Juraat:
2025-09-17@23:25:53 GMT

سارک کا احیا: جنوبی ایشیا میں امن اور ترقی کی کنجی

اشاعت کی تاریخ: 14th, February 2025 GMT

سارک کا احیا: جنوبی ایشیا میں امن اور ترقی کی کنجی

سمیع اللہ ملک
پاکستان اوربنگلہ دیش کے درمیان فوجی تعاون میں حالیہ برسوں میں پیشرفت سے نہ صرف جنوبی ایشیامیں طاقت کاتوازن بدل کر متاثرکرسکتاہے بلکہ انڈیاکیلئے بھی یہ ایک اہم تشویش کاباعث بن گیاہے۔تاریخی،سیاسی،اورجغرافیائی حقائق کی بنیادپر54سال کے بعداس خطے میں پاک بنگلہ دیش کے بڑھتے ہوئے تعاون سے آخروہ کون سے عوامل اور وجوہات ہیں جس نے انڈیاکوتشویش میں مبتلاکردیاہے اورانڈین میڈیا شب وروزواویلاکررہاہے۔انڈین نیوزویب سائٹ”فرسٹ پوسٹ”پرچھپنے والی ایک خبرکی سرخی”انڈیا کیلئے باعثِ تشویش،1971کے بعدپاکستانی فوج کی پہلی مرتبہ بنگلہ دیش واپسی”اورایسی دیگرمتعددخبریں اورتجزیے انڈین میڈیاپر گذشتہ کئی دن سے چھاپے اورنشرکیے جارہے ہیں۔
انڈین وزارت داخلہ کے ترجمان نے کہاہے پریس اورسوشل میڈیاپر گردش کرتی خبریں غلط ہیں کہ کہ آئی ایس آئی کے سربراہ بنگلہ دیش کے دورے پرآئے تھے۔انڈین میڈیامیں ایسی”تشویش”بھری خبروں نے اس وقت زورپکڑاجب رواں مہینے بنگلہ دیشی فوج کا ایک وفدپرنسپل سٹاف آفیسرلیفٹیننٹ جنرل ایس ایم قمرالحسن کی قیادت میں پاکستان پہنچا اور ان کی پاکستان میں عسکری قیادت سے ملاقاتیں ہوئیں۔اس دورے کے دوران بنگلہ دیشی فوج کے وفدنے پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر،چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل ساحر شمشمادمرزااورپاکستانی فضائیہ کے سربراہ ایئرمارشل ظہیراحمدبابرسندھوسے بھی ملاقات کی تھیں۔
پاکستان اوربنگلہ دیش کے بیچ فوجی تعاون سے متعلق سوال پرانڈین وزارت خارجہ کے ترجمان رندھیرجیسوال نے کہاکہ”جوبھی سرگرمیاں ہمارے پڑوس میں،خطے میں یاانڈیاکے اردگردہوتی ہیں،ہم ہمیشہ اس پرنظررکھتے ہیں اور(خاص کر)ایسی سرگرمیاں جس کاتعلق ہماری قومی سلامتی سے ہو۔ ہمیں جس طرح کے قدم اٹھانے ہیں،وہ ہم اٹھائیں گے”۔
تاریخی طور پرپاکستان اوربنگلہ دیش کے درمیان تعلقات تناکاشکاررہے ہیں اوراس کی بنیادی وجہ1971میں پاکستان کودولخت کرنے میں انڈیا کاوہ مذموم کردارہے جس کو مودی خودمیڈیا پرکئی بارتسلیم کرچکاہے۔پاکستان اوربنگلہ دیش کی تاریخ1947کی تقسیم ہندسے جڑی ہوئی ہے۔مشرقی پاکستان(موجودہ بنگلہ دیش)اورمغربی پاکستان(موجودہ پاکستان)کے درمیان سیاسی،معاشی،اور ثقافتی اختلافات نے1971میں بنگلہ دیش کے قیام کی راہ ہموارکی۔اس وقت انڈیانے بنگلہ دیش کی حمایت میں اہم کرداراداکیا،اورانڈیا کی فوجی مداخلت نے پاکستان کودولخت کرنے اوربنگلہ دیش کوایک آزادملک بنانے میں کلیدی کرداراداکیالیکن یہ بھی سچ ہے کہ آج ایسے اختلافات توامریکاکی ریاستوں کے مابین بھی ہیں اورخودانڈیاکے اندرکئی ریاستوں میں اس قدربدترین حالات ہیں کہ اس وقت 32علیحدگی کی تحریکیں چل رہی ہیں اور کئی ریاستوں میں نیم خودمختاری کا سماں ہے اورخود انڈیا کواپنی ٹرینوں کو ان ریاستوں سے گزرنے کیلئے ان تنظیموں کوباقاعدہ ٹیکس اداکرناپڑتاہے لیکن پاکستان یاچین نے کبھی وہ مکروہ کرداراداکرنے کی کوشش نہیں کی جیساانڈیانے بنگلہ دیش میں اداکیا۔
