Islam Times:
2025-07-25@08:45:11 GMT

دہلی اسمبلی انتخابات، انڈیا الائنس اور مسلمان

اشاعت کی تاریخ: 27th, January 2025 GMT

دہلی اسمبلی انتخابات، انڈیا الائنس اور مسلمان

اسلام ٹائمز: شاہین باغ احتجاج معاملہ ہو یا دہلی فرقہ وارانہ فساد، کانگریس کبھی کھل کر یا ڈھکے چھپے طور پر بھی مسلمانوں کیساتھ نہیں آئی۔ بابری مسجد کا زخم ضرور وقت کیساتھ مندمل ہوگیا ہو، مگر اسکی ٹیس اب بھی بھارتی مسلمانوں کے دل میں ہے۔ تازہ حال یہ ہے کہ راہل گاندھی اور پرینکا گاندھی نے اب کانگریس کی کمان سنبھال رکھی ہے۔ کانگریس اب پہلے جیسی نہیں ہے، مگر اب بھی مسلمانوں کی آواز اٹھانا تو دور، یہ پارٹی نام بھی کھلے طور پر لینا پسند نہیں کرتی۔ رپورٹ: جاوید عباس رضوی

بھارتی دارالحکومت دہلی میں جوں جوں اسمبلی انتخابات قریب آتے جا رہے ہیں، سیاسی جماعتوں کی سرگرمیاں تیز ہوتی جا رہی ہیں۔ دہلی میں تین جماعتیں بی جے پی، کانگریس اور عام آدمی پارٹی ہی اہم ہیں۔ انہی تینوں سیاسی جماعتوں کی ماضی میں بھی حکومت رہی ہے۔ گزشتہ ایک دہائی سے تو عام آدمی پارٹی کی دہلی پر بھاری اکثریت کے ساتھ حکومت رہی ہے۔ عام آدمی پارٹی کو کسی قیمت پر بھی بی جے پی پسند نہیں ہے، اس لئے آئندہ بھی عام آدمی پارٹی دہلی پر اپنا قبضہ برقرار رکھنا چاہتی ہے۔ کانگریس تو اسے دہلی کے معاملے میں ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ دہلی پر از سر نو قبضہ کرنے کے لئے عام آدمی پارٹی کسی بھی حد تک جا سکتی ہے۔ خواہ اسے اپوزیشن اتحاد "انڈیا" سے الگ ہی ہونا پڑے۔ دہلی کا اسمبلی انتخاب اور مسلمانوں کی حکمت عملی، جب اس موضوع پر غور کیا جاتا ہے تو مختلف جوابات آتے ہیں۔

دہلی میں آبادی کا تناسب کیا ہے۔ تو پہلے ہم دہلی کے بارے میں کچھ جان لیتے ہیں۔ زمین (رقبہ) کے اعتبار سے دہلی، ہندوستان میں سب سے بڑا شہر ہے۔ اس کا رقبہ 1483 مربع کلو میٹر ہے۔ جس میں 35.

369 مربع کلو میٹر رورل اور 65.1113 مربع کلو میٹر اربن علاقہ شامل ہے۔ اس کی لمبائی 51.9 کلو میٹر اور چوڑائی 48.48 کلو میٹر ہے۔ اس کی کل آبادی تقریباً 3 کروڑ 38 لاکھ 7 ہزار 400 ہے۔ جس میں 12.78 فیصد مسلمانوں کی آبادی ہے، یعنی مسلمان دہلی میں 22 لاکھ کے آس پاس ہیں۔ دہلی میں اسمبلی کی 70 نشستیں ہیں۔ مسلم آبادی یوں تو دہلی کے ہر ضلع میں موجود ہے، لیکن دہلی کے کئی ایسے علاقے ہیں، جہاں مسلم امیدوار فتح حاصل کرسکتے ہیں، یا مسلمان جسے چاہیں اسے اسمبلی پہنچا سکتے ہیں، دوسرے لفظوں میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ دہلی میں ایسے کئی علاقے ہیں، جہاں کی مسلمان آبادی الیکشن کا رخ بدل سکتی ہے۔

