Express News:
2025-06-18@11:55:37 GMT

ہندوستان اور پاکستان تاریخ کے تناظر میں

اشاعت کی تاریخ: 18th, January 2025 GMT

کچھ دن قبل ہندوستانی فوج کے سربراہ نے یہ بیان دیا کہ پاکستان دہشت گردوں کی پشت پناہی کر رہا ہے۔ایسابیان کسی اہم بھارتی عہدیدار نے بہت عرصے بعد جاری کیا ہے لیکن امریکا میں نئی انتظامیہ آرہی ہے؟ اس موقع پرایسا بیان جاری کرنے کا مطلب ہے کہ ہندوستان، پاکستان کے خلاف شدید پروپیگنڈا جاری رکھے گا۔

میرا عوامی لیگ بنگلہ دیش سے گہرا تعلق ہے مگر انتہائی ادب کے ساتھ میں یہ کہتا ہوں کہ بنگلہ دیش میں پچھلے ادوار میں عوامی لیگ نے جس طرح سے 1971 کے بیانیے کو ابھارا تھا، اس سے پاکستان اور بنگلہ دیش کے تعلقات بہتر نہیں ہو پا رہے تھے۔

اس بات کا ذکر میں ہمیشہ وہاں کے عوامی لیگی کے دوستوں سے کرتا رہا، مگر میری کہی بات نگار خانے میں طوطی کی آواز جیسی تھی اور آج ملاحظہ کیجیے کہ پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان تعلقات بہتر ہو رہے ہیں اور یہ بہتری ہندوستان کو ناگوارگزر رہی ہے۔

پاکستان کی تاریخ ہمارے لیے بہت بڑا سبق ہے، اگر ہم کچھ اپنی کوتاہیوں سے سیکھنا چاہیں۔ نہرو کے زمانے میں ہندوستان اور پاکستان کے تعلقات اس حد تک کشیدہ نہ تھے،کل ہی کی تو بات ہے کہ ہم ایک ہی ملک تھے۔

انتہائی احترام کے ساتھ میں یہ عرض کروں کہ کانگریس میں اکثریت ضرور ہندو ممبران کی تھی مگر اس پارٹی میں مولانا آزاد جیسے مسلمان لیڈر بھی تھے۔ جناح 1914 سے لے کر 1920 تک کانگریس کے اتنے ہی بڑے لیڈر تھے جتنے گاندھی۔

ہمیشہ ہندو مسلم اتحاد کی بات کرتے پھر گیارہ اگست 1947کو پاکستان کی آئین ساز اسمبلی اس بات کی گواہ ہے کہ وہ تھیوکریسی کو خیر باد کہہ چکے تھے۔یہ بات ایک حقیقت ہے کہ یہ نفرتیں جدوجہد کے وقت نہیں بلکہ قیامِ پاکستان کے بعد ہجرت کے دوران خون خرابے سے بڑھیں۔

پاکستان خصوصاً مغربی پاکستان میں مسلم لیگی قیادت کی جڑیں نہیں تھیں تو وہ یہاں کس طرح سے الیکشن کروائیں اور یہاں آئیں کیسے؟ یوں اندرونی طور پر اقتدار کی جنگ شروع ہوئی۔ لیاقت علی خان کا قتل ہوا، پہلے سول بیوروکریسی نے قبضہ جمایا، ملک نہیں چلاسکے اور پھر سات سال بعد ملٹری بیورو و کریسی اقتدار پر قبضہ کر لیا۔

ہم امریکا کی فرنٹ لائن اسٹیٹ بن گئے۔ یہ تمام حالات سرد جنگ کے پسِ منظر میں تھے۔ امریکا نے پاکستان کی اشرافیہ کے ساتھ اتحاد کیا، یہ سب کچھ انٹرنیشنل کیپٹل ازم کے مفادات کے لیے تھا، جس کے عوض یہاں کی حکمران اشرافیہ نے آمریتوں کی حمایت اور جمہوریت کا گلا کھونٹنے کا لائسنس مانگا۔

