Daily Mumtaz:
2025-04-25@10:29:01 GMT

مراکش کشتی حادثہ، ڈوبنے والوں کا کوئی ریکارڈ نہیں

اشاعت کی تاریخ: 3rd, February 2025 GMT

مراکش کشتی حادثہ، ڈوبنے والوں کا کوئی ریکارڈ نہیں

مراکش کشتی حادثے میں ملنے والی نعشوں کی شناخت کا عمل مکمل کر لیا گیا ۔ حکام کو 13 نعشیں ملی تھیں، شناخت کے عمل کے دوران ثابت ہوا ہے کہ ان سب کا تعلق پاکستان سے تھا۔
مراکش میں پاکستانی سفارت خانے کی جانب سے تیار کی گئی فہرست کے مطابق جن 13 پاکستانیوں کی شناخت ہوئی ہے، ان میں سفیان علی ولد جاوید اقبال (پاسپورٹ نمبر VF1812352)، سجاد علی ولد محمد نواز (پاسپورٹ نمبر XX1836111)، رئیس افضل ولد محمد افضل (پاسپورٹ نمبر MJ1516091)، قصنین حیدر ولد محمد بنارس (پاسپورٹ نمبر AA6421773)، محمد وقاص ولد ثناء اللہ (پاسپورٹ نمبر DJ6315471)، محمد اکرم ولد غلام رسول (پاسپورٹ نمبر DN0151754) اور محمد ارسلان خان ولد رمضان خان (پاسپورٹ نمبر LM4153261) شامل ہیں۔ اس حادثے میں جان کی بازی ہارنے والوں میں حامد شبیر ولد غلام شبیر (پاسپورٹ نمبر CZ5133683)، قیصر اقبال ولد محمد اقبال (پاسپورٹ نمبر GR1331413)، دانش رحمان ولد محمد نواز (پاسپورٹ نمبر SE9154371)، محمد سجاول ولد رحیم دین (پاسپورٹ نمبر AY5593661)، شہزاد احمد ولد ولایت حسین (پاسپورٹ نمبر GN1162802) اور احتشام ولد طارق محمود (پاسپورٹ نمبر CE1170122) بھی شامل ہیں۔
خیال رہے کہ 15 جنوری کو مغربی افریقہ سے سپین جانے والی تارکین وطن کی کشتی ڈوبنے سے 50 افراد ہلاک ہوئے ہیں جن میں سے 44 پاکستانی تھے۔تارکین وطن کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم ’واکنگ بارڈر‘ کی سی ای وا ہیلینا مالینو نے ایکس پر لکھا کہ ’کشتی میں سوار افراد نے 13 دن سمندر میں بڑی مشکل میں گزارے اور کوئی ان کی مدد کو نہیں آیا ان پاکستانیوں کی ہلاکتوں کی تصدیق اسی کشتی میں بچ جانے والوں نے کی تھی تاہم حکام کو صرف 13 لاشیں ہی ملیں جن کی 20 روز گزر جانے کے بعد آج تصدیق ممکن ہوئی ہے میتوں کی شناخت کے لیے نیشنل ڈیٹابیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کی خدمات حاصل کی گئیں اور نادرا کی جانب سے تصدیقی عمل کے بعد اب نعشوں کی پاکستان منتقلی کا مرحلہ شروع کیا جائے گا۔  ملنے والی نعشیں ناقابل شناخت تھیں جبکہ کسی کے پاس کسی قسم کی کوئی دستاویز بھی موجود نہیں۔ مراکش میں پاکستانی سفارت خانے میں نادرا کا کوئی سیٹ اپ موجود نہیں دوسرا جس مقام پر یہ نعشیں موجود ہیں وہ مراکش کے دارالحکومت سے 22 گھنٹے کی مسافت پر ہے۔ حکام کے مطابق اسی وجہ سے نعشوں کی شناخت کے عمل میں تاخیر ہوئی۔  جب حکام نے بتایا آن لائن پورٹل موجود ہیں جن کے ذریعے فنگر پرنٹ اور تصاویر نادرا کو بھجوائی گئیں۔ نادرا نے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے شناخت کا عمل مکمل کیا۔ اردونیوز کےمطابق  جب مراکش میں پاکستانی سفارت خانے سے رابطہ کیا گیا کہ ابتدا میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 44 بتائی گئی تھی تو پھر ہلاک ہونے والے باقی افراد کی تصدیق کیسے ہو گی؟
اس پر حکام کا کہنا تھا سمندر میں موجود ہونے والے افراد کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں تاہم زندہ بچ جانے والوں میں سے کچھ نے ان کے اہل خانہ کو زبانی تصدیق کی ہے کہ وہ اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ جب ان کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے تو سرکاری طور پر ان کی ہلاکت کی تصدیق کرنا بھی ممکن نہیں۔  حکام کا کہنا ہے کہ سفارت خانے کی جانب سے شناخت کا عمل مکمل ہونے کے بعد فہرست وزارت خارجہ کو بھی دی جائے گی جو باضابطہ طور اس کا اعلان کرے گی۔  واضح رہے کہ اس کشتی میں بچ جانے والوں نے انکشاف کیا ہے کہ کشتی کو کوئی حادثہ پیش نہیں آیا بلکہ افریقی ایجنٹوں نے پاکستانی ایجنٹوں کے ساتھ لین دین کا وعدہ پورا نہ ہونے پر ان پاکستانیوں کو تشدد کر کے، سروں میں ہتھوڑے مار کر اور ہاتھ پاؤں توڑ کر قتل کیا تھا۔

