یو ایس ایڈ بند ہونے سے پاکستان میں لاکھوں متاثر ہوں گے
اشاعت کی تاریخ: 6th, February 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 06 فروری 2025ء) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دوسری بار اقتدار سنبھالنے کے بعد امریکی ایجنسی برائے بین الاقوامی ترقی (یو ایس ایڈ) کے فنڈز منجمد کر دیے ہیں۔ اس فیصلے نے دنیا کے متعدد ممالک کی طرح پاکستان میں بھی بہت سے حلقوں کو مایوسی اور بے یقینی میں مبتلا کر دیا ہے۔
پاکستان میں کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیمیں (این جی اوز) جو زیادہ تر یو ایس ایڈ کے فنڈز پر انحصار کرتی ہیں، اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے میں مشکلات کا سامنا کر رہی ہیں۔
ان میں سے کئی نے اپنی فلاحی سرگرمیاں روک دی ہیں اور پہلے مرحلے میں اپنے ملازمین کی تنخواہوں میں ستر فیصد تک کمی کر دی ہے۔ٹرمپ انتظامیہ نے ابتدائی طور پر یو ایس ایڈ کے فنڈز نوے دن کے لیے منجمد کیے ہیں اور اس دوران امریکی حکومت دنیا میں دی جانے والے امدادی رقوم کے استعمال کے حوالے سے جائزہ لے گی۔
(جاری ہے)
تفصیلی جائزے کے بعد ہی امریکی حکومت فیصلہ کرے گی کہ کس پراجیکٹ کے لیے فنڈنگ جاری رکھی جائے اور کس کی مالی امداد بند کر دی جائے۔
فری اینڈ فئیر الیکشن نیٹ ورک کے ترجمان رشید چوہدری کہتے ہیں، "یہ نوے دن نہایت اہم ہیں کیونکہ ٹرمپ انتظامیہ نے اعلان کیا ہے کہ وہ اس مدت کے دوران منصوبوں کے مستقبل کا فیصلہ کرے گی۔ اس کے بعد ہی ہم اندازہ لگا سکیں گے کہ اصل نقصان کتنا ہو گا۔"
پاکستان سینٹر فلانتھروپی (پی ایس پی) کے ایک سروے کے مطابق پاکستان میں ایک لاکھ سے زیادہ رجسٹرڈ این جی اوز موجود ہیں۔
ان میں سے زیادہ تر فعال نہیں ہیں لیکن جو کام کر رہی ہیں وہ اصلاحات، ایڈووکیسی اور فلاحی شعبوں میں کام سرگرمیاں سر انجام دی رہی ہیں۔ ان میں صحت، استعداد کاری اور غربت کے خاتمے جیسے امور کر ترجیح دی جاتی ہے۔رشید چوہدری نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ جو تنظیمیں اصلاحات اور ایڈووکیسی کے شعبے میں کام کر رہی ہیں وہ ضرور متاثر ہوں گی لیکن اتنی زیادہ نہیں جتنی کہ وہ تنظیمیں جو انسانی امداد کے منصوبوں پر کام کر رہی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا، "نہ صرف لوگ اپنی ملازمتیں کھو دیں گے بلکہ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ لاکھوں لوگ جو انسانی امدادی منصوبوں سے مستفید ہو رہے ہیں، وہ سب سے زیادہ متاثر ہوں گے۔"
کیا حکومت امریکی فنڈنگ کا خلا پورا کر سکتی ہے؟حال ہی میں اقوام متحدہ کے پاپولیشن فنڈ نے خدشہ ظاہر کیا کہ پاکستان میں ساٹھ سے زائد صحت کی سہولیات بند کر دی جائیں گی، جس سے تقریباً سترہ لاکھ افراد متاثر ہوں گے، جن میں افغان باشندے بھی شامل ہیں۔
سماجی کارکن فرزانہ باری کہتی ہیں، "حکومت ان خدمات کا خلا پُر نہیں کر سکتی، جو این جی اوز ملک میں فراہم کر رہی تھیں۔ بہت سی این جی اوز صحت اور تعلیم کے شعبوں میں کام کر رہی ہیں اور فنڈز کی بندش ان تنظیموں سے مستفید ہونے والے لاکھوں افراد کو متاثر کرے گی۔"
