Jasarat News:
2025-06-05@11:29:22 GMT

ایک اور متنازع فیصلہ؟

اشاعت کی تاریخ: 19th, January 2025 GMT

ایک اور متنازع فیصلہ؟

پاکستان کی تاریخ میں عدلیہ نے متعدد بار سیاسی شخصیات اور جماعتوں کے خلاف فیصلے سنائے ہیں، جن کا اثر نہ صرف ملک کی سیاست پر پڑا، بلکہ ان فیصلوں نے سماجی اور معاشی سطح پر بھی مشکلات پیدا کی ہیں، اور یہی وجہ ہے کہ پاکستان اس وقت بدترین صورتِ حال سے دوچار ہے، کیونکہ ان فیصلوں کی بنیادیں قانون کے بجائے سیاست پر زیادہ استوار ہوتی ہیں۔ ایسا ہی ایک تازہ فیصلہ 190 ملین پائونڈ ریفرنس کے حوالے سے سامنے آیا ہے، جس میں بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی کو کرپشن اور بدعنوانی کے الزامات میں قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ راولپنڈی کی احتساب عدالت نے بانی پی ٹی آئی کو 14 سال اور بشریٰ بی بی کو 7 سال قید کی سزا دی، ساتھ ہی ان پر جرمانے بھی عائد کیے گئے۔ تاہم یہ فیصلہ بھی عوامی سطح پر مختلف سوالات کا سامنا کر رہا ہے کیونکہ اس کے پیچھے کوئی ٹھوس قانونی بنیاد دکھائی نہیں دیتی۔ اسی پس منظر میں عمران خان نے اپنے کارکنوں سے کہا کہ سب سے پہلے تو آپ نے گھبرانا نہیں ہے۔ میں اس آمریت کو کبھی تسلیم نہیں کروں گا اور اس آمریت کے خلاف جدوجہد میں مجھے جتنی دیر بھی جیل کی کال کوٹھری میں رہنا پڑا، رہوں گا۔ عمران خان نے القادر یونیورسٹی کو ایک فلاحی منصوبہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس کا مقصد طلبہ کو سیرت النبی کی تعلیم فراہم کرنا تھا، اور اس میں انہیں یا بشریٰ بی بی کو کوئی مالی فائدہ نہیں پہنچا۔ انہوں نے الزام لگایا کہ عدالتی فیصلے پہلے سے طے شدہ اور میڈیا پر لیک ہوچکے تھے، اور ان کی اہلیہ کو نشانہ بنانے کا مقصد انہیں تکلیف پہنچانا ہے۔ سابق وزیراعظم نے کہا کہ حکومت جوڈیشل کمیشن کے قیام سے جان بوجھ کر گریز کررہی ہے کیونکہ بددیانت عناصر نیوٹرل امپائرز کو قبول نہیں کرتے۔

پاکستان کی عدلیہ کا یہ رجحان کوئی نیا نہیں۔ ماضی میں بھی عدلیہ کے فیصلوں نے سیاسی منظرنامے کو تبدیل کیا، چاہے وہ ذوالفقار علی بھٹو کے دور کے فیصلے ہوں، جنرل پرویز مشرف کے دور میں آئین میں ترامیم کے فیصلے، یا موجودہ حکومتی جماعتوں اور شخصیات کے خلاف مقدمات۔ اکثر اوقات ان فیصلوں کا مقصد سیاسی فائدہ یا نقصان پہنچانا ہوتا ہے، نہ کہ قانون کی حکمرانی کو فروغ دینا۔

