Express News:
2025-07-25@02:48:38 GMT

معاشی استحکام، مستقبل کے چیلنجز

اشاعت کی تاریخ: 12th, February 2025 GMT

وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ ملک کے معاشی استحکام کا سفر جاری ہے، پالیسی ریٹ میں نمایاں کمی آئی ہے۔ جنوری میں ترسیلات زر تین ارب ڈالر رہی ہیں جوگزشتہ کئی سالوں کے مقابلے میں ریکارڈ ہے، برآمدات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ آئی ایف پروگرام کے بعد میکرو اکنامک صورتحال میں بہتری آئی ہے۔ ان خیالات کا اظہار انھوں نے دبئی میں پاکستانی کاروباری شخصیات اور سرمایہ کاروں سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔

 پاکستان کی معیشت میں استحکام آرہا ہے۔ معاشی انڈیکیٹرز مثبت ہیں،کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس ہے،کرنسی مستحکم ہے اور انفلیشن نیچے آ رہا ہے، شرح سود میں بھی نمایاں کمی آئی ہے۔ حکومتی پالیسیوں اور بین الاقوامی ایجنسیوں کی مثبت ریٹنگ پاکستان کی معیشت میں بہتری کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ اسٹاک مارکیٹ مستحکم ہے اور اچھا پرفارم کر رہی ہے، پہلے مارکیٹ کیپیٹلائزیشن 25 ارب ڈالر تھی، اب وہ بڑھ کر 50 ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہے۔

 غیر ملکی زرِ مبادلہ کے ذخائر 3 بلین ڈالر سے بڑھ کر 12 بلین ڈالر ہوگئے ہیں۔ اسٹیٹ بینک نے غیر ملکی سرمایہ کاروں کے جو ڈیویڈنڈز اور ریمیٹنسز پھنسی ہوئی تھیں، وہ سب کلیئرکردی ہیں۔ غیر ملکی سرمایہ کاروں کا اعتماد ہے، بہتر ہوا ہے، جس کے نتیجے میں پاکستان کی ریٹنگ میں بھی بہتری آئی ہے۔ کچھ عرصہ قبل تک خدشات ظاہرکیے جا رہے تھے کہ ملک کسی بھی لمحے دیوالیہ ہوجائے گا، تاہم سخت حکومتی فیصلوں کے بعد معاشی اصلاحات کے نتیجے میں تیزی سے بہتری آنے لگی اور اس کا اعتراف غیر ملکی معاشی تحقیقاتی ادارے بھی کر رہے ہیں۔

مہنگائی یا افراط زرکوکنٹرول کرنے میں پاکستان نے نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کیا، وفاقی ادارہ شماریات کے مطابق سال 2024 کے آغاز پر افراط زر میں کمی دیکھی جانے لگی، پاکستان شماریات بیورو کے اعداد و شمار کے مطابق جنوری میں افراط زر 28.

3 فیصد کی سطح پر آگیا، حکومتی اقدامات، روپے کی قدر میں بہتری، معاشی سرگرمیوں کی بحالی اور آئی ایم ایف پروگرام کے بعد ملک میں معاشی استحکام دیکھا گیا اور مہنگائی میں بتدریج کمی واقع ہونے لگی اور نومبر 2024 میں افراط زر کی شرح 4 فیصد کی سطح پر آگئی۔ قیمتوں میں اضافے کی شرح جو کہ مئی 2023 میں 38 فیصد تھی، اب یہ شرح کم ہوکر 4 فیصد رہ گئی ہے۔ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر کے حوالے سے بھی صورتحال کافی بہتر ہوئی ہے۔

یاد رہے کہ ایک ڈالر 300 روپے سے تجاوز کر گیا تھا اور مارکیٹ میں 350 تک قیمت جانے کی افواہیں زیر گردش تھیں لیکن حکومت کے قیام کے ساتھ ہی روپے کی قدر میں استحکام دیکھا جانے لگا اور عالمی مالیاتی فنڈ سے معاہدے کے بعد روپے کی قدر میں مزید بہتری آئی۔ انتظامی اور پالیسی سطح کے اقدامات کی وجہ سے پاکستان میں روپے کی قدر میں استحکام دیکھا گیا۔ پاکستان کی موجودہ وفاقی حکومت نے گزشتہ ایک سال میں معیشت، انتظامی اور سماجی شعبوں میں متعدد اہم اقدامات کیے ہیں، حکومت نے5 سالہ نجکاری پلان متعارف کرایا جس کے تحت24 سرکاری اداروں کی نجکاری کی جائے گی۔

