نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جی جارہانہ پالیسیوں اور مستقبل کے منظر نامے کا جائزہ لینے کیلئے ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں خصوصی مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں ماہرین امور خارجہ اور سیاسی تجزیہ کاروں کو مدعو کیا گیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

پروفیسر ڈاکٹر ارم خالد

ڈین فیکلٹی آف بیہیوئرل اینڈ سوشل سائنسز

 جامعہ پنجاب

ڈونلڈ ٹرمپ کا سٹائل ماضی سے مختلف ہے۔ ان کا اندازجارحانہ اور اپنے خلاف ہونے والے اقدامات کا ردعمل معلوم ہوتا ہے۔ ٹرمپ اپنے لوگوں کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ وہ ان کی خواہشات اور توقعات پوری کرنے آئے ہیں۔ ٹرمپ کے ایگزیکٹیو آرڈر ایک لیڈر کے بیانات ہیں، امریکی معاشرے ، سینیٹ و دیگر میں ان پر غور و فکر کا آغاز ہوگیا ہے۔ ان میں سے بعض عدالتوں میں چیلنج ہوگئے ہیں لہٰذا آگے چل کر معاملات میں بہت تبدیلی آئے گی۔ کوئی بھی ملک یا حکومت اپنی اسٹیبلشمنٹ سے ٹکراؤ کی متحمل نہیں ہوسکتی، نہ ہی ڈونلڈ ٹرمپ اپنی اسٹیبلشمنٹ سے ٹکر لے سکتے ہیں، میرے نزدیک ٹرمپ نے اپنے دل کا بوجھ ہلکا کیا ہے، نظام چلانے کیلئے انہیں اداروں کے ساتھ چلنا ہوگا۔ ٹرمپ کی شکل میں یہ ’’نیو اتھاری ٹیرین پریزیڈینسی ‘‘ کا سٹائل ہے، یہ امریکی معاشرے کو قابل قبول نہیں ہوگا۔

یہ واضح ہونا چاہیے کہ امریکا کسی ایک شخص کی وجہ سے سپر پاور نہیں بنا بلکہ اس میں وہاں کی اسٹیبلشمنٹ، اداروں، سابق صدور ودیگر کا بڑا اور طویل کردار ہے۔ اس میں امریکا کے اتحادی ممالک بھی انتہائی اہم ہیں لہٰذا ٹرمپ سب کچھ یکسر ختم نہیں کرسکتے، انہیں اپنے احکامات اور پالیسیوں پر نظر ثانی کرنا ہوگی۔

وہ اپنے اتحادیوں پر پابندیاں نہیں لگا سکتے، اس کا شدید ردعمل آئے گا۔ امریکی کانگریس اور میڈیا میں تو ابھی سے ہی کچھ آوازیں اٹھ رہی ہیں لہٰذا آگے چل کر معاملات میں تبدیلی آئے گی۔ امریکی امداد سے دنیا میں منصوبے چل رہے ہیں، یہ بند ہونے سے غریب ممالک کو نقصان ہوگا۔

اقوام متحدہ ایک اہم ماڈل ہے، امریکی صدر روایات کو ختم نہیں کر سکتے، انہیں حقیقت پسندانہ پالیسیوں کی طرف آنا ہوگا۔ پاک امریکا تعلقات کبھی بھی مثالی نہیں رہے، ہم نے اپنی ضروریات کے حساب سے تعلق بنائے، ہمیں ہاتھ پھیلانے کے بجائے خود انحصاری کی طرف بڑھنا ہوگا، صرف اسی صورت میں امریکا اور دنیا کے ساتھ ہمارے اچھے تعلقات استوار ہوسکتے ہیں۔

