Daily Ausaf:
2025-04-25@05:58:07 GMT

اسلامی نظامِ معیشت کی نمایاں خصوصیات

اشاعت کی تاریخ: 15th, February 2025 GMT

قرآن کریم اور حدیث و سنت میں زندگی کے دیگر مسائل کے ساتھ ساتھ معاشیات پر بھی بات کی گئی ہے۔ قرآن کریم نے سینکڑوں آیات مقدسہ میں معاشیات کے مختلف پہلوؤں کا ذکر کیا ہے، جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سینکڑوں احادیث میں معیشت کے مختلف شعبوں کے بارے میں ہدایات دی ہیں، اور حضرات خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم اجمعین کے بیسیوں فیصلوں میں معیشت کے مسائل و احکام کو واضح کیا گیا ہے۔ اور جس طرح نماز، روزہ، حج اور دیگر احکام و مسائل کے ہر پہلو کی وضاحت قرآن و سنت میں موجود ہے اسی طرح انفرادی و اجتماعی معیشت کے ہر پہلو کے بارے میں بھی واضح ہدایات قرآن و سنت اور خلفاء راشدینؓ کے فیصلوں میں موجود ہیں اور امت کے ہر دور میں علماء فقہاء نے ان کی روشنی میں امت مسلمہ کی فقہی و قانونی راہنمائی کی ہے۔
اس موضوع کا ذوق اور اس سے دلچسپی رکھنے والے علماء کرام اور دانشوروں کے لیے عرض کر رہا ہوں کہ میرے طالب علمانہ مطالعہ میں قدیم اور جدید دور میں اس موضوع پر باقاعدہ لکھی گئی کتابوں میں چار پانچ کتابیں بنیادی حیثیت رکھتی ہیں اور علماء و طلبہ کے لیے ان کا مطالعہ ضروری ہے۔ (۱) امام ابو یوسفؒ کی ’’کتاب الخراج‘‘۔ (۲) امام محمدؒ کی ’’کتاب الکسب‘‘ (۳) امام ابو عبید قاسم بن سلّامؒ کی ’’کتاب الاموال‘‘ (۴) اردو میں مولانا مناظر احسن گیلانیؒ کی ’’اسلامی معاشیات‘‘۔ اور (۵) حضرت مولانا حفظ الرحمن سیوہارویؒ کی ’’اسلام کا اقتصادی نظام‘‘۔ معیشت و اقتصاد کا ذوق رکھنے والوں کے لیے یہ کتابیں راہنما کتب کا درجہ رکھتی ہیں۔ ان کے علاوہ اور کتابیں بھی موجود ہیں لیکن میری طالب علمانہ ترجیحات میں ان پانچ کتابوں کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے۔
اس کے بعد میں قرآن کریم، حدیث و سنت اور خلفاء راشدینؓ کے فیصلوں میں سے نمونہ کے طور پر چند باتوں کا تذکرہ کروں گا، صرف یہ بتانے کے لیے کہ اسلامی تعلیمات و احکام کے ان بنیادی مآخذ میں انفرادی، خاندانی اور اجتماعی معیشت کے شعبوں کے بارے میں مکمل راہنمائی موجود ہے اور معیشت بھی اسلامی احکام میں ایک بنیادی شعبہ کی حیثیت رکھتی ہے۔
مثلاً قرآن کریم کی ایک آیت میں بتایا گیا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم و حوا علیہما السلام کو جنت سے زمین پر اتارا تو فرمایا کہ ’’ولکم فی الارض مستقر ومتاع الیٰ حین‘‘ (سورہ الاعراف ۲۴) تمہارے لیے زمین میں ایک مقررہ وقت تک رہنے کی جگہ کے ساتھ ساتھ زندگی کے اسباب بھی مہیا کیے جائیں گے۔ یہ ’’متاع الیٰ حین‘‘ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نسل انسانی کو معیشت کے اسباب مہیا کرنے کا وعدہ ہے جو اللہ رب العزت کے نظام کے مطابق پورا ہوتا آرہا ہے اور قیامت تک ہوتا رہے گا۔ ایک آیت کریمہ میں یہ فرمایا گیا ہے کہ جب زمین کو اللہ تعالیٰ نے بنایا تو ’’وقدر فیھا اقواتھا فی اربعۃ ایام سوآءً للسآئلین‘‘ (سورہ فصلت ۱۰) زمین میں اللہ تعالیٰ نے اس پر رہنے والوں کی خوراک مقرر اور اس کے خزانے پوشیدہ کر دیے ہیں جو ضرورت مندوں کے لیے برابر ہیں۔ یہاں ’’سائلین‘‘ کا معنی جستجو کرنے والے بھی کیا گیا ہے اور ضرورت مند بھی کیا گیا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین پر جتنی مخلوقات کو بسانے کا پروگرام بنایا تھا ان سب کو سامنے رکھ کر ان کی ضرورت کے اسباب بھی زمین میں پیدا کر دیے تھے جو ہر دور میں اس دور کی ضرورت کے مطابق نکالے جا رہے ہیں۔
یہاں ایک مسئلہ کی طرف توجہ دلانا چاہوں گا کہ آج کی دنیا میں ایک اہم مسئلہ یہ زیر بحث ہے کہ انسانی آبادی بڑھتی جا رہی ہے مگر زندگی اور معیشت کے اسباب و وسائل کم ہوتے جا رہے ہیں جس سے آبادی اور وسائل کا توازن بگڑتا جا رہا ہے۔ آبادی اور وسائل کے اس توازن کو اپنی حدود میں رکھنے کے لیے آبادی پر کنٹرول اور اس میں اضافے کو روکنا ضروری سمجھا جا رہا ہے اور برتھ کنٹرول کی عالمی مہم کے پیچھے یہی تصور کارفرما ہے۔ مگر قرآن کریم کی تعلیمات اور فلسفہ اس کی تائید نہیں کرتے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے کہ وہ کس قدر آبادی پیدا کر رہے ہیں اور اس کے لیے کتنے وسائل کی ضرورت ہے، وہ یہ نہیں کرتے کہ مخلوق تو پیدا کر دیں لیکن اس کے لیے وسائل پیدا نہ کریں۔ انسانی حکومتوں میں تو یہ کام ہو سکتا ہے کہ آبادی اور وسائل کے تناسب کے اندازے غلط ہو جائیں لیکن اللہ تعالیٰ کے ہاں یہ ممکن نہیں ہے۔ اس لیے اس وقت جس بات کو آبادی اور وسائل میں توازن و تناسب بگڑنے سے تعبیر کیا جا رہا ہے، اس کی وجہ آبادی اور وسائل کی تخلیق و پیدائش میں عدم توازن نہیں بلکہ وسائل کی تقسیم کے نظام میں گڑبڑ ہے، جو انسانوں کی اپنی پیدا کردہ ہے اور اس کو صحیح کرنا ضروری ہے۔ ورنہ جوں جوں آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے وسائل بھی بڑھتے جا رہے ہیں، اگر انسانی حکومتوں کا بنایا ہوا معاشی نظام اور وسائل کی تقسیم کا سسٹم صحیح ہو جائے تو آبادی اور وسائل میں عدم توازن کی کوئی شکایت باقی نہیں رہے گی، اس لیے اسلامی نظامِ معیشت کی بنیاد وسائل و اسباب کی متوازن تقسیم پر ہے۔
قرآن کریم نے دولت اور مال کو خرچ کرنے کے جو اصول بیان فرمائے ہیں ان میں چند باتیں واضح طور پر کہہ دی گئی ہیں۔ مثلاً یہ کہ تم جو کچھ خرچ کرتے ہوئے ہمارے دیے ہوئے مال میں سے خرچ کرتے ہو ’’ومما رزقناھم ینفقون‘‘۔ یا تمہارے پاس جو مال ہے وہ تمہاری ملکیت تو ہے مگر مکمل طور پر تمہارے اختیار میں نہیں ہے، اس کے خرچ کرنے میں تمہیں حلال و حرام کی حدود کو ملحوظ رکھنا ہو گا، اور حلال و حرام کا تعین کرنا اللہ تعالیٰ کا کام ہے۔
(جاری ہے)

