طلاق اور خلع کی بڑھتی ہوئی شرح
اشاعت کی تاریخ: 19th, February 2025 GMT
میاں بیوی کسی بھی خاندان اور سماج کی بنیادی اکائی ہیں، زوجین جب شادی کے بندھن میں بندھتے ہیں تو خاندان وجود میں آتا ہے، شادی محض دو افراد نہیں بلکہ دو خاندانوں کا ملاپ ہے۔ دنیا میں پہلا رشتہ ہی میاں بیوی کا رشتہ ہے، تہذیب وتمدن کی بقا وسلامتی اور ارتقا اسی رشتے کا مرہونِ منت ہے، یہ ایک ایسا ادارہ ہے جو انسان کو جذباتی، نفسیاتی اور سماجی تحفظ فراہم کرتا ہے جس کے نتیجے میں باہمی الفت و محبت پیدا ہوتی ہے، خاندان ہی سے فرد کو شناخت ملتی ہے، حسب، نسب اور اقدار متعین ہوتی ہیں، تعلیم و تربیت، اخلاقیات، بنیادی قدریں خاندان کے وجود ہی سے فروغ پذیر ہوتی ہیں، کسی بھی معاشرے میں تہذیبی قدریں اور ثقافتی روایات اسی ادارے کے وجود سے آگے منتقل ہوتی ہیں، فرد میں حقوق و فرائض کی ادائیگی اور احساسِ ذمے داری پیدا ہوتی ہے، گویا یہ ایک ایسی بنیادی اکائی ہے جو فرد کے ساتھ ساتھ سماج کی تعمیر و ترقی میں بھی اپنا کردار ادا کرتی ہے۔ مگر بدقسمتی سے خاندان کی یہ بنیادی اکائی آج خطرے سے دوچار ہے۔ ملک میں طلاق و خلع کے جو اعداد وشمار بتائے جارہے ہیں انہیں کسی طور نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ یہ رپورٹ انتہائی تشویش ناک ہے کہ پچھلے پانچ سال میں پاکستان میں طلاق اور خلع کی شرح میں 35 فی صد اضافہ ہوا ہے صرف کراچی میں پچھلے چار سال میں خلع کے مقدمات کی تعداد دوگنی ہوگئی ہے۔ ادارہ شماریات کے جاری اعداد وشمار کے مطابق ملک میں طلاق یافتہ خواتین کی تعداد 4 لاکھ 99 ہزار ریکارڈ کی گئی۔ کراچی میں سال 2020 میں کراچی کی فیملی کورٹس میں ازدواجی رشتہ ختم کرنے کے 5 ہزار 8 سو کیسز دائر ہوئے جبکہ 2024 میں یہ تعداد 11 ہزار سے تجاوز کر گئی ہے۔ دوسری جانب گیلپ پاکستان کی جانب سے سروے میں حصہ لینے والے ہر پانچ میں سے دو افراد کا خیال ہے کہ غیر ضروری خواہشات اور عدم برداشت طلاق اور خلع کے معاملات میں اضافے کا سبب بن رہے ہیں۔ طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح پر پوری دنیا میں تشویش پائی جاتی ہے، ترکیہ میں اس حوالے سے کی جانے والی ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ اگر شوہر یا بیوی میں سے کوئی ایک اپنے شریک حیات پر توجہ دینے کے بجائے اپنا زیادہ وقت موبائل فون میں گم ہو کر گزارتا ہے تو اس سے شادی متاثر ہوتی ہے۔ پوری دنیا بالخصوص ترقی یافتہ ممالک میں طلاق کی شرح اپنے عروج پر ہے، گلوبل انڈیکس کے اعداد وشمار کے مطابق، امریکا اور کینیڈا میں طلاق کی شرح 45 فی صد ہے، ورلڈ بینک اور او ای سی ڈی کے مطابق، دنیا میں سب سے زیادہ طلاق کی شرح پرتگال میں ہے، جہاں یہ حیران کن طور پر 92 فی صد تک پہنچ چکی ہے۔ اسپین میں طلاق کی شرح 85 فی صد ہے، جبکہ لکسمبرگ، فن لینڈ، بلجیم، فرانس اور سویڈن میں یہ شرح 50 فی صد کے قریب ہے، جبکہ ایشیائی ممالک میں بھی حالیہ برسوں میں طلاق کی شرح میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، تاہم، یورپی ممالک کے مقابلے میں یہ تعداد اب بھی کافی کم ہے۔ طلاق اور خلع کے نتیجے میں خاندان تو بکھرتا ہے ہی مگر اس سے سب سے زیادہ متاثر بچے ہوتے ہیں، بچوں پر اس کے جذباتی، نفسیاتی، اور سماجی طور پر ناقابل ِ تلافی اثرات مرتب ہوتے ہیں، وہ عدم تحفظ کا شکار ہوجاتے ہیں، ان میں احساسِ محرومی، ڈپریشن، اور مزاج میں تبدیلی واقع ہوتی ہے، والدین کے درمیان علٰیحدگی کے نتیجے میں وہ جذباتی و نفسیاتی بحران اور خلا پیدا ہوتا ہے جس کی تلافی کسی طور ممکن نہیں ہوتی۔ آج دنیا عملاً گلوبلائز ہوچکی ہے، ہر فرد جدید طرزِ زندگی گزارنے کا خواہش مند ہے۔ خواتین کی مکمل خودمختاری اور روایتی ازدواجی ذمے داریوں سے آزادی کا رجحان بڑھ رہا ہے معاشرے میں فیمنزم کے مغربی ماڈل کو مسلط کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، خواتین کو گھریلو ذمے داریوں سے نکال کر اسے معاشی دوڑ میں شامل کرنے کو تہذیب یافتہ ہونے کی علامت کے طور پر پیش کیا جارہا ہے، مغربی تہذیب و ثقافت اور قدریں مسلم معاشروں پر اثر انداز ہورہی ہیں، ایک طرف مسلم دنیا پر مغرب کی عسکری یلغار ہے تو دوسری جانب تہذیبی اور ثقافتی جنگ بھی جاری ہے، اور ایک منظم منصوبہ بندی کے تحت مسلم معاشرے کو سیکولرائز کرنے کی مہم جاری ہے، مغرب اپنی تہذیب اور ثقافت کو مسلم معاشرے پر مسلط کرنے کے لیے ہر ہتھکنڈہ استعمال کررہا ہے، کہا جارہا ہے یہ تہذیبی تصادم ہے، کوشش کی جارہی ہے کہ کسی طرح مسلم دنیا میں مغربی تہذیب و ثقافت کو فروغ دیا جائے، عالمی مالیاتی اداروں کی امداد کو بھی مغرب کی ثقافت کو قبول کرنے سے نتھی کردیا گیا ہے۔ سوشل انجینئرنگ کے ذریعے مسلم اقدار وروایات کو پامال کرنے کا کھیل جاری ہے، اس عمل کے نتیجے میں خاندانی اقدار کمزور ہورہی ہیں اور ہمارا خاندانی نظام ایک چیلنج سے دوچار ہوگیا ہے۔ طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح کی بنیادی وجہ معاشرے میں عدم برداشت کا بڑھتا ہو رجحان ہے، ذرا ذرا سی بات پر طیش میں آنا اور غصے کی حالت میں بڑے فیصلے کرنا عام بات ہوگئی ہے، ہماری سماجی قدریں غیر محسوس انداز میں بدل رہی ہیں، جس کے نتیجے میں زوجین میں ذہنی مطابقت کم ہورہی ہے، آزادانہ زندگی گزارنے کا تصور فروغ پا رہا ہے، نئی نسل بزرگوں کی روک ٹوک اور قدغنوں کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں، وہ خود انحصاری کی زندگی گزارنا چاہتے ہیں، اپنے فیصلے خود کرنے کے آرزو مند ہیں اور یہ روش تعلیمی اداروں اور ٹی وی ڈاراموں سے عام ہو رہی ہے، مشترکہ خاندانی نظام ایک نعمت ضرور ہے مگر یہ خاندان کے لیے ٹوٹ پھوٹ کا باعث نہیں ہونا چاہیے، طلاق کی وجوہات میں ایک اہم وجہ خواتین کی مالی اور اقتصادی خودمختاری بھی بتائی جارہی ہے، اعلیٰ تعلیم اور معاشی خودمختاری کی وجہ سے ناخوشگواری کو قبول کرنے کے بجائے طلاق کو ترجیح دی جارہی ہے۔ رہی سہی کسر ٹی وی ڈراموں اور موبائل نے پوری کردی ہے، کچے ذہن کے حامل نوجوان اس کا منفی استعمال کر رہے ہیں، موبائل نے حرام رشتوں کی قربتوں کو فروغ دیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مغرب کی تقلید سے بچا جائے، خاندان کی اہمیت کو سمجھا جائے، قرآن نے جو قانونی احکامات دیے ہیں ان کا دوتہائی حصہ خاندان سے جڑے مسائل کا احاطہ کرتا ہے۔ اسلام حقوق و فرائض کے مجموعے کا نام ہے، اسلام نے ایک مستحکم خاندان کی تشکیل کے لیے جو اصول مرتب کیے ہیں بدقسمتی سے انہیں فراموش کردیا گیا ہے، تعلقات میں بگاڑ کا آغاز ہی اس وقت ہوتا ہے جب فرد اپنے فرائض پورے نہیں کرتا یا حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی برتتا ہے، شادی سے قبل خطبہ نکاح میں بھی تقویٰ،حقوق و فرائض کی پاسداری اور زوجین کے درمیان محبت والفت پر زور دیا گیا ہے جو ایک مستحکم خاندان کی تشکیل کے لیے لازمی امر ہے۔ زوجین کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ شادی محض کسی جذبے کی تسکین کا نام نہیں، بلکہ یہ ایک ذمے داری بھی ہے، روز مرہ کی زندگی کے معاملات میں تلخیاں درآنا ایک فطری امر ہے، ان تلخیوں کو فراموش کرنا، تبادلہ خیال اور بات چیت کے ذریعے مسئلے کو حل کرنا ضروری ہے، زوجین اگر انا کی فصیل کھڑی کردیں گے تو اس سے فاصلے پیدا ہوں گے مزید رنجشیں جنم لیں گی جس کے نتیجے میں بات طلاق اور خلع تک پہنچے گی، اس لیے ضروری ہے کہ زوجین ایک دوسرے کے احساسات و جذبات، ضروریات اور باہمی عزت و احترام کو کسی طور نظر انداز نہ کریں، اس ضمن میں علماء و مشائخ بھی اپنا کردار ادا کریں اور اس رشتے کی حساسیت اور اہمیت سے معاشرے کو آگاہ کریں۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: میں طلاق کی شرح طلاق اور خلع کے نتیجے میں خاندان کی جارہی ہے دنیا میں ہوتی ہے کرنے کے خلع کے کے لیے گیا ہے
پڑھیں:
’شریف خاندان کے اقتدار میں ملکی سالمیت خطرے میں پڑ جاتی ہے‘، پی ٹی آئی رہنماؤں کی حکومت پرسخت تنقید
پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں نے حکومت پر سخت تنقید کی ہے جب کہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر عمر ایوب نے کہا ہے کہ شریف خاندان جب بھی اقتدار میں آتا ہے ملک کی سالمیت خطرے میں پڑ جاتی ہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہاں سیاستدان موجود ہیں، ہمیں قومی ہم آہنگی چاہیے، اپکا قومی لیڈر جیل میں پڑا ہوا ہے، ہماری قومی آہنگی آج نہیں رہی کیونکہ آپ نے ایک قومی لیڈر کو جیل میں ڈالا ہوا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ آپکے ملک کی اکانومی ختم ہو چکی ہے، شریف خاندان بھارت کے خلاف سخت ایکشن نہیں لے سکتا یہ اُن کے ساتھ کاروبار کرتے ہیں، سخت ایکشن صرف ایک شخص لے سکتا ہے اور وہ بانی پی ٹی آئی ہے۔
عمر ایوب خان نے کہا کہ شریف خاندان جب بھی اقتدار میں آتا ہے ملک کی سالمیت خطرے میں پڑ جاتی ہے، نواز شریف 1997 میں وزیراعظم اور میرے والد وزیرخارجہ تھے، بھارت کا Mig 25 اسلام آباد کے اوپر اُڑا اور دو دو سانک دھماکے کیے۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ میرے والد نے ایئرچیف کو کا فائٹر جیٹس دہلی کے اوپر سے اڑا سکتے ہیں تو انہوں نے وزیراعظم کی اجازت مانگی، نواز شریف کی اُس وقت کانپیں ٹانگ گئی تھیں، ایٹمی دھماکوں میں میرے والد سمیت پانچ لوگ تھے جنہوں نے کہا ایٹمی دھماکے ہوں گے، وزیراعظم نواز شریف صبح کلنٹن سے بات کر رہے تھے کہ وہ ڈیل چاہتے ہیں۔
عمر ایوب نے کہا کہ میرے والد نے کہا کہ نیوکلیئر ڈیوائسز سیل ہو چکی ہیں اب چاغی میں دھماکے ضرور ہونگے۔
عمران خان کی ہمشیرہ علیمہ خان نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں ہمیشہ بتایا گیا کہ ہندوستان سے اپنی حفاظت کرنی ہے، کل جو ایمرجنسی صورتحال پیدا ہوئی وزیراعظم اگر سنجیدہ ہو تو وہ اپوزیشن لیڈرز کو فون کرے، وزیراعظم اپیل کرے، آپ اڈیالہ جیل جائیں اور عمرآن خان سے فوری ملاقات کریں۔
ان کا کہنا تھا کہ بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کر کروا کر ایک Consensus بنایا جائے، اپوزیشن لیڈرز اس وقت ججوں کے سامنے بھٹک رہے ہوں اور جج صاحب کہتے ہیں 12 بجے آفس سے رپورٹ منگوا رہا ہوں۔
تحریک انصاف نے پانچ مطالبات رکھ دیے
بار اعوان نے کہا کہ مقدمات کے اذاد ٹرائل کئے جائیں، تمام سیاسی کارکنوں کی گرفتاریوں کو ختم کیا جاہے
میڈیا کو اذاد کیا جائے، پاکستان میں فوری طور پر نئے شفاف انتخابات کروائے جائیں۔
ان کا کہنا تھا کہ سارے قوم میں 80-75 فیصد عوام بانی پی ٹی آئی کے ساتھ ہے، حکومت انکھ کھولیں فاشزم کو ختم کرے، ترجیح بنیادوں پر پرانے مقدمات کو ختم کیا جائے، ماڈل ٹاون ون اور ٹو کا مقدمہ ابھی تک زہر التوا ہیں۔
بابر اعوان نے کہا کہ منختب عدالتوں سے منتخب مقدمات پر فیصلے کروائے جارہے ہیں، جلد فراہمی انصاف میں انصاف ختم ہوتا ہے