یہاں جو بھی جمہوریت کی بات کرتا ، اس پر غداری کا ٹھپہ لگا دیا جاتا۔ ہم نے فاطمہ جناح کو بھی اس الزام سے معاف نہ کیا۔ بائیں بازو کی سیاست کرنے والوں کو یہاں روند دیا گیا۔ ون یونٹ بنایا گیا، زبان، ثقافت اور تہذیبوں کو یہاں کچلا گیا۔

غزنوی ، غوری، خلجی، ابدالی، ترخانوں، ارغونوں اور عربوں کو ہمارا ہیرو بنایا گیا۔ غرض جو ہم نے کرنا تھا وہ تو ہم نے کیا ہی مگر ہمارے خطے کی ساری تاریخ کو ہندوستان کے حوالے کردیا گیا، یہاں شفاف انتخابات تو کرائے گئے مگر اس کے نتائج کو نہیں مانا گیا۔

نتیجہ یہ نکلا کہ ملک دو لخت ہوا، ذوالفقار علی بھٹو نے ملک کی باگ ڈور سنبھالی، پھر ان کو تختہ دار پر لٹکایا گیا۔ ملک کی باگ ڈور جنرل ضیاء کے حوالے کردی گئی۔ سوویت یونین افغانستان پر قابض ہوگیا۔ ہماری حکمران اشرافیہ اور افغانستان کے ملاؤں کے وارے نیارے ہوگئے جب کہ نام نہاد لبرل افغان اشرافیہ نے امریکا، مغربی یورپ ، عرب ممالک سے بطور خیرات اور امداد ملنے والے اربوں کھربوں ڈالر ہڑپ کیے۔

بہرحال پاکستان میں بابوؤں نے 1947 کے بعد قراردادِ مقاصد پاس کر کے قائد اعظم کے نظریات سے انحراف کیا، ملک کو مذہبی ریاست بنانے کی بات کی گئی۔ اس بات کو جنرل ایوب نے ضرور نظر انداز کیا مگر تھے وہ آمر۔ اس لیے وہ مذہبی رواداری کی بنیادیں مضبوط نہ کر پائے۔

جنرل ضیاء نے اس ملک کو بالکل اپنی طرز پر چلایا۔ افغانستان، افغان مہاجرین اور پاکستان کے درمیان سرحدیں نہ رہیں، اسمگلنگ، منشیات کا کاروبار اور غیر قانونی اسلحے کا کاروبار پروان چڑھا۔ جنرل ایوب کے زمانوں میں پاکستان کا دارالخلافہ منتقل کیا گیا لیکن سیاست کا اصل مرکز کراچی ہی رہا۔ معاشی اعتبار سے بھی کراچی پاکستان کا محور تھا پھر وقت کے ساتھ اس کی حیثیت میں بھی کمی آئی۔

ایسا بھی ہوا کہ جنھوں نے پاکستان بنایا، آزاد کروایا وہ خود اپنی شناخت ڈھونڈ رہے تھے، جن کو ان ز مانوں کی اسٹبلشمنٹ نے جمہوریت کے خلاف استعمال کیا، جو ماضی میں فاطمہ جناح کے ساتھ تھے وہ آج الگ تھے۔ آج ہم 2025 میں کھڑے ہیں۔

آج ہم نے معجزانہ طور پر پاکستان کو کمزور کرنے کی سازشوں کو ختم کیا اور ان لوگوں کے مدمقابل ڈٹے رہے جن میں زلمے خلیل زاد جیسے سامراجی ایجنٹ شامل تھے۔ مودی کی سازشی سوچ تھی، طالبان میں ان کی سرمایہ کاری تھی اور جو لوگ اس سرزمین سے طالبان کو ہینڈل کرتے تھے وہ بھی ان سازشوں کا حصہ تھے۔

