امریکی سیاست پے پال مافیا کے نرغے میں
اشاعت کی تاریخ: 6th, February 2025 GMT
سن ۷۰۰۲ میں فورچون میگزین نے جب سلی کون ویلی پر راج کرنے والی شخصیات کا ایک گروپ فوٹو شائع کیا تو اس فوٹو کو اس نے ’’پے پال مافیا‘‘ (paypal mafia) کا عنوان دیا تھا۔ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے مشہور فنانشل کمپنی پے پال بنائی تھی یا پھر اس میں اہم عہدوں پر فائز رہے تھے۔ میگزین کی اس تصویر میں پے پال مافیا کے انتہائی اہم رکن اور پے پال کے شریک بانی ایلون مسک بوجوہ موجود نہیں تھے۔ پے پال کو تقریباً ڈیڑھ بلین ڈالر میں بیچنے کے بعد ان افراد نے اپنی اپنی راہ لی اور انفرادی طور پر کچھ مزید کمپنیاں بنائیں اور کچھ میں سرمایہ کاری کی۔ حسن اتفاق یہ ہے کہ ان تمام لوگوں کی بنائی ہوئی کمپنیاں یا جن کمپنیوں میں انہوں نے سرمایہ کاری کی بے انتہا کامیاب رہیں اور یہ تمام لوگ بلینرز اور سلی کون ویلی کے بے تاج بادشاہ بن گئے۔
جس وقت پے پال مافیا کے عنوان سے تصویر شائع ہوئی تھی تو اس وقت شاید کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ ہوگا کہ اب سے کچھ برسوں بعد پے پال مافیا کے کچھ ارکان نہ صرف ٹیکنالوجی کی دنیا پر اپنا سکہ جمائے ہوئے ہوں گے بلکہ امریکی سیاست پر بھی اپنا مکمل تسلط جمالیں گے۔ اس وقت پے پال مافیا کے سب سے نمایاں رکن تو ایلون مسک ہیں جنہوں نے ٹرمپ کے نئے بنائے ہوئے محکمے ڈیپارٹمنٹ آف گورنمنٹ ایفیشینسی کی باگ ڈور سنبھالتے ہی عملی طور پر امریکی مقننہ کو غیر موثر کرتے ہوئے ایک آئینی بحران پیدا کردیا ہے اور ایک شیڈو حکومت چلارہے ہیں۔ انہوں نے آتے ہی یو ایس ایڈ جیسے ادارے کو بند کردیا ہے اور اب ان کی ٹیم کے نوجوان سافٹ وئیر انجینئر امریکی خزانے کے کمپیوٹرز تک رسائی لے کر ہر ٹرانزیکشن کو مانیٹر اور کنٹرول کررہے ہیں۔ پے پال مافیا کے ایک دوسرے رکن ڈیوڈ سیکس (David Sacks) کو ڈونالڈ ٹرمپ نے اے آئی اور کرپٹو زار بنایا ہے۔ ڈیوڈ سیکس بھی ایلون مسک کی طرح نسل پرست جنوبی افریقا میں پروان چڑھے ہیں۔ پے پال مافیا کے ایک اور اہم رکن اور مشہور سوشل ویب سائٹ (LinkedIn) کے بانی ریڈ ہوفمین نے اس الیکشن میں کملا ہیرس کی حمایت کی تھی۔
پے پال مافیا کے ارکان میں عام لوگ زیادہ تر ایلون مسک کو ہی جانتے ہیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ اگر پے پال مافیا میں اگر کسی کو ڈان کی حیثیت حاصل ہے وہ پیلینٹر (Palantir) کے سی ای او جرمن نژاد پیٹر ٹیل (Peter Thiel) ہیں۔ پیٹر ٹیل کی کمپنی پیلینٹر دراصل سی آئی اے کی ایک فرنٹ کمپنی ہے اور سی آئی اے کے لیے سرویلینس اور ڈیٹا اینالسس کا کام انجام دیتی ہے۔ پیلینٹر دراصل نائین الیون کے بعد جارج بش کے سرویلنس پروگرام total information awareness کا ایک تسلسل ہے۔