1971کے بعد،انڈیانے بنگلہ دیش پراپنے سیاسی اوراقتصادی اثرورسوخ کوبڑھانے کی کوشش کی لیکن حالیہ برسوں میں بنگلہ دیش نے انڈیاکے اثرسے باہرنکلنے اوراپنی خودمختار پالیسی بنانے کی کوششیں کی ہیں۔1990کی دہائی کے بعدسے،پاکستان اور بنگلہ دیش کے تعلقات میں بتدریج بہتری آناشروع ہوئی،خاص طورپراقتصادی تعاون اورعوامی رابطوں کے ذریعے۔تاہم،فوجی تعلقات میں نمایاں پیشرفت حالیہ برسوں میں دیکھنے کوملی ہے،جوانڈیا کیلئیباعثِ تشویش ہے۔
گزشتہ برس اگست میں پرتشدد مظاہروں کے نیتجے میں شیخ حسینہ کوبطوروزیرِاعظم استعفٰی دے کرانڈیاجاناپڑاتھاجس کے بعد بنگلہ دیش میں ڈاکٹرمحمدیونس کی سربراہی میں عبوری حکومت کی گئی تھی۔شیخ حسینہ کوانڈیاکاحامی اورپاکستان کامخالف تصور کیاجاتاتھااورصرف یہی نہیں بلکہ حسینہ واجدنے جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے درجنوں رہنماں کوعدالتی ملی بھگت سے پھانسی پرلٹکادیاجن کاصرف یہ جرم تھاکہ انہوں نے1971 میں بطورپاکستانی شہری ہونے کے ناتے انڈین فوجیوں کے خلاف اپنی ملکی فوج کاساتھ دیااورجماعت اسلامی کے ہزاروں اراکین کوپابندِسلاسل کردیااوراپنے تمام مخالفین کوٹھکانے لگاکربدترین فسطائیت کے ساتھ اپنی حکومت کوچلایا۔ بنگلہ دیش کی فوج کے اندربھی اپنے جابرانہ احکام کے تحت بھارت کی مددسے کئی بنگلہ دیش افسران کوہلاک کرکے ایک ایسے ڈکٹیٹرکاروپ اختیارکرلیاکہ بنگلہ دیشی عوام میں سے کسی کوان کی حکومت کے خلاف کچھ کہنے اور لکھنے تک کی اجازت نہ ہو۔ان کے دورِحکومت میں بنگلہ دیش اورپاکستان کے درمیان تعلقات زیادہ خوشگوارنہیں رہے تھے تاہم شیخ حسینہ کی اقتدارسے بے دخلی کے بعددونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری آتی ہوئی نظرآئی۔
گزشتہ مہینے قاہرہ میں ڈی8سمٹ کے دوران پاکستانی وزیرِاعظم شہبازشریف کی بنگلہ دیش کے چیف ایڈوائزرڈاکٹرمحمدیونس سے ملاقات بھی ہوئی تھی اورپاکستانی وزیرِاعظم کے دفترکے مطابق دونوں رہنماں نے”دوطرفہ تعلقات میں حالیہ مثبت پیشرفت پر اطمینان کااظہار”کیاتھااور”باہمی فوائدپرمبنی ترقیاتی مقاصد”حاصل کرنے کیلئے مشترکہ کوششیں کرنے پراتفاق بھی کیاتھا۔اس ملاقات کے تناظرمیں پہلی مرتبہ اعلی سطحی فوجی وفدنے پاکستان کودورہ کیاجہاں پاکستان اوربنگلہ دیش کے درمیان دفاعی معاہدے کے تحت دونوں ممالک تربیتی مشقوں،انٹیلی جنس شیئرنگ،اوردفاعی سازوسامان کے تبادلے میں تعاون کررہے ہیں۔