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: ا بادی اور وسائل اللہ تعالی معیشت کے کے اسباب وسائل کی ا رہا ہے پیدا کر رہے ہیں ہے اور کے لیے اور اس گیا ہے

پڑھیں:

پاکستان کی معیشت مستحکم ہورہی ہے،ورلڈبینک

پاکستان کی معیشت مہنگائی میں کمی، بہتر مالیاتی حالات و کرنٹ اکاؤنٹ اور پرائمری مالیاتی سرپلسز کی بدولت مستحکم ہورہی ہے۔عالمی بینک کی پاکستان کے حوالے سے تازہ ترین اپ ڈیٹ کے مطابق پاکستان کی معیشت میں گزشتہ سال میں دواعشاریہ پانچ فیصد کے مقابلے میں رواں مالی سال میں دو اعشاریہ سات فیصد ترقی کی توقع ہے۔

ادھر پاکستان کے لئے عالمی بینک کے کنٹری ڈائریکٹر Najy Benhassine نے کہا ہے کہ پاکستان کا اہم چیلنج موجودہ فوائد کو استحکام سے معاشی ترقی میں منتقل کرنا ہے جوکہ غربت میں کمی کے لئے پائیدار اور مناسب ہے۔

اشتہار

متعلقہ مضامین

  • پاکستان کی معیشت مستحکم ہورہی ہے،ورلڈبینک
  • جرمنی کو ایک اور ممکنہ کساد بازاری کا سامنا، بنڈس بینک
  • پہلگام میں بدترین دہشتگردانہ حملے کی سخت مذمت کرتے ہیں، جماعت اسلامی ہند
  • چین کے ساتھ ٹیرف معاہدہ جلد ممکن ہے‘ٹیرف کو نمایاں طور پر کم کیا جا سکتا ہے.ٹرمپ
  • پنجاب میں  خواتین کے قتل، زیادتی، اغوا ور تشدد کے واقعات میں نمایاں اضافہ
  • ٹرمپ نے گھٹنے ٹیک دیئے؟ چین پر عائد ٹیرف میں نمایاں کمی کا اعلان
  • اسٹیبلشمنٹ فیڈریشن کو ون یونٹ نظام نہ بنائے: لیاقت بلوچ
  • سوزوکی آلٹو کی قیمتوں میں نمایاں اضافہ کر دیا گیا
  • غیر مسلم آبادی والے ملک میں اسلامی تدفین کا قانون نافذ
  • غیر مسلم آبادی والے ملک میں اسلامی تدفین کا قانون نافذ