Daily Ausaf:
2025-04-25@08:35:16 GMT

امام محمد بن عمر بن واقد

اشاعت کی تاریخ: 21st, January 2025 GMT

ایک غریب عورت نے قاضی کی عدالت میں مقدمہ درج کیا کہ “اشرافیہ میں سے ایک شخص نے میرے حقوق لوٹ لئے ہیں ” قاضی نے مقدمے کا جائزہ لیا ،دلائل سنے اور یہ فیصلہ صادر فرمایا کہ غریب عورت حق پر ہے اس کے حقوق ادا کئے جائیں ” ۔یہ بغداد کے قاضی امام واقدی تھی ۔مامون الرشید کادور خلافت تھا ،اشرافیہ کے لئے یہ سوچنا بھی محال تھا کہ اس دور میں اس کے خلاف ایسافیصلہ آسکتا ہے ،مگر فیصلہ آگیا ،جس پر عمل بھی ہوگیا ۔لوگ انگشت بدنداں تھے اور وہاں کے علما بھی جن کا یہ خیال تھا کہ امام واقدی خلیفہ کا گماشتہ ہے ،اشرافیہ کا نمائندہ ہے وہ اس کے خلاف فیصلہ کیسے دے سکتا ہے ۔امام محمد بن عمر بن واقد الاسلمی قبیلہ بنی اسلم میں 747 میں شہر نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم مدینہ میں پیدا ہوئے ۔اصحاب رسول کی بستی میں جنم لینے والے واقد کے بیٹے نے مدینہ منورہ ہی میں وہاں کے جید علما اور ممتاز محدثین کے حضور زانوئے تلمذطے کیا اور فقط اس علم کے حصول تک محدود نہیں رہے بلکہ حدیث، تاریخ اور مغازی کی موضوعات میں گہری دلچسپی لی۔یہی وجہ تھی کہ کم عمری ہی میں قرآن کریم حفظ کرنے کے بعد دیگر علوم میں مہارت کے لئے اپنے زمانے کے بڑے علما فضلا کے دامن علم میں پناہ لی اور جلد ہی ان کا اپناشمار بھی ماہر معلم دین میں ہونے لگا۔واقدی کی دلچسپی کا اہم موضوع سیرت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اورغزوات نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم ٹھہرا ۔محمد بن عمر الواقدی نےوقت کے انتہائی معروف و مشہور علمائے کرام مثلا امام مالک بن انس ،ابن ابی ذنب اور متعدد دوسرے ماہر اساتذہ سے فیض علم کی پیاس بجھائی۔انہوں نے اپنے لئےجو خاص موضوع چنا وہ سیرت النبی اور علم المغازی تھا یوں انہوں نے “علم المغازی” کے بانی کا اعزاز حاصل کیا اور ان کی تصنیف” کتاب المغازی” سیرت النبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے موضوع کے اہم ترین مصادر میں شمار ہوئی ہے۔اسلامی تاریخ کے حوالے سے انہوں نے جس کام کا بیڑہ اٹھایا اس وقت وہ بھی اپنی نوعیت کے اعتبار سے منفرد کام تھا کہ خلافت راشدہ اوربنو امیہ کی تاریخ مدون کی جس میں انہوں نے عرب سیاست، ان کی عسکری خدمات اور معاشرتی زندگی کےحوالے سےان کا شجرہ تحریر کیا۔
اس میں شک نہیں کہ امام واقدی نے اپنے عہد کے بڑے اساتذہ سے علم حدیث کا استفادہ کیا اور انہیں سے متعددروایات نقل فرمائیں مگر محدثین عصرکی ان کے بارے یہ رائے رہی کہ “امام واقدی ضعیف احادیث کے راوی ہیں ” مگر ان کی تاریخی روایات پر کبھی انگلی نہیں اٹھائی گئی۔امام واقدی نےعرب قبائل کی تاریخ اور ان کےجغرافیائی حالات پر بھی سیر حاصل لکھا جسے ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھا اور تسلیم کیا گیا۔امام واقدی نے لکھنے کا بہت سارا کام کیا اور ان کی بہت ساری تصنیفات منصہ شہود پر آئیں مگر بہت ساری کتب ایسی بھی تھیں جو مرور زمانہ کے بے رحم ہاتھوں ضائع ہوئیں۔تاہم ان کی جامع دستاویز کتاب المغازی،کتاب الردہ ،کتاب تاریخ القریش اور کتاب الفتوح زمانے کی دست برد سے بچ گئیں ۔
امام واقدی کی جس تصنیف کو شہرت دوام نصیب ہوئی وہ “کتاب المغازی ” ہے جو اسلامی تاریخ اور سیرت النبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے حوالے سے انتہائی اہم کتاب تصور کی جاتی ہے جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے عہد میں برپا ہونے والی جنگوں کے واقعات تحریر کرنے کے ساتھ ساتھ نبی آخرالزمان صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی قیادت میں برپا ہونے والی مبازرتوں کا ذکر ہے اور ان غزوات کی جنگی حکمت عملیوں کا بیان ہے جنہیں فقط غزوات کی تاریخ ہی نہیں بلکہ ان معرکوں کی سیاسی، سماجی اور اخلاقی اثرات کا خوبصورت تجزیہ بھی کہا جاسکتا ہے ۔کتاب المغازی تین جلدوں پر مشتمل ہے ،جن میں سرزمین مکہ پر مسلمانوں کے ساتھ روا رکھے جانےوالے ظلم تعدی اور مکہ سے ہجرت فرما جانے کے بعدقریش مکہ کے ساتھ ہونے والے سرایا و غزوات یعنی غزوہ بدر،غزوہ احد اور دیگر غزوات کی تفصیلات کا بیان ہے۔علاوہ ازیں صلح حدیبیہ اور فتح مکہ کے اسباب و واقعات کی تفصیل ہے ۔پھر ریاست مدینہ کے قیام و استحکام کے حوالے حالات و واقعات خو دلکش و خوبصورت پیرایہ اظہار دیا۔ نبی آخرالزمان صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے آخری غزوات خصوصا غزوہ تبوک کا ذکر۔ان تمام امور کے باوصف کہ امام واقدی کی علمی گہرائی اور مستحکم دلائل کی جھلک ان کے ہر فیصلے میں صاف و شفاف دکھائی دیتی تھی ،تاریخ ،فقہ اور حدیث کے علوم میں ان کی مہارت کو تسلیم کیا جاتا تھا مگر ان کے ہم عصر انہیں ثقہ راوی نہیں مانتے تھے ۔ان کے قضایا کی غیر جانبداری، فلاح وبہبود ،فوجداری اور مالی معاملات کی شفافیت ،ان کی بصیرت، سماجی اصلاحات اور مخلوق خدا کے حقوق کا تحفظ سب تسلیم مگر ان کے ایک امر کی وجہ سے کہ وہ خلیفہ وقت کے پشت پناہ تھے اور اسکےہر عمل کو روا گردانتے تھے اس لئے علما و فقہا میں متنازع رہے۔یحی بن معین نے واقدی کے اقوال تک کو ثقاہت سے تعبیر کیا اور امام بخاری رح نے ” التاریخ الکبیر ” واقدی ضعیف ہونے کے بارے صاف الفاظ میں بیان فرمایا۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: کتاب المغازی امام واقدی سیرت النبی واقدی نے کی تاریخ انہوں نے کیا اور اور ان