سپریم کورٹ کے باہر پریس کانفرنس کرتے ہوئے لطیف کھوسہ نے کہا کہ ریاست کے چاروں ستونوں کو برباد کر دیا گیا، ہمارا لیڈر عوام کے دلوں کی دھڑکن ہے، اب انکے ساتھ ملاقات کی اجازت نہیں دی جا رہی، وہاں پر عدالتوں احکامات پر ایک کرنل کے احکامات بھاری پڑ جاتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ عوام، ملک اور قانون و آئین کیلئے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں، یہ سب کسی کو بھی قبول نہیں ہے، سندھ کی آج عوام، کسان ، وکلا سب سڑک پر ہیں، آج بھارت کو جرات ہوئی ہے کہ یکطرفہ سندھ طاس معاہدہ ختم کر دیا، ہمارے اتاشی باہر نکال دیے، اتنی جرات پہلے قابل نہیں تھے۔
لطفیف کھوسہ نے کہا کہ اسی حکومت میں یہ سب ہوا، بانی پی ٹی آئی کو رہا کیا جائے، عوام صرف انکے ساتھ کھڑی ہے۔
لطیف کھوسہ نے کہا کہ 26 ترمیم جس انداز ڈھٹائی سے کی گئی سب کے سامنے ہیں، اختر منگل پارلیمنے میں اپنے سینیٹر کو تلاش کر رہے تھے، ہمارے ایم این ایز کو لالچ دی گئی، ہمارے ایم این ایز کو اٹھایا گیا۔
پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ یہ جھوٹ کا نظام یے کفر کا نظام ہوتا ہے، لوگوں پر گولیاں چلائیں گئیں
ہم نے پاکستان کا پانی دشمن سے چھینننا ہے، نینشل سیکورٹی کے تمام معاملات میں عمران خان کا شامل ہونا اہم ہے، بانی پی ٹی آئی جیل میں ہے۔
سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ اب خاموش رہنے کا وقت نہیں، ہم بہت جلد باہر نکلیں گے ہم معمالات کو افہام و تفہیم سے حل چاہتے ہیں۔
ترجمان عمران خان نیاز اللہ نیازی نے کہا کہ ملک کی بقا کیلئے بانی پی ٹی کا وجود لازم ہے اس حکومت کی کوئی پالیسی نہیں، سندھ بلوچستان کے حالات سامنے ہیں ، اج سلامتی کونسل کا اجلاس بغیر خان کے ہو رہا ہے
8 کو قوم نے بانی پی ٹی آئی کے ساتھ کھڑے ہونے کا فیصلہ دیا، آپ بانی پی ٹی آئی کو مائنس کرنا چاہتے ہیں نہیں کرسکتے، دس مرتبہ ہمیں بانی پی ٹی آئی سے ملاقات سے روکا گیا۔
پی ٹی آئی کے جنرل سیکریٹری سلمان اکرم راجا نے کہا کہ عمران خان کی خواہش ہے کہ قوم کے سامنے لاقانونیت کی صورتحال رکھی ہے، جواہش ہے کہ یہاں قبرستان کی خاموشی ہو، میرے ساتھ لطیف کھوسہ بابر اعوان نیاز اللہ نیازی علی بخاری موجود ہیں، 26 ترمیم کیساتھ جو رہا ہے وہ عوام کے سامنے رکھیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت کا آئین و قانون سے کوئی تعلق نہیں، اج قوم و ریاست کے بیچ کوئی رابطہ نہیں، مجھے جیل سے دومیل دور روکا جاتا ہے، توہین عدالت کی درخواست کو لگنے میں مہینہ لگ جاتا ہے۔
سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ انقلاب قومیں لاتی ہیںاگر مقتدر حلقوں نے ہوش کے ناخن نہ لئے بہت جلد فیصلہ کریں گے، اج ہر جگہ لوگ پانی لوٹے جانے کے خوف سے خوفزدہ ہیں، ضرورت ہے کہ ملک لے لیڈر کو رہا کیا جائے، عمران خان اور قوم کے بیچ آنے والے کو قوم معاف نہیں کرے گی، پاکستان کے عوام کی بات سنو۔