پاکستان کی سیاست میں 1990 کی دہائی میں کئی ایسے فیصلے سامنے آئے جن سے آج کے سیاسی حکمران اس وقت عتاب کا شکار تھے اور کھیل وہی اصل طاقت کا رچایا تھا جو آج بھی جاری ہے۔ اِس وقت نواز خاندان اور بھٹو خاندان آج کسی کے اشارے پر جو کچھ کررہے ہیں، ماضی میں ان کے خلاف مقدمات قائم کیے گئے۔ مثال کے طور پر بے نظیر بھٹو اور نوازشریف کے خلاف احتساب کے معاملے میں کئی فیصلے آئے، مگر ان میں سے اکثر فیصلے عدالتوں میں بے نتیجہ ثابت ہوئے یا ان کو کسی نہ کسی سیاسی اثرات کا سامنا رہا۔ ان مقدمات میں طاقتور سیاسی شخصیات کے خلاف الزامات تو لگائے گئے لیکن قانونی طور پر ان کا کوئی بڑا نتیجہ نہیں نکلا۔ بدقسمتی سے وطن ِ عزیز میں اس طرح کے سیاسی فیصلوں کا اکثر کوئی خاطر خواہ قانونی نتیجہ نہیں نکلتا کیونکہ یہ مقدمات سیاسی ماحول سے جڑے ہوتے ہیں اور ان میں قانونی کمزوریاں اور سیاسی اثرات نمایاں ہوتے ہیں۔ ان فیصلوں میں ٹھوس شواہد یا مضبوط قانونی بنیاد کی کمی ہوتی ہے، جو کہ ان کے اصل مقصد کو مشکوک بناتی ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں بھی کئی سیاسی فیصلے سامنے آئے، جن میں اہم فیصلے عدالت عظمیٰ کی طرف سے کیے گئے تھے، جنہیںآئینی ترمیم کیسز جیسے معاملات کہا جاتا تھا۔ ان میں کئی فیصلے سیاسی نوعیت کے تھے اور ان پر عوامی رد عمل تھا۔ ان فیصلوں کا شکار لوگوں میں سے آج کئی لوگ حکمران بنے ہوئے ہیں۔ یہ ایک مذاق ہے جو بار بار ہوتا ہے۔ لہٰذا ان فیصلوں کا عمومی طور پر نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ وقتی طور پر سیاسی فائدہ تو دیتے ہیں لیکن دیرپا نہیں ہوتے۔ ان فیصلوں کا مقصد ہمیشہ کسی خاص سیاسی جماعت یا شخص کے خلاف عوامی رائے بنانے کی کوشش ہوتی ہے جو کہ اکثر کامیاب نہیں ہوپاتی۔ ہم نے ہمیشہ یہی دیکھا کہ جب کسی سیاست دان کو اسٹیبلشمنٹ نے نشانہ بنایا ہے وہ اگر کرپٹ یا بددیانت بھی ہو اور اسکرپٹ میں حقائق بھی ہوں تو مضحکہ خیزانداز اپنا کر اس کو ہیرو بنادیا جاتا ہے، اس طرح وہ کچھ عرصے کے بعد پہلے سے زیادہ مقبول بن جاتا ہے۔

اب تک یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ پاکستان کی عدلیہ سیاسی دبائو سے آزاد ہے یا نہیں۔ عدلیہ اور ماتحت عدالتوں کی جانب سے ایسے فیصلے عوام کے اندر بداعتمادی پیدا کرتے ہیں اور ایک ایسے معاشی اور سیاسی بحران کو جنم دیتے ہیں جس کا خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑتا ہے۔ عوام یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ اگر عدالتیں کسی خاص سیاسی جماعت یا فرد کے خلاف فیصلہ دیتی ہیں تو کیا وہ واقعی مبنی بر انصاف عمل کررہی ہوتی ہیں یا صرف طاقتور ادارے کے مفادات کی تکمیل؟ بدقسمتی سے وطن ِ عزیز کی تاریخ میں ایسے فیصلوں کی تعداد زیادہ رہی ہے جنہوں نے صرف سیاسی شعبدہ بازی کو فروغ دیا اور عوامی مفاد کو نظرانداز کیا، اور یہ کھیل تماشا جاری ہے۔ انصاف کسی بھی معاشرتی یا سیاسی نظام کی بنیاد ہے۔ جب انصاف کا نظام مضبوط اور شفاف ہوتا ہے تو یہ نہ صرف فرد کے حقوق کی حفاظت کرتا ہے بلکہ ریاست کے استحکام کو بھی یقینی بناتا ہے۔ انصاف کے بغیر نہ صرف فرد کی آزادی اور حقوق کو خطرہ لاحق ہوتا ہے، بلکہ ریاستی ڈھانچے کا توازن بھی بگڑ جاتا ہے۔