اس وقت پاکستان کو ایک اور موقع ملا ہے اپنی ساخت اور اپنی تاریخ کو سمجھنے کا۔ اپنی سمت کو درست کرنے کا۔ ریاست کی حیثیت کیا ہے؟ اس کا زاویہ کیا ہونا چاہیے؟ وفاق کے صحیح معنی کیا ہیں اور وفاق کو کیسے چلانا چاہیے؟ یہ بڑے نازک مرحلے ہیں۔ اس ریاست میں پختون نوجوان ایک سوالیہ نشان ہے؟ بلوچستان کا نوجوان سوالیہ نشان ہے؟ سندھ کے اندر چولستان کے حوالے سے کینالوں کا مسئلہ ایک نئی سوچ اور نظریے کو جنم دے رہا ہے۔

ان تمام مسائل میں ایک حوصلہ افزاء بات یہ ہے کہ ورلڈ بینک پاکستان کو بیس ارب ڈالر گرانٹ کرنے جا رہا ہے، جو آیندہ دس سالوں میں مختلف منصوبوں پر خرچ کیے جائیں گے۔ ان گرانٹس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ جو سازشیں بین الاقوامی طور پر پاکستان کے خلاف رچائی گئی تھیں وہ ناکام ہوگئیں۔

مودی صاحب کی پالیسی بھی ناکام رہی کیونکہ اب وہ مزید اپنی قوم کو گمراہ نہیں کرسکتے۔ اب ہمیں بھی اقلیتوں کے خلاف تمام سازشوں کو ناکام بنانا ہے۔ ہندوستان کی تاریخ مشترکہ طور پر ہماری بھی تاریخ ہے۔ ہندوستان صرف مودی اور بی جے پی کا نہیں ہے، ہندوستان کانگریس ، بہوجن سماج وادی اور دیگر سیکولر جماعتیں، سیاستدان اور اروندھتی رائے جیسے لوگوں کا بھی ہے۔

پاکستان میں صوبائی اور مذہبی رواداری اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ یہاں صوبوں میں تکرار نہیں بلکہ وہ صوبے وفاق سے نالاں ہیں کہ صوبوں کے نوجوانوں کی سنوائی ہو، ان کے مسائل کو سنا جائے۔

احتجاج، ان کا بنیادی حق ہے۔ہم نے جھوٹ پر مبنی اور اپنی تاریخ کو مسخ کر کے جو بیانیہ بنایا اس نے ہمیں اندر سے کمزورکیا۔ اب ضرورت ہے اپنی حقیقی تاریخ کو اجاگر کرنے کی۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں ایک مخصوص مائنڈ سیٹ کی اشرافیہ نے جو بیج بوئے تھے، آج ریاست ان کے خلاف نبرد آزما ہے۔ ان حالات کو ایک رات میں ختم نہیں کیا جاسکتا۔ ان بیجوں کو جڑوں سے نکالنا ہوگا۔ ان سے مقابلہ کرنے کے لیے ایک بھرپور حکمتِ عملی کی ضرورت ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ ان کو سیاسی انداز میں نمٹا جا سکتا ہے۔

آج پاکستان ، مضبوطی اور رواداری کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے اور اس پاکستان کے ساتھ یقیناً دنیا مطمئن ہوگی۔ پاکستان اس وقت تاریخ کی درست سمت پر ہے، لہٰذا ضرور اس کی منزل آسان ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: پاکستان کے بنگلہ دیش تاریخ کو کے ساتھ کے خلاف ساتھ ا رہا ہے

پڑھیں:

تاریخ اور تلخیاں

تاریخ اور تلخیاں WhatsAppFacebookTwitter 0 18 June, 2025 سب نیوز

تحریر: عاصم قدیر رانا

: ’’روزویلٹ ہوٹل کی فروخت: تاریخی ورثہ یا قومی بے نیازی؟‘‘

نیویارک کے قلب میں واقع “روزویلٹ ہوٹل” پاکستان کا نہ صرف ایک قیمتی غیر ملکی اثاثہ ہے بلکہ قومی وقار، تاریخ اور سفارتی وجود کی جیتی جاگتی علامت بھی ہے۔ آج جب پاکستان شدید مالی دباؤ، قرضوں کی بھرمار اور زرمبادلہ کی قلت جیسے سنگین مسائل سے دوچار ہے، تو حکومت کی جانب سے اس قیمتی اثاثے کی فروخت یا نجکاری پر غور کیا جا رہا ہے۔

