مالی سال 25 کی پہلی ششماہی میں غیر ملکی سرمائے میں 66 فیصد کمی
اشاعت کی تاریخ: 19th, February 2025 GMT
کراچی(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔19 فروری ۔2025 )مالی سال 25 کی پہلی ششماہی میں غیر ملکی سرمائے میں 66 فیصد کمی کے پیش نظر اقتصادی امور ڈویژن نے بیرونی قرضوں سے متعلق ماہانہ اعداد و شمار سات ماہ میں 38 فیصد کی جزوی بہتری آنے تک ایک ماہ سے زائد عرصے کے لیے روک دیے ہیں.
(جاری ہے)
رپورٹ کے مطابق ای اے ڈی نے قرض کے اعداد و شمار کے 2 الگ الگ سیٹ جاری کیے ہیں جن میں بتایا گیا ہے کہ رواں مالی سال کے پہلے 6 ماہ کے دوران غیر ملکی قرضوں کی آمد 3 ارب 60 کروڑ ڈالر رہی جو گزشتہ سال کے اسی عرصے کے 5 ارب 96 کروڑ 80 لاکھ ڈالر کے مقابلے میں تقریباً 66 فیصد کم ہے تاہم ایک غیر معمولی اقدام لیتے ہوئے گزشتہ ماہ اعداد و شمار جاری نہیں کیے گئے جو رواں مہینے کے تیسرے ہفتے میں ویب سائٹ پر اپ لوڈ کیے جاتے ہیں.
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے ڈالر کے مقابلے میں کروڑ ڈالر کی گزشتہ سال کے آئی ایم ایف کے 7 ماہ میں ششماہی میں اے ڈی نے ارب 58 کروڑ کی جانب سے لاکھ ڈالر ارب ڈالر مالی سال غیر ملکی ایک ارب عرصے کے کے لیے
پڑھیں:
ایک سال میں حکومتی قرضوں میں 10 ہزار ارب روپے کا اضافہ، مجموعی قرض 84 ہزار ارب سے تجاوز کر گیا
وزارتِ خزانہ کی تازہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ ایک سال کے دوران پاکستان کے مجموعی حکومتی قرضوں میں 10 ہزار ارب روپے کا اضافہ ہوا، جس کے بعد ملک کا مجموعی قرضہ 84 ہزار ارب روپے سے تجاوز کر گیا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مالی سال 2026ء سے 2028ء کے دوران قرضوں کا تناسب 70.8 فیصد سے کم ہو کر 60.8 فیصد تک آنے کا تخمینہ ہے، اور درمیانی مدت میں قرضوں کی پائیداری برقرار رہنے کی توقع ظاہر کی گئی ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق جون 2025ء تک پاکستان پر واجب الادا قرض 84 ہزار ارب روپے سے زیادہ ہو چکا ہے۔ وزارتِ خزانہ کا کہنا ہے کہ 2028ء تک فنانسنگ کی ضروریات 18.1 فیصد کی بلند سطح پر رہیں گی، تاہم گزشتہ مالی سال میں مارک اپ ادائیگیوں میں 888 ارب روپے کی بچت ریکارڈ کی گئی۔
رپورٹ میں قرضوں کے حوالے سے درپیش اہم خطرات اور چیلنجز کی نشاندہی بھی کی گئی ہے۔ وزارت کے مطابق معاشی سست روی قرضوں کی پائیداری کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے، جبکہ ایکسچینج ریٹ، سود کی شرح میں اتار چڑھاؤ، بیرونی جھٹکے اور موسمیاتی تبدیلیاں قرضوں کے بوجھ میں اضافہ کر سکتی ہیں۔
پاکستان کے مجموعی قرضوں میں 67.7 فیصد حصہ ملکی قرضوں کا ہے، جبکہ 32.3 فیصد بیرونی قرضے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق 80 فیصد قرضے فلوٹنگ ریٹ پر حاصل کیے گئے، جس سے شرحِ سود میں اضافے کا خطرہ برقرار ہے۔ مختصر مدت کے قرضوں کا حصہ 24 فیصد ہے، جس سے ری فنانسنگ کے دباؤ میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
وزارت خزانہ کا کہنا ہے کہ زیادہ تر بیرونی قرضے رعایتی نوعیت کے ہیں جو دوطرفہ یا کثیرالطرفہ اداروں سے حاصل کیے گئے، تاہم فلوٹنگ بیرونی قرضوں کا حصہ 41 فیصد ہونے کی وجہ سے درمیانی سطح کا خطرہ برقرار ہے۔ رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ اگر کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بڑھا یا زرمبادلہ ذخائر کم ہوئے تو مالی دباؤ بڑھ سکتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق، مالیاتی نظم و ضبط، معاشی استحکام، برآمدات کے فروغ اور آئی ٹی سیکٹر کی ترقی سے قرضوں کے دباؤ میں کمی لانے کی حکمتِ عملی اپنائی گئی ہے۔ وزارتِ خزانہ کے مطابق گزشتہ مالی سال میں وفاقی مالی خسارہ 6.8 فیصد ہدف کے مقابلے میں کم ہو کر 6.2 فیصد رہا، جبکہ وفاقی پرائمری بیلنس 1.6 فیصد سرپلس میں رہا — جو کہ مالی نظم میں بہتری کی علامت ہے۔
اقتصادی اعشاریوں میں بہتری کے آثار بھی ظاہر ہوئے ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ سال معاشی شرحِ نمو 2.6 فیصد سے بڑھ کر 3.0 فیصد تک پہنچ گئی، اور اگلے تین سال میں یہ شرح 5.7 فیصد تک پہنچنے کی توقع ہے۔ مہنگائی کی شرح بھی نمایاں طور پر گھٹ کر 23.4 فیصد سے 4.5 فیصد تک آ گئی ہے، اور 2028ء تک 6.5 فیصد پر مستحکم رہنے کا امکان ظاہر کیا گیا ہے۔
پالیسی ریٹ میں جون 2024ء سے اب تک 1100 بیسس پوائنٹس کی کمی، زرمبادلہ مارکیٹ میں استحکام، اور بیرونی ادائیگیوں کے دباؤ میں کمی جیسے عوامل نے مالیاتی فریم ورک کو سہارا دیا ہے۔ وزارتِ خزانہ کے مطابق، اگر یہی رجحان برقرار رہا تو درمیانی مدت میں کم از کم 1.0 فیصد پرائمری سرپلس برقرار رکھنے کی توقع ہے۔
مجموعی طور پر، رپورٹ اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ اگرچہ قرضوں کا بوجھ خطرناک حد تک بڑھ چکا ہے، تاہم مالی نظم، شرحِ سود میں نرمی، اور برآمدات کے فروغ سے پاکستان درمیانی مدت میں معاشی استحکام کی طرف بڑھ سکتا ہے۔