Jasarat News:
2025-11-10@21:04:59 GMT

ایک اور متنازع فیصلہ؟

اشاعت کی تاریخ: 19th, January 2025 GMT

ایک اور متنازع فیصلہ؟

پاکستان کی تاریخ میں عدلیہ نے متعدد بار سیاسی شخصیات اور جماعتوں کے خلاف فیصلے سنائے ہیں، جن کا اثر نہ صرف ملک کی سیاست پر پڑا، بلکہ ان فیصلوں نے سماجی اور معاشی سطح پر بھی مشکلات پیدا کی ہیں، اور یہی وجہ ہے کہ پاکستان اس وقت بدترین صورتِ حال سے دوچار ہے، کیونکہ ان فیصلوں کی بنیادیں قانون کے بجائے سیاست پر زیادہ استوار ہوتی ہیں۔ ایسا ہی ایک تازہ فیصلہ 190 ملین پائونڈ ریفرنس کے حوالے سے سامنے آیا ہے، جس میں بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی کو کرپشن اور بدعنوانی کے الزامات میں قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ راولپنڈی کی احتساب عدالت نے بانی پی ٹی آئی کو 14 سال اور بشریٰ بی بی کو 7 سال قید کی سزا دی، ساتھ ہی ان پر جرمانے بھی عائد کیے گئے۔ تاہم یہ فیصلہ بھی عوامی سطح پر مختلف سوالات کا سامنا کر رہا ہے کیونکہ اس کے پیچھے کوئی ٹھوس قانونی بنیاد دکھائی نہیں دیتی۔ اسی پس منظر میں عمران خان نے اپنے کارکنوں سے کہا کہ سب سے پہلے تو آپ نے گھبرانا نہیں ہے۔ میں اس آمریت کو کبھی تسلیم نہیں کروں گا اور اس آمریت کے خلاف جدوجہد میں مجھے جتنی دیر بھی جیل کی کال کوٹھری میں رہنا پڑا، رہوں گا۔ عمران خان نے القادر یونیورسٹی کو ایک فلاحی منصوبہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس کا مقصد طلبہ کو سیرت النبی کی تعلیم فراہم کرنا تھا، اور اس میں انہیں یا بشریٰ بی بی کو کوئی مالی فائدہ نہیں پہنچا۔ انہوں نے الزام لگایا کہ عدالتی فیصلے پہلے سے طے شدہ اور میڈیا پر لیک ہوچکے تھے، اور ان کی اہلیہ کو نشانہ بنانے کا مقصد انہیں تکلیف پہنچانا ہے۔ سابق وزیراعظم نے کہا کہ حکومت جوڈیشل کمیشن کے قیام سے جان بوجھ کر گریز کررہی ہے کیونکہ بددیانت عناصر نیوٹرل امپائرز کو قبول نہیں کرتے۔

پاکستان کی عدلیہ کا یہ رجحان کوئی نیا نہیں۔ ماضی میں بھی عدلیہ کے فیصلوں نے سیاسی منظرنامے کو تبدیل کیا، چاہے وہ ذوالفقار علی بھٹو کے دور کے فیصلے ہوں، جنرل پرویز مشرف کے دور میں آئین میں ترامیم کے فیصلے، یا موجودہ حکومتی جماعتوں اور شخصیات کے خلاف مقدمات۔ اکثر اوقات ان فیصلوں کا مقصد سیاسی فائدہ یا نقصان پہنچانا ہوتا ہے، نہ کہ قانون کی حکمرانی کو فروغ دینا۔