ڈاکٹر اعجاز بٹ

ماہر امور خارجہ و سیاسی تجزیہ کار

1947ء سے لے کرآج تک ہمارا انحصار امریکا پر رہا ہے۔ ہمیں اس سے مالی و ملٹری امداد ملتی رہی ہے۔ ہمارا انحصار آج بھی ختم نہیں ہوا۔ اس وقت ڈونلڈ ٹرمپ کی توجہ امریکا کے اندرونی معاملات پر ہے، وہ بیرونی جنگوں میں وسائل ضائع نہیں کرنا چاہتے بلکہ چین کی طرح جنگ کے بجائے ترقی کی پالیسی اپنا رہے ہیں۔ وہ خود کو عالمی ادارہ صحت، جنگوں و دیگر کاموں سے دور کر رہے ہیں، انہوں نے اقوام متحدہ کے بجٹ میں بھی کمی کر دی ہے۔ یو ایس ایڈ جو خود مختار ادارہ تھا، اسے حکومت کے تابع لایا جا رہا ہے، اب ریاست طے کرے گی کہ کہاں خرچ کرنا ہے اور کیسے خرچ کرنا ہے۔

امریکا دنیا میں بطور سپر پاور جو کردار ادا کر رہا تھا، ٹرمپ اس سے پیچھے ہٹنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ امریکا کی مالی ذمہ داریوں میں کمی لا رہے ہیں تاکہ گریٹر امریکا کا خواب پورا کرسکیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسی کا مرکز چین ہے، وہ چینی مصنوعات پر زیادہ ڈیوٹی لگا رہے ہیں، ٹرمپ چاہتے ہیں کہ بڑی طاقت ہونے کے ناطے چین بھی عالمی معاملات میں کردار ادا کرے، امداد دے، صرف امریکا ہی کیوں۔ ٹرمپ کی پالیسیوں سے تجارتی جنگ میں شدت آئے گی۔ انہوں نے بارہا چینی امپورٹ پرڈیوٹی لگانے کی بات کی ہے۔ امریکی صارفین کی بڑی تعداد چینی مصنوعات کا استعمال کرتی ہے، یہ سستی اور ان کی پہنچ میں ہیں۔ جب ڈیوٹی لگے گی تو یہ مہنگی ہو جائیں گی، اس کا اثر یقینی طور پر امریکی عوام پر ہوگا۔ کنیڈا، میکسیو، یورپین یونین کے ممالک سے بہت ساری اشیاء امریکا امپورٹ کرتا ہے، ڈیوٹی لگنے سے امریکی مارکیٹ میں مہنگائی کا طوفان آجائے گا۔ اسی طرح یہ ممالک بھی امریکی پراڈکٹس پر ڈیوٹی لگائیں گے جس سے عالمی معاشی ماڈل پر بُرا اثر پڑے گا ۔

دنیا کے ممالک ایک دوسرے پر انحصار کرتے ہیں اور اسی طرح ہی آگے بڑھتے ہیں لیکن امریکی صدر اس کے برعکس کام کر رہے ہیں۔ میرے نزدیک پاکستان کی مشکلات میں اضافہ ہوگا، اس کا حل سفارتکاری نہیں بلکہ خود انحصاری ہے، جب تک ہم امریکا پر انحصار کم نہیں کریں گے، ہم متاثر ہوتے رہیں گے۔ امریکی صدر نے اسرائیل کے حوالے سے پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔ انہوں نے ابراہیم اکارڈ کی بات کی ہے۔ اس معاہدے کے تحت بہت سارے اسلامی ممالک نے اسرائیل کو تسلیم کرکے اس کے ساتھ سفارتی تعلقات کا آغاز کیا تھا، ان ممالک میں بحرین، مراکش، متحدہ عرب امارات و دیگر شامل ہیں۔ اگر ٹرمپ کی حکومت ختم نہ ہوتی تو وہ سعودی عرب کو بھی اس میں شامل ہونے پر آمادہ کر رہے تھے۔