٭اس معاہدے کے تحت پاکستانی فوج بنگلہ دیش کے افسران کوتربیت فراہم کررہی ہے،جودونوں ممالک کے درمیان دفاعی تعلقات کو مضبوط بنارہی ہے۔مزیدبراں دونوں ممالک مشترکہ فوجی مشقیں کرچکے ہیں اورمزیدایسے پروگرام منصوبہ بندی کے مراحل میںہیں جن کامقصدخطے میں دفاعی صلاحیتوں کوبڑھاناہے۔پاکستان بنگلہ دیش کوہتھیاروں کی فراہمی پربھی غورکررہاہے،جس میں جدیدٹیکنالوجی کے ہتھیارشامل ہیں۔برسوں بعدپاک بنگلہ دیش تعاون پرمودی سرکاربے بنیادپروپیگنڈہ سے اپنی تشویش کااظہارکر رہی ہے جس کامودی پریس شب وروزواویلاکررہاہے۔مودی سرکارمشرق اورمغرب دونوں اطراف میں پاکستان اوربنگلہ دیش کے تعلقات مضبوط ہونے سے خودکوایک تزویراتی گھیرامیں محسوس کررہی ہے۔
٭دوسرااہم پہلویہ ہے کہ پاک بنگلہ دیش فوجی تعاون خطے میں انڈیاکے اثرورسوخ کوکم کرنے کاباعث بن سکتاہے اورانڈیا(اسرائیل،امریکا)کی مددسے علاقے میں اپنی برتری اور خطے کاتھانیداربننے کاجوخواب دیکھ رہاہے،وہ چکناچورہوجائے گا۔
٭تیسرااہم پہلویہ ہے کہ چین،جوانڈیاکااہم جغرافیائی حریف ہے،پاکستان اوربنگلہ دیش کے درمیان تعلقات میں ایک پسِ پردہ قوت کے طورپردیکھاجاتاہے۔چین پہلے ہی دونوں ممالک کوفوجی سازوسامان فراہم کررہاہے جس سے انڈیاکوخطرہ محسوس ہوتاہے۔
٭چوتھااہم پہلویہ ہے کہ پاکستان اوربنگلہ دیش کے درمیان فوجی تعاون انڈیاکی جنوبی ایشیا میں بالادستی کو چیلنج کرسکتاہے اورانڈیاکیلئے سب سے بڑاخدشہ یہ ہے کہ یہ اتحادجنوبی ایشیامیں اس کی معاشی اوراسٹریٹجک برتری کوناقابل تلافی نقصان پہنچاسکتاہے۔
٭پانچواں پہلویہ ہے کہ انڈیااوربنگلہ دیش کے درمیان سرحدی تنازعات کے ساتھ ساتھ دریائی پانی کی تقسیم پربھی شدیداختلافات ہیں جودونوں ممالک کے تعلقات میں کشیدگی کاسبب ہیں۔
٭چھٹااہم پہلووہ بھارتی خوف ہے کہ پاک بنگلہ دیش کے درمیان انٹیلیجنس شیئرنگ انڈیاکیلئے سلامتی کے خطرات پیداکرسکتی ہے خاص طورپران علاقوں میں جہاں علیحدگی پسند تحریکیں فعال ہیں۔کیونکہ انڈیابنگلہ دیش کے قیام میں اہم کرداراداکرچکاہے اوراس خطے میں اپنی بالادستی برقراررکھنے کیلئے ہمیشہ محتاط رہاہے۔بنگلہ دیش کاپاکستان کے قریب جانا انڈیاکیلئے ایک جذباتی اور اسٹریٹجک دھچکاہے۔
یادرہے کہ پچھلی سات دہائیوں کے دوران،پاکستان اورانڈیاکے درمیان تین بڑی جنگیں ہوچکی ہیں،جن میں کشمیرکاتنازعہ اہم رہا ہے ۔ان تنازعات کی وجہ سے انڈیاکوہمیشہ پاکستان کے ساتھ کسی بھی ممکنہ اتحادکے خطرے کاسامنارہتاہے۔انڈیا،امریکا،جاپان،اور آسٹریلیاکے کو اڈاتحادکاحصہ ہے،جس کامقصدچین کے اثرورسوخ کوکم کرناہے لیکن پاکستان،بنگلہ دیش،اورچین کے بڑھتے تعلقات اس اتحادکیلئے چیلنج پیداکرسکتے ہیں۔امریکاکی خواہش ہے کہ کواڈاتحادکی مشترکہ طاقت سے چین کامحاصرہ کیاجائے تاکہ اس کی معاشی برتری کو روکا جا سکے۔ اسی لیے نومنتخب صدرٹرمپ نے چین کے ساتھ تجارتی ٹیرف بڑھانے کاعندیہ دیاہے۔