لیکن سوال یہ ہے کہ کیا روزویلٹ صرف ایک عمارت ہے؟ یا یہ وہ تاریخی حوالہ ہے جس سے ہماری سفارتی موجودگی، معاشی حکمت عملی اور قومی خودی جڑی ہے؟

روزویلٹ ہوٹل: ایک تاریخی جھلک
• قیام: 1924 میں قائم ہوا، مین ہیٹن کی 45ویں اسٹریٹ اور میڈیسن ایوینیو پر واقع
• پاکستانی ملکیت: پی آئی اے نے 1979 میں مکمل طور پر خرید لیا۔ اس وقت اس کی مالیت تقریباً $35 ملین تھی
• کمروں کی تعداد: 1,015
• قومی سرمایہ کاری: اس ہوٹل کو خریدنا اُس وقت ایک قابل فخر قومی فیصلہ سمجھا گیا، جس نے پاکستان کو نیویارک کے معاشی اور سفارتی مرکز میں ایک مستقل وجود عطا کیا

سیاسی شخصیات کا قیام: یادگار لمحات

روزویلٹ ہوٹل کی راہداریوں نے پاکستان کے کئی اہم ترین سیاسی اور عسکری رہنماؤں کے قدموں کے نشان محفوظ رکھے ہیں:
• ذوالفقار علی بھٹو: اقوام متحدہ میں خطاب کے دوران یہی ہوٹل ان کی قیام گاہ تھا، اور بعض تاریخی سفارتی ملاقاتیں یہیں ہوئیں
• محترمہ بینظیر بھٹو: نیویارک میں خواتین کانفرنسوں اور عالمی اجلاسوں کے دوران انہوں نے یہاں قیام کیا
• نواز شریف: اپنے دورِ حکومت میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے دوران ہمیشہ روزویلٹ کو قیام کے لیے منتخب کیا
• جنرل پرویز مشرف: بطور صدر کئی بار روزویلٹ ہوٹل سے اقوام متحدہ گئے، کئی عالمی صحافیوں کو انٹرویوز بھی اسی ہوٹل میں دیے
• عمران خان: بطور وزیر اعظم 2019 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں شرکت کے دوران بھی روزویلٹ میں قیام کیا، اور ان کے اسٹے کو میڈیا نے نمایاں کوریج دی
• وزرائے خارجہ، دفاعی وفود، سفارتی مشن: ہر سال سینکڑوں حکومتی اور ریاستی شخصیات اسی ہوٹل کو سرکاری طور پر استعمال کرتی رہیں

کرایہ، آمدنی اور حالیہ لیز معاہدہ
• 2020 میں بند: کورونا وبا کے باعث مستقل آپریشنز بند کر دیے گئے
• 2023 سے کرایہ پر اقوام متحدہ مشن کو لیز:
• مدت: کم از کم 3 سال (2023-2026)
• ماہانہ آمدنی: تقریباً $2 ملین
• کل آمدنی: متوقع $36-40 ملین
• منافع: اخراجات نکال کر بھی اچھی خاصی خالص آمدنی حاصل ہو رہی ہے

فروخت یا خودکفالت؟

حکومت پاکستان کا مؤقف ہے کہ ہوٹل کی ری اسٹرکچرنگ کے لیے بھاری سرمایہ درکار ہے جو موجودہ مالی حالات میں ممکن نہیں۔ اسی بنا پر نجکاری یا جزوی فروخت کے آپشن پر غور ہو رہا ہے۔

لیکن سوال یہ ہے:

کیا حکومت نے کبھی سنجیدگی سے روزویلٹ کو دوبارہ فعال کرنے کے لیے کاروباری ماڈل پیش کیا؟ کیا روزویلٹ کو مقامی یا عالمی کمپنی کے ساتھ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ میں دینے کی کوشش کی گئی؟ کیا پاکستانی ڈاسپورا کو اس اثاثے کے تحفظ میں شامل کیا گیا؟

