Nai Baat:
2025-07-04@00:56:25 GMT

ہم نے صنم کو خط لکھا

اشاعت کی تاریخ: 8th, February 2025 GMT

ہم نے صنم کو خط لکھا

میں کافی دنوں سے آپ کو خط لکھنے کا سوچ رہا تھا مگر آپ کا کوئی خط ہی نہیں آ رہا تھا جس کے جواب میں آپ کو میں خط لکھتا ، میری ”ٹ±وئٹ“ بھی میرا خط ہی ہوتا ہے مگر جو تفصیلی باتیں آمنے سامنے بیٹھ کر یا بذریعہ خط کی جاسکتی ہیں وہ بذریعہ ٹوئٹ نہیں کی جا سکتیں ، جب ٹوئٹ اور موبائل فون کا زمانہ نہیں تھا مجھے بہت خط آتے تھے ، میں یہ سارے خط ردی میں بیچ کر اس سے حاصل ہونے والی کمائی بھی شوکت خانم ہسپتال کے لئے وقف کر دیتا تھا ، آپ نے شاید کبھی کسی کو خط نہیں لکھا ہوگا ، میں بھی آپ کو خط نہیں لکھنا چاہتا تھا مگر میں نے سوچا آپ تو مجھے جیل میں ڈال کر بھول ہی گئے ہیں چنانچہ ایک آدھ خط لکھ کر مجھے آپ کو یاد کرانا چاہئے میں ابھی تک جیل میں ہوں ، سب سے پہلے میں آپ کا اس بات پر شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں آپ نے مجھے جیل میں ا±س طرح نہیں رکھا ہوا جس طرح جنرل ضیاالناحق نے ذوالفقار علی بھٹو کو رکھا ہوا تھا ، مجھے یہاں اپنی مرضی کے کھانے وغیرہ کھانے کی مکمل سہولت حاصل ہے ، حتی کہ ہفتے میں دو دن دیسی مرغا بھی مل جاتا ہے جو میری مرغوب غذا ہے ، البتہ دیسی م±رغا میرے پیٹ میں جا کر جو ” بانگیں“ دیتاہے اس کے توڑ کی کوئی سہولت مجھے میسر نہیں ہے ، ا±مید ہے آپ میرا اشارہ سمجھ گئے ہوں گے ، اگر اس طرح کی کوئی سہولت مجھے مل جائے میں اور مراد سعید دونوں آپ کے ممنون ہوں گے ، میں نے جب آپ کو خط لکھنے کے لئے جیل انتظامیہ سے کاغذ اور قلم مانگا وہ سمجھے میں نے عائلہ ملک کو خط لکھنا ہے کہ”بدتمیز تم ایک بار بھی جیل میں مجھ سے ملنے نہیں آئی“’ ، جیل انتظامیہ کو جب پتہ چلا میں نے یہ خط آپ کو لکھنا ہے ا±ن کے ہاتھ پاو¿ں پھول گئے ، وہ مجھ سے اپنا کاغذ قلم واپس لینے آئے مگر تب تک میں خط لکھ کر آپ کو بھیج چ±کا تھا ، اب ا±نہیں سمجھ ہی نہیں آرہی میں نے کس ذریعے سے خط بھیجا ؟ شک کی بنیاد پر جیل کے سارے کبوتر مع منصور علی خان کے کبوتر کے ا±نہوں نے اندر کر دئیے ہیں ، اور اب جیل کے سارے کوے ا±ن کبوتروں کی تفتیش کر رہے ہیں کہ کہیں کسی کبوتر نے تو میرا خط آپ تک نہیں پہنچا دیا ؟ کبوتروں کی تو ایسے ہی شامت آگئی ورنہ آپ کو پتہ توہی ہے میں نے کس ذریعے سے اپنا خط آپ تک پہنچایا ؟ مجھے یقین ہے میرا خط آپ کو مل گیا ہے مگر آپ اس کا اعتراف ا±سی طرح نہیں کر رہے جس طرح آپ اپنے سیاست میں ملوث ہونے کا اعتراف نہیں کرتے ، مجھے ذاتی طور پر آپ کے سیاست میں ملوث ہونے پر کوئی اعتراض نہیں مگر میں چاہتا ہوں آپ صرف مجھے فائدہ پہنچانے کی حد تک سیاست میں ملوث ہوں ، یہ جو آپ شریف برادران اور زرداری وغیرہ کی سیاست کو تقویت پہنچانے میں ملوث ہوتے ہیں مجھے صرف ا±س پر اعتراض ہے ، جیسے مجھے صرف اس بات پر اعتراض ہے کوئی امریکی صدر کون ہوتا ہے میری حکومت ختم کرنے والا ؟ لیکن اگر کوئی امریکی صدر میری حکومت بنانے میں سہولت کار بننا چاہتا ہے اس پر مجھے کیا اعتراض ہو سکتا ہے ؟ دوسری بات یہ ہے خود پاکستانی سیاست کو آپ کے کردار کا اتنا چسکا پڑ گیا ہے آپ کے بغیر وہ بے چاری اب چل ہی نہیں سکتی ، آپ اگر سیاست سے سچی سچی اور پکی پکی توبہ کر بھی لیں ممکن ہے ایسی صورت میں م±لک بھر کے سیاستدان آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر آپ کے چرن چھو کر گزارش کریں”سر آپ کے بغیر سیاست کا ذرا مزہ نہیں آرہا ، آپ کی سرپرستی کے بغیر ہم مسکین بالکل ہی یتیم ہوگئے ہیں ، ارکان اسمبلی ہمارے قابو میں آرہے نہ اتھری بیوروکریسی آ رہی ہے ، ججوں نے تو ہمیں بالکل ہی فارغ کرا دیاہے ، انتہائی دیدہ دلیری سے مال بنانے کی ہمت بھی ہمیں نہیں پڑ رہی ، چنانچہ آپ سیاست سے اپنی توبہ فوری طور پر واپس لے کر ہمیں اپنی تابعداری اور شکرگزاری کا مزید موقع فراہم کرتے رہیں ، ویسے بھی میں کوئی اس طرح کا پاگل تھوڑی ہوں جو آپ کو سیاست میں مداخلت نہ کرنے کا دل سے کہوں ؟ ، جب مجھے پتہ ہے فطرت تبدیل نہیں ہوتی میں آپ سے ایسے تقاضے کیوں کروں ؟ فطرت میری تبدیل ہونی ہے نہ آپ کی ہونی ہے ، پھر ایک دوسرے سے ہمیں صرف وہی تقاضے کرنے چاہئیں جو فطری طور پر پورے کرنے کے ہم قابل ہوں ، اب آپ اگر مجھ سے یہ تقاضا کریں میں اپنے کسی عمل پر آپ سے معافی مانگ ل±وں گا وہ میں نے کبھی اللہ سے نہیں مانگی آپ کی کیا حیثیت ہے ؟ اسی طرح آپ اگر مجھ سے یہ تقاضا کریں میں آپ کو یہ گارنٹی دوں اقتدار میں آ کر آپ کے مفادات کو ہلکی سی زد بھی نہیں پہنچاو¿ں گا ، علاوہ ازیں کے پی کے اور پنجاب کے وزرائے اعلیٰ ایماندار اور اہل لوگوں کو لگاو¿ں گا ، علاوہ ازیں اپنی بیگم اور ا±ن کی کرپٹ سہیلیوں کو پابند کر دوں گا آپ سیاسی و سرکاری معاملات میں مداخلت بند کر کے اپنی آمدنی میں اربوں کھربوں کا اضافہ نہیں کریں گی تو ظاہر ہے اس طرح کے تقاضے پورے کرنا میری فطرت کے برعکس ہے ، باقی یہ خط میں کافی دنوں سے آپ کی وساطت سے جنرل باجوے کا شکریہ ادا کرنے کے لئے بھی آپ کو لکھنا چاہتا تھا ، جنرل باجوے نے جس طرح میری حکومت کا سوا سال پہلے خاتمہ کر کے تیزی سے گرتی ہوئی میری مقبولیت کو نئی زندگی بخشی اس پر ہم صرف ظاہری طور پرہی ا±ن کے خلاف ہیں ، اندروں اندری ہم ا±نہیں دعائیں دیتے ہیں ہماری حکومت ختم کرنے کا کارنامہ وہ اگر نہ کرتے ممکن ہے اگلا الیکشن خود مجھے بھی نون لیگ کی ٹکٹ پر لڑنا پڑ جاتا ، جنرل باجوے نے ہمارے لئے آسانیاں پیدا کر کے آپ کے لئے جو مشکلات پیدا کیں مجھے یقین ہے ا±س کا اندازہ پل پل اب آپ کو ہو رہا ہوگا ، آخر میں آپ کا بھی شکریہ کہ جنرل باجوے نے میری مقبولیت کی واپسی کا جو بیڑا ا±ٹھایا تھا آپ مجھے مسلسل جیل میں رکھ کر ا±س میں مسلسل اضافہ کرتے جا رہے ہیں ، میں اکثر سوچتا ہوں میں اگر رہاہوگیا اور آپ کی وساطت سے پھر اقتدار میں آگیا لوگوں کو کیا منہ دکھاو¿ں گا ؟ ؟ ؟