امریکاکی پوری کوشش ہے کہ پاکستان میں چین کے اشتراک سے بننے والاسی پیک منصوبہ ناکام بنایاجائے۔اس مقصدکیلئے وہ انڈیا کے ذریعے پاکستان کوغیرمستحکم کرنے کیلئے اپنی پراکسیزکوبلوچستان اورپاکستان کے دیگرعلاقوں میں دہشتگردی کیلئے استعمال کررہاہے۔یہی وجہ ہے کہ انڈیاکے ہمسایہ ممالک کے اندربدامنی سازشوں کی بناپرجنوبی ایشیامیں اضافہ ہورہاہے اورپاک بنگلہ دیش کے فوجی تعلقات سے انڈیااوربنگلہ دیش کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوسکتاہے۔انڈیا،جوبنگلہ دیش کاایک بڑاتجارتی شراکت دارہے،ان تعلقات کی وجہ سے اپنے تجارتی تعلقات پرنظرثانی کرسکتاہے۔
انڈیا کویہ خدشہ ہے کہ بنگلہ دیش کوپاکستان کی مددسیخطے میں”را”کی مددسے چلنے والی تمام علیحدگی پسند تحریکوں کوختم کرنے میں مددملے گی اورعین ممکن ہے کہ یہ معاملہ بھارتی سرزمین پرمنتقل ہوجائے۔اس لئیانڈیا کی پوری کوشش ہے کہ پاکستان اوربنگلہ دیش کے درمیان بڑھتے ہوئے تعلقات کی آڑمیں چین اورامریکاجیسی عالمی طاقتوں کو”کواڈ”کے پلیٹ فارم سے جنوبی ایشیامیں مزیدمداخلت پرمجبورکیاجائے جس علاقائی سیاست کومزیدپیچیدہ کرکے مفادات حاصل کئے جائیں۔یہاں یہ کہنابے جانہ ہوگاکہ شیخ حسینہ کی اقتدارسے بے دخلی کے بعدپاکستان اوربنگلہ دیش کے درمیان تعلقات میں بہتری نظرآئی ہے۔گزشتہ برس نومبرمیں پاکستان اوربنگلہ دیش کے درمیان تقریبا20برس تک منقطع رہنے والی سمندری تجارت بحال ہوئی تھی جب پاکستان سے سفرشروع کرنے والاکارگوبحری جہازچٹاگانگ پہنچاتھا۔دونوں ممالک کے درمیان تجارتی اورسیاسی تعلقات توگزشتہ برس ہی بہترہوناشروع ہوگئے تھے لیکن رواں برس کے ابتدائی ہفتوں میں پاکستان اوربنگلہ دیش کی افواج کے درمیان بھی رابطے بڑھتے ہوئے نظرآئے۔
14جنوری کوپاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہاگیاتھاکہ پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیراوربنگلہ دیشی فوج کے پرنسپل سٹاف آفیسر لیفٹیننٹ جنرل ایس ایم قمرالحسن نے ملاقات میں”مضبوط دفاعی تعاون”استوار کرنے کااعادہ کیااور”دونوں برادرانہ ممالک کی شراکت داری کوبیرونی دباؤ”سے پاک رکھنے پرزوردیا۔لیفٹیننٹ جنرل ایس ایم قمر الحسن اپنے دورہ پاکستان کے دوران پاکستانی فضائیہ کے سربراہ ایئرمارشل ظہیراحمدبابرسدھوسے بھی ملاقات کی۔اس ملاقات کے دوران بنگلہ دیشی فوج کے سینیئرافسرنے جے ایف17تھنڈرلڑاکاطیاروں سمیت پاکستان میں بنائے جانے والے دیگرعسکری سامان میں بھی دلچپسی کااظہارکیا۔انڈین میڈیاپر چلنے والی کچھ خبروں میں یہ دعوی بھی کیاگیاکہ ایسے امکانات بھی موجودہیں کہ پاکستانی فوج کی جانب سے بنگلہ دیشی فوج کوتربیت دی جائے تاہم پاکستانی فوج کے بیانات میں اس بات کاکوئی ذکرنہیں۔
