سماج اور قوم کے سدھارنے کی شروعات گھر سے ہوتی ہے، نورالہدیٰ شاہ
اشاعت کی تاریخ: 26th, January 2025 GMT
حیدرآباد (اسٹاف رپورٹر) پاکستان ٹیلی ویژن کی معروف رائٹر و مصنفہ نور الہدیٰ شاہ نے کہا ہے کہ کاروکاری سندھ کا کلچر نہیں، سماج اور قوم کے سدھارنے کی شروعات گھر سے ہوتی ہے، یہ تاثر ختم ہونا چاہیے کہ سندھ کی لڑکیاں ان پڑھ ہوتی ہیں۔ وہ معروف رائٹر و ماہر تعلیم ایڈووکیٹ زینت عبداللہ چنہ کی 50 ویں برسی کے موقع پر بسنت ہال کے زیر اہتمام منعقدہ تقریب سے خطاب کر رہی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے بچے سندھی چھوڑ کر انگریز بن گئے، سندھ کی خواتین کو باشعور بنانے میں بیگم زینت چنہ کا بہت اہم کردار ہے جنہوں نے ماروی رسالہ بھی نکالا اور ایوب کی بدترین آمریت کے دور میں جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے نکالے گئے احتجاجی جلوس کی قیادت بھی کی۔ معروف رائٹر مہتاب اکبر شاہ راشدی نے تقریب کے شرکاء کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کیا سندھیمعاشرہ آج موجود ہے؟ تمام رسم و رواج ختم ہو گئے، کوئی معاشرہ مرد اور عورت کے بغیر چل نہیں سکتا، بیگم زینت عبداللہ چنہ نے اس دور میں سندھ کی خواتین کو شعور دیا جس زمانے میں اس کا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا، ان کی خصوصیات ان کی اولاد میں پائی جاتی ہیں۔ مہتاب اکبر راشدی نے کہا کہ کاروکاری ہماری رسم نہیں، اس مرد سے بڑا بے غیرت ہو نہیں سکتا جو اپنے گھر کی خواتین کو بے لباس کرے۔
.ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
سپریم کورٹ نے بیوہ خواتین کے حق میں بڑا فیصلہ جاری کردیا
سپریم کورٹ نے بیوہ خواتین کے حق میں بڑا فیصلہ جاری کر دیا، جس میں کہا گیا ہے کہ بیوائیں تمام شہریوں کی طرح روزگار، وقار، برابری اور خودمختاری کا حق رکھتی ہیں، شوہر کی وفات پر بھرتی ہونے والی بیوہ کو دوسری شادی پربرطرف نہیں کیا جا سکتا۔سپریم کورٹ نے بیوہ عورتوں کے حقوق سے متعلق تحریری فیصلہ جاری کردیا، 5 صفحات پر مشتمل فیصلہ جسٹس منصور علی شاہ نے تحریر کیا۔تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ سوال یہ ہے کہ کیا بیوہ کو دی گئی امدادی ملازمت اس کے دوبارہ نکاح کے بعد ختم کی جا سکتی ہے یا نہیں؟ اس عدالت میں اس سے ملتا جلتا معاملہ زاہدہ پروین کیس میں زیرِ بحث آیا تھا جس پر عدالت نے شادی شدہ بیٹیوں کے خلاف اقدامات کو غیرآئینی قرار دیا گیا تھا۔عدالت عظمیٰ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ آئین پاکستان کے آرٹیکل 25 کے تحت تمام شہری قانون کے سامنے برابر ہیں. بیوہ کو اس کی دوبارہ شادی کی بنیاد پر ملازمت سے نکالنا صریحاً صنفی امتیاز ہے.بیوہ کی شناخت اس کے شوہر سے نہیں جڑی ہونی چاہیئے۔سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں مزید کہا کہ مالی خود مختاری عورتوں کی آئینی شناخت کا بنیادی جزو ہے، جس مرد کی اہلیہ کا انتقال ہوا ہو اس کی دوسری شادی پر انکم ٹیکس محکمہ کے آفس میمورینڈم لاگو نہیں ہوتا. بیوہ عورت کو دوسری شادی پر آفس میمورینڈم کے ذریعے نوکری سے برخاست کرنا آئین کی خلاف ورزی ہے۔تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ ایسی پالیسیز عورتوں کے بنیادی حقوق کو متاثر کرتی ہیں، ایسے اقدامات بین الاقوامی انسانی حقوق کے معاہدوں کے بھی خلاف ہیں، بیوگی کو کسی عورت کی محرومی یا کم حیثیتی کی علامت کے طور پر نہیں دیکھنا چاہیئے. بیوہ بھی دوسرے شہریوں کی طرح برابر کی عزت و حقوق کی حقدار ہے۔ عدالتی فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ سپریم کورٹ کے جنرل پوسٹ آفس فیصلے میں وزیراعظم کا امدادی پیکیج غیرآئینی قرار دیا گیا، سپریم کورٹ کے اس فیصلے کا اطلاق موجودہ مقدمے پر لاگو نہیں ہوتا، سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ مستقبل کے لیے تھا. سابقہ تقرریاں متاثر نہیں ہوتیں۔سپریم کورٹ نے چیف کمشنر، ریجنل ٹیکس آفیسر بہاولپور کی اپیل خارج کرتے ہوئے کہا کہ عدالت کو لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے میں مداخلت کی کوئی معقول وجہ نظر نہیں آئی۔