرمایا۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: ‘‘قیامت کے دن تین بندے رب کی بارگاہ میں حاضر ہوں گے۔ ان میں سے پہلا شخص ایسا ہوگا جو کہ شہید ہوگا،اللہ تعالیٰ اسے دنیا میں دی جانے والی نعمتیں گنوائے گا، شہید نعمتوں کا اقرار کرے گا، پھر اللہ تعالیٰ اس سے پوچھے گا تو نے ان سب نعمتوں کے مقابل دنیا میں میرے لیے کیا کیا؟ وہ عرض کرے گا، میں نے تیری راہ میں اپنی جان قربان کردی۔رب فرمائے گا تو جھوٹا ہے، تو نے جان اس لیے قربان کی کہ لوگ تجھے بہادر اور شہید کہیں، تو شہید کہلا چکا۔ فرشتو! لے جاؤ اسے اور ڈال دو جہنم میں، فرشتے اسے گھسیٹتے ہوئے لے جائیں گے اور اسے جہنم میں ڈال دیں گے۔ پھر ایک دوسرا شخص رب کی بارگاہ میں حاضر ہوگا جو عالم و قاری ہوگا، رب تعالیٰ اسے بھی دنیا میں دی گئی نعمتیں گنوائے گا، وہ ان نعمتوں کا اقرار کرے گا۔ (صحیح مسلم) پھر رب تعالیٰ اس سے پوچھے گا کہ تو نے ان نعمتوں کے مقابل دنیا میں میرے لیے کیا کیا؟ وہ عرض کرے گا میں نے علم سیکھا اور سکھایا، قرآن پاک پڑھا اور پڑھایا۔ رب تعالیٰ فرمائے گا تو نے علم سیکھا اور سکھایا اس غرض سے کہ عالم کہلایا جائے، قرآن پاک اس لیے پڑھا اور پڑھایا کہ قاری کہلایا جائے، تو دنیا میں تو کہلا چکا۔ فرشتو! لے جاؤ اسے اور ڈال دو جہنم میں۔ فرشتے اسے گھسیٹتے ہوئے لے جائیں گے اور اسے جہنم میں ڈال دیں گے۔پھر آخر میں ایک سخی، رب کی بارگاہ میں حاضر ہوگا۔ اللہ تعالیٰ اسے بھی دنیا میں دی جانے والی نعمتیں یاد دلوائے گا۔ وہ نعمتوں کا اقرار کرے گا، پھر رب فرمائے گا کہ تو نے ان نعمتوں کے مقابل دنیا میں میرے لیے کیا کیا؟ وہ عرض کرے گا، اے رب! میں نے اپنی ساری دولت تیری مخلوق پر لٹا دی۔ رب تعالیٰ فرمائے گا تو جھوٹا ہے، تو نے دولت اس لیے خرچ کی کہ لوگ تجھے سخی کہیں، تو دنیا میں سخی کہلا چکا۔ فرشتو لے جاؤ،اس سخی کو اور ڈال دو جہنم میں۔ فرشتے اسے گھسیٹتے ہوئے لے جائیں گے اور جہنم میں ڈال دیں گے’’۔
اس طویل حدیث سے یہ ثابت ہوا کہ عبادت وہی قابل قبول ہے جو خالصتاً اللہ عزوجل کی خوشنودی اور اس کی رضا کے لیے کی جائے،جب کہ ایسی عبادت جو اللہ کے بجائے کسی اور کو دکھانے کے لیے کی جائے، وہ خواہ کوئی بھی کرے،جہنم کا ایندھن ثابت ہوگی۔ (مسلم شریف)رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا ‘‘میں تمہارے بارے میں سب سے زیادہ ‘‘شرک اصغر’’ سے ڈرتا ہوں۔ صحابہ کرامؓ نے دریافت کیا یا رسول اللہﷺ!شرک اصغر کیا ہے؟ آپ ﷺنے فرمایا ریا کاری’’(مسند احمد) ایک اور روایت میں رسول اللہﷺنے اپنی اُمت کے بارے میں شرک کا خوف ظاہر فرمایا۔ دریافت کیا گیا کہ کیا آپ ﷺکے بعد آپ ﷺکی اُمت شرک میں مبتلا ہوجائیگی؟ آپﷺ نے ارشاد فرمایا: ہاں! پھر یہ وضاحت فرمائی کہ وہ لوگ چاند سورج کی پتھر اور بتوں کی پرستش نہیں کریں گے، لیکن ریا کاری کریں گے اور لوگوں کو دکھانے کیلئے نیک کام کریں گے۔ (تفسیر ابن کثیر)حضرت ابو سعید خدریؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: کیا تمہیں وہ چیز نہ بتادوں جو میرے نزدیک تمہارے لئے دجال سے (یعنی دجال کے فتنے سے) بھی زیادہ خطرناک ہے؟ عرض کیاگیا، یا رسول اللہﷺ ضرور بتائیں، آپ ﷺنے ارشاد فرمایا: ‘‘شرک ِخفی (یعنی پوشیدہ شرک اس کی ایک صورت) یہ کہ آدمی کھڑا نماز پڑھ رہا ہو، پھر اس بنائپر اپنی نمازکو مزین کردے کہ کوئی آدمی اسے دیکھ رہا ہے۔’’(ابن ماجہ)رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا ‘‘جس نے دکھاوے کے لئے نماز پڑھی، اس نے شرک کیا، جس نے دکھاوے کے لئے روزہ رکھا،اس نے شرک کیا اور جس نے دکھاوے کے لئے صدقہ کیا اس نے شرک کیا’’(جامع العلوم والحکم)حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے،رسول اللہﷺکا ارشادِ گرامی ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
‘‘میں شرک (شراکت) سے سب شرکاء سے زیادہ بے نیاز ہوں، جو کوئی ایسا عمل کرے، جس میں میرے ساتھ کسی دوسرے کو بھی شریک کرے تو میں اسے اور اس کے شرک کو چھوڑ دیتا ہوں۔’’(صحیح مسلم)کسی عمل میں دوسرے کی ذرہ برابر شرکت بھی اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں، وہ ایسے عمل کو قبول ہی نہیں فرماتا۔کوئی نیکی خالص اللہ کیلئے کرنے کے بجائے لوگوں کو دکھانے کیلئے کی جائے، اللہ کی خوشنودی کے بجائے، لوگوں کی خوشنودی یا شہرت و نمود کا جذبہ اور لوگوں میں مقام و مرتبہ پانے یا ان کے درمیان نمایاں ہونے کا جذبہ شامل ہوجائے تو یہ ریا کاری ہے جو سخت مذموم اورناپسندیدہ عمل ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں دکھاوے اور ریاکاری سے بچنے کی توفیق نصیب فرمائے۔(آمین)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: نے ارشاد فرمایا رسول اللہﷺ اللہ تعالی اور لوگوں رسول اللہ فرمائے گا کے بجائے دنیا میں ریا کاری لوگوں کو رب تعالی میں اللہ گے اور کے لئے کی رضا اور اس لیے کی
پڑھیں:
لبنان میں کون کامیاب؟ اسرائیل یا حزب اللہ
اسلام ٹائمز: اسرائیل ایک ایسے سراب کا پیچھا کر رہا ہے، جو اسے فوری عسکری حل دکھاتا ہے، مگر حقیقت میں دوررس سیاسی و سماجی نتائج کو نظر انداز کرتا ہے۔ حزبِ اللہ وقتی دھچکوں کے بعد دوبارہ منظم ہونے اور عسکری و سیاسی سطح پر خود کو برقرار رکھنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اگر امن چاہتے ہیں تو طاقت کے استعمال کی بجائے سیاسی تصورِ امن، لبنانی خود مختاری اور بین الاقوامی معاونت (اقتصادی و سیاسی) کو اولین ترجیح دی جانی چاہیئے۔ اس تمام تر صورتحال کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ اور اسرائیل نے اربوں ڈالرز خرچ کرنے کے بعد بھی لبنان میں کچھ حاصل نہیں کیا، سوائے اس کے کہ عمارتوں کو تباہ کیا، شخصیات کو قتل کیا، لیکن فتح آج بھی حزب اللہ کی ہے، کیونکہ عقیدہ اور نظریہ آج بھی زندہ ہے اور پہلے سے زیادہ توانائیوں کے ساتھ میدان میں آنے کے لئے تیار ہے۔ یہی امریکہ اور اسرائیل کی شکست کا ثبوت ہے۔ تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فائونڈیشن پاکستان