ٹیکنالوجی کی دنیا سے تعلق رکھنے والے لوگوں میں اگر کوئی ڈونالڈ ٹرمپ کے حق میں سب سے زیادہ موثر ثابت ہوا ہے وہ پیٹر ٹیل ہی ہیں۔ پیٹر ٹیل ہی ٹیکنالوجی کمپنیوں اور فار رائٹ میں ملاپ کا باعث بنے ہیں۔ ہم جنس پرست پیٹر ٹیل نے اپنی زندگی میں کئی روپ دھارے جن میں مادر پدر آزادی پر یقین رکھنے والا liberatarian ہونا بھی شامل تھا مگر وہ دراصل ٹیکنالوجی کو ہر درد کا درماں سمجھنے والے فلسفے californian ideology کے پیروکار ہیں جس نے آگے چل کر Tech-Oligarchs کی نئی کلاس کو جنم دیا جو اس وقت امریکی سیاست کو اپنی مکمل گرفت میں لے چکی ہے۔ منتقم المزاج پیٹر ٹیل ایک ڈکٹیٹر کی سوچ رکھتے ہیں اور اپنے خلاف بولنے والوں کو مقدمات میں پھنسا کر دیوالیہ ہونے پر مجبور کرچکے ہیں۔ ایلون مسک ہی کی طرح سفید فام نسل پرستوں سے دوستانے رکھتے ہیں اور اسلاموفوب بھی ہیں۔
ٹرمپ کی موجودہ انتظامیہ میں انہوں نے پہلے سے کیے ہوئے اعلان کے مطابق کوئی عہدہ نہیں لیا مگر وہ ایک بادشاہ گر کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ جب ٹرمپ نے چالیس سالہ جے ڈی وینس کو اپنا نائب صدارتی امیدوار منتخب کیا تھا تو بہت سے لوگوں کو حیرت ہوئی تھی مگر جو لوگ ٹرمپ پر Tech-Oligarchsکے اثر رسوخ کو جانتے ہیں ان کے لیے یہ خبر حسب توقع تھی۔ جے ڈی وینس، پیٹر ٹیل کے اپنے ہاتھوں سے تراشا ہوا بت ہے۔ اسی نے جے ڈی وینس کو yale سے اٹھا کر پہلے سینیٹ پھر قصر صدارت تک پہنچوادیا ہے جو صدارت سے امریکی محاورے کے مطابق فقط ایک دل کی دھڑکن کے فاصلے پر ہیں اور ٹرمپ پر ویسے ہی دو قاتلانہ حملے پہلے ہی ہوچکے ہیں۔
.ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
امریکی ٹیکنالوجی کمپنیاں بھارت میں نوکریاں دینا بند کریں، صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا انتباہ
سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے واشنگٹن میں منعقدہ ایک اے آئی (مصنوعی ذہانت) سمٹ سے خطاب کرتے ہوئے بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں جیسے گوگل اور مائیکروسافٹ کو خبردار کیا ہے کہ وہ بیرونِ ملک، خاص طور پر بھارت جیسے ممالک میں ملازمین رکھنا بند کریں اور امریکی عوام کو نوکریاں فراہم کریں۔
ٹرمپ نے کہا کہ امریکی کمپنیاں اب چین میں فیکٹریاں بنانے یا بھارتی آئی ٹی ورکرز کو نوکریاں دینے کے بجائے امریکا میں روزگار پیدا کرنے پر توجہ دیں۔
یہ بھی پڑھیے: ’اے آئی‘ انقلاب: خواتین اور دفتری ملازمین کی نوکریاں خطرے میں، اقوام متحدہ کی وارننگ
انہوں نے بڑی ٹیک کمپنیوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ہماری بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں نے امریکی آزادی کے سائے میں خوب منافع کمایا لیکن اپنی سرمایہ کاری چین، بھارت اور آئرلینڈ میں کی۔ اب وہ دن گئے۔
ٹرمپ نے کہا کہ مصنوعی ذہانت کی دوڑ جیتنے کے لیے حب الوطنی اور قومی وفاداری ضروری ہے۔
ٹرمپ نے اس موقع پر مصنوعی ذہانت کے حوالے سے تین نئے صدارتی احکامات پر بھی دستخط کیے۔ ان احکامات کا مقصد امریکا کو اے آئی میں عالمی لیڈر بنانا ہے۔ اس کے تحت ڈیٹا سینٹرز کی تعمیر اور انفرااسٹرکچر میں سہولت فراہم کی جائے گی تاکہ اے آئی کی ترقی میں رکاوٹیں نہ آئیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اے آئی تخلیقی مصنوعی ذہانت ٹیکنالوجی ڈونلڈ ٹرمپ مصنوعی ذہانت