یونان: 2 ہزار سال پرانا مجسمہ کچرے کے بیگ سے دریافت
اشاعت کی تاریخ: 24th, January 2025 GMT
یونان میں 2 ہزار سال قدیم سنگِ مرمر کا ایک مجسمہ کچرے کے بیگ سے دریافت کیا گیا ۔
یہ غیر معمولی واقعہ یونان کے شہر تھیسالونیکی میں پیش آیا جہاں 2 ہزار سے زائد پرانے ایک خاتون کے سنگ مر مر کے مجسمے کو کچرے کے بیگ میں برآمد کیا گیا ہے۔
یہ مجسمہ 31 انچ کا تھا، تاہم اس کا سر غائب تھا۔ مجسمے کو کچرے سے نکال کر مقامی حکام کے حوالے کرنے والے شخص نے اس کی اطلاع دی تھی۔
حکام نے ماہرینِ آثارِ قدیمہ سے رابطہ کر کے مجسمے کا تجزیہ کروایا۔
پولیس کے مطابق ابتدائی تحقیقات سے معلوم ہوا کہ یہ مجسمہ ہیلینسٹک دور کا ہے، جو تقریباً 320 سے 30 قبل مسیح تک کا ہے۔
قدیم ورثے سے مالا مال اس ملک میں اکثر عمارتوں کی تعمیر یا دیگر منصوبوں کے دوران تاریخی اور قدیم آثار دریافت ہوتے ہیں۔
پولیس نے اس سلسلے میں تحقیقات کا آغاز کیا ہے تاکہ معلوم کیا جا سکے کہ یہ قیمتی مجسمہ کس نے کچرے میں پھینکا۔ ابتدائی طور پر پولیس نے ایک شخص کو حراست میں لیا تھا، تاہم بعد میں اسے رہا کر دیا گیا۔
.ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
ابوظبی کے سر بنی یاس جزیرے پر 1400 سال پرانی صلیب کی حیرت انگیز دریافت
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ابوظہبی کے تاریخی جزیرے سر بنی یاس پر ماہرینِ آثار قدیمہ نے ایک غیر معمولی دریافت کی ہے جس نے اس خطے کی قدیم تاریخ کو مزید اجاگر کر دیا ہے۔
حالیہ کھدائی کے دوران تقریباً 1400 سال پرانی ایک مسیحی صلیب برآمد ہوئی ہے جسے ماہرین ساتویں یا آٹھویں صدی کا قرار دے رہے ہیں۔ اس دریافت نے ثابت کیا ہے کہ متحدہ عرب امارات کے ان علاقوں میں صدیوں پہلے مسیحی کمیونٹیز نہ صرف موجود تھیں بلکہ انہوں نے عبادت، خانقاہی زندگی اور مذہبی رسومات کو باقاعدگی سے اپنایا ہوا تھا۔
یہ کھدائی جنوری میں شروع کی گئی تھی اور تقریباً 3 دہائیوں بعد اس جزیرے پر آثار قدیمہ کی پہلی بڑی مہم ہے۔ صلیب پلاسٹر پر بنی ہوئی ہے اور اس کا سائز تقریباً 27 سینٹی میٹر لمبا، 17 سینٹی میٹر چوڑا اور 2 سینٹی میٹر موٹا ہے۔
اسے ایک ایسے مقام پر دریافت کیا گیا ہے جو ایک صحن نما مکانات کے قریب ہے، جنہیں خانقاہ یا دیر کے شمالی حصے میں بزرگ راہب اور تنہائی پسند عبادت گزار استعمال کرتے تھے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس صلیب کی موجودگی اس بات کا ثبوت ہے کہ اس خطے میں ابتدائی مسیحی برادریاں خاص طور پر مشرقی مسیحیت سے تعلق رکھنے والی کمیونٹیاں آباد تھیں۔ وہ یہاں عبادت اور دینی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ اپنی الگ تھلگ خانقاہی طرزِ زندگی گزارتے تھے۔ اس دریافت کو خلیجی خطے کی مذہبی و ثقافتی تاریخ کا ایک اہم باب قرار دیا جا رہا ہے۔
آثار قدیمہ کے محققین کا خیال ہے کہ یہ دریافت مستقبل میں خطے کی قدیم تہذیب اور مختلف مذاہب کے درمیان روابط کو سمجھنے میں کلیدی کردار ادا کرے گی۔
متحدہ عرب امارات اپنی تاریخی و ثقافتی وراثت کو محفوظ بنانے کے لیے پہلے ہی کئی اقدامات کر چکا ہے اور سر بنی یاس پر یہ نئی کھوج اس سمت میں ایک اور سنگ میل سمجھی جا رہی ہے۔