لزبن(نیوز ڈیسک) اسماعیلی کمیونٹی کے روحانی پیشوا پرنس کریم آغا خان انتقال کرگئے ہیں۔

اسماعیلی جماعت کے اعلامیے کے مطابق، پرنس کریم آغا خان کا پرتگال کے دارالحکومت لزبن میں انتقال ہوا، ان کی عمر 88 برس تھی۔ مولانا شاہ کریم الحسینی (پرنس کریم آغا خان) اسماعیلی کمیونٹی کے 49ویں امام تھے۔ ان کے انتقال کے وقت ان کے اہلخانہ ان کے پاس موجود تھے۔

پرنس کریم آغاز خان کے جانشین کی نامزدگی اسماعیلی روایات کے مطابق کردی گئی ہے، پرنس کریم آغا خان نے اپنی وصیت میں جانشین کی نامزدی کی تھی، جس کا اعلان اہل خانہ اور جماعت کے سینیئر رہنماؤں کی موجودگی میں کیا جائے گا۔ اسماعیلی کمیونٹی کے نئے امام کی نامزدگی کے بارے میں مزید تفصیلات جلد فراہم کی جائیں گی، نئے امام کے انتخاب تک ویب سائٹ پر درود کی تسبیح جاری رہے گی۔

پرنس کریم آغا خان کو 13 دسمبر 1936 کو پیدا ہوئے۔ وہ پرنس کریم سر سلطان محمد شاہ آغا خان کے سب سے بڑے صاحبزادے پرنس علی خان کے فرزند تھے۔ پرنس کریم آغاز خان 13 جولائی 1957 کو اسماعلی جماعت کے 49ویں امام چنے گئے۔

پرنس کریم آغا خان نے اپنی زندگی میں تعلیمی، ثقافتی اور معاشی ترقی کے مختلف منصوبوں کی سرپرستی کی، جنہوں نے لاکھوں افراد کی زندگیوں میں بہتری لانے کا کام کیا۔ ان کی رہنمائی اور فلاحی کاموں کو عالمی سطح پر سراہا گیا۔ پاکستان میں پرنس کریم آغا خان کو ستارہ امتیاز اور ستارہ پاکستان سے نوازا گیا۔

پرنس کریم آغا خان کی نمازہ جنازہ لزبن میں ادا کی جائے گی، پرنس کریم آغا خان کے انتقال پردنیا بھر میں جماعت خانوں میں خصوصی دعائیں شروع کردی گئی ہیں۔ نئے پیشوا کے اعلان تک اسماعیلی کمیونٹی کی آفیشل ویب سائٹ پر درود کی تسبیح جاری رہے گی۔

.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: اسماعیلی کمیونٹی کے خان کے

پڑھیں:

بین الاقوامی الصدیقۃ الشہیدہ کانفرنس(3)

اسلام ٹائمز: امام خمینی کی نظر میں حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا خالص اسلام کی بہترین خاتون کا عملی نمونہ اور الہیٰ عورت کا حقیقی مصداق ہیں۔ آپ ایک مجاہد اور مبارز انسان کا کامل نمونہ بھی ہیں۔ وہ ہستی جو عورت کی تمام ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ علم و عرفان کی جستجو کرتی ہے، اپنی زندگی اور افکار کو روحانی معراج تک پہنچاتی ہے اور اللہ کی راہ میں جہاد کے راستے پر قدم رکھتی ہے۔ تاہم وہ یہیں نہیں رکتی بلکہ اپنے شوہر کے ساتھ ملکر ایک قابل فخر نسل کی پرورش کرکے اپنے خاندان کو جہاد کے راستے پر ڈال دیتی ہے، امام خمینی عوام الناس بالخصوص طلباء کو نصیحت کرتے ہیں کہ حضرت زہراء کی شخصیت کو یک جہتی نہ دیکھیں۔ تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی

حضرت فاطمہ زہرا (س) کا نام نہ صرف ایک عظیم پیغمبر کی بیٹی کی یاد دلاتا ہے، بلکہ فاطمہ ایک ایسی خاتون ہیں، جس نے اپنی مختصر زندگی کے باوجود تاریخ پر ایسا گہرا اثر ڈالا کہ وہ ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے کو بہت زیادہ متاثر کرتی نظر آتی ہیں۔ آپ تمام انسانوں اور انسان سازوں کے لیے ایک منفرد نمونہ ہیں۔ جس چیز نے حضرت زہرا (س) کی شخصیت کو ایک ابدی اور لازوال نمونہ میں بدل دیا ہے، ان کا ایک کامل انسان کی حامل مختلف جہتوں سے بہرہ مند ہونا ہے۔ آپ عبادت اور روحانیت سے لے کر جدوجہد اور سیاست تک نیز خاندان کی پرورش سے لے کر حق اور انصاف کے دفاع تک ہر جہت میں کامل نمونہ ہیں۔

امام خمینی (رح) نے حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کو روحانی ترقی و سربلندی، زہد و تقویٰ، سادگی، انحراف کا مقابلہ کرنے والی نیز روحانیت، تقویٰ اور علم کے ساتھ ایک نسل کی تعلیم اور تربیت کرنے والی ہستی کے طور پر ہم سب بالخصوص، علماء، طلباء اور خواتین کے لیے ایک نمونہ اور آئیڈیل کے طور پر متعارف کرایا ہے۔ امام خمینی (رہ) کے بیانات کا جائزہ لینے سے ہم حضرت زہرا (س) کے نمونہ عمل ہونے کی امام خمینی کی نصیحت کے اہم ترین محور تک پہنچ سکتے ہیں۔ امام خمینیؒ خطبہ فدکیہ کو حکومت وقت کے خلاف جدوجہد، آزمائش اور ولایت کی حرمت کے دفاع کا ایک چارٹر سمجھتے ہیں۔ وہ چارٹر جو جھوٹے حکمرانوں کو رسوا کرنے اور لوگوں کو آگاہ کرنے کے لیے سامنے لایا گیا تھا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ حضرت زہرا (س) ایک گوشہ نشین غیر فعال خاتون نہیں تھیں، بلکہ ایک باشعور اور فعال کارکن کی حیثیت سے سیاسی انحرافات کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئیں اور لوگوں کو ظالم حکمرانوں کا مقابلہ کرنے کی دعوت دی۔

امام خمینی حضرت فاطمہ (ع) کے فرزندوں (علماء و مجاہدین) کو جو ان کی آزادانہ اور بلاواسطہ پرورش میں ہیں اور تھے، کو اس جدوجہد کا وارث سمجھتے ہیں۔ یہ فرزندان طول تاریخ میں ظالم اور ظالم نظاموں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور موجودہ دور میں بھی دشمنوں کو اسلام کے مقدسات پر تجاوز کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔ (صحیفہ امام جلد 20) امام خمینی (رہ) کا عقیدہ تھا کہ "علم اور تقویٰ" حضرت زہرا (س) کی زندگی میں اپنے عروج پر تھا اور یہ دونوں کسی گروہ کے لیے مخصوص نہیں ہیں۔ ان تمام صفات کو محفوظ رکھنے میں ہی عورت کی عظمت ہے، ہم سب کو ان کی پیروی کرنی چاہیئے اور ہر کسی کو علم ہونا چاہیئے کہ تقویٰ سب کے لئے ہے اور علم و تقویٰ کے حصول کے لیے کوشش کرنا ہم سب کا اور آپ سب کا فرض ہے۔ (صحیفہ امام جلد 19)

امام خمینی حضرت زہرا (س) کی "سنجیدہ روش اور زندگی کی سادگی" کو معاشرے کے لیے سبق آموز قرار دیتے ہیں۔ امام علی (ع) جیسے عظیم شوہر کے ساتھ سادہ اور پاکیزہ زندگی، قناعت اور دنیاوی آسائشوں سے بے نیاز ایک مثالی زندگی ہے۔ ان تمام لوگوں کے لیے جو دین اور لوگوں کی خدمت کا راستہ اختیار کرنا چاہتے ہیں، ان کے لئے سیرت فاطمہ (ع) میں ایک بہت بڑا سبق موجود ہے۔ (صحیفہ امام جلد 17) حضرت زہرا (س) کی بچوں کی پرورش کا نمونہ روحانیت، تقویٰ اور علم کے ساتھ نسل کی تعمیر کا نمونہ ہے۔ خاندانی اور سماجی کرداروں کو یکجا کرنا حضرت زہراء کی ایک اور خوبی ہے۔ یہ عامل ثابت کرتا ہے کہ معاشرے میں شعوری سرگرمی و فعالیت کے ساتھ خاندان کی بہترین تربیت ممکن ہے۔