یقینا بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ کی حکومت گرنے کے سبب دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری آئی ہے۔پچھلی دو دہائیوں سے شیخ حسینہ کی حکومت میں بہت سے مسائل کھڑے ہوئے تھے، 2016 میں انڈیا نے سارک اجلاس کا بائیکاٹ کیا تھا اور اس کے بعد بنگلہ دیش نے بھی فورا ایسا ہی کیا تھا۔ اب پاکستان کیلئے مثبت بات یہ ہے کہ بنگلہ دیش میں ڈاکٹر محمد یونس کی قیادت میں نئی انتظامیہ سارک کو دوبارہ بحال کرنا چاہتی ہے۔ڈھاکہ کے امورمیں انڈیاکی مبینہ مداخلت پربنگلہ دیش میں ناراضی پائی جاتی تھی اوروہاں کی نئی انتظامیہ اب شیخ حسینہ کی پالیسیوں کوخیربادکہہ کرپاکستان سے تعلقات بہترکررہی ہے تاکہ لوگوں کی ناراضی کوکم کیاجاسکے۔
دوسری جانب اگراقتصادی نظریے سے دیکھیں تواس وقت بنگلہ دیش کوجے ایف17تھنڈرطیاروں کی فروخت پربات ہورہی ہے۔جب سکیورٹی تعاون بڑھے گا تو پاکستان کابنگلہ دیش پرسٹریٹجک اثرورسوخ بھی بڑھے گا۔بنگلہ دیش سے تعلقات میں بہتری کے نتیجے میں پاکستان کے پاس ایک سٹریٹجک موقع آیاہے جس کے سبب پاکستان اس خطے میں ایک بارپھراہمیت اختیارکرگیاہے۔پاکستان اور بنگلہ دیش کے بہترہوتے تعلقات انڈیاکیلئے سٹریٹجک تحفظات کاباعث بالکل ہوں گے کیونکہ نئی دہلی کااس خطے میں ایک اور ملک پراثرو رسوخ کم ہوگیا۔
انڈیااوربنگلہ دیش کے درمیان تعلقات میں تناکاسبب شیخ حسینہ کی انڈیامیں موجودگی بھی ہے۔بنگلہ دیش کی نئی انتظامیہ انڈیاسے شیخ حسینہ کی حوالگی کامطالبہ بھی کرچکی ہے۔ انڈیا اور بنگلہ دیش کے درمیان ایک طویل بارڈرہے اورپھربنگلہ دیش میں سیلاب بھی آتے رہتے ہیں اوران کاواٹرمینجمنٹ پربھی انڈیاسے مسئلہ رہتاہے۔اب بنگلہ دیش میں یہ سوچ بھی پائی جارہی ہے کہ کل کلاں اس اہم معاملہ پراگراؤنڈیاجارحانہ مؤقف اختیارکرتاہے توہوسکتاہے کہ بنگلہ دیش اپنے دفاع کومضبوط کرنے کیلئے پاکستان اورچین کے ساتھ سہ فریقی فورم تشکیل دے لیں۔
تاہم خطے کے امن کیلئے سارک پلیٹ فارم کوازسرنوزندہ کرنے کایہ بہترین موقع ہے کہ اس پلیٹ فارم پربیرونی دباؤکے بغیراپنے مسائل خودحل کئے جائیں اوریہاں کی کثیرآبادی جوخطِ غربت سے نیچے کی زندگی گزارنے پرمجبورکردیئے گئے ہیں،جنگی بجٹ کوختم کرکے ان کی فلاح وبہبودکیلئے استعمال کیاجائے۔اس خطے کے ممالک کے پاس ایسی صلاحیت ہے کہ اپنے مثبت رویہ سے باہمی تجارت پرتوجہ دیکرترقی کاوہ خواب پوراکریں جس کیلئے ہرملک کے سیاستدان حکومت کے حصول کیلئے عوام سے وعدے کرتے ہیں۔
انڈیا کیلئے یہ ضروری ہے کہ وہ اس صورتحال کوجذبات کی بجائے حکمت اورسفارت کاری کے ذریعے حل کرے۔خطے میں پائیدار امن اور استحکام کیلئے تمام ممالک کومل کرکام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ تنازعات کے بجائے تعاون کوفروغ دیاجاسکے اوریہ اسی صورت ممکن ہو سکتا ہے کہ مودی سرکارپاکستان اوربنگلہ دیش کے درمیان بڑھتے ہوئے تعلقات سے خوفزدہ ہونے کی بجائے ان ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت بندکرے اورہزاروں میل دوربیٹھی قوتوں کے مفادکیلئے محض اس لئے خودکوقربانی کابکرانہ بنائے کہ ان قوتوں کے کندھوں پربیٹھ کروہ اس خطے کی سپرپاوربن جائے گا۔