ممکنہ فروخت کے نقصانات
• قومی وقار میں کمی: نیویارک میں پاکستانی پرچم کی موجودگی ختم ہو جائے گی
• مستقل آمدنی کا ذریعہ ختم: فوری رقم تو حاصل ہوگی، لیکن مستقل آمدنی کا سلسلہ بند
• سیاسی دباؤ: یہ تاثر ابھرے گا کہ پاکستان اپنی مالی نااہلی کے سبب اپنے اثاثے بیچنے پر مجبور ہے
• حکومتی کاروباری ناکامی کا اعتراف: یہ فروخت ریاستی انتظامی نااہلی کا ثبوت بنے گی

متبادل حل: فروخت کے بغیر آمدنی
• ری نوویشن اور ریلانچ: بین الاقوامی ہوٹل چینز (مثلاً Marriott, Hilton) سے شراکت
• سفارتی مرکز: اسے مستقل پاکستانی سفارتی و کلچرل سینٹر میں تبدیل کیا جا سکتا ہے
• ڈائسپورا انویسٹمنٹ بانڈز: بیرون ملک پاکستانیوں سے اس ہوٹل کی بحالی کے لیے بانڈز کے ذریعے سرمایہ حاصل کیا جا سکتا ہے
• ٹریڈ اینڈ بزنس سینٹر: اسے پاکستانی برآمدات، اسٹارٹ اپس اور انویسٹمنٹ پروموشن کے مرکز کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے
روزویلٹ ہوٹل صرف اینٹوں، کمروں اور کرایے کی ایک عمارت نہیں، یہ پاکستانی خودمختاری، وقار اور ریاستی سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔ اس کی فروخت فوری فائدہ تو دے سکتی ہے، مگر طویل المیعاد قومی مفادات کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ شارٹ ٹرم فائدوں کے بجائے قومی تشخص اور مالی خود کفالت پر مبنی طویل مدتی حکمت عملی اپنائے۔

ہمیں وہ قیادت درکار ہے جو اثاثے بیچے نہیں، انہیں بہتر انداز میں چلا کر اگلی نسلوں کے لیے محفوظ بنائے

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرمودی نے ٹرمپ سے کہا ہے بھارت پاکستان سے تنازع پر کبھی ثالثی قبول نہیں کریگا، وکرم مسری دو تنازعات، ایک ایجنڈا: مسلم خودمختاری پر مشترکہ جارحیت مذہبی جنونی رہبر دنیا کے امن کیلئے سنگین خطرہ بن گئے انصاف خطرے میں،اسرائیل کی غزہ میں نسل کشی اور ایران پر جارحیت عالمی قانونی اقدامات کی متقاضی ہے ٹیکنالوجی جنگیں جیتتی ہے، انسانیت جانیں ہارتی ہے مسلم دنیا پر مربوط جارحیت عبدالرحمان پیشاوری__ ’عجب چیز ہے لذتِ آشنائی‘ TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم

متعلقہ مضامین

  • آن لائن ٹیکسی سروس کا پاکستان میں اپنی سروس بند کرنے کا اعلان
  • ’اوبر‘ کے بعد مقبول ترین رائیڈنگ سروس نے پاکستان میں کاروبار بند کردیا
  • تاریخ کی کروٹ،وقت کی کڑواہٹ
  • تاریخ اور تلخیاں
  • ایس آئی ایف سی کے دو سال: معاشی استحکام، سرمایہ کاری اور اصلاحات کی نئی تاریخ رقم
  • جنگ مذاق نہیں‘ ہمارا نیوکلیئر اور میزائل پروگرام اپنی حفاظت کے لیے ہے‘ اسحاق ڈار
  • ٹرمپ نے اپنی ٹیم کو ایرانی حکام سے فوری ملاقات کرنے کا  کہہ دیا
  • ارشد ندیم کو فوربز کا عالمی اعزاز، 30 سال بعد پاکستان کی تاریخ رقم
  • تیسری عالمی جنگ کےسائے
  • ملکی سا لمیت پر مزدور کی آواز