سعودی عرب کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرنے سے اسرائیل کے لیے راہ ہموار ہوجائے گی، سعودی عرب کے اثرو رسوخ کی وجہ سے دیگر اسلامی ممالک بھی اسے تسلیم کریں گے۔ اب دوبارہ سے ٹرمپ ابراہیم اکارڈ کو آگے بڑھانے کیلئے کام کریں گے، اس سے پاکستان کیلئے بھی چیلنج پیدا ہوگا۔ دو ریاستی حل اور علیحدہ فلسطینی ریاست کے قیام کو تسلیم کیے بغیر اگر ٹرمپ ابراہیم اکارڈ پر اپنی پالیسی کے تحت اسرائیل کو تسلیم کروا لیتے ہیں تو یہ امت مسلمہ کیلئے ایک بڑی شکست تصور کیا جائے گا۔ڈونلڈ ٹرمپ کا انداز جارحانہ ہے۔ اس سے جہاں امریکا کو فائدہ پہنچے گا وہاں اسے سارے چیلنجز کا سامنا بھی کرنا پڑے گا۔

ڈ اکٹر امجد مگسی

ڈائریکٹر، پاکستان سٹڈی سینٹر، جامعہ پنجاب

نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بڑی تعداد میں ایگزیکٹیو آرڈرز جاری کر کے پوری دنیا کو جھٹکا دیا۔ ان سے تو اقوام متحدہ میں بھی تشویش پیدا ہوگئی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے عالمی ادارہ صحت کے امریکی فنڈز ختم کر دیے ہیں۔ امریکا اکیلے 18 فیصد فنڈز دیتا تھا لہٰذا یہ فنڈز ختم کرنے سے دنیا میں ایڈز، پولیو و دیگربیماریوں کی روک تھام چیلنج بن جائے گا اور عالمی نظام صحت بری طرح متاثر ہو گا۔ غیر قانونی تارکین وطن اور برتھ رائٹ کے حوالے سے بھی ٹرمپ نے جو کچھ کیا اس پر وہاں کے عوام نے عدالت سے رجوع کیا ۔پہلے مقامی عدالتوں اور پھر وفاقی عدالت نے اسے معطل کر دیا۔

یہ پہلے ہی توقع کی جا رہی تھی کہ ٹرمپ کے جارحانہ اقدامات کو امریکی عدالتیں ، سول سوسائٹی اور معاشرہ قبول نہیں کرے گا، انہیں مذاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا اس وقت جو موڈ ہے وہ سابق دور میں نہیں تھا، ان کا انداز جارحانہ ہے، وہ چین اور یورپی یونین پر پابندیاں لگا رہے ہیں، امپورٹ پر 25فیصد مزید بڑھا دیا ہے، نومنتخب امریکی صدر نے 78 آرڈیننس جاری کیے جو نئی مثال ہے، انہوں نے تشدد کے کیسز میں سزا یافتہ 1500 قیدیوں کو بھی رہا کر دیا ہے، یہ سب اقدامات غیر معمولی ہیں جن سے خود امریکا بھی پریشان ہے۔ ڈونلڈٹرمپ ابھی تک غیر ذمہ دارانہ انداز میں حکومت چلا رہے ہیں۔ پاکستان کے حوالے سے ابھی کوئی واضح پالیسی نہیں لی۔ صدر آصف علی زرداری کے دورہ چین ،چینی صدر سے ملاقات اور تعلقات میں مزید فروغ کی باتوں پر امریکا کو تحفظات ہوں گے۔

امریکا اور پاکستان کے جہاں مشترکہ مفادات ہیں، ان پر کام کرنا چاہیے اور تعلقات بڑھانے چاہئیں لیکن پاک امریکا تعلقات چین کے تناظر میں نہیں ہونے چاہئیں۔ اسی طرح امریکا اوربھارت کے حوالے سے جو تشویش چل رہی ہے اس میں پاکستان کے لیے مواقع بھی ہیں۔ چین اور ایران کے حوالے سے پاکستان پر امریکا کا دباؤ آسکتا ہے۔