چنانچہ امام خمینی کی نظر میں حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا خالص اسلام کی بہترین خاتون کا عملی نمونہ اور الہیٰ عورت کا حقیقی مصداق ہیں۔ آپ ایک مجاہد اور مبارز انسان کا کامل نمونہ بھی ہیں۔ وہ ہستی جو عورت کی تمام ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ علم و عرفان کی جستجو کرتی ہے، اپنی زندگی اور افکار کو روحانی معراج تک پہنچاتی ہے اور اللہ کی راہ میں جہاد کے راستے پر قدم رکھتی ہے۔ تاہم وہ یہیں نہیں رکتی بلکہ اپنے شوہر کے ساتھ ملکر ایک قابل فخر نسل کی پرورش کرکے اپنے خاندان کو جہاد کے راستے پر ڈال دیتی ہے، امام خمینی عوام الناس بالخصوص طلباء کو نصیحت کرتے ہیں کہ حضرت زہراء کی شخصیت کو یک جہتی نہ دیکھیں۔

امام خمینی عوام الناس اور طلباء کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ حقیقی مذہبی انسان وہ ہے، جو فاطمہ (س) کی طرح محراب عبادت میں شب زندہ دار ہو، سیاست کے میدان میں جرات مند اور باکردار ہو اور حق کا دفاع کرنے میں صف اول میں نظر آنے والا ہو اور گھر میں ایک عظیم مربی اور بہترین نسل کی پرورش کرنے والا ہو۔ فاطمہ زہرا (س) دونوں جہانوں کی عورتوں کی مالکن ہیں۔ اگرچہ قرآن مجید کی آیت کریمہ کے متن کے مطابق حضرت مریم کو دنیا کی برگزیدہ خواتین کے طور پر متعارف کرایا گیا ہے اور دنیا کی نظروں میں وہ اعلیٰ مقام اور مثالی عفت و پاکیزگی کی حامل ہیں اور انہیں دنیا کی بہترین خواتین میں سے ایک کے طور پر متعارف کرایا گیا ہے، لیکن وہ صرف اپنے زمانے کی خواتین میں سے برگزیدہ تھیں۔

دوسری طرف حضرت زہرا (س) کا اعلیٰ مقام و مرتبہ ان کی زندگی کے تمام ادوار تک پھیلا ہوا ہے۔ پیغمبر اکرم (ص) نے صراحت کے ساتھ ایک اور قول میں فاطمہ (س) کا ذکر پہلی اور آخری دور کی تمام عورتوں کی سردار کے طور پر کیا ہے۔ جناب سیدہ فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کی پوری زندگی بلکہ زندگی کے تمام لمحات غیر معمولی اہمیت کے حامل ہیں۔ حق و حقیقت کا متلاشی ہر شخص خاتون جنت (ع) کی زندگی کے ان پاکیزہ لمحات پر غور و فکر کرکے اپنے آپ کو اعلیٰ روحانی درجات تک پہنچا سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماخذ: (1)، جامع الاحادیث، جلد 1۔ 1، ص۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(جاری ہے)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

متعلقہ مضامین

  • دہلی دھماکاکیس:مسلمانوں پرزمین تنگ،پیش امام گرفتار
  • مخدوم امین فہیم روحانی میراث کا درخشاں ستارہ تھے،سعید الزماں
  • معروف ای این ٹی سی پروفیسر جلیسی انتقال کرگئے
  • نبی کریمؐ کی زندگی ہر دور کے انسانوں کیلیے قابل تقلید ہے‘ جماعت اہلسنت
  • پاک کینیڈا معیشت میں بزنس کمیونٹی پُل کا کردار ادا کر رہی ہے: پاکستانی ہائی کمشنر محمد سلیم
  • ٹنڈو جام کے دوسرے چیئرمین میرغلام اکبرتالپور انتقال کرگئے
  • پہلا سہ روزہ الحمراء صوفی فیسٹیول 2025
  • مقاومت فاطمی، از مدینہ تا بیت المقدس
  •  نبی کریم ؐ  کی سیرت انسانیت کیلئے جامع‘ قابل عمل نمونہ: وزیر مذہبی امور  
  • بین الاقوامی الصدیقۃ الشہیدہ کانفرنس(3)