سیاسی نوعیت کے فیصلے عدلیہ کی خودمختاری کو متاثر کرتے ہیں اور ایک نہ ختم ہونے والا بحران جنم لیتا ہے۔ پاکستان میں سیاسی بحران کی گہرائی اور انتشار کے اس دور میں اب اس کیس میں آگے اعلیٰ عدلیہ کا کردار غیر معمولی اہمیت اختیار کرچکا ہے۔ انصاف کا تقاضا ہے کہ عدالتیں آئین و قانون کی روشنی میں فیصلے کریں، نہ کہ سیاسی دبائو یا مصلحتوں کے تحت۔ ہماری موجودہ سیاسی، معاشی اور سماجی صورتِ حال اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ عدلیہ کو ایک غیرجانب دار ادارہ بنانے کی ضرورت ہے، جو صرف اور صرف قانون کی حکمرانی پر یقین رکھتا ہو۔ موجودہ حالات میں ضروری ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں ذاتی مفادات سے بالاتر ہوکر پاکستان کے استحکام اور عوام کی بھلائی کو مدنظر رکھیں۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو یہ اسٹیبلشمنٹ کی چکی، جس میں آج کوئی اور پس رہا ہے، کل خود آج کی حکمران جماعتوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔ انصاف اور تدبر سے عاری فیصلے ہمیشہ ایسا خلا پیدا کرتے ہیں جو قوموں کے وجود کو خطرے میں ڈال دیتا ہے۔ قوم پریشان اور بدحال ہے، پاکستان کے ساتھ کھلواڑ کرنے والوں کو اس بات کو سمجھنا ہوگا کہ پاکستان کا گھیرا تنگ ہورہا ہے، یہ وقت ہے کہ تمام فریق مل کر پاکستان کے مستقبل کے لیے سنجیدہ اور دیرپا اقدامات کریں۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: ان فیصلوں کا پاکستان کی کا مقصد کے خلاف ہوتا ہے اور ان

پڑھیں:

پولینڈ میں ٹرمپ کے حامی اور متنازع مؤرخ کارول ناوروٹسکی نے صدارتی الیکشن جیت لیا

پولینڈ کے متنازع اور قدامت پسند مؤرخ کارول ناوروٹسکی نے سخت مقابلے کے بعد صدارتی انتخابات کے دوسرے مرحلے میں معمولی فرق سے میدان مارلیا۔

عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق ناوروٹسکی نے 50.89 فیصد ووٹ حاصل کیے جبکہ ان کے حریف وارسا کے لبرل میئر رافاؤ تراسکوسکی کو 49.11 فیصد ووٹ ملے۔

صدارتی الیکشن جیتنے والے 42 سالہ کارول ناوروٹسکی کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مکمل حمایت حاصل اور ان کی پارٹی دائیں بازو کی سخت گیر قوم پرست جماعت ہے۔

وہ ماضی میں پولینڈ کے انسٹیٹیوٹ آف نیشنل ریمیمبرنس کے سربراہ بھی رہ چکے ہیں جہاں انھوں نے دوسری جنگ عظیم میں پولینڈ کے کردار کو ’’قومی فخر‘‘ قرار دیتے ہوئے ان پہلوؤں کو مسترد کیا جو پولش قوم پرست بیانیے کے خلاف جاتے ہیں۔

کارول ناوروٹسکی کی فتح اور حریف لبرل امیدوار کی شکست کو وزیراعظم ڈونالڈ ٹسک کے اصلاحاتی ایجنڈے کے لیے ایک بڑا دھچکا قرار دیا جا رہا ہے۔

اس کانٹے کے انتخابی مقابلے کے نتیجے نے ملک میں گہری سیاسی تقسیم کو ایسے وقت میں نمایاں کیا ہے جب پولینڈ نیٹو اور یورپی یونین کے مشرقی محاذ پر اہم کردار ادا کر رہا ہے۔

 

متعلقہ مضامین

  • سپریم کورٹ: بیوی کے قتل کے مجرم کی سزائے موت برقرار
  • متنازع پیکا ایکٹ ،وزارت قانون، آئی ٹی، ایف آئی اے ،پی ٹی اے کو جواب داخل کروانے کیلئے آخری مہلت
  • متنازع پیکا ایکٹ، جواب داخل کروانے کی آخری مہلت
  • سپریم کورٹ؛گریڈ6کے ملازم کی برطرفی کیخلاف درخواست پر سندھ حکومت کی اپیل خارج  
  • جناح ہاؤس حملہ کیس کے ملزم رضا علی کی ضمانت کا تحریری فیصلہ جاری
  • سیاسی جماعتیں کام کی تشہیر چاہتی ہیں، کراچی کے لیے میگا پراجیکٹس زیر غور ہیں، شرجیل انعام میمن
  • ایک افریقی سیاسی راک اسٹار کی تقریر (حصہ اول)
  • پولینڈ میں ٹرمپ کے حامی اور متنازع مؤرخ کارول ناوروٹسکی نے صدارتی الیکشن جیت لیا
  • میکسیکو: دنیا میں پہلی مرتبہ جج عوامی ووٹ سے منتخب، ووٹرز الجھن کا شکار
  • ضمنی الیکشن میں سمبڑیال کے عوام کے حقوق پر ڈاکہ ڈالا گیا: سلمان اکرم راجہ