حکومت نے مالی معاونت کے لیے آئی ایم ایف کے علاوہ دیگر اداروں اور ممالک سے 2.57 ارب ڈالر حاصل کیے ہیں، جن میں ایشیائی ترقیاتی بینک، عالمی بینک، چین، فرانس اور امریکا شامل ہیں جس کے نتیجے میں کسی قدر روپے کی قدر میں استحکام آیا جس سے مہنگائی کو کنٹرول کرنے اور معیشت کو مستحکم کرنے میں مدد ملی۔ حکومت نے چاول اور چینی سمیت دیگر زرعی اجناس کی برآمدات کو فروغ دیا جس سے قومی خزانے کو اربوں ڈالر کا فائدہ پہنچا ہے۔

حال ہی میں سیکیورٹی ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ایی سی پی) نے اپنے اعداد و شمار جاری کیے ہیں، جن کے مطابق صرف جنوری کے مہینے میں ملک بھر میں تقریباً ساڑھے تین ہزار نئی کمپنیاں رجسٹرڈ ہوئی ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ کاروباری کمپنیاں انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ای کامرس سے وابستہ ہیں جن کی تعداد ساڑھے 600 سے زائد ہے۔ اس کی صرف ایک ہی وجہ ہے کہ اب کاروبار کرنے کے لیے لوگوں کا اعتماد بڑھا ہے۔ اس کے علاوہ ایک نئی کیٹیگری کا اضافہ ہوا ہے، اس میں کارپوریٹ فارمنگ ہے، جنوری کے مہینے میں اس شعبے میں 73 نئی کمپنیاں رجسٹرڈ ہوئی ہیں۔ دراصل گزشتہ دو برس میں حکومتی سطح پر کارپوریٹ فارمنگ کی تشہیر کی گئی، جب کہ پاکستان کی بری فوج بھی بڑے پیمانے پر کارپوریٹ فارمنگ کر رہی ہے جس کے لیے سب سے زیادہ زمین پنجاب سے لیز پر لی گئی ہے۔

حکومت اب پروڈکشن پر زور دے رہی ہے اور کارپوریٹ فارمنگ کو سپورٹ کیا جا رہا ہے۔ شرح سود نیچے آنے کی وجہ سے عام لوگوں میں بھی کاروبار کرنے کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے۔ ایک سال پہلے شرح سود 22 فیصد تھی ، آج 12 فیصد ہے۔ ایک سال پہلے مہنگائی بڑھنے کی شرح 24 فیصد تھی، اس سال کا تخمینہ 10 فیصد ہے، بلکہ شاید اس سے بھی کم ہو جائے۔ روپے کی قدر ایک جگہ مستحکم ہے اور اسٹیٹ بینک بھی ڈالرز خرید رہا ہے، اس کا مطلب ہے کہ حکومت نے مصنوعی نہیں بلکہ اصل اقدامات کیے ہیں، جس کی وجہ سے ڈالر کی قیمت بھی ایک ہی جگہ پر مستحکم کھڑی ہے، یہ تمام اشاریے تو پازیٹیو ہیں۔

گزشتہ سال کی نسبت اِمسال مائیکرو اکنامک استحکام آیا ہے، یہ ایک مشکل کام تھا جو حکومت نے کر دکھایا۔ ایس آئی ایف سی کے ’’ون ونڈو پلیٹ فارم‘‘ کے ذریعے غیر ملکی سرمایہ کاری کو فروغ، آئی ٹی، زراعت، کان کنی، معدنیات اور توانائی کے شعبوں میں سرمایہ کاری کے مواقعے بڑھے ہیں۔ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے 31.65 ارب ڈالر کی ترسیلات زر، زرمبادلہ ذخائر میں اضافہ اور معاشی استحکام، پاکستان اسٹاک مارکیٹ بھی ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر، مہنگائی کی شرح ساڑھے چھ سال کی کم ترین سطح پر آگئی۔ حکومت اور آئی پی پیز کے درمیان اہم نقاط پر اتفاق، قومی خزانے کو 300 ارب روپے تک بچت متوقع ہے۔