اوکھلا (جامعہ نگر، ذاکر نگر، ابوالفضل انکلیو، شاہین باغ، نورنگر، جسولہ وہار)، سیلم پور، للتا پارک، پارک اینڈ، ہمدرد نگر، بلی ماران، جعفرآباد، مٹیا محل، نظام الدین، مصطفی آباد، گھونڈہ، رٹھالہ، چاندنی چوک، شاہدرہ، کھجوری پشتہ، دریا گنج، جہانگیر پوری، اندرلوک، شہزاد باغ، بیری والا باغ، باڑہ ہندو راؤ، وجے پارک، نبی کریم، نور الٰہی، چاند باغ، چوہان بانگڑ، کراول نگر، سنگم وہار وغیرہ دو درجن سے زائد ایسے علاقے ہیں، جہاں سے مسلمانوں کے ووٹ اکثریت میں مل سکتے ہیں۔ یہ وہ علاقے ہیں، جو الیکشن کا پلڑہ کسی طرف بھی جھکا سکتے ہیں۔ مگر افسوس کہ ان علاقوں کے مسلمانوں میں اتحاد و یکجہتی موجود نہیں ہے۔ الیکشن میں کئی کئی مسلم امیدوار کھڑے ہو جاتے ہیں اور دوسرے امیدوار جیت جاتے ہیں۔ دہلی کے مسلمانوں کے پاس دو متبادل ہیں، کانگریس اور عام آدمی پارٹی۔ ان دونوں کا یوں تو اپوزیشن اتحاد "انڈیا" گروپ سے تعلق ہے اور پارلیمانی انتخاب ان دونوں نے مل کر لڑا تھا۔

ہریانہ اسمبلی الیکشن دونوں پارٹیوں نے اپنے اپنے دم پر لڑے۔ کانگریس کو 30 سیٹوں پر کامیابی ملی، جبکہ عام آدمی پارٹی کو ایک بھی سیٹ نہیں مل پائی۔ بی جے پی کو 40 سیٹیں ملیں اور اس نے کسی طرح وہاں حکومت بنائی۔ عام آدمی پارٹی اور کانگریس ہریانہ میں مل کر مقابلہ کرتے تو "انڈیا" گروپ کی جیت یقینی تھی اور آسانی سے وہاں انڈیا گروپ کی حکومت بنتی، مگر ایسا نہیں ہوا۔ اب دہلی کے مسلمانوں کا سخت امتحان ہے، وہ کسے ووٹ دیں۔ کانگریس کو یا عام آدمی پارٹی کو۔؟ تقریباً دونوں کی ایک دہائی سے زائد دہلی پر حکومت رہی ہے۔ دونوں کے مسلمانوں کے لئے کاموں پر بھی نظر ڈال لیں۔ عام آدمی پارٹی کے سربراہ اروند کیجریوال تین بار دہلی کے وزیراعلٰی رہے۔ اروند کیجریوال نے زمینی سطح کی سیاست کرکے ایک مثال قائم کی۔ انہوں نے حکومتی سطح پر وہ کچھ ایسا کرکے دکھایا، جو سیاست میں ناممکن تھا یا انتہائی مشکل تھا۔

انہوں سب سے پہلے 200 یونٹ تک بجلی مفت کی۔ سرکاری اسکولوں کی حالت ناگفتہ بہ تھی۔ عام آدمی پارٹی کی حکومت نے ان کی کایا پلٹ کر دی۔ محلہ کلینک کھولے، خواتین کا بس میں سفر فری کیا۔ بزرگوں کی پنشن شروع کی۔ راشن تقریباً مفت کیا۔ یہ سب اور دوسرے کام بھی کئے، جو دہلی کے عوام کے لئے تھے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کے لئے کیا کیا۔ اروند کیجریوال نے اپنی وزارت میں ایک بھی اہم وزارت مسلمانوں کو نہیں دی۔ دہلی وقف بورڈ، حج کمیٹی، اردو اکادمی میں مسلمان کو رکھنا مجبوری تھی۔ ان شعبوں میں کوئی حیرت انگیز کارنامہ ان کے دور میں نہیں ہوا۔ سی اے اے کے خلاف جب خواتین کا احتجاج کئی ماہ چلا تو اروند کیجریوال وزیراعلیٰ تھے۔ احتجاج کی حمایت میں نہ کوئی بیان دیا اور نہ ہی جلسہ گاہ میں جانے کی زحمت کی، جبکہ زیادہ تر سیکولر لوگ وہاں گئے تھے۔ 2020ء میں دہلی میں بھیانک فرقہ وارانہ فساد ہوئے۔ مسلمانوں کا مالی اور جانی نقصان ہوا۔ انہیں ڈرایا اور دھمکایا گیا، ایسے حالات میں عام آدمی پارٹی کا کیا رول تھا۔؟