ٹرمپ کے سابق دور حکومت میں ہم امریکا سے اچھے تعلقات استوار نہیں کر سکے تھے، اب ہمارے لیے چیلنجز بڑھ گئے ہیں لہٰذا ہمیں موثر سفارتکاری اور لابنگ پر فوری کام کرنا ہوگا، ہمیں امریکا کے ساتھ نارمل تعلقات کو قائم رکھنا ہوگا، پاکستان کو اس وقت داخلی استحکام اور موثر سفارتکاری کی اشد ضرورت ہے، بھارت، امریکا کو پاکستان مخالف استعمال کرنے کی بھرپور کوشش کرے گا، ہمیں موثر حکمت عملی بنانا ہوگی۔ فلسطین اور غزہ کے حوالے سے ڈونلڈ ٹرمپ نے جو حالیہ بیان دیا اس کی عالمی سطح پر مخالفت ہو رہی ہے۔ اس میں کافی مسائل ہیں، ٹرمپ کو پذیرائی نہیں ملے گی۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کے حوالے سے ڈونلڈ ٹرمپ امریکی صدر ہیں لہ ذا انہوں نے کو تسلیم کے ساتھ ٹرمپ کی رہے ہیں نہیں کر کام کر کر رہے

پڑھیں:

ٹریڈوار، مذاکرات واحد اچھا راستہ

فیڈرل ریزرو چیئر کو صدر ٹرمپ نے خود تعینات کیا۔فیڈرل ریزرو چیئر جیروم پاول نے خبردار کیا ہے کہ نئے درآمدی محصولات سے افراطِ زر میں اضافہ ہو گا اور امریکا کے اندر معیشت کی بڑھوتی شدید متاثر ہو گی۔اس کے علاوہ عالمی معیشت سکڑے گی۔جیروم پاول نے یہ بھی کہا کہ محصولات عائد کرتے وقت اس سے پیدا ہونے والی غیر یقینی معاشی ایکٹوٹی کو نظر میں رکھنا چاہیے تھا۔ صدر ٹرمپ ،پاول کے اس بیان سے ناخوش ہیں اور ان کو فیڈرل ریزرو بورڈ کی چیئر پر نہیں دیکھنا چاہتے۔

جناب ٹرمپ کے مطابق پاول کو استعفیٰ دے دینا چایئے لیکن جب پاول سے اس بارے میں استفسار کیا گیا تو انھوں نے مستعفی ہونے سے یکسر انکار کر دیا۔ان سے یہ بھی پوچھا گیا کہ کیا صدر ٹرمپ انھیں ہٹا سکتے ہیں تو انھوں نے کہا کہ نہیں۔Yuval Atsmon of Mackenziنے اس طرف اشارہ کیا ہے کہ ٹرمپ کے ان اقدامات سے کارپوریٹ منافع بری طرح متاثر ہو گا اور سپلائی Chainمیں تو ضرور خلل واقع ہو گا۔صدر ٹرمپ کچھ نیا نہیں کر رہے۔وہ جو کچھ کر رہے ہیں وہ اس پر برسوں سے یقین رکھتے ہیں اور تسلسل کے ساتھ کہتے آئے ہیں۔مشہور امریکی ٹی وی شوOprahکی میزبان کے ساتھ دسمبر 1988میں شو کے دوران بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا تھا کہI will make allies pay.

ٹرمپ کی تجارتی جنگوں سے عالمی تجارت میں غیر یقینی کی صورتحال پیدا ہو رہی ہے۔عالمی GDPگرے گی،خاص طور پر ترقی پذیر ممالک جو زرَ مبادلہ کمانے کے لیے برآمدات پر انحصار کرتے ہیں،بہت حد تک متاثر ہوں گے۔عالمی سپلائی Chainپہلے ہی متاثر ہونا شروع ہو گئی ہے جس سے اشیاء کی پیداوار میں کمی آئے گی اور قیمتوں میں اضافہ ہو گا۔بڑھتے ٹیرف سے Consumerکو زیادہ ادائیگی کرنی ہو گی۔ورلڈٹریڈ آرگنائزیشن WTO کا قیام ہی اس مقصد کے لیے عمل میں لایا گیا تھا تاکہ ممالک اس پلیٹ فارم کو آپسی بات چیت کے لیے استعمال کریں اور کم سے کم ٹیرف لگائے جائیں ۔