پڑھیں:

اڈیالہ جیل کے قریب تعینات پولیس اہلکار کی علیمہ خان سے عمران خان کے حق میں گفتگو

راولپنڈی(ڈیلی پاکستان آن لائن)اڈیالہ جیل کے قریب ڈیوٹی پر تعینات پنجاب پولیس کے اہلکار نے بانی پی ٹی آئی کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا ہے۔تفصیلات کے مطابق آج بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کا دن تھا جس کے لیے تینوں بہنیں، عظمی، علیمہ اور نورین خان اپنے کزن قاسم خان کے ہمراہ اڈیالہ جیل روانہ ہوئیں تو انہیں پولیس نے گورکھپور ناکے پر روک لیا۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق  اس دوران وہاں پر تعینات پنجاب پولیس کے اہلکار نے بانی پی ٹی آئی کی بہنوں اور کزن سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ اللہ کی طرف سے امتحان ہے اور امتحان نیک لوگوں کیلیے ہوتا ہے‘۔پولیس اہلکار کی گفتگو سُن کر بانی پی ٹی آئی کی بہن نے جواب دیا کہ ’اللہ ہمت بھی دے گا‘۔اس پر پولیس اہلکار نے کہا کہ اللہ پاک نے عمران خان کو ہر نکتہ نظر سے قبول کیا ہے۔

لاہور کی قدیمی مارکیٹ کی دکانیں گرانے کا فیصلہ

مزید :

متعلقہ مضامین

  • دریائے راوی میں ایک ہی خاندان کے 3 بچے ڈوب کر جاں بحق
  • گورنر سندھ کامران خان ٹیسوری کی روضہ حضرت امام حسین علیہ السلام پر حاضری
  • دعا کی طاقت… مذہبی، روحانی اور سائنسی نقطہ نظر
  • گورنر سندھ کامران ٹیسوری کی روضۂ حضرت امام حسین رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ پر حاضری
  • امام جعفر صادق علیہ السلام کی علمی و سماجی خدمات
  • بانی پی ٹی آئی سیاسی داؤ پیچ میں صفر بٹا صفر ہیں، حفیظ اللہ نیازی
  • مظلوم مسلمانوں کے دفاع کی اجتماعی ذمہ داری
  • حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کی مہم، امن کی کوشش یا طاقتوروں کا ایجنڈا؟
  • اللہ نے عمران خان کو قبول کیا ہے، پنجاب پولیس کے اہلکار کی بانی پی ٹی آئی کے حق میں گفتگو
  • اڈیالہ جیل کے قریب تعینات پولیس اہلکار کی علیمہ خان سے عمران خان کے حق میں گفتگو