لبنان پر حالیہ اسرائیلی جارحیت اور جنگ بندی معاہدے کے بعد اسرائیلی خلاف ورزیوں میں روز بروز اضافہ دیکھا جا رہا ہے، ایسے حالات میں عالمی سطح پر مبصرین کے مابین ایک سوال اہمیت اختیار کرتا جا رہا ہے کہ کیا اسرائیل کو لبنان میں کامیابی نہیں ملی۔؟ حالانکہ امریکہ اور اسرائیل نے حزب اللہ لبنان کے اہم ترین کمانڈروں اور بالخصوص سید حسن نصراللہ اور سید ہاشم صفی الدین کو قتل کرنے کے بعد پوری دنیا کو یہی تاثر دیا ہے کہ حزب اللہ کو لبنان میں ختم کر دیا گیا ہے اور اب لبنان میں حزب اللہ کمزور ہوچکی ہے۔ ایسے حالات میں پھر اسرائیل کو مسلسل جنوبی لبنان اور دیگر علاقوں پر بمباری کی کیا ضرورت ہے۔؟ اس عنوان سے اسرائیلی مبصرین بعض اوقات لبنان کی موجودہ کشیدگی کو ایک سنگین صورتحال قرار دے رہے ہیں۔ اسرائیلی مبصرین کے مطابق اسرائیل پوری کوشش کر رہا ہے کہ وہ موجودہ صورتحال کو اپنے لئے ایک موقع میں تبدیل کرے اور یہ ایک ایسا موقع ہو، جس سے حتمی طور پر حزبِ اللہ کو کمزور یا غیر مسلح کیا جاسکے۔
اس تجزیہ کی بنیاد سے لگتا ہے کہ اس سے پہلے اسرائیل اور امریکہ کے کئے گئے دعوے سب کھوکھلے اور بے بنیاد ہیں۔ موجودہ صورتحال میں لبنان کا توازن یہ بتا رہا ہے کہ حزب اللہ بھرپور عوامی حمایت کی حامل ہے اور سیاسی سطح پر بھی اچھی پوزیشن میں ہے۔ اسی صورتحال کو دیکھتے ہوئے اسرائیل کے سابق میجر جنرل تامیر ہیمن نے کہا ہے کہ اسرائیلی فوج کے جنوبی لبنان اور دیگر ملحقہ علاقوں میں فضائی حملے ایک اچھی حکمتِ عملی نہیں ہیں، کیونکہ بمباری عمارتیں تباہ کر دیتی ہے، مگر نظریات اور سیاسی سرمایہ کو نیست و نابود نہیں کرتی۔ جنرل تامیر نے تاکید کے ساتھ کہا کہ اسرائیل عمارتوں اور شخصیات کو ختم کر رہا ہے، لیکن عقائد ختم نہیں کئے جا سکتے۔ اسرائیل کے حالیہ حملے خود اس کی اپنی عارضی کمزوری کی طرف اشارہ کر رہے ہیں، جبکہ مخالف قوتوں کو منظم ہونے، تجربات سے سیکھنے اور دوبارہ تیار ہونے کا عزم حاصل ہو رہا ہے۔
اسرائیلی مبصرین کا کہنا ہے کہ حزب اللہ نے ایک بڑی جنگ کا سامنا کیا ہے اور ابھی تک اسرائیلی جارحیت کا سامنا کر رہی ہے۔ اس تمام تر صورتحال میں ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی مشاہدہ کیا جا رہا ہے کہ حزب اللہ اپنی طاقت کو منظم کر رہی ہے اور جنگ میں ہونے والے نقصانات اور جنگی تجربات سے سبق حاصل کرکے آگے کے لئے مضبوط اور موثر حکمت عملی بنانے میں مصروف ہے۔ دوسری جانب اسرائیل ہے کہ جو صرف اپنی فضائی قوت کی برتری پر لبنان کے علاقوں پر بمباری کر رہا ہے، جو اب اس کے خلاف ایک سیاسی حکمت عملی بنتی چلی جا رہی ہے۔ حالیہ دنوں میں بلیدا (Blida) پر اسرائیلی حملے اور اس کے بعد صدر جوزف عون کی فوجی ردعمل کی ہدایت نے صورتحال کو مزید گرم کر دیا ہے۔ لبنانی صدر عون نے آئندہ کسی بھی اسرائیلی دراندازی کے خلاف فوج کو کارروائی کا حکم دیا ہے۔ حزبِ اللہ اور سیاسی حلقوں نے بھی سخت موقف اپنایا ہے۔
یہ واقعہ اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ کشمکش ابھی ختم نہیں ہوئی ہے۔ نہ صرف یہیبلکہ اسرائیلی جارحیت نے لبنان کے تمام حلقوں اور گروہوں کو اتحاد کی طرف پلٹنے کا بھی ایک موقع فراہم کیا ہے۔ اسرائیلی مبصرین نے مختلف ٹی وی چینلز پر بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ میدانی رپورٹس بتاتی ہیں کہ اگرچہ حزبِ اللہ بعض علاقوں سے پیچھے ہٹ گئی تھی، لیکن وہ اپنی فوجی صلاحیتوں کو دوبارہ منظم کر رہی ہے۔ زمینی روٹس، ذخائر اور مقامی نیٹ ورکس کی بحالی کا کام بھی جاری ہے، جسے اسرائیل اور مغربی حلقے تشویش کا باعث قرار دے رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ محض فضائی بمباری سے بقاء کے مسائل حل نہیں ہوں گے۔