اب کانگریس اور دہلی کے مسلمانوں کے رشتے کا پتہ لگاتے ہیں۔ کانگریس ایک صدی سے زائد برسوں سے ملک کی خدمت کر رہی ہے۔ شیلا دیکشت نے تین بار دہلی کے وزیراعلیٰ کی حیثیت سے کام کیا۔ کانگریس کے دور میں چودھری متین، ہاشمی، ہارون یوسف اور شعیب اقبال کی شکل میں مسلم چہرے ہمیشہ ہمارے سامنے رہے۔ شیلا دیکشت نے دہلی کو دنیا کے خوبصورت شہروں میں شمار کرا دیا۔ خوش نما پارک، کشادہ سڑکیں، لمبے اور خوبصورت پل، اوور برج، شاندار عمارتیں، بازار، ناموں کی تختیاں اور گیٹ، بس اڈوں کا بہتر انتظام، میٹرو کی شروعات، پوری دہلی میں سی این جی بسوں کا جال وغیرہ سے پورے شہر کو مزین کیا۔ شاہین باغ احتجاج معاملہ ہو یا دہلی فرقہ وارانہ فساد، کانگریس کبھی کھل کر یا ڈھکے چھپے طور پر بھی مسلمانوں کے ساتھ نہیں آئی۔

بابری مسجد کا زخم ضرور وقت کے ساتھ مندمل ہوگیا ہو، مگر اس کی ٹیس اب بھی بھارتی مسلمانوں کے دل میں ہے۔ تازہ حال یہ ہے کہ راہل گاندھی اور پرینکا گاندھی نے اب کانگریس کی کمان سنبھال رکھی ہے۔ کانگریس اب پہلے جیسی نہیں ہے، مگر اب بھی مسلمانوں کی آواز اٹھانا تو دور، یہ پارٹی نام بھی کھلے طور پر لینا پسند نہیں کرتی۔ ایسے میں بھارتی مسلمانوں کے پاس ایک اور متبادل ہے، جو بہت کمزور ہے۔ یعنی مسلمان خود اپنے دم پر اپنی قسمت آزمائیں۔ مگر اس میں بہت بڑا رسک ہے۔ دہلی کے مسلمانوں کا کوئی قائد نہیں ہے۔ خود ان کی آبادی اتنی نہیں ہے کہ مسلم ووٹ متحد ہو بھی جائیں تو وہ جیت پائیں۔ دوسرے مسلمانوں کا ایک ہونا بہت ہی مشکل ہے، کیوں کہ زیادہ تر لوگ مختلف پارٹیوں میں بٹے ہیں۔ ایسے لیڈروں کی بے حد کمی ہے، جن پر ہندو اور سکھ بھی اعتماد کریں یا ان کو ووٹ دیں۔

تو خالص مسلمانوں کی پارٹی بنانا عبث ہے۔ یہ عمل مناسب ہوسکتا ہے، جب مسلمانوں کا اپنا بیس ووٹ بینک ہو اور امیدواروں کا اخلاق و کردار اچھا ہو۔ پھر اس عمل میں مستقل مزاجی، لمبا وقت اور عوامی فلاح و بہبود کے کام ہوں، یہ اب شاید ممکن نہیں ہے، لیکن یہ ناممکن بھی نہیں، اس کی شروعات ہوسکتی ہیں۔ عام آدمی پارٹی، کانگریس، بی جے پی، ان تینوں متبادل میں مسلمان مجبوراً کسی ایک کو چنے گا۔ مسلمان بی جے پی کو ووٹ نہیں دے گا۔ اب کانگریس اور عام آدمی پارٹی ہی بچتی ہیں۔ دونوں کے ووٹ بینک ایک جیسے ہی ہیں۔ اس لئے یہ ضروری ہے کہ کسی بھی حلقے میں ایسا امیدوار جو دوسروں سے بہتر ہو، اس میں بی جے پی کو ہرانے کی طاقت ہو اور جو مسلمانوں کا خیال رکھ سکے اور سیکولر ذہن بھی رکھتا ہو، خواہ اس کا تعلق کسی بھی پارٹی سے ہو، اس کو متحد ہوکر مسلمانوں کو سپورٹ کرنا چاہیئے، ساتھ ہی الیکشن کے بعد بھی مسلم ایم ایل اے حضرات میں اتحاد ہونا چاہیئے۔

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: دہلی کے مسلمانوں عام ا دمی پارٹی اروند کیجریوال بھی مسلمانوں مسلمانوں کے مسلمانوں کی مسلمانوں کا کانگریس اور اب کانگریس علاقے ہیں دہلی میں سکتے ہیں بھی مسلم کلو میٹر بی جے پی نہیں ہے دہلی پر پر بھی رہی ہے اب بھی کے لئے

پڑھیں:

مودی سرکار عدالت میں ہار گئی!

