محراب پور(جسارت نیوز)محراب پور چیئرمین محکمہ بلدیہ نااہلی، نکاسی آب نظام درہم برہم، گندا پانی سڑکوں پر کھڑا ہوگیا،تاجر، عوام پریشان، محراب پور محکمہ بلدیہ کے سیکڑوں گھوسٹ ملازمین گھر بیٹھے تنخواہ وصول کرنے میں مصروف ہیں اور چیئرمین جاوید میمن، ٹاؤن آفیسرآفتاب ملاح کا آفس سے غیر حاضر رہنا معمول بن گیا ہے،شہر کے لودھی چوک ، ہالانی روڈ، اسٹیشن روڈپر منظور نظرملازمین کے ذریعے نکاسی آب کی نالی، نالوں میں رکاوٹیں ڈال کر نکاسی آب کا نظام درہم برہم کر دیا۔ سماجی تنظیم اسٹاپ کے محمود حسین نیئر، علاقہ مکینوں نے محکمہ بلدیہ اور دیگر محکموں پر سخت تنقید کرتے ہوئے بتایا کہ شکایات کے باوجود افسران و منتخب نمائندگان کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی ہے شہر کے مغل ڈسپوزل، ساکھانی ڈسپوزل ،ہالانی روڈ ڈسپوزل میں تیل اور مرمت کے نام پر لاکھوں روپے کی خورد برد ہو رہی ہے، 700گھوسٹ ملازم سیاسی اثر و رسوخ کی وجہ سے گھر بیٹھے تنخوائیں لے رہے ہیں، نکاسی آب تالابوں پر جنریٹر چلائے بغیر ڈیزل کے جعلی بل بنائے جارہے ہیں گھوسٹ، ویزا ملازمین، جعلی تیل بلوں کے ذریعے لاکھوں روپے کی کرپشن کی جارہی ہے، وزیر بلدیات اور حکومت سندھ نوٹس لے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: محکمہ بلدیہ نکاسی ا ب

پڑھیں:

مراعات یافتہ طبقے کا پاکستان

پاکستان میں جرائم کی ایسی ہولناک خبریں آتی ہیں جو ہر باشعور اور حساس دل رکھنے والے انسان کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتی ہیں۔بلوچستان، خیبر پختون خوا، دیہی سندھ اورجنوبی پنجاب کے قبائلی و نیم قبائلی علاقوں میں ہی نہیں بلکہ شہروں میں بھی سفاکانہ جرائم تواتر سے ہورہے ہیں، خصوصاً خواتین اور معصوم بچوں کے ساتھ ایسے ایسے بہیمانہ مظالم اور درندگی کی خبریں آتی ہیں کہ روح کانپ جاتی ہے۔

پاکستان کا لیگل سسٹم ایسے بھیانک اور بہیمانہ جرائم کے منابع بند کرنے میں مسلسل ناکام چلاآرہا ہے۔ آئین بھی موجود ہے ، قوانین نافذ ہیں، ادارے قائم ہیں، اس کے باوجود ہتھیار بند جھتے ڈبل کیبن ڈالوں اورکروڑوں روپے مالیت کی ایس یو ویز پر بیٹھے دندناتے پھر رہے ہیں ۔

خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں تو بغیر نمبر پلیٹس نان کسمٹزپیڈ گاڑیاں سٹرکوں پر دوڑ رہی ہیں ، ایسا لگتا ہے کہ ان صوبوں میں  طاقتور طبقوں اور ان کے حواریوں کا ڈیفیکٹو حق حکمرانی تسلیم کرلیا گیا ہے، یہ منہ زور اور دولت مند طبقہ ریاست پاکستان کو ٹیکس دیتا ہے نہ ریاست کا قانون تسلیم کرتا ہے لیکن ریاست کی تمام مراعات اور سہولیات حاصل کرتا ہے، ان کی وجہ سے پاکستان کو عالمی سطح پر بدنامی اور رسوائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