.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: پاسپورٹ نمبر سفارت خانے موجود نہیں کی شناخت ولد محمد کا کوئی

پڑھیں:

بلوچستان میں کالج یونیورسٹی موجود؛ ڈسکرمینشن موجود نہیں تو جنگ کیا ہے ؛ سابق نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ 

سٹی 42: سابق نگران وزیر اعظم   انوار الحق کاکڑ نے کاہ ان لوگوں سے لڑنا مشکل نہیں اصل لوگوں کو سمجھانا ایشو ہے ۔یہ چند لوگ کھلم کھلا علیحدگی کی تحریک چلا رہے تشدد ان کے لئے معنی نہیں ۔

سابق نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ  ے  میڈیا سے گفتگو  کرتے ہوئے کہاسپرنٹ موومنٹ کا صرف پاکستان کو سامنا نہیں ۔ایران  افریقہ،انڈیا کئی اور ممالک میں ایسی تحریک ہے ۔بلوچستان میں چند افراد اس طرح کی تحریک چلا رہے ہے ۔ یہ لوگ 17 سو سمیت مختلف تاریخی کا حوالہ دیتے ہے ۔برٹش راج سے قبل ایسٹ انڈیا کمپنی نے کام شروع کیا ۔پھر برٹش راج آیا اور کئی ریاستوں کو قبضے میں لیا ۔ برٹشن نے جانے کا فیصلہ کیا تو دو تحریکوں سے جنم لیا ۔جو آج بلوچستان ہے یہ پہلے برٹشن بلوچستان تھا ۔اس میں کچھ ریاست کلات پر کچھ حصہ مشتمل تھا ۔ 17 مارچ 1948 کو ریاست کلات پاکستان کا حصہ بن گئے ،موجودہ حالات میں یہ چند لوگ مختلف بہانے بناتے ہے ۔وائلس کو بطور آلہ کار بنا کر تحریک شروع کر دی گی جہاں تشدد ہو وہاں کوئی بہنانہ ڈھونڈا جاتا ہے ۔مزدوروں کو بسوں سے اتار کر مار دیا جاتا ہے ۔ 

صوبہ بھر میں انفورسمنٹ سٹیشن قائم کرنے کا فیصلہ، وزیراعلیٰ پنجاب کی زیر صدارت خصوصی اجلاس

آج بلوچستان میں کالج یونیورسٹی موجود ہے ،جب ڈسکیرمنشن کہیں موجود نہیں تو پھر یہ جنگ کیا ہے ۔ان لوگوں سے لڑنا مشکل نہیں اصل لوگوں کو سمجھانا ایشو ہے ۔یہ چند لوگ کھلم کھلا علیحدگی کی تحریک چلا رہے تشدد ان کے لئے معنی نہیں ۔

متعلقہ مضامین

  • سرینا اور میریٹ ہوٹلز کو بم دھمکیاں، سکیورٹی ادارے حرکت میں آگئے
  • چینی فلم ’نیژا 2‘، مشہور زمانہ ’ٹائیٹنک‘ کا ریکارڈ توڑنے کے قریب، 2.18 بلین ڈالرسے زیادہ کا بزنس
  • اپنے ہی پلیٹ فارم سے سیاسی جدوجہد جاری رکھیں گے، اپوزیشن کا باضابطہ اتحاد موجود نہیں، مولانا فضل الرحمان
  • پاکستان سے کوئی فیک پاسپورٹ پر سفر نہیں کر سکتا: طلال چودھری
  • پاکستان سے کوئی فیک پاسپورٹ پر سفر نہیں کرسکتا: طلال چوہدری
  • لیبیا کشتی حادثہ: جاں بحق پاکستانیوں کی میتیں 26 اپریل کو وطن پہنچیں گی
  • عراقی حکام کی امریکی بینکوں میں موجود رقوم امریکی عوام کی ملکیت قرار دیدی گئیں
  • نواز شریف اور شہباز شریف ماحول خراب کرنے والوں کو سمجھائیں، شرجیل میمن
  • بابراعظم دراصل کہاں غلطی کر رہے ہیں ؟ محمد عامرکا ناقص پرفارمنس پر مشورہ
  • بلوچستان میں کالج یونیورسٹی موجود؛ ڈسکرمینشن موجود نہیں تو جنگ کیا ہے ؛ سابق نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