حکومت پر ہر الزام لگا دینا بہت آسان، ججز کو ریاست ہوا میں محسوس ہورہی ہے، رانا ثنااللہ
اشاعت کی تاریخ: 11th, February 2025 GMT
وزیراعظم پاکستان کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثنااللہ نے کہا ہے کہ عدلیہ میں ایسے ججز بیٹھے ہیں جنہوں نے ملک پر حکمرانی کی، یہ چپڑاسی سے لے کر ملک کے وزیراعظم تک کو اپنے سامنے دست بستہ کھڑا کر لیتے تھے۔
نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ یہ از خود نوٹس کے نام پر جسے دل چاہتا تھا اپنے سامنے کھڑا کر لیتے تھے، انہوں نے وزیراعظم کو بھی نہیں بخشا۔
یہ بھی پڑھیں عمران خان کی پی ٹی آئی کو وکلا تحریک کا ساتھ دینے کی ہدایت
انہوں نے کہاکہ یہ ایک سوچ ہے جس کی وجہ سے ججز کو اب ریاست ہوا میں محسوس ہورہی ہے۔ ججز کی تعیناتی اور تبادلوں کا پرانا اصول ہم نے تبدیل نہیں کیا بلکہ ججز نے سینیارٹی میں اپنی تجاویز دیں۔
رانا ثنااللہ نے کہاکہ حکومت پر ہر چیز کا الزام ڈال دیا جاتا ہے، ہمیں گالی دینا بہت آسان ہے۔
مشیر وزیراعظم نے کہاکہ جسٹس منصور علی شاہ نے ججز کی تعیناتی اور تبادلوں کے حوالے سے خود فارمولا دیا تھا، اب جب حکومت نے اس کی بنیاد پر آئینی ترمیم کردی تو یہ غلط کیسے ہو سکتا ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز سپریم جوڈیشل کونسل نے سپریم کورٹ میں 6 ججز کی تعیناتی کی منظوری دی تھی، تاہم جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر کی جانب سے جوڈیشل کمیشن کے اجلاس کا بائیکاٹ کیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں سپریم کورٹ میں نئے تعینات ہونے والے ججز کون ہیں؟
26ویں آئینی ترمیم کے معاملے پر جہاں وکلا تحریک چلانے کا اعلان کرچکے ہیں وہیں سپریم کورٹ کے کچھ ججز چاہتے ہیں کہ یہ معاملہ فل کورٹ میں زیر بحث لایا جائے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews آئینی ترمیم ججز جوڈیشل کمیشن چیف جسٹس پاکستان حکومت رانا ثنااللہ مشیر وزیراعظم وکلا تحریک وی نیوز.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: جوڈیشل کمیشن چیف جسٹس پاکستان حکومت رانا ثنااللہ وکلا تحریک وی نیوز رانا ثنااللہ نے کہاکہ
پڑھیں:
پارلیمنٹ ہو یا سپریم کورٹ ہر ادارہ آئین کا پابند ہے، جج سپریم کورٹ
سپریم کورٹ کے جج جسٹس جمال خان مندوخیل نے سپر ٹیکس سے متعلق درخواستوں پر سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ ہر ادارہ آئین کا پابند ہے، پارلیمنٹ ہو یا سپریم کورٹ ہر ادارہ آئین کے تحت پابند ہوتا ہے۔
سپریم کورٹ کے آئینی بینچ میں سپر ٹیکس سے متعلق درخواستوں پر سماعت جاری ہے، جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں پانچ رکنی آئینی بینچ سماعت کر رہا ہے۔
وکیل ایف بی آر حافظ احسان نے مؤقف اپنایا کہ سیکشن 14 میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی، صرف اس کا مقصد تبدیل ہوا ہے، 63 اے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سمیت کئی کیسز ہیں جہاں سپریم کورٹ نے پارلیمنٹ کی قانون سازی کی اہلیت کو تسلیم کیا ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ کیا قومی اسمبلی مالی سال سے ہٹ کر ٹیکس سے متعلق بل پاس کر سکتی ہے، کیا آئین میں پارلیمنٹ کو یہ مخصوص پاور دی گئی ہے۔
حافظ احسان کھوکھر نے دلیل دی کہ عدالت کے سامنے جو کیس ہے اس میں قانون سازی کی اہلیت کا کوئی سوال نہیں ہے، جسٹس منصور علی شاہ کا ایک فیصلہ اس بارے میں موجود ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ وہ صورتحال علیحدہ تھی، یہ صورت حال علیحدہ ہے۔
حافظ احسان نے مؤقف اپنایا کہ ٹیکس پیرز نے ٹیکس ریٹرنز فائل نہیں کیے اور فائدے کا سوال کر رہے ہیں، یہ ایک اکیلے ٹیکس پیرز کا مسئلہ نہیں ہے، یہ آئینی معاملہ ہے، ٹیکس لگانے کے مقصد کے حوالے سے تو یہ عدالت کا دائرہ اختیار نہیں ہے، عدالتی فیصلے کا جائزہ لینا عدالت کا کام ہے۔
انہوں نے اپنے دلائل میں کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ قانونی طور پر پائیدار نہیں ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ ایک متضاد فیصلہ ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ہر ادارہ آئین کا پابند ہے، پارلیمنٹ ہو یا سپریم کورٹ ہر ادارہ آئین کے تحت پابند ہوتا ہے، حافظ احسان نے مؤقف اپنایا کہ اگر سپریم کورٹ کا کوئی فیصلہ موجود ہے تو ہائیکورٹ اس پر عملدرآمد کرنے کی پابند ہے۔
اس کے ساتھ ہی ایف بی آر کے وکیل حافظ احسان کے دلائل مکمل ہوگئے اور اشتر اوصاف نے دلائل شروع کردیے۔