پاکستان کی سیاست میں 1990 کی دہائی میں کئی ایسے فیصلے سامنے آئے جن سے آج کے سیاسی حکمران اس وقت عتاب کا شکار تھے اور کھیل وہی اصل طاقت کا رچایا تھا جو آج بھی جاری ہے۔ اِس وقت نواز خاندان اور بھٹو خاندان آج کسی کے اشارے پر جو کچھ کررہے ہیں، ماضی میں ان کے خلاف مقدمات قائم کیے گئے۔ مثال کے طور پر بے نظیر بھٹو اور نوازشریف کے خلاف احتساب کے معاملے میں کئی فیصلے آئے، مگر ان میں سے اکثر فیصلے عدالتوں میں بے نتیجہ ثابت ہوئے یا ان کو کسی نہ کسی سیاسی اثرات کا سامنا رہا۔ ان مقدمات میں طاقتور سیاسی شخصیات کے خلاف الزامات تو لگائے گئے لیکن قانونی طور پر ان کا کوئی بڑا نتیجہ نہیں نکلا۔ بدقسمتی سے وطن ِ عزیز میں اس طرح کے سیاسی فیصلوں کا اکثر کوئی خاطر خواہ قانونی نتیجہ نہیں نکلتا کیونکہ یہ مقدمات سیاسی ماحول سے جڑے ہوتے ہیں اور ان میں قانونی کمزوریاں اور سیاسی اثرات نمایاں ہوتے ہیں۔ ان فیصلوں میں ٹھوس شواہد یا مضبوط قانونی بنیاد کی کمی ہوتی ہے، جو کہ ان کے اصل مقصد کو مشکوک بناتی ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں بھی کئی سیاسی فیصلے سامنے آئے، جن میں اہم فیصلے عدالت عظمیٰ کی طرف سے کیے گئے تھے، جنہیںآئینی ترمیم کیسز جیسے معاملات کہا جاتا تھا۔ ان میں کئی فیصلے سیاسی نوعیت کے تھے اور ان پر عوامی رد عمل تھا۔ ان فیصلوں کا شکار لوگوں میں سے آج کئی لوگ حکمران بنے ہوئے ہیں۔ یہ ایک مذاق ہے جو بار بار ہوتا ہے۔ لہٰذا ان فیصلوں کا عمومی طور پر نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ وقتی طور پر سیاسی فائدہ تو دیتے ہیں لیکن دیرپا نہیں ہوتے۔ ان فیصلوں کا مقصد ہمیشہ کسی خاص سیاسی جماعت یا شخص کے خلاف عوامی رائے بنانے کی کوشش ہوتی ہے جو کہ اکثر کامیاب نہیں ہوپاتی۔ ہم نے ہمیشہ یہی دیکھا کہ جب کسی سیاست دان کو اسٹیبلشمنٹ نے نشانہ بنایا ہے وہ اگر کرپٹ یا بددیانت بھی ہو اور اسکرپٹ میں حقائق بھی ہوں تو مضحکہ خیزانداز اپنا کر اس کو ہیرو بنادیا جاتا ہے، اس طرح وہ کچھ عرصے کے بعد پہلے سے زیادہ مقبول بن جاتا ہے۔

اب تک یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ پاکستان کی عدلیہ سیاسی دبائو سے آزاد ہے یا نہیں۔ عدلیہ اور ماتحت عدالتوں کی جانب سے ایسے فیصلے عوام کے اندر بداعتمادی پیدا کرتے ہیں اور ایک ایسے معاشی اور سیاسی بحران کو جنم دیتے ہیں جس کا خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑتا ہے۔ عوام یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ اگر عدالتیں کسی خاص سیاسی جماعت یا فرد کے خلاف فیصلہ دیتی ہیں تو کیا وہ واقعی مبنی بر انصاف عمل کررہی ہوتی ہیں یا صرف طاقتور ادارے کے مفادات کی تکمیل؟ بدقسمتی سے وطن ِ عزیز کی تاریخ میں ایسے فیصلوں کی تعداد زیادہ رہی ہے جنہوں نے صرف سیاسی شعبدہ بازی کو فروغ دیا اور عوامی مفاد کو نظرانداز کیا، اور یہ کھیل تماشا جاری ہے۔ انصاف کسی بھی معاشرتی یا سیاسی نظام کی بنیاد ہے۔ جب انصاف کا نظام مضبوط اور شفاف ہوتا ہے تو یہ نہ صرف فرد کے حقوق کی حفاظت کرتا ہے بلکہ ریاست کے استحکام کو بھی یقینی بناتا ہے۔ انصاف کے بغیر نہ صرف فرد کی آزادی اور حقوق کو خطرہ لاحق ہوتا ہے، بلکہ ریاستی ڈھانچے کا توازن بھی بگڑ جاتا ہے۔