.

ذریعہ: Juraat

کلیدی لفظ: پاکستان اوربنگلہ دیش کے درمیان اوربنگلہ دیش کے درمیان تعلقات تعلقات میں بہتری پاکستانی فوج کے جنوبی ایشیامیں بنگلہ دیشی فوج دونوں ممالک کے کے تعلقات میں بنگلہ دیش میں پاک بنگلہ دیش بنگلہ دیش کی شیخ حسینہ کی پاکستان اور میں پاکستان پاکستان کے ہے پاکستان کہ پاکستان فوجی تعاون بڑھتے ہوئے کے سربراہ ان تعلقات میں انڈیا ہے کہ پاک کے دوران یہ ہے کہ میں پاک ہیں اور کرنے کی کے ساتھ چین کے

پڑھیں:

تعلقات کے فروغ پر پاک، چین، روس اتفاق

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

250916-03-7
ضیاء الحق سرحدی
گزشتہ دنوں پاکستان، چین اور روس کا باہمی تعلقات کو مزید فروغ دینے پر اتفاق ہوا ہے۔ عوامی جمہوریہ چین کے صدر شی جن پنگ نے شہباز شریف سے ملاقات میں کہا کہ چین دفاعی اور اقتصادی ترقی کے تمام شعبوں میں پاکستان کی مدد جاری رکھے گا۔ خصوصاً اس وقت جب سی پیک اپنے دوسرے مرحلے میں داخل ہو چکا ہے اور پاکستان کے کلیدی اقتصادی شعبوں پر توجہ مرکوز کی جا رہی ہے۔ بیجنگ کے گریٹ ہال آف دی پیپلز میں صدر شی جن پنگ ہے ملاقات وزیر اعظم نے صدر شی کو 2026ء میں پاکستان اور چین کے سفارتی تعلقات کی 75 ویں سالگرہ کے موقع پر پاکستان کے سرکاری دورے کی دعوت بھی دی۔ دریں اثناء بیجنگ میں وزیر اعظم شہباز شریف سے روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے ملاقات کی، ملاقات میں دو طرفہ تعلقات کے فروغ پر اتفاق کیا گیا۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا کہ پاکستان روس کے بھارت کے ساتھ تعلقات کا احترام کرتا ہے، لیکن پاکستان بھی روس کے ساتھ مضبوط تعلقات استوار کرنا چاہتا ہے جو خطے کی ترقی اور خوشحالی کے لیے اہم ہوں گے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے بیجنگ میں روسی صدر ولادیمیر پیوٹن سے بھی ملاقات کی۔ گرمجوش مصافحے سے شروع ہونے والی اس ملاقات میں دونوں رہنماؤں نے باہمی تعلقات کے فروغ پر گفتگو کی۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا کہ دونوں ممالک کے تعلقات وقت کے ساتھ مزید مضبوط ہو رہے ہیں اور پاکستان ان روابط کو نئی بلندیوں تک لے جانا چاہتا ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ پاکستان خطے میں امن اور خوشحالی کا خواہاں ہے اور روس اس سلسلے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔

صدر پیوٹن نے پاکستان کے ساتھ تعلقات کو بہترین قرار دیا اور کہا کہ سیلاب سے ہونے والے نقصانات پر انہیں شدید افسوس ہوا ہے۔ انہوں نے وزیر اعظم شہباز شریف کو ایس سی او سمٹ میں شرکت کی دعوت بھی دی جس پر وزیر اعظم نے کہا کہ روس کا دورہ کر کے انہیں خوشی ہوگی۔ روسی صدر نے مزید کہا کہ پاکستان اور روس کو مختلف شعبوں میں مل کر آگے بڑھنا ہوگا جبکہ دونوں ممالک عالمی فورم بالخصوص اقوام متحدہ میں یکساں موقف رکھتے ہیں۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی اپنی متوازن اور آزادانہ حیثیت کے باعث عالمی سطح پر نمایاں مقام حاصل کر چکی ہے۔ شہباز شریف کی چین اور روس کے سربراہان سے ملاقاتیں اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ پاکستان عالمی طاقتوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو نہ صرف برقرار رکھنے بلکہ انہیں مزید مضبوط کرنے کے لیے پر عزم ہے۔ پاکستان اور چین کے تعلقات کی گہرائی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ دونوں ممالک نہ صرف معاشی ترقی بلکہ دفاعی شعبے میں بھی ایک دوسرے کے مضبوط شراکت دار ہیں۔ سی پیک کا دوسرا مرحلہ اس شراکت داری کو نئی بلندیوں تک لے جانے کا عزم رکھتا ہے۔ دوسری جانب پاکستان اور روس کے تعلقات میں حالیہ برسوں میں نمایاں بہتری آئی ہے۔ روس کے ساتھ پاکستان کی بڑھتی ہوئی قربت نہ صرف دو طرفہ تجارت اور معاشی تعاون کے لیے اہم ہے بلکہ خطے میں امن و استحکام کے لیے بھی ایک کلیدی عنصر ہے۔

پاکستان نے ہمیشہ روس کے دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات کا احترام کیا ہے لیکن اپنی آزادانہ پالیسی کے تحت روس کے ساتھ مضبوط تعلقات کے قیام پر زور دیا ہے۔ یہ تعلقات نہ صرف دو ممالک کے درمیان بلکہ پورے خطے کی ترقی اور خوشحالی کے لیے اہمیت رکھتے ہیں۔ روس کے صدر کی جانب سے پاکستان کے ساتھ تعلقات کو بہترین قرار دینا اور عالمی فورم جیسے اقوام متحدہ میں مشترکہ موقف کی حمایت اس بات کا عکاس ہے کہ دونوں ممالک خطے کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے مل کر کام کرنے کے خواہش مند ہیں۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ وہ چین، روس، اور امریکا جیسے بڑے عالمی کھلاڑیوں کے ساتھ متوازن تعلقات برقرار رکھے ہوئے ہے۔ پاکستان نہ تو کسی ایک عالمی طاقت کے بلاک میں شامل ہے اور نہ ہی کسی دوسرے کے خلاف وہ اپنے قومی مفادات کو ترجیح دیتے ہوئے تمام بڑی طاقتوں کے ساتھ تعاون کو فروغ دیتا ہے۔ پاکستان، چین اور روس کے درمیان بڑھتا ہوا تعاون خطے میں امن، معاشی ترقی، اور خوشحالی کے لیے ایک مضبوط بنیاد فراہم کرتا ہے۔ سی پیک جیسے منصوبوں کے ذریعے معاشی ترقی، روس کے ساتھ بڑھتی ہوئی دفاعی اور تجارتی شراکت داری، اور عالمی فورمز میں مشترکہ موقف خطے کو عالمی سیاست کے پیچیدہ منظر نامے میں ایک مثبت کردار ادا کرنے کے قابل بناتا ہے۔ پاکستان کی یہ سفارتی کامیابی اس بات کی غماز ہے کہ وہ نہ صرف اپنے قومی مفادات کا تحفظ کر رہا ہے بلکہ خطے کے امن و استحکام کے لیے بھی ایک ذمے دار کردار ادا کر رہا ہے۔