ریاض احمدچودھری

بھارت میں مسلمانوں کے خلاف جاری ریاستی تعصب اور جھوٹے مقدمات ے درمیان ایک سکھ کی سانس نصیب ہوئی ہے۔ 2006 کے ممبئی ٹرین دھماکوں کے کیس میں 19 سال بعد ممبئی ہائی کورٹ نے وہ فیصلہ سنایا جو مظلوم مسلمانوں کے لیے انصاف کی نوید اور جھوٹے عدالتی ڈھانچے کے لیے ایک طمانچہ بن کر ابھرا۔ عدالت نے تمام 12 مسلمانوں کو بری کر دیا جنہیں 2015 میں ٹرائل کورٹ نے جھوٹے الزامات کے تحت سزا دی تھی ان میں سے پانچ کو سزائے موت اور سات کو عمر قید سنائی گئی تھی۔جسٹس انیل کلور اور جسٹس شیام چندک پر مشتمل بینچ نے اپنے فیصلے میں واضح الفاظ میں کہا، استغاثہ ملزمان کے خلاف مقدمہ ثابت کرنے میں بری طرح ناکام رہا، ہمیں یہ ماننے میں سخت دقت ہو رہی ہے کہ ان افراد نے جرم کا ارتکاب کیا۔لہذا سزا کو کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔عدالت نے حکم دیا کہ تمام افراد کو فوری طور پر رہا کیا جائے، بشرطیکہ وہ کسی اور مقدمے میں مطلوب نہ ہوں۔یہ وہی کیس ہے جس میں جولائی 2006 کو ممبئی کی لوکل ٹرینوں میں 11 منٹ کے دوران سات دھماکے ہوئے تھے، جن میں 189 افراد ہلاک اور 800 سے زائد زخمی ہوئے۔ دھماکوں کے لیے پریشر ککر بم استعمال کیے گئے تھے اور الزام فوری طور پر مسلمانوں پر لگا دیا گیا۔ بھارتی میڈیا اور ریاستی اداروں نے مسلمانوں کو نہ صرف بدنام کیا بلکہ کئی بے گناہ نوجوانوں کو اٹھا کر جیلوں میں ڈال دیا گیا۔ ان میں سے کچھ نوجوانوں نے جیل میں قید کے دوران اپنے اہل خانہ کو کھو دیا، اور ان کی زندگیاں مکمل طور پر تباہ ہو گئیں۔2015 میں مہاراشٹرا کنٹرول آف آرگنائزڈ کرائم ایکٹ (MCOCA) کی خصوصی عدالت نے 12 مسلمانوں کو مجرم قرار دے کر سزا سنا دی۔ فیصل شیخ، آصف خان، کمال انصاری، احتشام صدیقی اور نوید خان کو سزائے موت دی گئی تھی، جبکہ دیگر سات افراد کو عمر قید۔ان افراد پر اعتراف جرم کے لیے جسمانی اور ذہنی تشدد کے الزامات بھی سامنے آئے، مگر بھارتی ریاست نے سب کچھ نظر انداز کیا۔اب، ممبئی ہائی کورٹ نے ان تمام الزامات کو مسترد کرتے ہوئے ان تمام مسلمانوں کو باعزت بری کر دیا ہے۔ یہ فیصلہ نہ صرف ان بے گناہوں کی فتح ہے بلکہ بھارت میں جاری مسلم مخالف ریاستی پالیسیوں کی ایک تاریخی شکست بھی ہے۔
یہ فیصلہ ان لاکھوں مسلمانوں کے لیے امید کا پیغام ہے جو بھارت میں روز ریاستی جبر، پولیس گردی، اور عدالتی تعصب کا شکار ہوتے ہیں۔ مظلوموں نے ثابت کیا کہ سچ آخرکار فتح یاب ہوتا ہے، چاہے اس میں برسوں لگ جائیں۔یہ عدالتی فیصلہ صرف 12 بے گناہ مسلمانوں کی رہائی نہیں، بلکہ پوری مسلم ملت کے لیے ایک تاریخی لمحہ ہے ایک لمحہ جب جھوٹا پروپیگنڈا، ظلم، اور تعصب عدل کے سامنے ٹک نہ سکا۔اسے ممبئی پر سب سے بڑے حملوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے اور اس کے لیے ‘سات/گیارہ حملوں’ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔اس سے قبل 2015 میں ایک خصوصی عدالت نے پانچ ملزمان کو سزائے موت اور سات کو عمر قید کی سزائیں سنائی تھیں۔ اب بمبئی ہائی کورٹ نے نچلی عدالت کے اس فیصلے کو کالعدم قرار دیا ہے۔ان ملزمان میں سے ایک کمال انصاری 2021 میں وفات پا گئے تھے۔رکن پارلیمان اسدالدین اویسی نے تمام بارہ افراد کو رہا کیے جانے کے عدالت کے فیصلے پر اطمینان کا اظہار کیا اور کہا کہ ملزمان کی زندگی کے قیمتی 18 سال اس ناکردہ گناہوں کے الزام میں تباہ کر دیے گئے۔ آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ اویسی نے ایکس پر لکھا، ”12 مسلمان مرد 18 سال سے اس جرم کے لیے جیل میں تھے جو انھوں نے نہیں کیا تھا۔ ان کی بنیادی زندگی ختم ہو گئی ہے۔ 180 خاندان جنہوں نے اپنے پیاروں کو کھو دیا اور متعدد زخمی ہوئےـ انہیں کوئی تسلّی نہیں ملی۔”
اویسی نے اس طرح کے ہائی پروفائل کیسوں کے سلسلے میں پولیس کو اس کے رویے کے لیے تنقید کا نشانہ بنایا اور میڈیا پر متوازی ٹرائل چلانے کا الزام لگاتے ہوئے کہا ”ایسے کیسز میں جہاں عوامی ردعمل شدید ہوتا ہے، پولیس کا نقطہ نظر ہمیشہ پہلے کسی کو جرم قبول کرانے کا ہوتا ہے۔۔۔ میڈیا جس طرح کیس کو کور کرتا ہے، اس سے اس شخص کے جرم کا فیصلہ ہو جاتا ہے۔”اس کیس کی تحقیقات کرنے والے مہاراشٹر کے اے ٹی ایس افسران کے خلاف بھی کارروائی کا مطالبہ کیا اور 2006 میں سیاسی قیادت کے کردار پر بھی سوال اٹھایا۔دوسری طرف ہندو قوم پرست جماعت شیو سینا کے رکن پارلیمان ملند دیورا، جو 2006 میں ممبئی سے ایم پی تھے، نے کہا، ”بطور ممبئی کے رہائشی، میں اس فیصلے کو قبول نہیں کر سکتا… میں مہاراشٹر حکومت سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ بہترین وکیلوں کی خدمات حاصل کرے اور بمبئی ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف فوری اپیل کرے۔”بی جے پی لیڈر کریٹ سومیا نے فیصلے کو ”انتہائی مایوس کن” قرار دیا اور ”تحقیقات اور قانونی لڑائی دونوں میں کوتاہیوں” کی طرف اشارہ کیا۔ خصوصی سرکاری وکیل اور اب رکن پارلیمان اجول نکم نے کہا کہ ملزمان کے بری ہونے سے سنگین خدشات پیدا ہوتے ہیں اور ریاست اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کرے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