 پاکستان کا یہ بیمار کہنہ نظام کمزوروں کے لیے درندگی اور ظلم سے لبریز ہے لیکن طاقت کے سامنے منمنانے، منت ترلے اور غلامی سے عبارت ہے۔  ثبوت دیکھنا ہو تو ہماری سیاسی قیادت کا طرز عمل ملاحظہ کر لیں‘ پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ چونکہ سب سے زیادہ طاقتور ہے‘ اس لیے باقی تمام طاقتور سٹیک ہولڈرز اس کے سامنے لیٹے نظر آتے ہیں۔سرمایہ داربھی اس کی توجہ حاصل کرنے کے لیے تگ ودو میں رہتے ہیں، جاگیردار بھی اسی راستے کے مسافر ہیں ، بیوروکریسی بھی سرجھکا کر رہتی ہے اور سیاستدان بھی۔

پاکستان کا نظام جمہوری نہیں بلکہ طاقت، خوف اور رسوخ کا نمایندہ نظام ہے ، جس میں سرداروں، وڈیروں ، قبائلی عمائدین، مذہبی لیڈران ،گدی نشین وڈیرے اور کاروباری طبقات کو آئینی تحفظ حاصل ہوتا ہے۔ وہ اسمبلیوں میں بیٹھ کر قانون سازی میں حصہ لیتے ہیں، وزارتیں لیتے ہیں، سرکاری فنڈز حاصل کرتے ہیں اور پھر انھی فنڈز اور سیاسی اثرو رسوخ کے زور پر اپنی سلطنت قائم رکھتے ہیں جہاں کمزور کی کوئی انسانی حیثیت نہیں ہے۔

کمزور طبقے کو اس کے بنیادی حقوق سے محروم رکھا جاتا ہے۔ تعلیم، صحت، وراثت اور شادی جیسے معاملات تک میں بھی اس کی رائے کی کوئی اہمیت نہیں۔ قبائلی علاقوں میں تو یہ ظلم کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔ جہاں غریب لوگ اپنی مرضی سے سانس بھی لے لیں تو یہ جرم بن جاتا ہے۔ جب بھی کہیں سے ظلم کی خبر آتی ہے چند روز شور مچتا ہے، سوشل میڈیا پر غم و غصہ کا اظہار ہوتا ہے، اخبارات میں اداریے اور کالم لکھے جاتے ہیں، مگر پھر سب کچھ معمول پر آ جاتا ہے۔ مجرم آزاد پھرتے ہیں اور مظلوم قبر میں دفن کر دیا جاتا ہے۔

ہم ایک ایسے سماج میں جی رہے ہیں جہاں قانون کتابوں میں تو لکھا ہے، لیکن عمل نظر نہیں آتا۔ غیرت کے نام پر قتل صرف قتل نہیں، بلکہ ایک ثقافتی تماشا بن چکا ہے۔ پولیس بظاہر جرائم کو نظرانداز نہیں کرتی لیکن جب ملزم گرفتار ہو جائے تو پہلے مرحلے میں پولیس کی تفتیش ہی ناقص ہوتی ہے، قبائلی و سرداری نظام والے علاقوں میں تو پولیس اور قانون صرف نام کے لیے ہوتا ہے، عینی شاہد ہو بھی تو وہ خوف کے مارے گواہی نہیں دیتا ، یوں ملزمان ضمانت پر رہا ہوجاتے ہیں۔ ضمانت کے بعد یا اس دوران مقتول کے خاندان سے معافی یا لین دین کر کے کیسز کو بند کردیا جاتا ہے، یوں جرائم پیشہ ذہنیت کے حامل لوگوں کو مزید حوصلہ ملتا ہے۔