موجودہ حکومت کی کارکردگی کے ضمن میں ایک اہم کامیابی یورپی ایئرسیفٹی ایجنسی کی جانب سے پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن (پی آئی اے) پر عائد پابندی کا خاتمہ ہے۔ اگرچہ پی آئی اے انتظامیہ گزشتہ4 سال سے اس پابندی کو ختم کروانے کے لیے کوشاں تھیں تاہم اب یہ اہم سنگ میل بھی عبور کر لیا ہے اور ابتدائی طور پر پی آئی اے کی یورپ کے لیے ہفتہ وار دو پروازیں چلائی جا رہی ہیں۔

حکومتی اقدامات سے رواں برس ملک کی ترسیلات زر میں بہتری دیکھنے میں آئی ہے۔ مرکزی بینک کے اعداد و شمار کے مطابق رواں مالی سال کے دوران بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے گزشتہ برس کی نسبت زیادہ رقوم پاکستان بھیجیں، اوور سیز پاکستانیوں کی طرف سے گھر بھیجی گئی نقد رقم34 فیصد اضافے سے14.8 بلین ڈالر ہوگئی۔ توقع کی جا رہی ہے کہ ترسیلات زر گزشتہ سال کے 30 ارب ڈالر سے بڑھ کر اس سال 35 ارب ڈالر کی بلند ترین سطح پر پہنچ جائیں گی۔ اس کے علاوہ اسٹیٹ بینک کے متعارف کردہ روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ میں بھی سرمائے میں اضافہ ہو رہا ہے۔

معاشی استحکام کی باتیں درست سہی لیکن حکومت کو اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ پاکستان میں ٹیکس شرح بہت زیادہ ہے، نوکری پیشہ لوگوں پر 38 فیصد ٹیکس عائد ہے، بزنس والوں پر 40 فیصد جب کہ کمپنیوں پر 61 فیصد ٹیکس عائد ہے، یہاں بھی بنیادی اصلاحات لانا ہوں گی۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ 50 ہزار روپے تنخواہ والے پر تو ٹیکس لگے، مگر 1000 ایکڑ زرعی زمین رکھنے والے پر ٹیکس نہ لگے، یہ بات بھی قطعاً درست نہیں کہ لاکھ روپے والے تنخواہ دار کا ٹیکس تو ڈبل ہو، مگر دکاندار ٹیکس فری ہو، اربوں روپے کی جائیداد رکھنے والے پر ٹیکس نہ لگے، لیکن کنزیومر پر18 فیصد ٹیکس لگا دیا جائے۔

جہاں عام آدمی پر ٹیکس لگ رہا ہو وہاں خواص پر بھی ٹیکس لگنا چاہیے۔ حکومت نے ٹیکس بہت زیادہ بڑھائے ہیں، اب ایسا نہیں لگتا کہ حکومت ملک میں مہنگائی کرنا چاہے گی، حکومت نے معیشت کے استحکام کے لیے جو کرنا تھا وہ کرچکی ہے، مستقبل میں اب مستحکم معیشت ہی نظر آرہی ہے ملکی صنعتی ترقی میں ہمارے زرمبادلہ پر بوجھ نہ پڑے، اس لیے وہ تمام صنعتوں کو اس بات پر قائل کررہے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ برآمدات کی طرف جائیں، اڑان پاکستان پروگرام ایکسپورٹ پر مبنی ایک اچھا منصوبہ ہے۔

 حکومت کی سب سے زیادہ کوشش یہ ہے کہ اپنی ٹیکسیشن آمدنی کو بڑھائے، اخراجات کو کم کرے اور اپنی ڈالر ارننگ کو بہتر بنائے۔ اگرچہ اب بھی طویل سفر باقی ہے، لیکن ہم صحیح سمت میں گامزن ہیں۔ وزیراعظم نے اقتصادی و معاشی فورمز پر ملکی معیشت کی جو تصویر پیش کی ہے، وہ ایک حد تک درست سہی، مگر مزید انقلابی اصلاحات کی ضرورت ہے۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کارپوریٹ فارمنگ روپے کی قدر میں معاشی استحکام میں استحکام ترسیلات زر پاکستان کی میں بہتری اضافہ ہو غیر ملکی کے مطابق ارب ڈالر سے زیادہ افراط زر حکومت نے کیے ہیں میں بھی کے لیے ہوا ہے کے بعد رہی ہے کی شرح رہا ہے ہے اور