لبنانی حکومت اور فوج کو بین الاقوامی دباؤ کا سامنا ہے کہ وہ جنوبی علاقوں میں اسلحہ کی گزرگاہیں بند کریں یا مخصوص مقامات سے اسلحہ نکالا جائے، مگر یہ عمل داخلی سیاسی حساسیت اور وسائل کی کمی کی وجہ سے پیچیدہ ہے۔ فوج کا کردار پارٹیوں کے مابین توازن برقرار رکھنے تک محدود رہنے کا خدشہ ہے۔ لبنان کے اندرونی معاملات میں امریکی شرکت یا ساز باز کے شواہد بھی موجود ہیں، کیونکہ امریکہ اور اسرائیل جہاں ایک طرف جنگی کارروائیوں کی مدد سے حزب اللہ کو ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، وہاں ساتھ ساتھ سیاسی سطح پر مختلف سیاسی گروہوں کے ساتھ ساز باز کے ذریعے حزب اللہ کے اسلحہ کے خلاف اور سیاسی حیثیت پر بھی سوال اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن نتیجہ یہ ہے کہ دونوں میدانوں میں ان کو کامیابی حاصل ہوتی دکھائی نہیں دیتی ہے۔
امریکہ اور اسرائیل کی موجودہ حکمت عملی یہی ہے کہ وہ کسی بھی طرح لبنان کو اندر سے کمزور کر دیں۔ اگر اسرائیل براہِ راست حزبِ اللہ کو عسکری طور پر ختم نہیں کرسکتا تو بعض مبصرین کہتے ہیں کہ وہ اب سیاسی اور سماجی انتشار پیدا کرکے لبنان کو اندر سے کمزور کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ لبنانی فوج کو الجھانا، معاشرتی تقسیم کو ہوا دینا اور بیرونی شراکت داری کے ذریعے مقامی تنازعات کو گرم رکھنا۔ یہ حکمتِ عملی خطرناک اور غیر مستحکم ہے، کیونکہ اس کے طویل مدتی نتائج پورے خطے میں تباہ کن ہوسکتے ہیں۔ کسی بھی مسئلہ کے حل کے لئے لمبے عرصے کے لیے امن سیاسی حل، اعتماد سازی اور معاشی استحکام کے منصوبوں کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتا۔ فضائی مہمات اور بار بار کے حملے وقتی فتح دکھا سکتے ہیں، مگر وہ تنازعے کے بنیادی اسباب قبضہ، سلامتی کے توازن اور علاقائی مداخلت کو حل نہیں کرتے۔ بین الاقوامی اداروں کو فوجی دباؤ کے بجائے بحالی، ڈپلومیسی اور واضح سیاسی ڈھانچے کی حمایت پر زور دینا چاہیئے۔
خلاصہ یہ کہ اسرائیل ایک ایسے سراب کا پیچھا کر رہا ہے، جو اسے فوری عسکری حل دکھاتا ہے، مگر حقیقت میں دوررس سیاسی و سماجی نتائج کو نظر انداز کرتا ہے۔ حزبِ اللہ وقتی دھچکوں کے بعد دوبارہ منظم ہونے اور عسکری و سیاسی سطح پر خود کو برقرار رکھنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اگر امن چاہتے ہیں تو طاقت کے استعمال کی بجائے سیاسی تصورِ امن، لبنانی خود مختاری اور بین الاقوامی معاونت (اقتصادی و سیاسی) کو اولین ترجیح دی جانی چاہیئے۔ اس تمام تر صورتحال کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ اور اسرائیل نے اربوں ڈالرز خرچ کرنے کے بعد بھی لبنان میں کچھ حاصل نہیں کیا، سوائے اس کے کہ عمارتوں کو تباہ کیا، شخصیات کو قتل کیا، لیکن فتح آج بھی حزب اللہ کی ہے، کیونکہ عقیدہ اور نظریہ آج بھی زندہ ہے اور پہلے سے زیادہ توانائیوں کے ساتھ میدان میں آنے کے لئے تیار ہے۔ یہی امریکہ اور اسرائیل کی شکست کا ثبوت ہے۔