پاکستانی پس منظر میں ہمیں قبائلی اور جاگیردارانہ پدر شاہی رویے ہر جگہ نظر آتے ہیں ۔ بعض دانشور سمجھتے ہیں کہ جیسے جیسے شہروں کی آبادی بڑھ رہی ہے، قبائلی و جاگیرداری نظام کمزور ہورہا ہے لیکن معاملہ اس کے برعکس ہے ۔ اسلام آباد، کراچی اور لاہور جیسے جدید ترین شہروں میں بسنے والے امراء کے بچوں کا رویہ بھی انسانیت نواز نہیں ہے، یہ طبقہ بھی خود نمائی اور نرگسیت کا شکار ہے۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں عورتوں اور معصوم بچوں کے خلاف سفاکانہ جرائم کی شرح میں خوفناک اضافہ ہوچکا ہے۔ کمزوروں کا استحصال، جبر اور تشدد کی نئی اور الگ الگ قسمیں متعارف ہورہی ہیں، عورتوں اور بچوں پر بے رحمانہ تشدد، ان کے سفاکانہ قتل نے سماجی صورتحال کو سنگین بنادیا ہے ۔

پاکستان کا نظام اگر مہذب اور منصفانہ ہوتا تو آج ملک میں تعلیم، صحت، ترقی، روزگارکی صورتحال ایسی نہ ہوتی۔ ہمیں پدرسری نظام کی منہ زوری پر قابو پانے کے لیے نئی قانون سازی کرنا ہوگی ، ایسی قانون سازی جو غیرمبہم اور دوٹوک الفاظ پر مشتمل ہو ۔ پارلیمنٹ میں ایسی قانون سازی کی ضرورت ہے جو کمزور طبقات کو جینے کا حق دے، مذہب و مسلک کے نام پر تنظیمیں اور جماعتیں بنانے پر پابندی عائد کی جائے اور مسلح گروہ کو خلاف قانون قرار دیا جائے اور ایسے متشدد گروہوں کی قیادت و کارکنان پر بھی پابندی عائد کی جائے۔ میڈیا، سول سوسائٹی، انسانی حقوق کی تنظیمیں، اور عوام کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا کیونکہ یہ پورے پاکستان کا اہم ترین مسئلہ ہے اور جب تک ہم اسے قومی مسئلہ نہیں مانیں گے، تب تک یہ ظلم جاری رہے گا۔

ہمیں فیصلہ کرنا ہے کہ ہم قانون کے مطابق چلنے والی ریاست چاہتے ہیں یا چند طاقتور طبقات کے فیصلوں پر چلنے والی سلطنت۔ ہمیں یہ طے کرنا ہے کہ ہم آئین کو بالا دست مانتے ہیں یا دھونس دھاندلی کے نظام کو۔ پاکستان میں عوام کے مفاد کو سب سے زیادہ اہم سمجھا جانا چاہیے نہ کہ مٹھی بھر مراعات یافتہ طبقے کو۔

متعلقہ مضامین

  • ریچھ اور ہاتھی کی ملاقات
  • ماریہ بی نے لاہور میں ہم جنس پرستوں کی خفیہ پارٹی کو بے نقاب کردیا؛ حکومت پر برہم
  • نئی دہلی میں نظام الدین درگاہ حادثہ، چھت گرنے سے چھ لوگوں کی موت
  • کون حمیرا اصغر؟ مرینہ خان کے چونکا دینے والے ردعمل نے مداحوں کو برہم کردیا
  • سینیٹر اعجاز چوہدری کی نااہلی سے خالی نشست پر الیکشن 9ستمبر کو ہوگا
  • سینیٹر اعجاز چوہدری کی نااہلی سے خالی نشست پر الیکشن 9 ستمبر کو ہوگا
  • ندا یاسر کے شو میں بشریٰ انصاری اور فیصل قریشی کی نامناسب گفتگو، صارفین برہم
  • ٹیکنالوجی پارک کی تعمیر میں سست روی پر وزیراعظم برہم: ایمل ولی کی ملاقات، اے پی سی کا دعوت نامہ دیا
  • مراعات یافتہ طبقے کا پاکستان
  • کلمۂ طیبہ کی بنیاد پر حاصل ملک کا نظام قرآن و سنت پر مبنی ہونا چاہیے: علامہ راغب نعیمی