اس معاملے میں امریکا نے بہت اہم کردار ادا کیا تھا لیکن اب امریکا ہی اس کے مقاصد کے حصول میں سب سے بڑی رکاوٹ بن گیا ہے۔ٹرمپ کے درآمدی محصولات کا بظاہر مقصد امریکی معیشت کو تحفظ فراہم کرنا اور تجارتی خسارے کو کم کرنا ہے،مگر اس کے منفی اثرات دنیا بھر میں محسوس ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ مجموعی طور پر یہ پالیسیاں،مہنگائی، عالمی تجارت میں خلل اور سفارتی تعلقات میں کشیدگی کا باعث بنتی جا رہی ہیں۔ان پالیسیوں سے عالمی معیشت ایک نئے اور مشکل دور میں داخل ہونے جا رہی ہے،جہاں تجارتی جنگیں،سیاسی اور اقتصادی پالیسیوں پر بوجھ بنیں گی۔

چند ہفتے پہلے ایک کالم میں لکھا جا چکا ہے کہ امریکا کے تمام اقدامات کا اصل ہدف چین ہے۔ چین امریکا کے اعصاب پر سوار ہے۔دوسری عالمی جنگ کے خاتمے پر امریکا جنگ میں شریک وہ واحد ملک تھا جس کو جنگ سے کوئی نقصان نہیں ہوا تھا،یوں امریکا ایک بڑی معیشت اور سپر پاور کے طور پر ابھرا۔تب سے اب تک امریکا کو چین جیسے حریف کا سامنا نہیں ہوا۔صدر ٹرمپ نے 2 اپریل کو کم و بیش 90ممالک پر درآمدی محصولات عائد کر دیے۔چھ اور سات اپریل کو دنیا کی تمام فنانشل مارکیٹس گر گئیں جس کے نتیجے میں اربوں ڈالر کا نقصان ہوا۔صدر ٹرمپ ٹریڈ وار کے ساتھ Stock market manipulationبھی کرتے رہے۔

جب شیئرز گر گئے تو انھوں نے کہا کہ یہ وقت ہے زیادہ سے زیادہ خریداری کا،اور اگلے روز انھوں نے عائد کردہ ٹیرف کو 90دن کے لیے Pauseکر دیا، یوں فنانشل مارکیٹس واپس اوپر اٹھیں اور خریداروں کو ایک دو دن میں بے پناہ منافع ہوا۔صدر ٹرمپ کا اصل ہدف چونکہ چین ہے اس لیے نوے دن کا Pauseکرتے ہوئے چین کے اوپر کوئی رعایت نہیں کی گئی اور چینی مصنوعات پر محصولات برقرار رکھے گئے۔ویسے لگتا ہے جناب ٹرمپ آنکھیں بند کر کے بلا سوچے سمجھے تیر چلا رہے ہیں۔انھوں نے انٹار کٹکا کے دو ایسے بے آباد جزائر پر بھی محصولات عائد کر دیے جہاں کوئی نہیں رہتا اور پچھلے دس سال میں وہاں کوئی گیا بھی نہیں۔ ہے نہ حیرت انگیز۔

صدر ٹرمپ کے عائد کردہ درآمدی محصولات کے جواب میں چین کینیڈا اور یورپی یونین نے امریکی مصنوعات پر سوچ سمجھ کر اور ہوشیاری سے جوابی ٹیرف عائد کر دیے ہیں۔البتہ ان ممالک نے امریکا کے ان سیکٹرز کو ٹارگٹ کیا ہے جہاں سے صدر ٹرمپ کو سب سے زیادہ سپورٹ ملی اور ووٹ حاصل ہوئے۔امریکی زرعی اجناس اور خاص کر مکئی ان ممالک کی منڈیوں میں بکتی ہے۔امریکی بیف بھی ان ممالک کے نشانے پر رہا۔امریکی سفید فام کسان اور کاروباری حضرات ان محصولات سے بہت متاثر ہوں گے۔