سیاسی نوعیت کے فیصلے عدلیہ کی خودمختاری کو متاثر کرتے ہیں اور ایک نہ ختم ہونے والا بحران جنم لیتا ہے۔ پاکستان میں سیاسی بحران کی گہرائی اور انتشار کے اس دور میں اب اس کیس میں آگے اعلیٰ عدلیہ کا کردار غیر معمولی اہمیت اختیار کرچکا ہے۔ انصاف کا تقاضا ہے کہ عدالتیں آئین و قانون کی روشنی میں فیصلے کریں، نہ کہ سیاسی دبائو یا مصلحتوں کے تحت۔ ہماری موجودہ سیاسی، معاشی اور سماجی صورتِ حال اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ عدلیہ کو ایک غیرجانب دار ادارہ بنانے کی ضرورت ہے، جو صرف اور صرف قانون کی حکمرانی پر یقین رکھتا ہو۔ موجودہ حالات میں ضروری ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں ذاتی مفادات سے بالاتر ہوکر پاکستان کے استحکام اور عوام کی بھلائی کو مدنظر رکھیں۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو یہ اسٹیبلشمنٹ کی چکی، جس میں آج کوئی اور پس رہا ہے، کل خود آج کی حکمران جماعتوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔ انصاف اور تدبر سے عاری فیصلے ہمیشہ ایسا خلا پیدا کرتے ہیں جو قوموں کے وجود کو خطرے میں ڈال دیتا ہے۔ قوم پریشان اور بدحال ہے، پاکستان کے ساتھ کھلواڑ کرنے والوں کو اس بات کو سمجھنا ہوگا کہ پاکستان کا گھیرا تنگ ہورہا ہے، یہ وقت ہے کہ تمام فریق مل کر پاکستان کے مستقبل کے لیے سنجیدہ اور دیرپا اقدامات کریں۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: ان فیصلوں کا پاکستان کی کا مقصد کے خلاف ہوتا ہے اور ان

پڑھیں:

27ویں آئینی ترمیم: جسٹس منصور علی شاہ کا چیف جسٹس کو خط

سپریم کورٹ کے جج جسٹس منصور علی شاہ نے 27ویں آئینی ترمیم کے معاملے پر چیف جسٹس آف پاکستان کو خط لکھ دیا ہے جس میں انہوں نے عدلیہ کے ڈھانچے میں مجوزہ تبدیلیوں پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: 27ویں ترمیم، آئینی عدالت کے قیام سے متعلق اہم نکات سامنے آگئے

جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے خط میں چیف جسٹس سے بطور عدلیہ سربراہ فوری طور پر ایگزیکٹو سے رابطہ کرنے کی درخواست کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ آئینی عدالتوں کے ججز سے مشاورت کے بغیر اس نوعیت کی ترمیم نہیں کی جا سکتی۔

عدالتی ججز کا کنونشن بلانے کی تجویز

خط میں کہا گیا ہے کہ عدلیہ کے ججز پر مشتمل ایک کنونشن بھی بلایا جا سکتا ہے تاکہ مجوزہ ترامیم پر مشترکہ مؤقف تشکیل دیا جا سکے۔ انہوں نے لکھا کہ چیف جسٹس نہ صرف اس ادارے کے ایڈمنسٹریٹر ہیں بلکہ اس کے گارڈین بھی ہیں اور یہ لمحہ ان سے لیڈرشپ کا تقاضا کرتا ہے۔

سپریم کورٹ کے اختیارات محدود کرنے کی کوشش

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ 27ویں آئینی ترمیم میں ایک علیحدہ وفاقی آئینی عدالت کے قیام کی تجویز شامل ہے جبکہ سپریم کورٹ کو محض ایک اپیلٹ باڈی کے طور پر محدود کرنے کا ارادہ ظاہر کیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سینیئر وکیل فیصل صدیقی کا چیف جسٹس کو خط، 27ویں آئینی ترمیم پر تحفظات کا اظہار

ان کے مطابق عدلیہ کے ڈھانچے میں تبدیلی ایگزیکٹو یا مقننہ کی طرف سے یکطرفہ طور پر نہیں کی جاسکتی۔