متعلقہ مضامین

  • مودی سرکار عدالت میں ہار گئی!
  • ایئرانڈیا کے طیارے میں پھر خرابی، آخر وقت میں پرواز منسوخ کر دی گئی
  • خیبرپختونخوا میں سینیٹ انتخابات میں بیلٹ پیپرز باہر آنے کا انکشاف
  • سینیٹ انتخابات خیبرپختونخوا: بیلٹ پیپرز باہر کیسے پہنچے؟ نیا پنڈورا باکس کُھل گیا
  • عمران خان نے پارٹی میں انتشار پھیلانے والوں کیخلاف کارروائی کا کہا، علی امین گنڈاپور
  • عمران خان نے پارٹی میں انتشار پھیلانے والوں کے خلاف کارروائی کا کہا، علی امین گنڈاپور
  • 1984 سکھ نسل کشی: کمال ناتھ کی موجودگی چھپانے پر دہلی حکومت کی بازپرس کا مطالبہ
  • دہلی ایئرپورٹ پر ایئر انڈیا کے طیارے میں آگ بھڑک اٹھی
  • بہار میں ووٹر لسٹ سے بڑے پیمانے پر نام حذف کیا جانا جمہوریت کا قتل ہے، پرینکا گاندھی
  • راہل گاندھی مسلمانوں کے "منظم استحصال" پر پارلیمنٹ میں بات کریں، محبوبہ مفتی