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: جنرل باجوے سیاست میں میں ملوث جیل میں کے لئے

پڑھیں:

شاہ محمود قریشی کا ایک بار پھر مذاکرات پر زور، پی ٹی آئی کو نیا فارمولا بھی پیش کردیا

کوٹ لکھپت جیل میں قید پاکستان تحریک انصاف کے سینئر رہنما شاہ محمود قریشی نے مذاکرات کیلیے اپنی پارٹی کو نیا سیاسی فارمولا پیش کردیا۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق  پاکستان تحریک انصاف کے اسیر سینئر رہنما شاہ محمود قریشی نے پی ٹی آئی کو مذاکرات کے ساتھ مزاحمت جاری رکھنے کا مشورہ دیا ہے۔

کوٹ لکھپت جیل میں صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو میں شاہ محمود قریشی نے کہا کہ مذاکرات کا حتمی فیصلہ بانی پی ٹی آئی کریں گے اور ہم بھی یہی چاہتے ہیں کہ مقتدرہ حلقوں کے ساتھ ہی بات چیت ہو تاہم انہوں نے یہ بھی کہہ دیا کہ سیاست سیاسی جماعتوں کا کام ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر مقتدرہ حلقوں نے واضح کردیا ہے تو تو پھر ہم  سیاست دانوں سے مذاکرات کی بات ہی کریں گے۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ مذاکرات سے پہلے ہمیں بانی پی ٹی آئی تک بنا روک ٹوک رسائی ملنی چاہیے تاکہ ہم انہیں اپنے نقطہ نظر سے آگاہ کر کے آگاہی لے سکیں۔

شاہ محمود نے کہا کہ میرا سیاست میں 42 سال کا تجربہ ہے، ہم بات کرنا چاہ رہے ہیں مگر آگے سے کوئی جواب نہ آئے تو پھر احتجاج کا آپشن ہی بچتا ہے، مذاکرات کی بات دو سال جیل کاٹنے کے بعد کی ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ کوٹ لکھپت جیل کے اسیروں کی متفقہ رائے ہیں کہ مذاکرات ہونے چاہیے۔ پی ٹی آئی رہنما نے مزید کہا کہ ہمیں کونسی حکومتی شخصیت سے بات چیت کرنی چاہیے اسکا نام ابھی نہیں بتاؤں گا کیونکہ ہر چیز کا وقت ہوتا ہے سیاست میں ٹائمنگ بہت اہم ہوتی ہے، صیح وقت آنے پر بتاؤں گا کہ کس سے بات ہونی چاہیے۔

شاہ محمود قریشی نے مزید کہا کہ جیل میں موجود شخص کے پاس محدود علم ہوتا ہے، ہمیں علم نہیں کہ گراؤنڈ پر کیا ہو رہا ہے، بیرسٹر گوہر اور سلمان اکرم راجہ کو چاہیے کہ ہم سے آ کر ملاقات کریں اور زمینی حقائق سے آگاہ کریں۔

متعلقہ مضامین

  • ملکی سیاست میں آئین، قانون اور اخلاقیات والی بات ہے نہیں
  • پیپلزپارٹی حکومت میں شامل ہو یا عوام میں جاکر سیاست کرے، یوسف رضا گیلانی کی تجویز
  • غیر مساوی سلوک اور مسلسل نظر انداز کرنے پر آئل مارکیٹینگ ایسوسی ایشن کا وزیراعظم سے بڑا مطالبہ
  • عمران خان اپنی ہی جماعت کی سیاست کے باعث جیل میں ہیں، شرجیل میمن
  • عمران خان اپنے ہی لوگوں کی سیاست کے باعث جیل میں ہیں، شرجیل میمن
  • مسلم لیگ (ن) کی سیاست
  • ریاست کو چیلنج کرتا ہوں میری حکومت گرا کر دکھائے تو سیاست چھوڑ دوں گا، وزیراعلیٰ گنڈا پور
  • شاہ محمود قریشی کا ایک بار پھر مذاکرات پر زور، پی ٹی آئی کو نیا فارمولا بھی پیش کردیا
  • سوات واقعے پر سیاست نہیں، سچائی سے جائزہ لیا جائے، وزیراعظم
  • سوات واقعہ افسوسناک، سیاست کی بجائے سچائی کیساتھ اسکا جائزہ لینا چاہئے، شہباز شریف