ان کو فوری طور پر نئی منڈیاں تلاش کرنی ہوں گی۔چین نے جوابی درآمدی محصولات عائد کرنے کے ساتھ ساتھ چند چبھتے اقدامات بھی اُٹھائے ہیں۔ایک خبر کے مطابق چین نے مشہور طیارہ ساز کمپنی بوئنگ سے بہت سے طیارے خریدنے تھے۔بوئنگ کمپنی میں یہ طیارے تکمیل کے آخری مراحل میں تھے جب جناب ٹرمپ نے ٹریڈ وار چھیڑ دی۔چین نے اب بوئنگ کمپنی کو دیا گیا پورا آرڈر کینسل کرنے کا کہا ہے۔ یہ قدم بوئنگ کمپنی کو دیوالیہ کر سکتا ہے۔

چین نے ٹک ٹاک کو استعمال کرتے ہوئے بہترین انگریزی زبان میں براہِ راست امریکی صارفین تک رسائی حاصل کی ہے اور انھیں بتایا ہے کہ امریکا کے انتہائی مشہور مہنگے برانڈ،اپنا مال چین میں سستے داموں بنوا کر امریکا لے جاتے ہیں۔امریکا میں اپنا نام اور لوگو کندہ کروا کے بہت مہنگے داموں بیچتے اور امریکی و غیر ملکی عوام کو لوٹتے ہیں۔خواتین کا ایک لیدر بیگ جس کی امریکا میں کم از کم قیمت 30ہزار ڈالر سے اوپر ہے وہی بیگ چین میں بن کر امریکا صرف 1200ڈالر میں پہنچتا ہے۔

اس طرح امریکی کارپوریٹ منافع ہزاروں گنا ہے۔چین نے امریکی صارفین کو ایڈریس کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ انتہائی مہنگی برانڈڈ اشیاء سستے داموں آن لائن براہِ راست چین سے خریدیں اور بے بہا بچت کریں۔یوں چین نے مہنگے امریکی برانڈوں کا پول بھی کھول دیا ہے اور براہِ راست خریداری کی ترغیب بھی دی ہے۔چین نے یورپ،امریکا اور کینیڈا کے باشندوں کو ایک ہفتے کے لیے بغیر ویزا چین آنے اور خریداری کی سہولت بھی دی ہے۔یوں چین،ٹرمپ ٹریڈ وار کے جواب میں کئی اسمارٹmoves کر رہا ہے لیکن دونوں ممالک کے لیے سب سے بہترین راستہ گفت و شنید اور دوستانہ مذاکرات ہی ہیں۔اگر یہ راستہ اپنایا جائے تو ٹریڈ وار سے بچا جا سکتا ہے ۔

متعلقہ مضامین

  • ٹریڈوار، مذاکرات واحد اچھا راستہ
  • جنگ یوکرین کے 1 ہی دن میں خاتمے پر مبنی وہم کا ٹرمپ کیجانب سے اعتراف
  • چین پر عائد ٹیرف میں کمی چینی قیادت پر منحصر ہوگی، ڈونلڈ ٹرمپ
  • ٹرمپ نے گھٹنے ٹیک دیئے؟ چین پر عائد ٹیرف میں نمایاں کمی کا اعلان
  • امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا بڑا یوٹرن: چین کے ساتھ معاہدہ کرنے کا اعلان
  • امریکی صدر کا یوٹرن، چین کے ساتھ معاہدہ کرلیں گے، ٹرمپ
  • ٹیرف میں کمی کا امکان، فی الحال ہم چین کے ساتھ ٹھیک کر رہے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ
  • امریکی صدر کا یوٹرن، چین کے ساتھ معاہدہ کرلیں گے، ڈونلڈ ٹرمپ
  • ’وہ عیسائی نہیں ہوسکتا‘ پوپ فرانسس نے ڈونلڈ ٹرمپ کے بارے میں ایسا کیوں کہا؟
  • ہیگستھ پیٹ بہترین کام کر رہے ہیں‘ میڈیا پرانے کیس کو زندہ کرنے کی کوشش کررہا ہے .ڈونلڈ ٹرمپ