فرزانہ باری کا کہنا ہے کہ حکومت تو فلاحی کاموں میں کوئی حصہ نہں ڈالتی اور این جی اوز کے بند ہونے سے وہ لوگ جو ان سے فائدہ اٹھاتے تھے بہت پریشان ہوں گے۔
ملازمین پر کیا فرق پڑے گا؟اگرچہ این جی اوز کے منیجرز اور چیف ایگزیکٹوز کو ملازمتوں کے حوالے سے زیادہ تشویش نہیں ہے لیکن وہ فنڈز کی بندش کے معاشرے کے دیگر افراد پر ممکنہ منفی اثرات پر زیادہ فکر مند ہیں۔ این جی اوز میں کام کرنے والے افراد بھی البتہ اس وقت کافی پریشان ہیں۔
ایک این جی او سے وابستہ ایک کارکن نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا، "ہماری تنخواہ اس وقت ہماری سابقہ تنخواہ کے پچیس فیصد تک آ گئی ہیں، یعنی اگر میری تنخواہ چار لاکھ تھی تو وہ کم ہو کر ایک لاکھ ہو گئی ہے۔
اگر فنڈز بحال نہ ہوئے، تو ہمیں اپنی ملازمتیں کھو دینے کا بھی خوف ہے۔"ماہرین کا کہنا ہے کہ اصلاحات کے شعبے میں کام کرنے والی این جی اوز کو اتنا نقصان نہیں ہو گا جتنا کہ ان تنظیموں کو ہو گا جو پاکستان کے غریب عوام کو براہ راست امداد فراہم کر رہی ہیں۔
رشید چوہدری کہتے ہیں، " فافن وکالت اور اصلاحات پر مبنی ایک تنظیم ہے، یقینی طور پر ہمارے لیے بھی مشکلات ہوں گی، حالانکہ ہم نے ابھی تک اپنے ملازمین کو برطرف نہیں کیا اور کسی طرح انتظام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن سب سے بڑی پریشانی ان تنظیموں کے لیے ہے، جو انسانی امدادی منصوبوں پر کام کر رہی ہیں۔
بہت سی این جی اوز نرم شرائط پر قرض بھی فراہم کرتی ہیں اور لوگوں کو غربت سے نکالنے کے لیے کام کرتی ہیں، ان کا کام بند ہونے سے ان سے مستفید ہونے والے افراد پر بہت اثر پڑے گا اور وہ لاکھوں میں ہیں۔ماہرین یہ بھی سمجھتے ہیں کہ فنڈز کی بندش سے نہ صرف پاکستان متاثر ہوگا بلکہ وہ کئی غیر ملکی این جی اوز بھی نقصان اٹھائیں گی جو یو ایس ایڈ کے منصوبوں کے لیے مشاورتی خدمات فراہم کر رہی تھیں۔
فرزانہ باری کہتی ہیں، "کسی منصوبے کے لیے مختص شدہ تمام رقوم پاکستان میں خرچ نہیں کی جاتی بلکہ اس کا ایک چھوٹا حصہ پاکستان میں استعمال ہوتا ہے جبکہ زیادہ تر رقوم واپس یو ایس ایڈ کی ان تنظیموں کے پاس چلی جاتی ہے جو ان منصوبوں کے لیے مشاورتی خدمات فراہم کرتی ہیں۔"
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے کام کر رہی ہیں پاکستان میں میں کام کر یو ایس ایڈ جی اوز متاثر ہوں فراہم کر سے زیادہ کرتی ہیں ہیں اور ہوں گے کے لیے
پڑھیں:
پی آئی اے انتظامیہ اور ایئرکرافٹ انجینئرز کے درمیان تنازع شدت اختیار کرگیا، پروازیں متاثر
پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن انتظامیہ اور ایئرکرافٹ انجینئرز کے درمیان تناز شدت اختیار کرگیا جس کے باعث پی آئی اے کا فلائٹ آپریشن جزوی طور پر متاثر ہوا ہے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق پی آئی اے انتظامیہ اور ائیرکرافٹ انجینئرز کے درمیان تنازع شدت اختیار کرگیا ہے، جس کے باعث قومی ایئرلائن کا فلائٹ آپریشن جزوی طور پر متاثر ہونا شروع ہوگیا، پیر کی شب مذکورہ صورتحال کے سبب کئی بین الاقوامی پروازوں کی روانگی التواء کا شکار ہوئیں۔
سوسائٹی آف ائیرکرافٹ انجینئرز نے طیاروں کو اڑان کے لیے کلیرنس دینا روک دیا۔ سیپ نے اعلان کیا ہے کہ جب تک پی آئی اے کے سی ای او اپنا رویہ درست نہیں کرتے وہ اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں انجام نہیں دیں گے۔
انجینئرز تنظیم کے مطابق یہ فیصلہ اجتماعی عمل اور یکجہتی کے اظہار کے طور پر کیا گیا ہے۔
سوسائٹی آف ایئرکرافٹ انجینئرز (سیپ) کے صدر عبداللہ خان جدون نے اپنے پیغام میں کہا کہ انجینئرنگ کا احترام دراصل قومی ادارے کے احترام کے مترادف ہے، ہم اس بات کے متحمل نہیں ہوسکتے کہ انجینئرنگ مینجمنٹ کو بار بار دھوکا دیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ طویل عرصے سے زیرِ التوا مسائل کے حل تک تمام روزمرہ کے عمل معطل رہیں گے اور تمام ممبران کسی بھی میٹنگ میں شرکت نہ کریں۔
عبداللہ جدون کا کہنا تھا کہ یہ اجتماعی عمل اور یکجہتی کا لمحہ ہے، صورتحال ہماری متحد توجہ کا تقاضا کر رہی ہے، اور اب یا کبھی نہیں والی کیفیت ہے۔
صدر سیپ نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ وہ اپنی برادری کے ساتھ کھڑے رہیں اور اتحاد برقرار رکھیں، ذرائع کے مطابق پی آئی اے کے سی ای او نے چیف ایچ آر افسر کو ہدایت جاری کی ہے کہ طیاروں کے آپریشن متاثر کرنے والے تمام انجینئرز کے خلاف سخت کارروائی کی جائے، ائیرکرافٹ انجینئرز کے احتجاج کی باعث قومی ایئرلائن کا بین الاقوامی آپریشن زیادہ متاثر ہوا۔
کراچی،لاہور اسلام آباد اور پشاور سے مدینہ،جدہ،ابو ظہبی دمام کی پروازوں کی اڑان میں خلل پڑا جبکہ پیر کی شب رات 8 بجے کے بعد سے بین الاقوامی پروازیں اڑان کے لیے شعبہ انجینئرنگ کی کلیئرنس کی منتظر رہیں۔
پی ائی اے انجینئرز کی جانب سے کام چھوڑنے کا معاملے پر ترجمان پی آئی اے کا کہنا ہے کہ سوسائٹی آف ائیر کرافٹ انجنئیرز کا کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے، اس تحریک کا بنیادی مقصد پی آئی اے کی نجکاری کے حتمی مراحل کے عمل کو سبوتاژ کرنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سیفٹی کا بہانہ بنا کر ایک منصوبے کے تحت بیک وقت کام چھوڑنا ایک مذموم سازش ہے جس کا مقصد پی آئی اے کے مسافروں کو زحمت دینا اور انتظامیہ پر ناجائز دباؤ ڈالنا ہے، پی آئی اے میں لازمی سروسز ایکٹ نافذ ہے جس کے تحت ہڑتال یا کام چھوڑنا قانونی طور پر جرم ہے،تمام ایسے عناصر جو ایک سازش کے تحت ایسی کارروائیوں میں مشغول ہیں یا ان کی پشت پناہی کررہے ہیں اُن کے خلاف قانونی کاروائی عمل میں لائی جائے گی۔
ترجمان نے کہا کہ انتظامیہ متبادل انجینئرنگ خدمات دوسری ائیرلائنز سے حاصل کررہی اور جلد ہی تمام پروازیں روانہ کردی جائیں گی۔