پاکستان اور روس کے درمیان باہمی تجارت، تعاون اور باہمی ترقی کے امکانات کے بے شمار راستے موجود ہیں، ضرورت اس امر کی ہے کہ انہیں تلاش کیا جائے اور عمل درآمد کیا جائے۔ پاکستان سے ماسکو تک یہ پورا وسط ایشیا ایک قدرتی تجارتی بلاک کی حیثیت رکھتا ہے، لیکن عالمی استعمار اور سیاسی مفادات نے اس خطے کو تقسیم کر کے رکھا۔ اب جبکہ خطے کے تمام ممالک یا بھی تعاون اور تجارت کے فروغ کا فیصلہ کر چکے ہیں تو لازم ہے کہ ایک دوسرے کو ہر طرح کی تجارت میں ترجیح دی جائے اور باہمی مفادات کا خیال رکھتے ہوئے ایک دوسرے سے مل کر ترقی کی شاہراہ پر سفر طے کیا جائے۔ اس خطے کے تمام ممالک کی ترقی و خوشحالی ایک دوسرے سے منسلک ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ پاک روس بارٹر ٹریڈ معاہدہ دونوں ملکوں ہی نہیں پورے خطے کے لیے مفید ثابت ہوگا حالانکہ پاک روس تجارتی معاہدہ مارچ 2023 میں ماسکو میں طے پایا تھا۔ جس کے تحت پاکستان روس کو چاول، دوائیں، پھل اور کھیلوں کے سامان سمیت 26 اشیاء برآمد کرے گا جبکہ روس سے پٹرولیم مصنوعات ایل این جی، گندم اور دھاگے سمیت 11 اشیاء درآمد کی جائیں گی۔ بہت سے ممالک کو توانائی کے بحران کا سامنا ہے۔ توانائی کے پائیدار ذرائع آج کی دنیا میں بہت اہم ہیں، اور ان تک رسائی ہر ایک کی زندگی کے امکانات کو بہتر بنا سکتی ہے۔

کسی قوم کی ترقی کا ایک اہم جز و توانائی کا ایک قابل اعتماد ذریعہ ہے۔ متعدد اعداد وشمار سے پتا چلتا ہے کہ اگر توانائی تک سستی رسائی کو آسان بنایا جائے تو انسانی ترقی اپنے عروج پر پہنچ سکتی ہے۔ دنیا کے توانائی کے وسائل کے سنگم پر واقع پاکستان کو اسٹرٹیجک فائدہ حاصل ہے۔ اس کے باوجود، پاکستان کی توانائی کی صورتحال مثالی نہیں ہے کیونکہ ریاست درآمدات پر بہت زیادہ انحصار کرتی ہے اور اس کے پاس توانائی کے اتنے وسائل نہیں ہیں کہ وہ خود کو برقرار رکھ سکے۔ توانائی کی بڑھتی ہوئی طلب اور اخراجات میں تبدیلی کے نتیجے میں درآمدی اخراجات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان گزشتہ چند دہائیوں سے توانائی کے سنگین مسئلے کا سامنا کر رہا ہے، جیسا کہ بجلی کی مسلسل بندش، گیس کی بڑھتی ہوئی لوڈ شیڈنگ، بڑھتی ہوئی قیمتیں، اور ایندھن کی خراب سپلائی سے دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ دیکھتے ہوئے کہ توانائی قومی سلامتی کا ایک اہم جزو ہے، پاکستان کی موجودہ صورتحال توانائی کے عدم تحفظ کے طور پر سب سے بہتر ہے۔ پاکستان اپنی توانائی کی استعداد پر قابو پانے کے لیے علاقائی رابطوں کو تلاش کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • ایشیا کپ تنازع: اینڈی پائی کرافٹ نے پاکستان ٹیم اور منیجر سے معافی مانگ لی
  • ملک کے حالات بنگلہ دیش، سری لنکا اور نیپال کی طرف جارہے ہیں،عمران خان
  • ایشیا کپ: پی سی بی اور آئی سی سی میں ڈیڈ لاک برقرار، آج پاکستان اور یواے ای کا میچ نہ ہونے کا امکان
  • ٹی ٹوئنٹی رینکنگ: بنگلہ دیش نے افغانستان سے نویں پوزیشن چھین لی
  • ایشیا کپ 2025: بنگلہ دیش کا افغانستان کے خلاف ٹاس جیت کر بیٹنگ کا فیصلہ
  • ٹی 20 ایشیا کپ:  بنگلہ دیش کا افغانستان کے خلاف ٹاس جیت کر بیٹنگ کا فیصلہ
  • نوجوانوں کو بااختیار بنانے اور اقتصادی ترقی کو مستحکم کرنے کے لئے وزیراعظم یوتھ پروگرام اور موبی لنک مائیکرو فنانس بینک کے درمیان مفاہمت کی یادداشت پر دستخط
  • ایشیا کپ: بنگلا دیش کو آج افغانستان کیخلاف کرو یا مرو کا چیلنج درپیش
  • تعلقات کے فروغ پر پاک، چین، روس اتفاق
  • سی پیک پاک چین دوستی کا عملی ثبوت، علاقائی ترقی کا منصوبہ ہے، بلاول بھٹو