اسرائیل شر٘ مطلق ہے، لبنانی سپیکر
اشاعت کی تاریخ: 8th, February 2025 GMT
اپنی ایک مضحکہ خیز پریس کانفرنس میں مورگن اورتگاس کا کہنا تھا کہ حزب الله کو نئی لبنانی حکومت کا حصہ بننے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اسلام ٹائمز۔ لبنان کی پارلیمنٹ کے سپیکر "نبیه بیری" نے کہا کہ اسرائیل شر مطلق ہے۔ انہوں نے کہا کہ لبنانی سرزمین پر صیہونی رژیم کے قبضے کے خلاف مقاومت ضروری ہے۔ نبیہ بیری نے ان خیالات کا اظہار اس وقت کیا جب آج نائب امریکی مندوب برائے مشرق وسطیٰ امور "مورگن اورتگاس" نے اُن سے ملاقات کی۔ اس موقع پر لبنانی سپیکر نے کہا کہ جنگ بندی کے معاہدے میں ضامن کی حیثیت سے امریکی حکومت کو چاہئے کہ وہ اسرائیل کو اس بات کا پابند بنائے کہ وہ اقوام متحدہ کی قرارداد 1701 پر عملدرآمد کرے اور لبنانی حدود سے باہر نکلے۔ انہوں نے اسرائیل کے ساتھ تنازعہ میں لبنانی فوج کے کردار کو سراہا۔ اس دوران دونوں فریقین نے اسرائیل کی جانب سے لبنانی حدود، قرارداد 1701 اور جنگ بندی کے معاہدے کی خلاف ورزیوں کا جائزہ لیا۔
انہوں نے صیہونی رژیم کے ہاتھوں لبنانی شہریوں کی املاک کو جلانے، زراعتی رقبے کو تباہ کرنے اور فضائی حملوں پر تبادلہ خیال کیا۔ دوسری جانب مورگن اورتگاس نے لبنانی صدر "جوزف عون" سے ملاقات کے ایک دن بعد اپنی پریس کانفرنس میں ایک بے بنیاد و مضحکہ خیز شوشا چھوڑا۔ اس ضمن میں انہوں نے کہا کہ اسرائیل کے ساتھ جنگ میں حزب الله کو شکست ہوئی۔ انہوں نے اپنی مداخلت آمیز گفتگو میں کہا کہ حزب الله کو نئی لبنانی حکومت کا حصہ بننے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ یہ بیانات ایسی صورت حال میں سامنے آ رہے ہیں جب حزب الله اور تحریک امل، نواف سلام کی حکومت میں 5 وزارتیں سنبھالنے جا رہی ہے۔
ذریعہ: Islam Times
پڑھیں:
اسرائیل میں پارلیمنٹ تحلیل کرنے کی تحریک، نتن یاہو کی حکومت شدید دباؤ میں
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
یروشلم: اسرائیل کی اپوزیشن جماعتوں نے پارلیمنٹ (کنیسٹ) تحلیل کرنے کی تحریک ایوان میں پیش کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو وزیراعظم بنیامین نتن یاہو کی دائیں بازو کی حکومت کے لیے اب تک کا سب سے سنگین سیاسی چیلنج بن گیا ہے اور قبل از وقت انتخابات کے امکانات کو جنم دے رہا ہے۔
عالمی میڈیا رپورٹس کےمطابق اگرچہ یہ تحریک پاس ہو بھی جائے تو فوری طور پر حکومت کا خاتمہ ممکن نہیں ہوگا کیونکہ حتمی ووٹنگ سے قبل کئی مہینوں پر محیط پارلیمانی مراحل درکار ہوں گے، ابتدائی منظوری بھی نتن یاہو کی سیاسی ساکھ پر کاری ضرب ثابت ہوگی۔
حماس کے 7 اکتوبر 2023 کو کیے گئے حملے کے بعد اس مسئلے نے مزید شدت اختیار کر لی ہے اور اسرائیلی عوام میں ناراضی بڑھی ہے کیونکہ عام یہودی نوجوانوں کو طویل فوجی سروس سے گزرنا پڑتا ہے جب کہ ہزاروں مذہبی نوجوان اس سے مستثنیٰ ہیں۔
یونائیٹڈ توراہ جوڈازم نے اپوزیشن کے ساتھ مل کر ووٹنگ کی دھمکی دی ہے جبکہ شاس پارٹی نے اپنے موقف کو مبہم رکھا ہے، اگر یہ دونوں جماعتیں اپوزیشن کا ساتھ دیتی ہیں تو پارلیمنٹ تحلیل کرنے کی تحریک اکثریت حاصل کر سکتی ہے۔
اپوزیشن جماعتیں جن میں بائیں، وسطی اور دائیں بازو کے دھڑے شامل ہیں، مختلف نظریات رکھنے کے باوجود نتن یاہو کی حکومت کو گرانے پر متفق ہیں۔ ان کا مؤقف ہے کہ الٹرا آرتھوڈوکس کی فوجی سروس لازمی قرار دی جائے اور حکومت کو عوام کی مرضی کے مطابق دوبارہ منتخب ہونے کا موقع دیا جائے۔
خیال رہے کہ نتن یاہو کی حکومت کے پاس 120 رکنی کنیسٹ میں 68 نشستیں ہیں جن میں سے مذکورہ مذہبی جماعتیں 18 نشستیں رکھتی ہیں، ان کے الگ ہونے کی صورت میں حکومت کمزور ہو جائے گی۔
وزیراعظم نتن یاہو کی حکومت اکتوبر 2023 کے بعد سے شدید تنقید کی زد میں ہے۔ عوام انہیں حماس حملے سے قبل انٹیلیجنس اور پالیسی کی ناکامیوں کا ذمہ دار قرار دے رہے ہیں اور یرغمال بنائے گئے اسرائیلی شہریوں کی واپسی کے لیے ناکافی اقدامات پر بھی نالاں ہیں۔