پڑھیں:

معاشی سطح پر حکومت پاکستان کی مکمل معاونت کریں گے، عالمی بینک

اسلام آباد:

عالمی بینک کا کہنا ہے کہ معاشی سطح پر حکومت پاکستان کی مکمل معاونت کریں گے سی پی ایف اور اقتصادی اصلاحات میں ابھی تک حکومت پاکستان کی جانب سے قابل ستائش اقدامات کئے گئے۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق عالمی بینک کے نائب صدر برائے مشرقِ وسطیٰ، شمالی افریقا، افغانستان اور پاکستان (ایم ای این اے اے پی) ریجن عثمان ڈیون نے وزارت اقتصادی امور میں وفاقی وزیر اقتصادی امور احد چیمہ سے ملاقات کی۔ ملاقات میں احد چیمہ اور عثمان ڈیون کے درمیان کنٹری شراکت داری فریم ورک کے حوالے سے اہم گفتگو ہوئی۔

وفاقی وزیر احد چیمہ نے کہا کہ عالمی بینک کی جانب سے پاکستان کو مشرق وسطیٰ، شمالی افریقا اور افغانستان ریجن کے ساتھ شامل کرنا اچھا فیصلہ ہے، کنٹری شراکت داری فریم پر عمل درآمد کے لئے جامع حکمت عملی کے تحت چلیں گے۔

احد چیمہ نے کہا کہ عالمی بینک کا کنٹری آفس حکومت پاکستان کے ساتھ مکمل تعاون کررہا ہے معاشی اصلاحات میں عالمی بینک کا تعاون قابل تحسین ہے غیرمتزلزل سپورٹ پر عالمی بینک کی لیڈرشپ کے مشکور ہیں وفاقی حکومت صوبائی حکومتوں کے تعاون سے سی پی ایف کو موثر طور پر ایمپلیمنٹ کرنے کے لئے پُرعزم ہے۔

عالمی بینک کے نائب صدر برائے مشرقِ وسطیٰ، شمالی افریقا، افغانستان اور پاکستان (ایم ای این اے اے پی) ریجن عثمان ڈیون کا کہنا تھا کہ معاشی سطح پر حکومت پاکستان کی مکمل معاونت کریں گے، سی پی ایف اور اقتصادی اصلاحات میں ابھی تک حکومت پاکستان کی جانب سے قابل ستائش اقدامات کیے گئے۔

متعلقہ مضامین

  • سٹینڈرڈ اینڈ پورز گلوبل نے پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ بہتر کر دی: معاشی ٹیم کی کارکردگی قابل تعریف، وزیراعظم
  • پاکستان پر اعتماد بحال، ایک اور عالمی ایجنسی نے کریڈٹ ریٹنگ بہتر کر دی
  • ایشیائی ترقیاتی بینک کی پاکستان میں مہنگائی کی شرح میں کمی کی پیشگوئی
  • معاشی سطح پر حکومت پاکستان کی مکمل معاونت کریں گے؛ عالمی بینک
  • معاشی سطح پر حکومت پاکستان کی مکمل معاونت کریں گے، عالمی بینک
  • پاکستان کا 9 ہمسایہ ممالک کے ساتھ تجارتی خسارہ 12.297 ارب ڈالر تک پہنچ گیا
  • اے ڈی بی کی پاکستان میں مہنگائی اور معاشی ترقی کی شرح میں کمی کی پیشگوئی
  • اے ڈی بی کی پاکستان میں مہنگائی اور معاشی ترقی کی شرح نمو میں کمی کی پیشگوئی
  • پاکستان نے گزشتہ مالی سال 26.7 ارب ڈالرکا ریکارڈ غیر ملکی قرضہ لیا
  • عالمی و مقامی مارکیٹوں میں سونے کی قیمتوں میں استحکام، چاندی مہنگی ہوگئی