26ویں ترمیم زیرِ التواء، نئی ترمیم غیرمناسب قرار

انہوں نے نشاندہی کی کہ 26ویں آئینی ترمیم پہلے ہی عدالت میں زیر التوا ہے، لہٰذا اس کے فیصلے سے قبل نئی ترمیم لانا آئینی اور قانونی لحاظ سے مناسب نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پچھلی ترمیم کی قانونی حیثیت بھی ابھی طے نہیں ہوئی، اس لیے ایک اور ترمیم کا اقدام درست نہیں۔

اعلیٰ عدلیہ سے مشاورت نہ ہونے پر اعتراض

خط میں مزید کہا گیا ہے کہ اس ترمیم پر اعلیٰ عدلیہ سے کوئی مشاورت نہیں کی گئی، حالانکہ دنیا کے تمام جمہوری نظاموں میں عدلیہ سے متعلق قانون سازی سے پہلے ججز سے مشاورت کی جاتی ہے۔

وفاقی آئینی عدالت کے قیام کی دلیل پر اعتراض

جسٹس منصور علی شاہ نے وفاقی آئینی عدالت کے قیام کی مجوزہ دلیل پر بھی اعتراض کیا ہے۔ ان کے مطابق حکومت یہ مؤقف دے رہی ہے کہ اس عدالت کے قیام سے زیر التوا مقدمات میں کمی آئے گی، حالانکہ زیادہ تر زیر التوا مقدمات ضلعی عدلیہ کی سطح پر ہیں، سپریم کورٹ میں نہیں۔

یہ بھی پڑھیں: 27ویں ترمیم قانون کی حکمرانی کے لیے ضروری ہے، عطاتارڑ

’علیحدہ آئینی عدالت ناگزیر نہیں

انہوں نے لکھا کہ یہ دعویٰ درست نہیں کہ ایک علیحدہ آئینی عدالت ناگزیر ہے۔ دنیا کے کئی ترقی یافتہ ممالک جیسے امریکہ، کینیڈا، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، جاپان اور برطانیہ میں صرف ایک سپریم کورٹ ہے جو تمام آئینی معاملات سنبھالتی ہے۔

میثاقِ جمہوریت میں وقتی تجویز تھی

خط میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ میثاقِ جمہوریت میں آئینی عدالت کے قیام کی تجویز صرف چھ سال کے لیے محدود مدت تک دی گئی تھی اور وہ بھی ایک خاص سیاسی پس منظر میں، لہٰذا اسے مستقل نظام بنانے کی کوشش درست نہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

متعلقہ مضامین

  • 27ویں آئینی ترمیم: جسٹس منصور علی شاہ کا چیف جسٹس کو خط
  • آپ عدلیہ کے صرف ایڈمنسٹریٹر نہیں، گارڈین بھی ہیں،جسٹس منصور علی شاہ نے چیف جسٹس پاکستان کو 27ویں آئینی ترمیم  پرخط لکھ دیا
  • 26ویں ترمیم عدلیہ کنٹرول کے لیے تھی، رہی سہی کسر 27ویں ترمیم میں پوری کی جارہی ہے، حافظ نعیم
  • آئین کو متنازع بنانا پاکستان کی جمہوری اساس پر حملہ ہے، علامہ مقصود ڈومکی
  • آئین کو متنازع بنانا پاکستان کی اساس پر حملہ ہے، علامہ مقصود ڈومکی
  • امریکی جج کا بڑا فیصلہ: ٹرمپ کا نیشنل گارڈ کو پورٹ لینڈ بھیجنے کا حکم غیر قانونی قرار
  • امریکا کی نئی ویزا پالیسی، موٹاپا اور ذیابیطس والے افراد کا داخلہ بند
  • خیبرپختونخوا حکومت کا 3 ایم پی او، 16 ایم پی او اور دفعہ 144 میں تبدیلی کا فیصلہ
  • اپوزیشن اتحاد کے سربراہ اچکزئی کا 27 ویں ترمیم پر نواز شریف اور زرداری کو خط لکھنے کا فیصلہ
  • پاکستان کے بڑے شہروں کے ہوائی اڈوں کی نجکاری کے حوالے سے اہم فیصلے